محسن حجازی
محفلین
حالات کس نہج پر جا رہے ہیں معلوم نہیں۔ ناسازی طبع کے باوجود کچھ سطریں گھسیٹ رہا ہوں۔
محترمہ بینظیر کی آمد کا اعلان ہو چکا ہے۔ جو کام پہلے ممکن نظر نہ آتا تھا اب ہونے جا رہا ہے۔ محترمہ کی سال بھر کی بیان بازی
بالاخر رنگ لے آئی ہے اور انہیں پس پردہ امریکی حمایت حاصل ہو گئی ہے۔ اس صورتحال کو پاکستان کے چند ذہین صحافیوں نے بروقت بھانپ لیا تھا جن میں طلعت حسین، ڈاکٹر شاہد مسعود اور حامد میر شامل ہیں۔ طلعت حسین کو اس صورتحال کا پہلے سے ہی اندازہ تھا اور یہ بات مجھے ان کی گفتگو میں بارہا محسوس ہوئی۔
حامد میر نے اپنے کالم میں نہایت صریح الفاظ میں چودھری شجاعت کو مشورہ دیا تھا کہ وہ بھی بش مخالف رحجانات رکھتے ہیں اور نواز شریف بھی۔ امریکہ دونوں کو اقتدار میں دیکھنے کا روادار نہیں ہے اور ہر صورت لبرل طاقتوں کو برسراقتدار دیکھنے کا خواہاں ہے سو اس لیے چودھری شجاعت کے لیے بہتر یہ ہے کہ وہ نوازشریف سے ہاتھ ملا کر "بش گیم پلان" ناکام بنا دیں۔
ڈاکٹر شاہد مسعود نے "میرے مطابق" کا ایک خصوصی پروگرام امریکہ جا کر ریکارڈ کیا تھا اور وہاں کے ایک تھنک ٹینک کی سربراہ کا انٹرویو کیا تھا۔ یہ تھنک ٹینک پاکستانی سیاست سے متعلق امور پر مہارت رکھتا تھا۔ مذکورہ سربراہ کی پاکستانی معاملات پر گرفت کا یہ عالم تھا کہ بیشتر انٹرویو اس نے اردو میں دیا اور اس انٹرویو میں گول مول یہی بات کی کہ مشرف کو سپورٹ کیا جائے گا اگرچہ صورتحال ان کے لیے خاصی مشکل ہے۔ اسی پروگرام کے دوسرے مہمان ایک سابق امریکی سفیر تھے اور ان صاحب کی اردو مذکورہ بالا خاتون سے بھی دو ہاتھ آگے تھی۔ انہوں نے تو صاف کہا کہ نواز شریف رجعت پسندانہ رحجانات کا حامل ہے اور امریکہ کو قبول نہیں اس کی بجائے بے نظیر بے حد مناسب امیدوار ہے۔
اب جو خاکہ دیکھنے کو ملے گا وہ یہ ہوگا کہ پی پی پی اور ایم کیو ایم جنرل مشرف کی قیادت میں راج کریں گی۔
پاکستانی عوام کی آخری امید عدلیہ پر تھی لیکن میں سمجھتا ہوں کہ عدالتوں سے زبردست کارکردگی کی توقع رکھنا فضول ہے کیوں کہ وہ بھی اسی گلے سڑے مردہ معاشرے کا حصہ ہیں۔ اس کے علاوہ میڈیا سے جس کردار کی توقع کی جا رہی ہے وہ شاید زیادہ عرصے تک نہ نبھا سکے۔ بات وہیں گھوم پھر کر آجاتی ہے کہ اصل سرچشمہ ہم جیسے عام لوگ یعنی عوام ہیں۔ اور عوام ابھی سیاسی شعور تو درکنار سماجی شعور سے بھی بے بہرہ ہیں۔ کم سے کم مجھے اگلے سو سال تک قبرستان کا سناٹا دکھائی دیتا ہے۔۔۔۔ کوئی تبدیلی کے آثار نہیں۔۔۔ وکیلوں کے قتل جاری ہیں۔۔۔ عدالتوں کے گھیراؤ دباؤ اور سازشوں کے انبار الگ۔۔۔ حالیہ مہنگائی کا شدید طوفان۔۔۔ (اگر آپ پاکستان میں رہتے ہیں تو اس طوفان سے بخوبی واقف ہوں گے۔۔۔)
جنرل علیہ رحمتہ نے درست فرمایا تھا۔۔۔۔ آخری مکا ہمارا ہی ہو گا۔۔۔۔
واقعی میں نے تو ذاتی سطح پر شکست تسلیم کر لی ہے۔۔۔۔
آپ کیا کہتے ہیں؟
محترمہ بینظیر کی آمد کا اعلان ہو چکا ہے۔ جو کام پہلے ممکن نظر نہ آتا تھا اب ہونے جا رہا ہے۔ محترمہ کی سال بھر کی بیان بازی
بالاخر رنگ لے آئی ہے اور انہیں پس پردہ امریکی حمایت حاصل ہو گئی ہے۔ اس صورتحال کو پاکستان کے چند ذہین صحافیوں نے بروقت بھانپ لیا تھا جن میں طلعت حسین، ڈاکٹر شاہد مسعود اور حامد میر شامل ہیں۔ طلعت حسین کو اس صورتحال کا پہلے سے ہی اندازہ تھا اور یہ بات مجھے ان کی گفتگو میں بارہا محسوس ہوئی۔
حامد میر نے اپنے کالم میں نہایت صریح الفاظ میں چودھری شجاعت کو مشورہ دیا تھا کہ وہ بھی بش مخالف رحجانات رکھتے ہیں اور نواز شریف بھی۔ امریکہ دونوں کو اقتدار میں دیکھنے کا روادار نہیں ہے اور ہر صورت لبرل طاقتوں کو برسراقتدار دیکھنے کا خواہاں ہے سو اس لیے چودھری شجاعت کے لیے بہتر یہ ہے کہ وہ نوازشریف سے ہاتھ ملا کر "بش گیم پلان" ناکام بنا دیں۔
ڈاکٹر شاہد مسعود نے "میرے مطابق" کا ایک خصوصی پروگرام امریکہ جا کر ریکارڈ کیا تھا اور وہاں کے ایک تھنک ٹینک کی سربراہ کا انٹرویو کیا تھا۔ یہ تھنک ٹینک پاکستانی سیاست سے متعلق امور پر مہارت رکھتا تھا۔ مذکورہ سربراہ کی پاکستانی معاملات پر گرفت کا یہ عالم تھا کہ بیشتر انٹرویو اس نے اردو میں دیا اور اس انٹرویو میں گول مول یہی بات کی کہ مشرف کو سپورٹ کیا جائے گا اگرچہ صورتحال ان کے لیے خاصی مشکل ہے۔ اسی پروگرام کے دوسرے مہمان ایک سابق امریکی سفیر تھے اور ان صاحب کی اردو مذکورہ بالا خاتون سے بھی دو ہاتھ آگے تھی۔ انہوں نے تو صاف کہا کہ نواز شریف رجعت پسندانہ رحجانات کا حامل ہے اور امریکہ کو قبول نہیں اس کی بجائے بے نظیر بے حد مناسب امیدوار ہے۔
اب جو خاکہ دیکھنے کو ملے گا وہ یہ ہوگا کہ پی پی پی اور ایم کیو ایم جنرل مشرف کی قیادت میں راج کریں گی۔
پاکستانی عوام کی آخری امید عدلیہ پر تھی لیکن میں سمجھتا ہوں کہ عدالتوں سے زبردست کارکردگی کی توقع رکھنا فضول ہے کیوں کہ وہ بھی اسی گلے سڑے مردہ معاشرے کا حصہ ہیں۔ اس کے علاوہ میڈیا سے جس کردار کی توقع کی جا رہی ہے وہ شاید زیادہ عرصے تک نہ نبھا سکے۔ بات وہیں گھوم پھر کر آجاتی ہے کہ اصل سرچشمہ ہم جیسے عام لوگ یعنی عوام ہیں۔ اور عوام ابھی سیاسی شعور تو درکنار سماجی شعور سے بھی بے بہرہ ہیں۔ کم سے کم مجھے اگلے سو سال تک قبرستان کا سناٹا دکھائی دیتا ہے۔۔۔۔ کوئی تبدیلی کے آثار نہیں۔۔۔ وکیلوں کے قتل جاری ہیں۔۔۔ عدالتوں کے گھیراؤ دباؤ اور سازشوں کے انبار الگ۔۔۔ حالیہ مہنگائی کا شدید طوفان۔۔۔ (اگر آپ پاکستان میں رہتے ہیں تو اس طوفان سے بخوبی واقف ہوں گے۔۔۔)
جنرل علیہ رحمتہ نے درست فرمایا تھا۔۔۔۔ آخری مکا ہمارا ہی ہو گا۔۔۔۔
واقعی میں نے تو ذاتی سطح پر شکست تسلیم کر لی ہے۔۔۔۔
آپ کیا کہتے ہیں؟