زبیر مرزا
محفلین
شاپنگ مال میں پرفیوم ، جوتے اوردیگراشیاء سیل پرہونے کے باعث رعایتی قیمت میں لگی تھیں تو
میں نے بھی بناء ضرورت کافی کچھ خرید ڈالا - واپس آتے ہوئے سوپرمارکیٹ سے کچھ گروسری لی
اورنج جوس کی گیلن سیل پرکافی سستی لگی تھی تو میں نے دیگراشیاء کے ساتھ وہ بھی لے لی
خوش مزاج لڑکی نے کاؤنٹرپرمسکراکر ہیلو کہا اور مشینی رجسٹرپراشیاء کی قیمت لگائی اور
ٹوٹل بتایا- ہنسی خوشی قیمت ادا کرکے گھرپہنچنے پرلائیٹ بلب آن کیا فرج میں اشیاء خوردنی اور
مشروبات رکھے اور ایک گلاس جوس لے کر ٹی وی کے سامنے آبیٹھا - سماء ٹی وی پر مہنگائی
کے بارے میں پروگرام آرہا تھا- اس میں اشیاء ضرروت کی بے مہارقیمتوں کا رونا روتے ایک
ایک صاحب نظرآئے جو کافی ٹھیک ٹھاک اور پڑھے لکھے نظرآرہے تھے ان کی باتیں اور
مہنگائی کی شکایات سن کر بہت غصہ آیا- یہ لوگ ناشکرے ہیں ہروقت پاکستان کو بُرابھلا اور
حکومت کو کوستے رہتے ہیں میرے جذبہء حب الوطنی کو شدید ٹھیس پہنچی - کب یہ لوگ اس ملک کی قدر کریں گے -
جوس کے ساتھ کچھ بھُنے ہوئے پستے اوربادام بھی کھانے کا دل چاہا اور کچن کا رُخ کیا
روسٹڈ نیٹس کا ڈبہ لے کرپھرٹی وی کے سامنے آبیٹھا اور جوس کے ساتھ اس کے ذائقے سے
لُطف اندوز ہوتے ہوئے ان بے قدرے لوگوں کی باتیں سننے لگا- ساٹھ روپے کلو جو سبزی تھی
پچھلے ماہ وہ اب سوروپے میں مل رہی ہے ایک محترمہ فرمارہیں تھیں - ان کی بات پر دل بہت کُڑھا حد یہ ایک سبزی کے لیے رویا جارہا ہے ارے مت پکائیں یہ سبزی کچھ اور بنالیں -
سخت افسوس ہورہا تھا ان لوگوں کی تنقید اورشکایات سن کر-
سیل فون اُٹھایا اورContact list میں پہلا نام نظرآیا اپنے دوست عارف کا جو کراچی میں
مقیم ہے اور اپنے تین بچوں ، بیگم اوروالدین کے ساتھ بیت المکرم مسجد کے قریب رہائش پذیرہے
فون پرعارف سے رسمی دعا سلام کے بعد میں نے دل کی بھڑاس نکالی یار یہ لوگ ہر وقت مہنگائی اورملک کی شکایات کیوں کرتے رہتے ہیں میں طیش میں آتے ہوئے کہا- عارف کچھ دیر
میری حُب الوطنی سے بھرپورباتیں سنتا رہا اور غالباَ میرے اس جذبے کو دل میں سراہ رہاتھا
میرے طویل لیکچر کے ختم ہونے پر وہ گویا ہوا
"زی اس وقت رات کے گیارہ بجے ہیں لائیٹ نہیں ہے میرے دوسالہ بیٹے کی طبعیت خراب ہے
جو دوائی ڈاکٹر نے بتائی تھی وہ کافی تلاش کرنے پر ملی تو اس کی قیمت بہت زیادہ بتائی کیمسٹ نے لیکن میں کچھ نہیں کرسکتا تھا کیونکہ ڈبے پرقیمت درج تھی- گرمی اورحبس ہے بجلی غائب ہے- میرے بوڑھے والدین سمیت چھوٹے چھوٹے بچے گرمی سے بے چین ہیں اور اس پر بیرون ملک میں بیٹھ کرتم مجھے مثبت سوچ اورحُب الوطنی کے ترانے سنارہے ہوتم سنا سکتے ہو کیونکہ
تم ان مسائل سے دوچارنہیں اتنا درد ہے وطن کا تو باہربیٹھ کرٹکے ٹکے کی باتیں مت بناؤ یہاں
آکے ان مسائل کا سامنا کروپھرمیں دیکھتا ہوں کیسے مثبت اورتعمیری باتیں کرتے ہو اور اگرکروگےتو میں تمھارے ساتھ ہوں گا-
عارف تم بھول رہے ہوکے میں پاکستان میں پلا بڑھا ہو اوراب بھی آتا رہتا ہوں میں ان حالات سے
بےخبرنہیں - میں نے جواب دیا-
"ٹورئیسٹ کی طرح آکے نہاری کھانے، شاپنگ کرنے وہ بھی ڈالرکنورٹ کراکے ان سے تمھیں
ایک ماہ میں حالات کا خاک اندازہ ہوتا ہے- میاں صاحب اس مہنگائی ، بدامنی کی چکی میں
دن رات پسوتو ہوش ٹھکانے آجائیں - ذرا روزانہ ان بے شمار مسائل کا سامنا کروجو کم ہونے کی بجائے بڑھتے جارہیں تو ہم دیکھیں کیسے کرتے ہو ایسی باتیں- تمھیں ہمارے درد اور مسائل کا
کچھ پتا نہیں بیرون ملک بیٹھ کر ہمیں حُب الوطنی کے سبق مت سکھاو - ہم حُب الوطن ہیں اس
ملک کے مسائل کے ساتھ زندگی گذارتے جو کچھ آنسواورآہیں نکل آئیں تو تمھیں یہ بھی گوارا نہیں
بھائی صاحب جس طرح ہم جی رہے ہیں ہمارے حوصلے ہیں ان پرنکتہ چینی کا تم حق نہیں رکھتے
اس بدامنی ، مہنگائی اور بے یقینی کی صورتحال میں ہم رہ رہے ہیں اور رہیں گے روئیں گے بھی
اپنی مشکلات پر اوراس ملک کا ساتھ اس آزمائش کے دورمیں نہیں چھوڑیں گے اس کی معیشت
کا پہیہ چلائیں گے-مجھے عارف کی آواز میں آنسوؤں کی نمی محسوس ہوئی-
مجھ سے مزید نہیں سناگیا اورمیں نے فون بند کردیا- کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا ایک متوسط گھرانے
سے تعلق رکھنے والے اپنے دوست کی باتوں کا کیا جواب دوں سوائے اس اعتراف کے
"ہاں تم ہو صبراورحوصلے والے اور پاکستان کے خیرخواہ جو اس مشکل وقت میں مسائل کے
ساتھ جی رہے ہو ،ہمت والے جو گرمی میں لوڈ شیڈنگ سے بے چین اپنے پیاروں سمیت راتیں
جاگ کرگذارتے ہو اور صبح اپنے معصوم بچوں کو موٹرسائکل پراسکول چھوڑ کر دفترجاتے
ہوئے سی این جی کے لیے لگی لمبی قطارمیں جاکھڑے ہوتے ہو"
پاکستانی مجھے تمھاری نم اورشب بیداری سے سرخ آنکھیں شرمسارکررہیں اورتمھیں سلام کرنے پرمائل کہ تم ہو اصل محب وطن
میں نے بھی بناء ضرورت کافی کچھ خرید ڈالا - واپس آتے ہوئے سوپرمارکیٹ سے کچھ گروسری لی
اورنج جوس کی گیلن سیل پرکافی سستی لگی تھی تو میں نے دیگراشیاء کے ساتھ وہ بھی لے لی
خوش مزاج لڑکی نے کاؤنٹرپرمسکراکر ہیلو کہا اور مشینی رجسٹرپراشیاء کی قیمت لگائی اور
ٹوٹل بتایا- ہنسی خوشی قیمت ادا کرکے گھرپہنچنے پرلائیٹ بلب آن کیا فرج میں اشیاء خوردنی اور
مشروبات رکھے اور ایک گلاس جوس لے کر ٹی وی کے سامنے آبیٹھا - سماء ٹی وی پر مہنگائی
کے بارے میں پروگرام آرہا تھا- اس میں اشیاء ضرروت کی بے مہارقیمتوں کا رونا روتے ایک
ایک صاحب نظرآئے جو کافی ٹھیک ٹھاک اور پڑھے لکھے نظرآرہے تھے ان کی باتیں اور
مہنگائی کی شکایات سن کر بہت غصہ آیا- یہ لوگ ناشکرے ہیں ہروقت پاکستان کو بُرابھلا اور
حکومت کو کوستے رہتے ہیں میرے جذبہء حب الوطنی کو شدید ٹھیس پہنچی - کب یہ لوگ اس ملک کی قدر کریں گے -
جوس کے ساتھ کچھ بھُنے ہوئے پستے اوربادام بھی کھانے کا دل چاہا اور کچن کا رُخ کیا
روسٹڈ نیٹس کا ڈبہ لے کرپھرٹی وی کے سامنے آبیٹھا اور جوس کے ساتھ اس کے ذائقے سے
لُطف اندوز ہوتے ہوئے ان بے قدرے لوگوں کی باتیں سننے لگا- ساٹھ روپے کلو جو سبزی تھی
پچھلے ماہ وہ اب سوروپے میں مل رہی ہے ایک محترمہ فرمارہیں تھیں - ان کی بات پر دل بہت کُڑھا حد یہ ایک سبزی کے لیے رویا جارہا ہے ارے مت پکائیں یہ سبزی کچھ اور بنالیں -
سخت افسوس ہورہا تھا ان لوگوں کی تنقید اورشکایات سن کر-
سیل فون اُٹھایا اورContact list میں پہلا نام نظرآیا اپنے دوست عارف کا جو کراچی میں
مقیم ہے اور اپنے تین بچوں ، بیگم اوروالدین کے ساتھ بیت المکرم مسجد کے قریب رہائش پذیرہے
فون پرعارف سے رسمی دعا سلام کے بعد میں نے دل کی بھڑاس نکالی یار یہ لوگ ہر وقت مہنگائی اورملک کی شکایات کیوں کرتے رہتے ہیں میں طیش میں آتے ہوئے کہا- عارف کچھ دیر
میری حُب الوطنی سے بھرپورباتیں سنتا رہا اور غالباَ میرے اس جذبے کو دل میں سراہ رہاتھا
میرے طویل لیکچر کے ختم ہونے پر وہ گویا ہوا
"زی اس وقت رات کے گیارہ بجے ہیں لائیٹ نہیں ہے میرے دوسالہ بیٹے کی طبعیت خراب ہے
جو دوائی ڈاکٹر نے بتائی تھی وہ کافی تلاش کرنے پر ملی تو اس کی قیمت بہت زیادہ بتائی کیمسٹ نے لیکن میں کچھ نہیں کرسکتا تھا کیونکہ ڈبے پرقیمت درج تھی- گرمی اورحبس ہے بجلی غائب ہے- میرے بوڑھے والدین سمیت چھوٹے چھوٹے بچے گرمی سے بے چین ہیں اور اس پر بیرون ملک میں بیٹھ کرتم مجھے مثبت سوچ اورحُب الوطنی کے ترانے سنارہے ہوتم سنا سکتے ہو کیونکہ
تم ان مسائل سے دوچارنہیں اتنا درد ہے وطن کا تو باہربیٹھ کرٹکے ٹکے کی باتیں مت بناؤ یہاں
آکے ان مسائل کا سامنا کروپھرمیں دیکھتا ہوں کیسے مثبت اورتعمیری باتیں کرتے ہو اور اگرکروگےتو میں تمھارے ساتھ ہوں گا-
عارف تم بھول رہے ہوکے میں پاکستان میں پلا بڑھا ہو اوراب بھی آتا رہتا ہوں میں ان حالات سے
بےخبرنہیں - میں نے جواب دیا-
"ٹورئیسٹ کی طرح آکے نہاری کھانے، شاپنگ کرنے وہ بھی ڈالرکنورٹ کراکے ان سے تمھیں
ایک ماہ میں حالات کا خاک اندازہ ہوتا ہے- میاں صاحب اس مہنگائی ، بدامنی کی چکی میں
دن رات پسوتو ہوش ٹھکانے آجائیں - ذرا روزانہ ان بے شمار مسائل کا سامنا کروجو کم ہونے کی بجائے بڑھتے جارہیں تو ہم دیکھیں کیسے کرتے ہو ایسی باتیں- تمھیں ہمارے درد اور مسائل کا
کچھ پتا نہیں بیرون ملک بیٹھ کر ہمیں حُب الوطنی کے سبق مت سکھاو - ہم حُب الوطن ہیں اس
ملک کے مسائل کے ساتھ زندگی گذارتے جو کچھ آنسواورآہیں نکل آئیں تو تمھیں یہ بھی گوارا نہیں
بھائی صاحب جس طرح ہم جی رہے ہیں ہمارے حوصلے ہیں ان پرنکتہ چینی کا تم حق نہیں رکھتے
اس بدامنی ، مہنگائی اور بے یقینی کی صورتحال میں ہم رہ رہے ہیں اور رہیں گے روئیں گے بھی
اپنی مشکلات پر اوراس ملک کا ساتھ اس آزمائش کے دورمیں نہیں چھوڑیں گے اس کی معیشت
کا پہیہ چلائیں گے-مجھے عارف کی آواز میں آنسوؤں کی نمی محسوس ہوئی-
مجھ سے مزید نہیں سناگیا اورمیں نے فون بند کردیا- کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا ایک متوسط گھرانے
سے تعلق رکھنے والے اپنے دوست کی باتوں کا کیا جواب دوں سوائے اس اعتراف کے
"ہاں تم ہو صبراورحوصلے والے اور پاکستان کے خیرخواہ جو اس مشکل وقت میں مسائل کے
ساتھ جی رہے ہو ،ہمت والے جو گرمی میں لوڈ شیڈنگ سے بے چین اپنے پیاروں سمیت راتیں
جاگ کرگذارتے ہو اور صبح اپنے معصوم بچوں کو موٹرسائکل پراسکول چھوڑ کر دفترجاتے
ہوئے سی این جی کے لیے لگی لمبی قطارمیں جاکھڑے ہوتے ہو"
پاکستانی مجھے تمھاری نم اورشب بیداری سے سرخ آنکھیں شرمسارکررہیں اورتمھیں سلام کرنے پرمائل کہ تم ہو اصل محب وطن