جون ایلیا اعتماد - جون ایلیا

حسان خان

لائبریرین
میں کوئی اور رائے رکھتا ہوں اور تم کوئی اور رائے رکھتے ہو۔ میں کسی اور جماعت کے ساتھ ہوں اور تم کسی اور جماعت کے ساتھ ہو۔ یہ کوئی ایسی بات نہیں ہے جسے کبھی برا سمجھا گیا ہو یا برا سمجھا جانا چاہیے، یہ تو سچ کو تلاش کرنے کا ایک طور ہے، میں سچ کود ائیں طرف تلاش کرتا ہوں اور تم سچ کو بائیں طرف تلاش کرتے ہو، پر یہاں کا جو طور ہے، جو طور رہا ہے، وہ عجب کچھ ہے۔

یہاں ایک دوسرے سے جدا رائے رکھنے کا مطلب ہے ایک دوسرے کا دشمن ہونا۔ ایک دوسرے پر کسی بھی معاملے میں اعتماد نہ کرنا۔ کیا عقل و ہوش کی سلامتی اور سیاست کے یہی معنی ہیں۔ ایک جماعت کسی بھی معاملے میں دوسری جماعت پر اعتماد کرنے کے لیے تیار نہیں ہے۔ دونوں ایک دوسرے کو ملک کا دشمن اور قوم کا غدار خیال کرتے ہیں۔ ان دو لفظوں کے سوا اپنے حریف کے لیے ہمارے پاس اور کوئی لفظ نہیں ہے۔

بات یہ ہے کہ ہم میں سے ہر گروہ یہ گمان رکھتا ہے کہ اس کائنات کی ساری سچائیاں اور اچھائیاں اس کی جیبوں میں جمع ہو گئی ہیں۔ وہ اس زمین کا سب سے منتخب، محبوب اور برگزیدہ گروہ ہے۔ اور تاریخ نے آج تک جو سفر طے کیا ہے، اس کی غرض اور غایت ہی یہ تھی کہ اس منتخب، محبوب اور برگزیدہ گروہ کو اس دور کے حوالے کر سکے اور بس۔

تم کون ہو اور ہم کون ہیں؟ اور ہمارے گمان، ہمارے خیال اور ہماری رائے کی بھلا حقیقت ہی کیا ہے۔ تمہارے ذہن کے کشکول میں آخر وہ کون سی دلیل اور وہ کون سی حجت ہے جس کے توڑ کے لیے ہمارے ذہن کے کشکول میں کوئی دلیل اور کوئی حجت موجود نہ ہو اور ہمارے ذہن کے کشکول میں آخر وہ کون سی دلیل اور وہ کون سی حجت ہے جس کے توڑ کے لیے تمہارے ذہن کے کشکول میں کوئی دلیل اور کوئی حجت موجود نہ ہو۔

کیا ہمارے باطن سے یا تمہارے باطن سے الہام کا کوئی رشتہ پایا جاتا ہے؟ ہم میں سے آخر وہ کون ہے جو یہ دعویٰ کر سکے کہ ہم نے جب بھی سانس لیا تو سچ میں سانس لیا۔ ہم نے جب بھی سوچا تو سچ میں سوچا۔ سچ کےساتھ سوچا، سچ کے لیے سوچا اور اول سے آخر تک سچ ہی سوچا؟

سوچو اور سوچنے کی نیک عادت ڈالو کہ دوسرے جو کچھ سوچ رہے ہیں، وہ بھی سچ ہو سکتا ہے، نہ تم آسمان سے اترے ہو اور نہ تمہارے حریف۔ تمہیں وجود میں لانے کے لیے زمین اور آسمان نے اتنی ہی مشقت اٹھائی ہے جتنی مشقت، تمہارے حریفوں کو وجود میں لانے کے لیے اٹھائی ہے۔

ایسا کیوں ہے کہ تم کسی بھی رائے اور کسی بھی خیال کے بارے میں اپنے سوا کسی دوسرے پر اعتماد کرنے کی کوئی بھی اہلیت نہیں رکھتے؟ ایسا کیوں ہے کہ سچ اور سچائی کو تم نے بس اپنی ہی دستاویز کا ایک گوشوارہ سمجھ رکھا ہے؟ اور میرا یہی سوال تمہارے حریف سے بھی ہے۔

ایک ہی حق تو ہے جو تم بھی مانگتے ہو اور تمہارا حریف بھی مانگتا ہے۔ اور وہ حق ہے رائے رکھنے اور اسے ظاہر کرنے کا۔ تم وہ رائے رکھو جو تمہیں درست معلوم ہوتی ہو اور دوسروں کو وہ رائے رکھنے کی آسانی فراہم کرو جو انہیں درست معلوم ہوتی ہو۔

اور تم دونوں اس معاملے میں ایک دوسرے پر اعتماد کرو کہ جو کچھ دوسرا کہہ رہا ہے وہ اس کی رائے ہے، ریاکاری نہیں اور جو کچھ تم کہہ رہے ہو وہ تمہاری رائے ہے رُوبا نہیں۔

اگر یہ اعتماد باقی نہ رکھا گیا اور اس بارے میں بھی بے اعتمادی کو کام میں لایا گیا تو بولو اور بتاؤ کہ پھر اس بات کا فیصلہ روئے زمین پر آخر کون کرے گا کہ جو تمہارا خیال ہے، وہ تو خیال ہے اور جو دوسرے کا خیال ہے وہ نیت کی خرابی اور خلل ہے۔ ایک دوسرے کے بارے میں اعتماد کو کام میں لاؤ اور پھر اپنے اپنے دعوے اور اپنی اپنی دلیلوں کی بساط بچھاؤ۔

بحث ہونا چاہیے اور جاری رہنا چاہیے۔ شکوہ کس بات کا ہے؟ شکوہ ہی اس بات کا ہے کہ یہاں بحث نہیں ہوتی۔ ہم لوگ ابھی تک بحث کے خوگر نہیں ہوئے ہیں۔ ہم تو بدگوئی اور بدبحثی کی عادت میں مبتلا ہیں۔

بحث، ذہن کی دانش مندانہ اور دانش جویانہ حالت کا نتیجہ ہوتی ہے۔ اور ہم ذہن کی دانش مندانہ اور دانش جویانہ حالت سے محروم ہیں، ہم جب تک ذہن کی اس حالت سے محروم رہیں گے، اس وقت تک ہمارے اور سچائی کی خواہش کے درمیان کوئی رشتہ قائم نہیں ہو سکتا۔

آؤ ایک دوسرے پر اعتماد کر کے اپنے اور سچائی کی خواہش کے درمیان وہ رشتہ قائم کریں جو شائستگی کی پہچان ہے اور بحث شروع کریں، وہ بحث جو سچائی تک پہنچاتی ہے۔

(سسپنس ڈائجسٹ، دسمبر ۱۹۸۹)
 

صائمہ شاہ

محفلین
بہت عمدہ تحریر اور یہی اختلاف مجھے بھی ہے کہ کسی بھی بحث میں اختلاف ِ راے کو ذاتی حملہ کیوں سمجھا جاتا ہے کیوں ہم فراخدلی سے کسی اور کے نظریے کو سننے کے بھی قابل نہیں ہیں ؟ کیوں نہیں ہے ہم میں وہ برداشت جو دوسروں کو اظہارِ راے کا حق دے سکے ؟
 
Top