اعجازحسین حضروی کاامنفرد اندازگائیکی

زبیر مرزا

محفلین
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
اعجاز حسین حضروی کے نام سے بیشتر احباب ناواقف ہوں گے کہ اس قدرشہرت وناموری ان کے حصے میں نہیں آئی لیکن منفرد آواز اور
ان کی گائیکی متاثرکُن ہے
نہ حریف جاں نہ شریک غم شب انتظار کوئی تو ہو
کسے بزم شوق میں لائیں ہم دل بے قرار کوئی تو ہو

کسے زندگی ہے عزیز اب، کسے آرزوئے شب طرب
مگر اے نگار وفا طلب ترا اعتبار کوئی تو ہو

کہیں تار دامن گل ملے تو یہ مان لیں کہ چمن کھلے
کہ نشان فصل بہار کا سر شاخسار کوئی تو ہو

یہ اداس اداس سے بام و در یہ اجاڑ اجاڑ سی رہگزر
چلو ہم نہیں نہ سہی مگر سر کوئے یار کوئی تو ہو

یہ سکون جاں کی گھڑی ڈھلے تو چراغ دل ہی نہ بجھ چلے
وہ بلا سے ہو غم عشق یا غم روزگار کوئی تو ہو

سر مقتل شب آرزو رہے کچھ تو عشق کی آبرو
جو نہیں عدد تو فراز تو کہ نصیب دار کوئی تو ہو
شاعر: احمد فراز
 

زبیر مرزا

محفلین
اب تک مجھے نہ کوئی
اب تک مجھے نہ کوئی میرا راز داں ملا
جو بھی ملا اسیر زمان و مکاں ملا
کیا جانے کیا سمجھ کے ہمیشہ کیا گریز
سو بار بجلیوں کو میرا آشیاں ملا
اکتا گیا ہوں جادہ نوکی تلاش میں
ہر راہ میں کوئی نہ کوئی کارواں ملا
ان حوصلوں کے کتنے دیے بجھ کے رہ گئے
ہے سوز عاشقی تو بہت ہی گراں ملا
تھا ایک راز دار محبّت سے لطف زیست
لیکن وہ راز دار محبّت کہاں ملا
 

زبیر مرزا

محفلین
خاموش ہو کیوں دادِ جفا کیوں نہیں دیتے
بسمل ہو تو قاتل کو دعا کیوں نہیں دیتے
وحشت کا سبب روزنِ زنداں تو نہیں ہے
مہر و مہ و انجم کو بجھا کیوں نہیں دیتے
اک یہ بھی تو اندازِ علاجِ غمِ جاں ہے
اے چارہ گرو، درد بڑھا کیوں نہیں دیتے
منصف ہو اگر تم تو کب انصاف کرو گے
مجرم ہیں اگر ہم تو سزا کیوں نہیں دیتے
رہزن ہو تو حاضر ہے متاعِ دل و جاں بھی
رہبر ہو تو منزل کا پتا کیوں نہیں دیتے
کیا بیت گئی اب کے فراز اہلِ چمن پر
یارانِ قفس مجھ کو صدا کیوں نہیں دیتے
شاعر: احمد فراز
 

زبیر مرزا

محفلین
تیرے خیال سے لو دے اُٹھی ہے تنہائی
شبِ فراق ہے یا تیری جلوہ آرائی
تُو کس خیال میں ہے منزلوں کے شیدائی
انہیں بھی دیکھ جنہیں راستے میں نیند آئی
پکار اے جرسِ کاروانِ صبح طرب
بھٹک رہے ہیں اندھیروں میں تیرے سودائی
ٹھہر گئے ہیں سرِراہ خاک اڑانے کو
مسافروں کو نہ چھیڑ اے ہوائے صحرائی
رہِ حیات میں کچھ مرحلے تو دیکھ لیے
یہ اور بات تری آرزو نہ راس آئی
یہ سانحہ بھی محبت میں بارہا گزرا
کہ اس نے حال بھی پوچھا تو آنکھ بھر آئی
دل افسردہ میں پھر دھڑکنوں کا شور اٹھا
یہ بیٹھے بیٹھے مجھے کن دنوں کی یاد آئی
کھلی جو آنکھ تو کچھ اور ہی سماں دیکھا
وہ لوگ تھے نہ وہ جلسے نہ شہر رعنائی
پھر اس کی یاد میں دل بے قرار ہے ناصر
بچھڑ کے جس سے ہوئی شہر شہر رسوائی
شاعر ناصر کاظمی
 
نہ حریف جاں نہ شریک غم شب انتظار کوئی تو ہو
کسے بزم شوق میں لائیں ہم دل بے قرار کوئی تو ہو

کسے زندگی ہے عزیز اب، کسے آرزوئے شب طرب
مگر اے نگار وفا طلب ترا اعتبار کوئی تو ہو

بهت هي اعلى زبردست
 
تیرے خیال سے لو دے اُٹھی ہے تنہائی
شبِ فراق ہے یا تیری جلوہ آرائی
تُو کس خیال میں ہے منزلوں کے شیدائی
انہیں بھی دیکھ جنہیں راستے میں نیند آئی
پکار اے جرسِ کاروانِ صبح طرب
بھٹک رہے ہیں اندھیروں میں تیرے سودائی
ٹھہر گئے ہیں سرِراہ خاک اڑانے کو
مسافروں کو نہ چھیڑ اے ہوائے صحرائی
رہِ حیات میں کچھ مرحلے تو دیکھ لیے
یہ اور بات تری آرزو نہ راس آئی
یہ سانحہ بھی محبت میں بارہا گزرا
کہ اس نے حال بھی پوچھا تو آنکھ بھر آئی
دل افسردہ میں پھر دھڑکنوں کا شور اٹھا
یہ بیٹھے بیٹھے مجھے کن دنوں کی یاد آئی
کھلی جو آنکھ تو کچھ اور ہی سماں دیکھا
وہ لوگ تھے نہ وہ جلسے نہ شہر رعنائی
پھر اس کی یاد میں دل بے قرار ہے ناصر
بچھڑ کے جس سے ہوئی شہر شہر رسوائی
شاعر ناصر کاظمی
پسندیدہ ترین۔۔۔
اعجاز حسین حضروی کی گائی ہوئی غالب کی غزل 'عشق مجھ کو نہیں وحشت ہی سہی' اور مومن کی غزل 'جب سے بلبل تونے دو تنکے لئے' بھی سننے کے قابل ہیں :)
 

تلمیذ

لائبریرین
مرزا صاحب۔ کہاں سے ڈھونڈھ لائے آپ یہ بے مثال مجموعہ؟ آج کل کی بے ہنگم موسیقی کے شور و غل میں کون سنتا ہے ان انمولوں ہیرو ں کوؕ جناب؟ ایک وقت تھا جب ریڈیو (اور بع دمیں) ٹی وی پر ان کا بہت شہرہ تھا۔
مقدور ہو تو خاک سے پوچھوں کہ اےلئیم
تونے وہ گنج ہائے گراں مایہ کیا کئے؟

(اعجاز حضروی کی گائی ہوئی ہوئی مشہور غزل 'اب کےہم بچھڑے تو شاید کبھی خوابوں میں ملیں' بھی پوسٹ کریں)
 

زبیر مرزا

محفلین

اب کے ہم بچھڑے تو شاید کبھی خوابوں میں ملیں
جس طرح سوکھے ہوئے پھول کتابوں میں ملیں
ڈھونڈ اجڑے ہوئے لوگوں میں وفا کے موتی
یہ خزانے تجھے ممکن ہے خرابوں میں ملیں
غمِ دنیا بھی غمِ ےار میں شامل کر لو
نشّہ بڑھتا ہے شرابیں جب شرابوں میں ملیں
تُو خدا ہے نہ مرا عشق فرشتوں جیسا!
دونوں انساں ہیں تو کیوں اتنے حجابوں میں ملیں
آج ہم دار پہ ہم کھینچے گئے جن باتوں پر
کیا عجب کل وہ زمانے کو نصابوں میں ملیں
اب نہ وہ میں نہ وہ تو ہے نہ وہ ماضی ہے فراز
جیسے دو سائےتمنا کے سرابوں میں ملیں
 
Top