مصطفیٰ زیدی افتاد مصطفی زیدی

علی فاروقی

محفلین
اے آتشِ تبسم و اے شبنمِ جمال
خاموش آنسووں کی طرح جل رہے ہیں ہم
تجھ کو خبر نہ ہو گی کہ دانش کے باوجود
برسوں تیری خیال میں پاگل رہے ہیں ہم
ہر بزمِ رنگ و رقص میں شرکت کے ساتھ ساتھ
تنہا رہے ہیں اور سرِ مقتل رہے ہیں ہم
دیکھا ہے تونے ہم کو بہاراں کے روپ میں
مجروح قافلے کی طرح چل رہے ہیں ہم
سب سے عزیز دوست کی خوشیوں کی راز دار
زخموں کی داستانِ مفصل رہے ہیں ہم
سب سے بڑے گناہ کی حسرت کے رو برو
تیرے لیے خلوصِ مسلسل رہے ہیں ہم
 
Top