نور وجدان
لائبریرین
السلام علیکم
اس لڑی کی تحریک تو محفلین سے ملی ہے. خیال اچھا لگا تو سوچا کہ اس کو شروع کیا جائے ....
نام افتخار حسین عارف اور تخلص عارف ہے۔ 21 مارچ 1943ء کو لکھنؤ میں پیدا ہوئے۔ بی اے ، ایم اے لکھنؤ یونیورسٹی سے کیا۔جرنلزم کا ایک کورس انھوں نے کولمبیا یونیورسٹی سے بھی کیا۔۱۹۶۵ء میں مستقل طور پر پاکستان آگئے اور ریڈیو پاکستان سے منسلک ہوگئے۔اس کے بعد افتخار عارف پاکستان ٹیلی وژن سے وابستہ ہوگئے۔ جب ٹیلی وژن میں پروگرام ’’کسوٹی‘‘ کا آغاز ہوا تو عبید اللہ بیگ کے ساتھ افتخار عارف بھی اس پروگرام میں شریک ہوتے تھے۔ یہ پروگرام بہت علمی اور معلوماتی تھا۔ ۱۹۷۷ء میں ریڈیو اور ٹیلی وژن سے استعفا دے کر بی سی سی آئی بینک، لندن سے وابستہ ہوگئے۔ اس کے بعد ڈائرکٹر جنرل اکادمی ادبیات پاکستان ،صدر نشین مقتدرہ قومی زبان اور چیرمین اکادمی ادبیات پاکستان کے عہدوں پر فائز رہے۔ افتخار عارف نے نظم ونثر دونوں میں طبع آزمائی کی ہے۔ ان کی تصانف کے نام یہ ہیں : ’’مہر دونیم‘، ’حرف باریاب‘، ’بارہواں کھلاڑی‘، ’اقلیم ہنر‘، ’جہان معلوم‘، ’شہرعلم کے دروازے پر‘(نعت ،سلام ومنقبت)۔ ان کی علمی وادبی خدمات کے اعتراف میں ان کو’’آدم جی ایوارڈ‘‘،’’نقوش ایوارڈ‘‘، ’’صدارتی ایوارڈ برائے حسن کارکردگی‘‘، ’’ستارۂ امتیاز‘‘ اور ’’ہلال امتیاز‘‘ مل چکے ہیں۔
بقیہ اس ربط سے پڑھ لیجیے
افتخار عارف کا یوم پیدائش
مجھے افتخار عارف کی ایک غزل بہت پسند ہے
دیارِ نور میں تیرہ شبوں کا ساتھی ہو
کوئی تو ہو جو میری وحشتوں کا ساتھی ہو
میں اس سے جھوٹ بولو تو وہ مجھ سے سچ بولے
میرے مزاج کے سب موسموں کا ساتھی ہو
میں اس کے ہاتھ نہ آوں وہ میرا ہو کے رہے
میں گِر پڑوں تو میری پستیوں کا ساتھی ہو
وہ میرے نام کی نِسبت سے مّتعتبر ٹھرے
گلل گلی میری رسوائیوں کا ساتھی ہو
وہ کرے کلام جو تجھ سے تو میرے لحجے میں
میں چپ رہوں تو میرے تیور دل کا ساتھی ہو
میں اپنے آپ کو دیکھوں وہ مجھے دیکھے جائے
وہ میرے نفس کی گمراہیوں کا ساتھی ہو
شاعر : افتخار عارف
ایک غزل کسی شاعر کی پہچان بن جاتی ہے مرے نزدیک افتخار عارف کی پہچان یہ غزل ہے. آپ افتخار عارف کی پہچان اس غزل سے کروائیں جس وجہ سے آپ کولگے یہ عارف افتخار کی پہچان ہے
آج کے دور میں ہر کوئی ایسے ساتھی کی تلاش میں ہے کہ وہ خود کو مرے لیے صفر کردے. یعنی محبت یا عشق میں محبوب کرلے اور خود عاشق بن جائے .... ہم سب ایسا چاہتے کہ شدید محبت ملے .... ہم چاہیں سچے ہوں جھوٹے ہوِں مگر وہ دوست جس نے محبت کی وہ ہمارے کہے پر لاج رکھے ہماری ...
دیار نور کی ترکیب بہت پیاری ہے
دیار نور میں تیرہ شبوں کا ساتھی ہو ...
باقی آپ اپنی مرضی کا عارف افتخار کا شعر غزل یا بند شریک محفل کرلیجیے....
اس لڑی کی تحریک تو محفلین سے ملی ہے. خیال اچھا لگا تو سوچا کہ اس کو شروع کیا جائے ....
نام افتخار حسین عارف اور تخلص عارف ہے۔ 21 مارچ 1943ء کو لکھنؤ میں پیدا ہوئے۔ بی اے ، ایم اے لکھنؤ یونیورسٹی سے کیا۔جرنلزم کا ایک کورس انھوں نے کولمبیا یونیورسٹی سے بھی کیا۔۱۹۶۵ء میں مستقل طور پر پاکستان آگئے اور ریڈیو پاکستان سے منسلک ہوگئے۔اس کے بعد افتخار عارف پاکستان ٹیلی وژن سے وابستہ ہوگئے۔ جب ٹیلی وژن میں پروگرام ’’کسوٹی‘‘ کا آغاز ہوا تو عبید اللہ بیگ کے ساتھ افتخار عارف بھی اس پروگرام میں شریک ہوتے تھے۔ یہ پروگرام بہت علمی اور معلوماتی تھا۔ ۱۹۷۷ء میں ریڈیو اور ٹیلی وژن سے استعفا دے کر بی سی سی آئی بینک، لندن سے وابستہ ہوگئے۔ اس کے بعد ڈائرکٹر جنرل اکادمی ادبیات پاکستان ،صدر نشین مقتدرہ قومی زبان اور چیرمین اکادمی ادبیات پاکستان کے عہدوں پر فائز رہے۔ افتخار عارف نے نظم ونثر دونوں میں طبع آزمائی کی ہے۔ ان کی تصانف کے نام یہ ہیں : ’’مہر دونیم‘، ’حرف باریاب‘، ’بارہواں کھلاڑی‘، ’اقلیم ہنر‘، ’جہان معلوم‘، ’شہرعلم کے دروازے پر‘(نعت ،سلام ومنقبت)۔ ان کی علمی وادبی خدمات کے اعتراف میں ان کو’’آدم جی ایوارڈ‘‘،’’نقوش ایوارڈ‘‘، ’’صدارتی ایوارڈ برائے حسن کارکردگی‘‘، ’’ستارۂ امتیاز‘‘ اور ’’ہلال امتیاز‘‘ مل چکے ہیں۔
بقیہ اس ربط سے پڑھ لیجیے
افتخار عارف کا یوم پیدائش
مجھے افتخار عارف کی ایک غزل بہت پسند ہے
دیارِ نور میں تیرہ شبوں کا ساتھی ہو
کوئی تو ہو جو میری وحشتوں کا ساتھی ہو
میں اس سے جھوٹ بولو تو وہ مجھ سے سچ بولے
میرے مزاج کے سب موسموں کا ساتھی ہو
میں اس کے ہاتھ نہ آوں وہ میرا ہو کے رہے
میں گِر پڑوں تو میری پستیوں کا ساتھی ہو
وہ میرے نام کی نِسبت سے مّتعتبر ٹھرے
گلل گلی میری رسوائیوں کا ساتھی ہو
وہ کرے کلام جو تجھ سے تو میرے لحجے میں
میں چپ رہوں تو میرے تیور دل کا ساتھی ہو
میں اپنے آپ کو دیکھوں وہ مجھے دیکھے جائے
وہ میرے نفس کی گمراہیوں کا ساتھی ہو
شاعر : افتخار عارف
ایک غزل کسی شاعر کی پہچان بن جاتی ہے مرے نزدیک افتخار عارف کی پہچان یہ غزل ہے. آپ افتخار عارف کی پہچان اس غزل سے کروائیں جس وجہ سے آپ کولگے یہ عارف افتخار کی پہچان ہے
آج کے دور میں ہر کوئی ایسے ساتھی کی تلاش میں ہے کہ وہ خود کو مرے لیے صفر کردے. یعنی محبت یا عشق میں محبوب کرلے اور خود عاشق بن جائے .... ہم سب ایسا چاہتے کہ شدید محبت ملے .... ہم چاہیں سچے ہوں جھوٹے ہوِں مگر وہ دوست جس نے محبت کی وہ ہمارے کہے پر لاج رکھے ہماری ...
دیار نور کی ترکیب بہت پیاری ہے
دیار نور میں تیرہ شبوں کا ساتھی ہو ...
باقی آپ اپنی مرضی کا عارف افتخار کا شعر غزل یا بند شریک محفل کرلیجیے....