عرفان علوی
محفلین
احباب گرامی، سلام عرض ہے!
مجھے افسانہ نگاری کا زیادہ تجربہ نہیں ہے . بزم کی ایک مختلف لڑی میں تذکروں کے دوران محمد وارث بھائی كے ساتھ گزرے ایک واقعہ کو سن کر مجھے ایک افسانچہ یاد آ گیا جو میں نے ایک عرصۂ دراز سے لکھ رکھا تھا لیکن کہیں بھیجا نہیں . وہ افسانچہ پیش ہے .
افسانچہ: جرم
اسلم چھٹیوں میں یونیورسٹی سے گھر جا رہا تھا . ٹرین ایک بھیڑ بھرے اسٹیشن پر رکی . اسلم کو چائے کی خواہش ہو رہی تھی ، لیکن چائے کی دکان اسٹیشن كے درمیانی حصے میں تھی اور اس کا ڈبہ وہاں سے خاصہ دور تھا . اسلم اپنا سامان چھوڑ کر چائے لینے نہیں جانا چاہتا تھا . لہٰذا وہ انتظار کرتا رہا کہ کوئی چائے والا خود پاس آئے .
کچھ وقت گزرنے كے بعد کوئی بارہ تیرہ برس کا ایک بچہ چائے بیچتا ہوا نظر آیا . اسلم نے کھڑکی سے اشارہ کر كے اسے پاس بلایا . چائے کی قیمت پچاس پیسے تھی اور اسلم كے پاس دس روپئے کا نوٹ تھا . چائے لینے سے پہلے اس نے لڑکے سے پوچھا کہ کیا اس كے پاس دس روپے کا چھُٹّا ہے . لڑکے نے کہا کہ ہے تو نہیں ، لیکن وہ انتظام کر دیگا . اسلم نے اس سے ایک چائے مانگی اور دس روپئے کا نوٹ اس کی طرف بڑھا دیا . لڑکے نے کلہڑ میں چائے دی اور اسلم كے ہاتھ سے نوٹ لے کر بولا ، ’میں دکان سے چھُٹّے پیسے لے کر آتا ہوں .‘ اور یہ کہہ کر اسٹیشن كے درمیانی حصے کی جانب دوڑ گیا .
کچھ وقت گزرا اور ٹرین نے پہلی سیٹی دی . لڑکا ابھی تک واپس نہیں آیا تھا . اسلم کو تھوڑی تشویش ہوئی . لیکن پِھر اس نے سوچا کہ لڑکے کی کیتلی اور کلہڑوں کی ٹوکری پاس ہی رکھی ہے لہٰذا وہ لوٹیگا ضرور . کچھ وقت اور گزرا . ٹرین نے دوسری سیٹی دی اور رینگنا شروع کر دیا . لڑکا اب بھی نظر نہیں آ رہا تھا . اب اسلم کو غصہ آنے لگا اور اس نے لڑکے کو دِل ہی دِل میں کوسنا شروع کر دیا . اس نے سوچا کہ لڑکا دس روپئے لے کر چلتا بنا . اسے لگا کہ وہ ٹرین كے جانے کا انتظار کر رہا تھا تاکہ بعد میں آ کر اپنا سامان اٹھا لے اور دس روپئے ہضم کر جائے .
اسلم ابھی یہ طے کر ہی رہا تھا کہ ایسے بدمعاش لڑکے کو کیا سزا ملنی چاہیے کہ اچانک وہ لڑکا بھیڑ کو چیرتا ہوا اس کی جانب بھاگتا ہوا نظر آیا . ٹرین رفتار پکڑ رہی تھی اور وہ ٹرین سے تیز بھاگنے کی کوشش کر رہا تھا . اسلم ہکّا بکّا اسے دیکھ ہی رہا تھا کہ اس نے پاس آ کر اس کے کھلے ہوئے ہاتھ پر باقی پیسے رکھ دیے . مڑنے سے پہلے لڑکا ہولے سے مسکرایا . اس كے چہرے پر عجب سا اطمینان تھا ، جیسے اس نے خود کو ایک جرم سے بچا لیا ہو .
لیکن اس روز ایک جرم سرزد ہوا تھا . اس لڑکے سے نہیں ، اسلم سے . اس نے بغیر تصدیق کیے ایک بےگناہ کو مجرم تسلیم کر لیا تھا . آج بھی جب اس جرم کا خیال آتا ہے تو اسلم کا سَر شرم سے جھک جاتا ہے .
مجھے افسانہ نگاری کا زیادہ تجربہ نہیں ہے . بزم کی ایک مختلف لڑی میں تذکروں کے دوران محمد وارث بھائی كے ساتھ گزرے ایک واقعہ کو سن کر مجھے ایک افسانچہ یاد آ گیا جو میں نے ایک عرصۂ دراز سے لکھ رکھا تھا لیکن کہیں بھیجا نہیں . وہ افسانچہ پیش ہے .
افسانچہ: جرم
اسلم چھٹیوں میں یونیورسٹی سے گھر جا رہا تھا . ٹرین ایک بھیڑ بھرے اسٹیشن پر رکی . اسلم کو چائے کی خواہش ہو رہی تھی ، لیکن چائے کی دکان اسٹیشن كے درمیانی حصے میں تھی اور اس کا ڈبہ وہاں سے خاصہ دور تھا . اسلم اپنا سامان چھوڑ کر چائے لینے نہیں جانا چاہتا تھا . لہٰذا وہ انتظار کرتا رہا کہ کوئی چائے والا خود پاس آئے .
کچھ وقت گزرنے كے بعد کوئی بارہ تیرہ برس کا ایک بچہ چائے بیچتا ہوا نظر آیا . اسلم نے کھڑکی سے اشارہ کر كے اسے پاس بلایا . چائے کی قیمت پچاس پیسے تھی اور اسلم كے پاس دس روپئے کا نوٹ تھا . چائے لینے سے پہلے اس نے لڑکے سے پوچھا کہ کیا اس كے پاس دس روپے کا چھُٹّا ہے . لڑکے نے کہا کہ ہے تو نہیں ، لیکن وہ انتظام کر دیگا . اسلم نے اس سے ایک چائے مانگی اور دس روپئے کا نوٹ اس کی طرف بڑھا دیا . لڑکے نے کلہڑ میں چائے دی اور اسلم كے ہاتھ سے نوٹ لے کر بولا ، ’میں دکان سے چھُٹّے پیسے لے کر آتا ہوں .‘ اور یہ کہہ کر اسٹیشن كے درمیانی حصے کی جانب دوڑ گیا .
کچھ وقت گزرا اور ٹرین نے پہلی سیٹی دی . لڑکا ابھی تک واپس نہیں آیا تھا . اسلم کو تھوڑی تشویش ہوئی . لیکن پِھر اس نے سوچا کہ لڑکے کی کیتلی اور کلہڑوں کی ٹوکری پاس ہی رکھی ہے لہٰذا وہ لوٹیگا ضرور . کچھ وقت اور گزرا . ٹرین نے دوسری سیٹی دی اور رینگنا شروع کر دیا . لڑکا اب بھی نظر نہیں آ رہا تھا . اب اسلم کو غصہ آنے لگا اور اس نے لڑکے کو دِل ہی دِل میں کوسنا شروع کر دیا . اس نے سوچا کہ لڑکا دس روپئے لے کر چلتا بنا . اسے لگا کہ وہ ٹرین كے جانے کا انتظار کر رہا تھا تاکہ بعد میں آ کر اپنا سامان اٹھا لے اور دس روپئے ہضم کر جائے .
اسلم ابھی یہ طے کر ہی رہا تھا کہ ایسے بدمعاش لڑکے کو کیا سزا ملنی چاہیے کہ اچانک وہ لڑکا بھیڑ کو چیرتا ہوا اس کی جانب بھاگتا ہوا نظر آیا . ٹرین رفتار پکڑ رہی تھی اور وہ ٹرین سے تیز بھاگنے کی کوشش کر رہا تھا . اسلم ہکّا بکّا اسے دیکھ ہی رہا تھا کہ اس نے پاس آ کر اس کے کھلے ہوئے ہاتھ پر باقی پیسے رکھ دیے . مڑنے سے پہلے لڑکا ہولے سے مسکرایا . اس كے چہرے پر عجب سا اطمینان تھا ، جیسے اس نے خود کو ایک جرم سے بچا لیا ہو .
لیکن اس روز ایک جرم سرزد ہوا تھا . اس لڑکے سے نہیں ، اسلم سے . اس نے بغیر تصدیق کیے ایک بےگناہ کو مجرم تسلیم کر لیا تھا . آج بھی جب اس جرم کا خیال آتا ہے تو اسلم کا سَر شرم سے جھک جاتا ہے .