سحرش سحر
محفلین
افسانہ: انسان اور درد دل از سحرش سحر
آج بھی وہ حسب معمول ریلوے پلیٹ فارم پر بیٹھا تھا اور بقول اس کے زندگی کا تماشہ کر رہا تھا۔ وہ دیکھ رہا تھا اور محسوس کر رہا تھا کہ واقعی یہ دنیا مسافر خانہ ہے۔ عارضی ٹھکانہ ہے۔کوئی آ رہا ہے تو کوئی یہا ں سے جا رہا ہے۔ وہ دیکھ رہا تھا کہ کوئی خوشی کا احساس لیے 'توکوئی غم کا بوجھ دل میں لیے روان دواں ہے ۔اور ہر کوئی ایک دوسرے سے بے نیاز ہے ۔ اتنے میں اس نے ایک بڑے میاں کو دیکھا جس نے بمشکل سامان کا بیگ اٹھا یا ہواتھا ۔ اور انہی کے ساتھ ایک بڑی عمر کی خاتون بھی تھی ۔ وہ ایک تھیلا ھاتھ میں لیے ہوئےتھی ۔ وہ جلدی سےاٹھ کر گیا اور انھیں سلام کیا اور ان سے ان کا سامان لیتے ہوئے مسکرا کر کہا"مجھ جیسوں کو بھی خدمت کا موقع دے نا....اور اس بڑی بی کے ہاتھ سے بھی تھیلا لے لیا۔
ان دونوں نے پہلے تو حیرت سے اسے دیکھا اور پھر بڑے میا ں اس سے مخا طب ہوئے :
"بیٹا بہت بہت شکریہ ...کوئی قلی ہی نہیں ملا"
اس پر بڑی بی نے چھڑ کر کہا۔
"قلی تو بہت تھے مگر آپ کو بڑا شوق ہے اپنا بوجھ خود اٹھانے کا...یہ تھیلا اٹھا اٹھا کر تو آپ نے مجھے مار ہی دیا تھا ۔ چلو شکر ہے کہ یہ قلی ملا ۔ "بڑی بی کی بات سن کر اس نےمسکرا کر کہا ۔
اماں میں قلی نہیں ہوں...آپ مجھے اپنا بیٹا ہی سمجھ لے ۔"
" اچھا بیٹا تم قلی نہیں ہو...تو پھر کون ہو؟ "
"جی میرا نام ہادی ہے... آپ لوگوں کو بھاری بوجھ اتھا ئے ہوئے دیکھا۔ تو سوچا کہ آپ کا یہ سامان ا ٹھا نے کے بہانے آپ سے دعا ئیں ہی لوٹ لی جائیں...اس نے مسکراتے ہوئےکہا ۔
اس پر وہ دونو ں بزرگ ہنس پڑے اور خوب دعائیں دیں ۔ یوں اس نے سامان ان کے حوالے کرنے سے پہلے ان کی ڈھیروں دعائیں اپنی جولی میں سمیٹی اور واپس چلاآیا ۔ پھر وہان اسی بنچ پر بیٹھ گیا ۔ تھوڑی دیر بیٹھے رہنے کے بعد اپنی گرم چادر اپنے گرد لپیٹ کر بنچ کے اوپر اپنی ٹانگیں اٹھا کر بیٹھ گیا اور اپنی گھٹنوں پراپنا سر رکھ دیا ۔ چند لمحوں کے بعد اس نے محسوس کیا کہ بنچ پر کسی نے کچھ رکھ دیا ہے اس نے سر اتھا کر دیکھاتو سامان کا ایک بیگ نظر آیا ۔ بیگ کے اس پاس تو اسے کوئی نظر نہ ایا ۔لہذا اس نے پیچھے مڑ کر دیکھا ۔تو اسے دو خواتین نظر آئیں ۔ وہ فورا ہی سمجھ گیا کو دونوں اس کی وجہ سے بنچ پر نہیں بیٹھ رہیں اور ایک طرف جا کر کھڑی ہو گئی ہیں ۔ لہذا وہ وہاں سے اٹھا اور جا کر ایک اور بنچ پر اسی پوزیشن میں بیٹھ گیا ۔ اور وہ خواتین اس بنچ پر آ کر بیٹھ گئیں ۔ چند منٹ کے بعد اس کے کا نوں میں سیٹی کی آواز آئی اور کسی آدمی کے گن گنانے کی بھی آواز ائی ۔اس نے کچھ نوٹس نہ لیا ۔ لیکن شاید اسٹیشن پر لوگون کا شور سننےسے جو لطف اسے آ رہا تھا ' اس آواز سے وہ اس میں خلل محسوس کرنے لگا ۔ سو اس نے گٹھنوں پر سے سر اٹھایا اور ارد گرد دیکھا ۔اس نے دیکھا کہ ایک لفنگا اس بنچ پر بیٹھی ہوئی خواتین کے گرد منڈلا رہا ہے ۔اور وہی یہ گانے گا رہا ہے اور سیٹیا ں بجا رہا ہے ۔یہ بات ہادی کے لیے نئی نہیں تھی ۔اکثر اسٹیشن پر اس کا ایسے لفنگوں سے واسطہ پڑ تا رہتا تھا ۔ لۂذا وہ خاموشی سے اٹھا اور پاس جا کر آہستہ سے اس سے کہا ....اگر میں تجھ سے کہوں کہ یہا ں سے چلتے بنو تو تو نے یہی کہنا ہے کہ کیا یہ تیری بہنیں ہیں.... تو ابھی سے بتا ئے دیتا ہون کہ ہاں یہ میری بہنیں ہیں ...اور اتنے میں اس لوفر کو گریبان سے پکڑ کر ایک طرف لے گیا اور اس سے کہا کہ اب اگر تو یہاں نظر آیا تو ....خدا قسم... تیرا وہ حشر کروں گا .... یہ دھمکی سن کروہ لفنگا بڑا بھنا گیا اور اسنے اپنا گریبان چُھڑاتےہوئےکہاتجھے تو میں دیکھ لوں گا... بڑا آیا بہنوں کا بھا ئی..! وہ تو بڑبڑاتے ہوئے اپنا گریبان ٹھیک کرتے ہوئے اوراسے گھورتے ہوئےچل یا ۔ ادھرہادی بھی چل کر ان خواتین کے پاس آیا اور کہا ۔ میرے مولٰی نے مومن خواتین سے فرمایا ہے کہ "زمانہ جاہلیت کی طرح بناؤ سنگھا کرتی نہ پھرو" اور یہ بھی فرمایا ہے"گھر سے باہر نکلو تو (اپنے منہ پر) پلو لٹکا لیا کرو ۔ " اب آپ کی جو پوزیشن ہے وہ تو ہے لیکن اگر آپ اپنا یہ منہ بھی تھوڑا سا ڈھا نپ لیں تو ان لفنگوں سے کافی حد تک محفوظ رہیں گی ۔ خواتین اس کی اس لفنگے سے نمٹنے کے انداز اور اوپر سےاس کی داڑھی اور سر پر ٹوپی سے خوفزدہ ہو گئی تھیں باوجود اس کی شان بے نیازی و صورت نورانی کے ۔ یہ کہہ کر وہ واپس اپنی سیٹ پر آیا اور اسی پوزیشن میں بیٹھ گیا ۔ ادھردونوں خواتین نے خا موشی سے اپنا اپنا منہ ڈھانپ لیا.۔
ایک لحظے کے بعد اسکو احساس ہواکہ اسکے پاس کوئی آ کر بیٹھ گیا ھے ۔ اس نے اب کہ سر اٹھا کر دیکھا تو 'وہ ایک نورانی صورت بزرگ تھے ۔ ہادی نے اسےسلام کیا اور اپنے بیٹھنے کا انداز درست کر کے ادب سے بیٹھ گیا ۔ اس نے بزرگ سے پوچھا ..آپ مسافر ہیں؟ بزرگ نے مسکرا کر کہا ...ہآں ...میں بھی مسافر ہوں...اور نوجوان ....تم؟
ہادی نے دھیرےسے جواب دیا ..میں.....؟ میں بھی مسافر ہوں...اور لطف کی بات یہ ہے کہ یہان بیٹھ کر ان آنے جانے والے مسافروں کاتماشہ دیکھ رہا ہوں...یا اگر میں کہوں..... کہ زندگی کا...اس عارضی زنگی کا تماشہ دیکھ رہا ہو ں تو غلط نہ ہو.گا ۔
ہادی کی بات سن کر بزرگ نے اپنی نگاہیں اس کیے چہرے پر گاڑ کرکہا "تما شہ دیکھنے کے لیے بلندی پر کھڑے ہو نا پڑتا ہے اور تم!..تم واقعی بہت دور بلندی پر کھڑے ہو....اس لیے تم زندگی کا تما شہ دیکھ سکتے ہو...انسا نوں میں اکثر پستیوں کے شکار ہیں ۔اس لیے وہ اس لطف سے بے خبر ہیں ۔ زندگی کی حقیقت سے بے خبر ہیں ۔ تمھیں جو نظر آ رہا ہے وہ ہر کسی کو نظر نہیں آسکتا ۔" یہ سن کر ہادی نے اس کی جا نب دیکھا اور ایک لمبی سانس لے کر کہا ۔
" پتہ نہیں میں کہا ں کھڑا ہوں؟ یہ سن کر وہ بزرگ معنی خیز انداز میں مسکرا دئے اور کہا بیٹا کبھی مایوس مت ہونا ۔تم اللہ کی مخلوق کی' اس کے بندون کی قدر کرتے ہو ۔ مدد کرتے ہو ان کی تڑپ کو محسوس کرتے ہو اور وہ... میرا موَلٰی..وہ ایسے ہی لوگوں کو پسند فرماتا ہے جو دوسروں کو خیر پہنچا تے ہیں ۔ وہ بہترین صلہ دینے والا ہے.بیٹا! یہ دنیاعارضی ہے مگر یہ بھی جان رکھو کہ اس کے غم 'پریشانیان اور مسائل بھی عارضی ہیں ۔ صرف اللہ پہ بھروسہ رکھو ۔ اسی سے طلب کرو ۔بے شک وہ بہترین کارساز ہے ۔
ان کی باتیں سن کر ہادی کے دل کا بوجھ تھوڑا ہلکا ہوا اور ایک لمحہ توقف کے بعد اس نےان سے پوچھا "
آپ کہاں جا رہے ہیں"؟بہت دور....." بزرگ نے کہا ۔
بہت دور؟ .....مطلب آخری اسٹیشن؟
بلکل......... آخری اسٹیشن..
بزرگ نے اس کے کندھے پر تپکی دی اور اٹھ کرچلا گیا ہا دی دیر تک کھڑ انہیں دیکھتا رہا
اتنے میں شام کے اندھیرے پھیلنے لگے وہ گھر کو خراما ں خراماں چل دیا ۔گھر پہنچا تو بھابی نے حقارت سے کہا۔تمہا رے لیے تو یہ گھر ہوٹل ہی ہے۔جب جی چاہا مفت کی روٹیا ں توڑنے آپہبچے ۔یہ الزام سن کر اس سے رہا نہ گیا اور بھابی کی فسادی طبیعت سے تو واقف ہی تھا لہذا اہستہ سے اس سے مخا طب ہوا بھابی ہر مہینے میں آپ لوگوں کو دس ہزار روپے دیتا ہوں مجھے احساس ہے کہ خرچے بڑھ گئے ہیں ۔مین تو صرف رات کا کھانا ہی گھر پر کھا تا ہوں..صبح بھی ناشتہ کئے بغیر ہی چلا جاتا ہوں ۔ یہ سن کر بھا بی کو جیسے آگ لگ گئی ...اسے تو جیسے فساد کا صحیح موقع ہا تھ لگ گیا تھا ۔اس نے رونی صورت بنا کر کہا ..ہائے ہائے ..اب تم مجھے ان دس ہزار روپلیوں کے طعنےدوگے کہ میں تم پر ظلم کرتی ہوں.. آنے دو ذرا اپنے بھائی کو.... "ہادی معاملے کی نزاکت سمجھ گیا ۔اس نے فورا صفائی دینے کی کوشش کی کہ میں نے کوئی طعنہ نہیں دیا ہے ۔ میں تو اپ کے گلے کا جواب دے رہا تھا ۔اس نے جلدی سے ہاتھ سے شاپر نکالا اور اس کو تھما تے ہوئے کہا ۔ بھابی اب غصہ تھوک دیں ۔ یہ لیں آپ کے لئے یہ گرم شال لے کر آیا ہوں ۔
اصل میں صبح گھر سے نکلتے ہوئے وہ بھابی کے موڈ کو بھانپ گیا تھا ۔ اسی بناء پر اس نے اس کے شر سے بچنے کے لیے خریداری کی تھی ۔ واقعی اس کا یہ حربہ دفع شر میں کامیاب رہا۔
اگلے روزحسب معمول کام سے فراغت کے بعد وہ اسٹیشن پر آگیا ۔ اور زندگی کا تماشہ دیکھنے میں مگن ہو گیا ۔ وہ جہا ں کہیں زندگی کو تڑپتا ہوا دیکھتا.... توخود تڑپ جاتا ...وہ کسی کوظلم و بے بسی کی چکی میں پستا ہوا نہیں دیکھ سکتا تھا ۔ وہ خود بھی تو اپنوں ک بے حسی کا .شکار تھا ۔مگر وہ اپنوں کے معاملے میں بے بس تھا...بہت کمزور تھا۔
"تو ہادی صاحب اپنی نشست سنبھا لنے پہنچ گئے ہیں "
ہاں یار! اور میں نے کہا ں جانا ہے؟
ہادی! یار تم یہاں کیوں کام نہیں کرتے...اگر کہو تو اسٹیشن ماسٹر سے تمہا رے لیے بات کر لوں؟
اتنے میں انہیں شور سنائی دیا ۔ دورسامنے لوگ جمع ہو رہے تھے ۔وہ دونوں بھی اٹھ کر گئے ۔ دیکھا کہ ایک ادھیڑ عمر قلی نیچے گرا پڑا ہے اور اس بیچارے کو مار پڑ رہی ہے ۔ ہادی آگے گیااسے اٹھا نے کے لیےمگر وہ غضب ناک شخص پھر سے اسے مارنے آگے بڑھا ۔ ہادی اس قلی بیچارے کے آگے کھڑا ہو گیا اور اس شخص کو غضبناک لہجے میں خبردار کیا
اب اگر تم نے اسے ہا تھ بھی لگایا تو تمھارے لیے اچھا نہیں ہوگا ۔ وہ آدمی بھی سخت لہجے میں گویا ہوا...بڑا آیا اس کا ہمدرد ....اگر اتنی ہمدردی ہے ...تو میرا وہ نقصان بھرو جو اس کی وجہ سے ہوا ہے ۔ ہادی کی سمجھ میں کچھ نہ ایا ۔اتنے میں اس شخص نے کہا "نکالو دو ہزار روپے ...."
کیسے دو ہزار روپے اور کیسا نقصان؟ ہادی نے پوچھا ۔
اس شخص نے غضب ناک لہجے میں کہا " ایک قدم اس سے چلا تو جاتا نہیں.... اور چلا ہے قلی گیری کرنے ۔ ا س نے میرا قیمتی سامان گرا کر میرا نقصان کیا ہے حالانکہ میں نے اس سے کہا بھی تھا کہ احتیاط سے چلنا ہے ۔ہادی نے اور کچھ کہے بغیر جیب سے پیسے نکا ل کردے دیے ۔ قلی نے اس کے ہاتھ چوم کر شکریہ ادا کیا اور اپنی جیب سے چند سو روپے نکال کراسے دینے چاہے مگر اس نے لینے سے انکار کیا اور اس بیچارے کو تسلی دے کر رخصت کیا ۔وہ اور اس کا دوست واپس چل کر آنے لگے تو اس کے دوست نے اسے سمجھا تے ہوئے کہا: کیا ضرورت تھی پرائے پھڈے میں کودنے کی....اور تو اور نواب صاحب نے پیسے بھی نکال کر دے دئے....او بھائی! یہ مہینے کا اسٹارٹ ہے...یہ نوابی دکھا نے سے پہلپے سوچ لیا کرو ۔
وہ چپ چاپ سنتا رہا اور بس اتنا کہہ سکا
"سب سمجھتا ہوں پر انسانیت بھی کوئی چیز ہوتی ہے ۔"
یہ سن کر اس کے دوست نےافسوس سے سر ہلاتے ہوئے کہا" تم نہیں بدلوگے۔"یہ سن کر ہادی مسکرا دیئے ۔
اچھا یار مجھے تو ہو رہی ہے دیر.....میں تو چلا....اور تم دکھی انسانیت کے بارے میں بیٹھ کر سوچو....ھاھاھا.....
یہ سن کر وہ بھی زیر لب مسکرایا ۔اب کے وہ بنچ پر ٹیک لگا کر ٹانگیں پھیلائے بیٹھ گیا اور سکون سے آنکھیں بند کر لیں ۔اتنے میں کسی نے اچانک اسے جھنجھوڑا اور ایک نسوانی آواز ""مجھے بچا لو.... خدا کے لیے مجھے بچا لو... "کہتی ہوئی اس کے کانوں سے جا ٹکرائی ۔وہ کچھ سوچے سمجھے بغیربوکھلا کر اٹھ کھڑا ہوا اور دیکھا کہ ایک سہمی ہیبت زدہ لڑکی ہے جو اس کے پیچھے چھپنے کی کوشش کر رہی ہے ۔۔ ہادی نے پوچھا کون ہو...؟ لڑ کی نے فورا کہا
بعد میں بتا دونگی ۔لیکن خدا کی لیے مجھے ان بد معا شوں سے بچا لو....۔
اچھا اچھا ....تم اّؤ میرے ساتھ... ڈرو مت ۔
وہ چند قدم بھاگ کر گئے ...تو ہادی نے اسے روک دیا....اور اپنی گرم چادر اس کو دے کر کہا یہ جلدی سے اوڑھ لو...تا کہ پہچانی نہ جا سکو ۔اور یہ بتاو تم نے جانا کہاں ہے...؟
اپنی خالہ کے ہاں... گجرات.....!
اچھا تو ایسا کرتے ہیں کہ میں تمہیں ٹرین میں بٹھا دیتا ہوں ...آگے تو جا سکتی ہو نا....
لڑکی نے رو کر کہا میں نے کبھی اکیلے سفر نہیں کیا ہے ۔ میں کیسے جاؤںگی ...
تو.......؟ اس نے حیرت اور پریشانی کے ملے جلے جذبات سے پوچھا ۔
دیکھ بھائی! آپ مجھے وہان چھوڑ آئیں ...آپ کا مجھ پر بڑ ا احسان ہو گا ۔
"وہ تو ٹھیک ہے مگر......" وہ سوچنے لگا کہ لڑکی ذات ہے ....نا محرم ہے ...میں کیسے...؟
مگر ایک مجبور اور بے بس انسان کو بے یا رو مددگار چھوڑنا بھی تو اس کی کتاب میں نہیں تھا ۔
"اچھاٹھیک ہے...آؤجلدی سے........ٹرین روانہ ہونے کو ہے ۔"
وہ تیز قدموں کے ساتھ ٹرین کی جانب چل پڑے اور جلدی سے ٹرین پر چڑھ گئے ۔ انھوں نے دیکھا کہ اس بوگی میں صرف مرد حضرات ہیں سو وہ آگے بڑھے ۔اگلے سے اگلے ڈبے میں کچھ مرد و خواتین تھے ۔ وہ دونوں وہیں کھڑے ہو گئے ۔ ہر کوئی انہیں مشتبہ نظروں سے دیکھ رہا تھا ۔ ایک بڑے میاں نے ناک پر سے عینک نیچے کی اور ان کی طرف سوالیہ نظروں سے گھورتے ہوئے طنزیہ انداز میں کہا:
"کیوں بھئی! شاید اپ لوگ بہت جلدی میں چڑھے ہیں...ٹکٹ بھی آپ کے پاس نہیں ہوں گے.... کیوں ....میں ٹھیک کہہ رہا ہوں نا...؟"
ہادی نے بڑے حوصلے سے جواب دیا ۔"آپ کی سب باتیں درست ہیں ۔واقعی بہت جلدی میں چڑھے ہیں...ہمارے اکلوتے خالہ زاد کا ایکسڈنٹ ہو گیا ہے ۔اور خالہ جان اکیلی ہیں ۔ اور یہ میری بہن ہے ۔ بد قسمتی سے اسٹیشن پر سے ہی کوئی ہمارا سامان ا ٹھا کر لے گیا ۔ اس کی تلاش میں مارا مارا پھرا مگر ....نہیں ملا ۔ اسلئے جلدی میں .....سب کچھ گڈ مڈ ہو گیا ۔
ہادی کی معصومیت اور پر اعتماد انداز کے باعث یہ فرضی داستان سن کر سب کے منہ بند ہو گئے اور لڑکی کو بہن قرار دینے سے مشکوک نگاہوں میں ہمدردی کا تاثر ابھرا ۔ ہادی نے لڑکی کو نیچے بیٹھ جانے کو کہا مگر ایک مرد نے سیٹ سے اٹھ کر اپنی فیملی کی خواتین کے ساتھ اسے بٹھا دیا ۔
ہادی نے اپنا موبائل نکال کر بھا ئی کو میسج کیا کہ وہ کسی کام سے شہر سے باہر جا رہا ہے۔
وہ وہیں نیچے بیٹھ گیا ۔اور وہ آج کے اس واقعے پر سوچنے لگا .....یہ لڑکی کون ہے....اس کا پرابلم کیا ہے... کیا یہ واقعی مظلوم ہے......کیا میں اسے اس کی منزل پر پہنچا سکوں گا ؟
ادھر لڑکی چھپکے سے اسے دیکھ لیتی اور دل ہی دل میں کھڑتی کہ یہ بیچارہ اِس کی وجہ سے خوار ہو رہا ہے ۔ اور وہ یہ بھی سوچتی کہ آیا اُسے اس پر بھروسہ کرنا چاہئے ۔پھر سوچتی کہ اس نے اسے بچایا اور بہن بھی کہا ہے تو شاید وہ اس رشتے کی لاج رکھ لے ۔ گاڑی کی رفتار سے سیکنڈ منٹ اور گھنٹے گزرتے گئے اتنے میں ٹکٹس چیکنگ کی گھڑی سر پر آن پہنچی ۔ ہادی کی چانچ پڑتال بھی شروع ہوئی ۔ اس نے وہی فرضی قصہ سنا ڈالا مگر یہ آزمائش ایسے ٹلنے والی نہ تھی ۔ لڑکی بھی ڈری سہمی اسے دیکھ رہی تھی ۔ ہادی نے جیب سے کچھ رقم نکال کر معاملہ نمٹانا چاہا مگر....... لڑکی سمجھدار تھی ۔آہستہ سے اٹھ کر آئی اور اپنی بالیاں کانوں سے اتار کر دینی چاہی تو ہا دی نےاسے منع کیا ۔مگر اس نے ٹکٹ چیکر سے اصرار کرتے ہوئے کہا :
" جی ہم بہت مجبوری میں نکلے ہیں ....یہی اب پاس ہے..تو یہی رکھ لیں ۔" اور ہاتھ کی انگوٹھی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا-" یہ بھی دے دیتی مگر یہ میری منگنی کی ہے...."
ہادی نے قہر آلود نگاہوں سے دیکھا کہ یہ سب دینے کی کوئی ضرورت نہیں ...مگر لڑکی نے التجائیہ انداز میں اس کی طرف ایک نطر دیکھ کر کہابھائی! جلدی پہنچنا ازحد ضروری ہے..." یہ سن کر ہادی آگے سے کچھ نہ بول سکا ۔
وہ خاموش 'چھپ چھاپ ایک طرف کھڑکی کے پاس کھڑے ہو کر باہر دیکھنے لگا ۔ پھر حسب عادت نیچے بیٹھ کر گھٹنوں پر سر رکھ دیا ۔
ارے بھائی! کیا سو گئے ہو.....گجرات کا اسٹیشن آن پہنچا ہے۔ آپ نے شاید یہی اترنا تھا ۔ ایک آدمی اس سے مخاطب ہوا ۔
جی ؟ جی جی ....وہ ایک دم سے چونک گیا۔ اسے وقت گزرنے کا احساس ہی نہ ہوا ۔اتنے میں وہ لڑکی بھی پاس ہی آ کر کھڑی ہو گئ تا کہ جلدی سے دونوں اتر جائیں ۔
دونوں اتر گئے اور اسٹیشن سے باہر آئے ۔اندھیرا گہرا ہو گیا تھا ۔ لڑکی اسی کے چادر میں منہ ڈھانپے سہمی کھڑی تھی ۔
تمیں خالہ کے گھر کا اتہ پتہ تو یاد ہے نا؟
جی یاد ہے ۔
اچھا پھر میں کسی ٹیکسی کا بندوبست کرتا ہوں...تم اؤ مرے ساتھ..
ابھی تھوڑ ا دور ہی گئے ہونگے کہ ہادی کو خیال آیا کہ اس نے تو کچھ کھا یا بھی نہیں ہے ۔ سو وہ قریب ہی ایک ٹھیلے والے کے پاس گیا اور اس سے کچھ کھا نے کے لیے لے آیا ۔ لڑکی نے کچھ بھی کھانے سے تو صاف انکار کر دیا ۔ مگر تھوڑا سا پانی پینے اور پھر جلدی سے چلنے کو کہا ۔ ہادی پانی تو لے آیا لیکن پھر سےاصرار کیا ....آؤ یہاں سائید پر بیٹھ جاؤ اور تھوڑا سا کھا پی لو ۔ اب کے لڑکی انکار نہ کر سکی ۔وہ ایک طرف بیٹھ گئی ۔اورصرف تھوڑا سا پانی ہی پی لیا ۔جبکہ ہادی اس سے فاصلے پر سر جھکائے بیٹھا رہا ۔
لڑکی ہیبت زدہ ادھر ادھر دیکھ رہی تھی ہادی نے اسے سہما ہوا دیکھ کر کہا
بائے د وے ....!تم کس سےاتنی خوف زدہ ہو او ر بھاگ رہی ہو؟ لڑکی نے کچھ توقف کے بعد کہنا شروع کیا ۔
بد قسمتی سے یہ سب کیا دھرا میرے بھائی کا ہے ..یا ..شاید میرے اباکا ہے ...... ہم دو ہی بہن بھا ئی ہیں ۔ میرے ابا نے ہمیشہ سے میرے بھائی کو ڈھیل دے رکھی تھی کیونکہ وہ لڑکا تھا ۔ خاص مجھ پر ' اورمیری والدہ پر بھی' جو اب اس دنیا میں نہیں ہیں ہمیشہ بے جا سختی کی ۔ میرے بھائی کی ہر فرمائش وہ پوری کرتے تھے ۔ یہاں تک کہ وہ بڑا ہو گیا ۔اس کی کسی سیٹھ کے لڑکے کے ساتھ دوستی ہو گئی ....ابا بہت خوش ہوتے تھے کہ اتنے بڑے لوگوں کے ساتھ ان کے بیٹےکی دوستی ہے ' اٹھنا بیٹھنا ہے ۔ مگر یہ دوستی ان کےلڑکے تک محدود نہ تھی ....ان کی لڑکی کا بھی میرے بھائی پر دل آ گیا تھا ۔ایک دو بار میں نے بھائی کو فون پر اس لڑکی کو منع کرتے ہوئے سنا تھا کہ وہ اسے فون نہ کیا کرے ۔
مگر عشق اور مشک تو چھپائے نہیں چھپتے...
شاید آج کل ہی میں یہ راز فاش ہو چکا ہے ...اس لیے کہ آج اسی سیٹھ کے کچھ غنڈے ہمارے گھر میں گھس آئے اور بھائی کا پوچھنے لگے ۔ابا گھر پر ہی تھے ۔میں اندر کمرے میں تھی کہ غنڈوں نے گھر کی تلاشی لینی شروع کی...اور یہاں تک کہا کہ اگر وہ نہ ملے تو اس کی بہن کو اٹھا لو کیونکہ سیٹھ جبا ر کی عزت سے کھیلنا مزاق نہیں ۔ میں تو اشارہ سمجھ گئی ...ڈر کر بیڈ کے نیچے چھپ گئ ...اللہ کے مہربانی سے ان کی نظر مجھ پر نہ پڑی...غضب ناک ہو کر وہ ابا کو ساتھ لے گئے ۔ میں کچھ دیر بعد نکلی اور چھت کی دیوار پھلانگ کر پڑوس میں جو میری سہیلی رہتی ہے ان کے ہاں اتریں ۔ان کو رو رو کر سب بتا دیا ۔انھوں نے تسلی دی ۔ مین نے انہیں بتایا کہ میرے لیے سب سے محفوط ٹھکانہ خالہ کا گھر ہے۔ جو کہ گجرات مین رہتی ہین ۔میری وہ خالہ میری امی کو بہت عزیز تھی ...اور انہیں کے بیٹے کے ساتھ میری منگنی بھی ہوئی ہے... لہذا میں نے منت کی کہ اگر وہاں تک پہنچنے میں وہ میری مدد کرے تو.... لہزا اس کی امی نے مجھے اسٹیشن تک پہنچایا....ان کے گھر سے نکلتے ہی مجھے ایسا محسوس ہو رہاہے کہ کوئی میرا پیچھا کر رہا ہے.... " ہادی سر جھکائے سنتا رہا پھر اہستگی سے بولااچھاتو یہ مسئلہ ہے......مگر تم گھبراؤ مت....سب ٹھیک ہو جائےگا ... تم مجھ پر اعتماد کر سکتی ہو۔ میرا نام ہادی ہے ...بی اے تک تعلیم ہے... روزگار کوئی خاص نہیں...ایک فیکٹری میں مزدوری کرتا ہوں ...اور فارغ ہو کر اسٹیشن پر آ کر بیٹھ جا تا ہوں...میرے والدین اس دنیا میں نہیں ہے...دو بھائی ہیں جو اپنے اپنے دائروں میں بند ہیں... "
کچھ توقف کے بعد کہا " اورہاں !میری ایک بات غور سے سنو....خالہ کے ہاں تو تم انشاءاللہ پہنچ جاوگی مگر کبھی میرا ذکر نہ کرنا.....کیونکہ میرا نام ہمیشیہ کے لیے تمہارے لیے ایک طعنہ ایک گالی بن جائے گا کہ تم نے کسی غیر مرد کے ساتھ سفر کیا تھا ۔ سمجھ گئی"
جی! سمجھ گئی ۔ " لڑکی نے آہستہ سے کہا۔
ہادی نے جیسے تیسے کر کے ٹیکسی کا بندو بست کیا ۔ ٹیکسی والے کو پتہ سمجھایا اور روانہ ہو گئے ۔منزل پر پہنچنے پر وہ ٹیکسی ہی میں بیٹھا رہا اور وہ اتر گئی ۔ ہادی نےآہستہ سے اس سے کہا "
چادر مت اتارو ایک بھائی کا تحفہ سمجھ کررکھ لو ...جاؤاللہ کے حوالے.....
پچھلے ایک ہفتے سے وہ ظہر کی نماز پڑھ کر اسٹیشن پر آ جاتا کیو نکہ صبح سویرےسے وہ نوکری کی تلاش میں شہر کی سڑکیں ناپتا رہتا ۔ آج وہ تھوڑا سا فکر مند بھی لگ رہا تھا ۔ پیشانی پر بل ڈالےکسی سوچ میں غرق تھا ۔اسے کوئی کام بھی تونہیں مل رہا تھا اور اوپر سے بھائی اور بھابی کی جلی کٹھی باتیں ...ان کا رویہ....
اتنے میں اس کا ایک دوست چائے لے کر آگیا اور ساتھ میں بنچ پر بیٹھ گیا ۔ اس نے اسے نصیحت کرنی شروع کی ۔ دیکھ یار! میں تمھارے جذبے کی قدر کرتا ہوں...تم کسی پر ظلم ہوتا ہوا نہیں دیکھ سکتے... لیکن خود پر کیوں ظلم کرتے ہو.....آخر تمہیں ضرورت ہی کیا تھی ان مزدوروں کی سائیڈ لینے کی ..... انہیں ان کا حق ملنا تھا نہ ملے گا البتہ تم اپنی اس معمولی روزگار سے بھی گئے ..... اب کیا کیا جائے......بس! تمہیں تو واحد انسانیت کے ٹھیکیدار ہو ....
" خنجر چلے کسی پہ تڑپتے ہیں ہم امیر
سارے جہاں کا درد ہمارے جگر میں ہے"
ہادی خاموشی سے سنتا رہا اور پھر اس کی طرف دیکھ کر کہا :
" درد دل کے واسطے پیدا کیا انسان کو
ورنہ طاعت کے لیے کچھ کم نہ تھی کروبیاں"
انسان سے انسانیت نکل جائے تو انسان اور حیوان میں کوئی فرق نہیں رہتا ۔اج کا انسان بھی حیوان بنتا جا رہا ہے ۔ اور اس کی بڑی وجہ دین سے دوری ہے ...اسی دوری کی بنا پر انسان اسفلا سافلین بنتا ہے ۔ اور اپنے مقام سے گر جاتا ہے۔ بقول مولاناروم :"چراغ لے کر شہر مین پھرا مگر کوئی انسان نہیں ملا ۔" اب میں تو کسی مظلوم انسان کو کسی انسانیت سے عاری حیوان نما انسان کے ہاتھوں' چھیرتے پھاڑتے نہیں دیکھ سکتا ۔ کبھی بھی نہیں ۔ اور ہاں جب تک جان میں جان ہے ہادی مظلوموں کے حق کے لیے لڑتا رہے گا ....لڑتا رہے گا ۔
اتنے میں ایک شخص اور ایک پولیس والا سامنے آ کر کھڑے ہو گئے اور پوچھنے لگے
تم دونوں میں سے ہادی کون ہے ؟
ان کا یہ سوال سن کر ہادی اور اسکا دوست بوکھلا کر کھڑے ہو گئے ۔ ہادی نے انہیں سلام کیا اور اپنا تعارف کروایا ۔
ہادی اور اس کے دوست کی سمجھ میں یہی آیا کہ شایدفیکٹری کے فور مین نے اس پر کیس کر دیا ہے اور پولیس گرفتاری کے لیے آئی ہے ۔
اچھا تو آپ ہادی ہیں ...اپ کو ڈی ۔ سی صاحب نے بلایا ہے. ۔ پولیس والے نے کہا۔
اب تو ان دونوں کو پکا یقین ہو گیا کہ اس پر پکا پکا کیس بن چکا ہے ۔دونوں سوچنے لگے اب کیا ہو گا ۔
ہادی نے انھیں چلنے کو کہا اور اپنے دوست کو تنبیہہ کی کہ اس کے بھائی سے کچھ مت کہنا ۔اللہ مالک ہے ۔
سلام سر !...وہ ہادی صاحب کو لے آئے ہیں ۔
اوکے!انہیں اندر لے آئیں ...اور چائے بھی بھیج دیں...اور ہاں کسی کو اندر آنے مت دیں ۔ ڈی سی صاحب نےتحکما نہ لہجےمیں کہا
ہادی حیران و پریشان بیٹھا تھا کہ یہ کیا چکر ہے....اس کے ساتھ مجرموں کا سا سلوک بھی تو نہیں ہو رہاتھا۔
اتنے میں اسے اندر جانے کو کہا گیا ۔ ہادی اٹھا اور اندر کوچل دیا ۔اندر جا کر دیکھتا ہے کہ ایک بہت ہی سمارٹ اور جوان افسر بیٹھا ہے اور لگتا تھاکہ وہ اسی کا انتظار کر رہا تھا ..
السلام علیکم! ہادی نے انہیں سلام کیا ۔
وہ اٹھ کر آیا اور بہت گرمجوشی سے اس سے ملا ۔ ہادی اب بھی الجھن میں ہیں کہ شاید انہیں کوئی غلط فہمی ہو گئی ہے ۔
اس نے ہادی کو بیٹھنے کو کہا اور بہت ہی بےتکلفی سے پوچھا ۔
"ہادی کیسے ہو ۔آجکل کیا کر رہے ہو ؟" ہادی نے کوئی بھی جواب دینے سے پہلے ان سے کہا
"جی شاید آپ کو کوئی غلط فہمی ہو گئی ہے...آپ جو مجھے سمجھ رہے ہیں وہ میں نہیں ہوں ۔"
ڈی سی صاحب ہنس پڑے اور بولے:
کیا تم ہادی نہیں ہو..بی اے تک تعلیم ہے...فیکٹری میں کام کرتے ہو.... فارغ اوقات میں اسٹیشن پر آ کر بیٹھ جاتے ہو...والدین دنیا میں نہیں ہیں...دو بھائی ہیں اپنے اپنے دائروں میں بند.... آیا درست کہا ...۔؟
ہادی حیران تھا کہ وہ اس کے بارے میں سب کچھ جانتا ہے ۔اپنی حیرت چھپا تے ہوئے ہنس کر کہا
"باقی سب ٹھیک ہے مگر آجکل با لکل بے روزگار ہوں....فیکٹری کی نوکری چھوٹے ہفتہ ہو چکا ہے ۔"
ہادی تمہاری صورت بتاتی ہے کہ تم ایک نیک زمہ دار اور اما نت دار انسان ہو ۔ تمھیں شاید یاد ہو کچھ عرصہ پہلے......کوئی آٹھ مہینے پہلے... تم نے ایک مصیبت زدہ لڑکی کی مدد کی تھی ۔میں اسی کا شوہر ہوں ۔وہ مجھے سب کچھ بتاچکی ہے۔ پچھلے مہینے سے میری پہلی پوسٹنگ یہاں پر ہوئی ہے ۔ اتنے عرصے سے تمہا ری تلاش میں تھا۔اسٹیشن پر کافی لوگوں کی زبانی مجھے تمھاری اعلی کرداری خوبیوں کا پتہ چلا ہے۔ یقین جانو تمہا را قد میری نگاہ میں اور بھی بڑھ گیا ہے ۔ " ہادی نظریں جھکائے سن رہا تھا ۔ ڈی ۔ سی صاحب نے اپنی بات جاری رکھی ۔" اب میں چاہتا ہوں کہ میں تم جیسے اچھے انسان کے لیے کچھ کرو ں ۔"....پلیز انکار مت کرنا ...
ہادی نے سر اٹھا کر انہیں دیکھا ۔
ڈی سی صاحب اس کے قریب آ کر بیٹھا اور کہنے لگا ۔ میرا ایک بھائی دبئی میں ہے اگر تم چاہو تو تمہیں فری میں دبئی کا ویزہ دلوا سکتا ہوں اور اگر چاہو...... تو میں تمہیں پولیس فورس میں بھرتی بھی کروا سکتا ہوں ۔"
ہادی نے گہرا سانس لیا اور کہا آپ کی اس عزت افزائی کا بہت بہت شکریہ .... سر! میں نے ہمیشہ بے غرضی سے مظلوموں کی مدد کی ہے ۔ مجھے اسکا کوئی صلہ نہیں چاہیے ۔
بھائی میرے! صلہ کیسا....؟ تم میں خدمت کا جذبہ ہے ۔ میں چاہتا ہوں کہ تم مضبوط بن کر ظالم کا ہاتھ روک سکو ...مظلوم کے لیے مضبوط ڈھال بن سکو ... میرے خیال میں اس مقصد کے لیے پولیس فورس جوائن کرنا بہترین آپشن ہے ۔بس میں نےاور کچھ نہیں سننا ...تم جمعرات کے دن میرے آفس آ رہے ہو ...باقی کی تفصیلات اسی دن طے کر یں گے.... او کے.....!
ہادی آگے سے کچھ نہ کہہ سکا ۔وہ وہاں سے جب نکلا تو عجیب کیفیت سے دوچار تھا ۔ سڑک کے کنارے کنارے پیدل چلتا جا رہا تھا اسے اس بزرگ کی وہ باتیں کچھ کچھ یادآنے لگی کہ مخلوق خداکی قدر دانی کرنے والوں کی اللہ قدر کرتا ہے ۔ انہیں بہترین صلہ دیتا ہے ۔اللہ کی رحمت سے مایوس نہیں ہونا چاہئے۔واقعی یہ دنیا عارضی ہےاور اس کے غم وپریشانیاں بھی عارضی ہیں ۔ صرف اللہ پر بھروسہ کرنا چاہئے صرف اللہ پر ۔
خوشی و حیرت کے ملے جلے جذبات دل میں لیے اسٹیشن کی مسجد کا رخ کیا کیونکہ عصر کی نماز چھوٹی جا رہی تھی ۔
آج بھی وہ حسب معمول ریلوے پلیٹ فارم پر بیٹھا تھا اور بقول اس کے زندگی کا تماشہ کر رہا تھا۔ وہ دیکھ رہا تھا اور محسوس کر رہا تھا کہ واقعی یہ دنیا مسافر خانہ ہے۔ عارضی ٹھکانہ ہے۔کوئی آ رہا ہے تو کوئی یہا ں سے جا رہا ہے۔ وہ دیکھ رہا تھا کہ کوئی خوشی کا احساس لیے 'توکوئی غم کا بوجھ دل میں لیے روان دواں ہے ۔اور ہر کوئی ایک دوسرے سے بے نیاز ہے ۔ اتنے میں اس نے ایک بڑے میاں کو دیکھا جس نے بمشکل سامان کا بیگ اٹھا یا ہواتھا ۔ اور انہی کے ساتھ ایک بڑی عمر کی خاتون بھی تھی ۔ وہ ایک تھیلا ھاتھ میں لیے ہوئےتھی ۔ وہ جلدی سےاٹھ کر گیا اور انھیں سلام کیا اور ان سے ان کا سامان لیتے ہوئے مسکرا کر کہا"مجھ جیسوں کو بھی خدمت کا موقع دے نا....اور اس بڑی بی کے ہاتھ سے بھی تھیلا لے لیا۔
ان دونوں نے پہلے تو حیرت سے اسے دیکھا اور پھر بڑے میا ں اس سے مخا طب ہوئے :
"بیٹا بہت بہت شکریہ ...کوئی قلی ہی نہیں ملا"
اس پر بڑی بی نے چھڑ کر کہا۔
"قلی تو بہت تھے مگر آپ کو بڑا شوق ہے اپنا بوجھ خود اٹھانے کا...یہ تھیلا اٹھا اٹھا کر تو آپ نے مجھے مار ہی دیا تھا ۔ چلو شکر ہے کہ یہ قلی ملا ۔ "بڑی بی کی بات سن کر اس نےمسکرا کر کہا ۔
اماں میں قلی نہیں ہوں...آپ مجھے اپنا بیٹا ہی سمجھ لے ۔"
" اچھا بیٹا تم قلی نہیں ہو...تو پھر کون ہو؟ "
"جی میرا نام ہادی ہے... آپ لوگوں کو بھاری بوجھ اتھا ئے ہوئے دیکھا۔ تو سوچا کہ آپ کا یہ سامان ا ٹھا نے کے بہانے آپ سے دعا ئیں ہی لوٹ لی جائیں...اس نے مسکراتے ہوئےکہا ۔
اس پر وہ دونو ں بزرگ ہنس پڑے اور خوب دعائیں دیں ۔ یوں اس نے سامان ان کے حوالے کرنے سے پہلے ان کی ڈھیروں دعائیں اپنی جولی میں سمیٹی اور واپس چلاآیا ۔ پھر وہان اسی بنچ پر بیٹھ گیا ۔ تھوڑی دیر بیٹھے رہنے کے بعد اپنی گرم چادر اپنے گرد لپیٹ کر بنچ کے اوپر اپنی ٹانگیں اٹھا کر بیٹھ گیا اور اپنی گھٹنوں پراپنا سر رکھ دیا ۔ چند لمحوں کے بعد اس نے محسوس کیا کہ بنچ پر کسی نے کچھ رکھ دیا ہے اس نے سر اتھا کر دیکھاتو سامان کا ایک بیگ نظر آیا ۔ بیگ کے اس پاس تو اسے کوئی نظر نہ ایا ۔لہذا اس نے پیچھے مڑ کر دیکھا ۔تو اسے دو خواتین نظر آئیں ۔ وہ فورا ہی سمجھ گیا کو دونوں اس کی وجہ سے بنچ پر نہیں بیٹھ رہیں اور ایک طرف جا کر کھڑی ہو گئی ہیں ۔ لہذا وہ وہاں سے اٹھا اور جا کر ایک اور بنچ پر اسی پوزیشن میں بیٹھ گیا ۔ اور وہ خواتین اس بنچ پر آ کر بیٹھ گئیں ۔ چند منٹ کے بعد اس کے کا نوں میں سیٹی کی آواز آئی اور کسی آدمی کے گن گنانے کی بھی آواز ائی ۔اس نے کچھ نوٹس نہ لیا ۔ لیکن شاید اسٹیشن پر لوگون کا شور سننےسے جو لطف اسے آ رہا تھا ' اس آواز سے وہ اس میں خلل محسوس کرنے لگا ۔ سو اس نے گٹھنوں پر سے سر اٹھایا اور ارد گرد دیکھا ۔اس نے دیکھا کہ ایک لفنگا اس بنچ پر بیٹھی ہوئی خواتین کے گرد منڈلا رہا ہے ۔اور وہی یہ گانے گا رہا ہے اور سیٹیا ں بجا رہا ہے ۔یہ بات ہادی کے لیے نئی نہیں تھی ۔اکثر اسٹیشن پر اس کا ایسے لفنگوں سے واسطہ پڑ تا رہتا تھا ۔ لۂذا وہ خاموشی سے اٹھا اور پاس جا کر آہستہ سے اس سے کہا ....اگر میں تجھ سے کہوں کہ یہا ں سے چلتے بنو تو تو نے یہی کہنا ہے کہ کیا یہ تیری بہنیں ہیں.... تو ابھی سے بتا ئے دیتا ہون کہ ہاں یہ میری بہنیں ہیں ...اور اتنے میں اس لوفر کو گریبان سے پکڑ کر ایک طرف لے گیا اور اس سے کہا کہ اب اگر تو یہاں نظر آیا تو ....خدا قسم... تیرا وہ حشر کروں گا .... یہ دھمکی سن کروہ لفنگا بڑا بھنا گیا اور اسنے اپنا گریبان چُھڑاتےہوئےکہاتجھے تو میں دیکھ لوں گا... بڑا آیا بہنوں کا بھا ئی..! وہ تو بڑبڑاتے ہوئے اپنا گریبان ٹھیک کرتے ہوئے اوراسے گھورتے ہوئےچل یا ۔ ادھرہادی بھی چل کر ان خواتین کے پاس آیا اور کہا ۔ میرے مولٰی نے مومن خواتین سے فرمایا ہے کہ "زمانہ جاہلیت کی طرح بناؤ سنگھا کرتی نہ پھرو" اور یہ بھی فرمایا ہے"گھر سے باہر نکلو تو (اپنے منہ پر) پلو لٹکا لیا کرو ۔ " اب آپ کی جو پوزیشن ہے وہ تو ہے لیکن اگر آپ اپنا یہ منہ بھی تھوڑا سا ڈھا نپ لیں تو ان لفنگوں سے کافی حد تک محفوظ رہیں گی ۔ خواتین اس کی اس لفنگے سے نمٹنے کے انداز اور اوپر سےاس کی داڑھی اور سر پر ٹوپی سے خوفزدہ ہو گئی تھیں باوجود اس کی شان بے نیازی و صورت نورانی کے ۔ یہ کہہ کر وہ واپس اپنی سیٹ پر آیا اور اسی پوزیشن میں بیٹھ گیا ۔ ادھردونوں خواتین نے خا موشی سے اپنا اپنا منہ ڈھانپ لیا.۔
ایک لحظے کے بعد اسکو احساس ہواکہ اسکے پاس کوئی آ کر بیٹھ گیا ھے ۔ اس نے اب کہ سر اٹھا کر دیکھا تو 'وہ ایک نورانی صورت بزرگ تھے ۔ ہادی نے اسےسلام کیا اور اپنے بیٹھنے کا انداز درست کر کے ادب سے بیٹھ گیا ۔ اس نے بزرگ سے پوچھا ..آپ مسافر ہیں؟ بزرگ نے مسکرا کر کہا ...ہآں ...میں بھی مسافر ہوں...اور نوجوان ....تم؟
ہادی نے دھیرےسے جواب دیا ..میں.....؟ میں بھی مسافر ہوں...اور لطف کی بات یہ ہے کہ یہان بیٹھ کر ان آنے جانے والے مسافروں کاتماشہ دیکھ رہا ہوں...یا اگر میں کہوں..... کہ زندگی کا...اس عارضی زنگی کا تماشہ دیکھ رہا ہو ں تو غلط نہ ہو.گا ۔
ہادی کی بات سن کر بزرگ نے اپنی نگاہیں اس کیے چہرے پر گاڑ کرکہا "تما شہ دیکھنے کے لیے بلندی پر کھڑے ہو نا پڑتا ہے اور تم!..تم واقعی بہت دور بلندی پر کھڑے ہو....اس لیے تم زندگی کا تما شہ دیکھ سکتے ہو...انسا نوں میں اکثر پستیوں کے شکار ہیں ۔اس لیے وہ اس لطف سے بے خبر ہیں ۔ زندگی کی حقیقت سے بے خبر ہیں ۔ تمھیں جو نظر آ رہا ہے وہ ہر کسی کو نظر نہیں آسکتا ۔" یہ سن کر ہادی نے اس کی جا نب دیکھا اور ایک لمبی سانس لے کر کہا ۔
" پتہ نہیں میں کہا ں کھڑا ہوں؟ یہ سن کر وہ بزرگ معنی خیز انداز میں مسکرا دئے اور کہا بیٹا کبھی مایوس مت ہونا ۔تم اللہ کی مخلوق کی' اس کے بندون کی قدر کرتے ہو ۔ مدد کرتے ہو ان کی تڑپ کو محسوس کرتے ہو اور وہ... میرا موَلٰی..وہ ایسے ہی لوگوں کو پسند فرماتا ہے جو دوسروں کو خیر پہنچا تے ہیں ۔ وہ بہترین صلہ دینے والا ہے.بیٹا! یہ دنیاعارضی ہے مگر یہ بھی جان رکھو کہ اس کے غم 'پریشانیان اور مسائل بھی عارضی ہیں ۔ صرف اللہ پہ بھروسہ رکھو ۔ اسی سے طلب کرو ۔بے شک وہ بہترین کارساز ہے ۔
ان کی باتیں سن کر ہادی کے دل کا بوجھ تھوڑا ہلکا ہوا اور ایک لمحہ توقف کے بعد اس نےان سے پوچھا "
آپ کہاں جا رہے ہیں"؟بہت دور....." بزرگ نے کہا ۔
بہت دور؟ .....مطلب آخری اسٹیشن؟
بلکل......... آخری اسٹیشن..
بزرگ نے اس کے کندھے پر تپکی دی اور اٹھ کرچلا گیا ہا دی دیر تک کھڑ انہیں دیکھتا رہا
اتنے میں شام کے اندھیرے پھیلنے لگے وہ گھر کو خراما ں خراماں چل دیا ۔گھر پہنچا تو بھابی نے حقارت سے کہا۔تمہا رے لیے تو یہ گھر ہوٹل ہی ہے۔جب جی چاہا مفت کی روٹیا ں توڑنے آپہبچے ۔یہ الزام سن کر اس سے رہا نہ گیا اور بھابی کی فسادی طبیعت سے تو واقف ہی تھا لہذا اہستہ سے اس سے مخا طب ہوا بھابی ہر مہینے میں آپ لوگوں کو دس ہزار روپے دیتا ہوں مجھے احساس ہے کہ خرچے بڑھ گئے ہیں ۔مین تو صرف رات کا کھانا ہی گھر پر کھا تا ہوں..صبح بھی ناشتہ کئے بغیر ہی چلا جاتا ہوں ۔ یہ سن کر بھا بی کو جیسے آگ لگ گئی ...اسے تو جیسے فساد کا صحیح موقع ہا تھ لگ گیا تھا ۔اس نے رونی صورت بنا کر کہا ..ہائے ہائے ..اب تم مجھے ان دس ہزار روپلیوں کے طعنےدوگے کہ میں تم پر ظلم کرتی ہوں.. آنے دو ذرا اپنے بھائی کو.... "ہادی معاملے کی نزاکت سمجھ گیا ۔اس نے فورا صفائی دینے کی کوشش کی کہ میں نے کوئی طعنہ نہیں دیا ہے ۔ میں تو اپ کے گلے کا جواب دے رہا تھا ۔اس نے جلدی سے ہاتھ سے شاپر نکالا اور اس کو تھما تے ہوئے کہا ۔ بھابی اب غصہ تھوک دیں ۔ یہ لیں آپ کے لئے یہ گرم شال لے کر آیا ہوں ۔
اصل میں صبح گھر سے نکلتے ہوئے وہ بھابی کے موڈ کو بھانپ گیا تھا ۔ اسی بناء پر اس نے اس کے شر سے بچنے کے لیے خریداری کی تھی ۔ واقعی اس کا یہ حربہ دفع شر میں کامیاب رہا۔
اگلے روزحسب معمول کام سے فراغت کے بعد وہ اسٹیشن پر آگیا ۔ اور زندگی کا تماشہ دیکھنے میں مگن ہو گیا ۔ وہ جہا ں کہیں زندگی کو تڑپتا ہوا دیکھتا.... توخود تڑپ جاتا ...وہ کسی کوظلم و بے بسی کی چکی میں پستا ہوا نہیں دیکھ سکتا تھا ۔ وہ خود بھی تو اپنوں ک بے حسی کا .شکار تھا ۔مگر وہ اپنوں کے معاملے میں بے بس تھا...بہت کمزور تھا۔
"تو ہادی صاحب اپنی نشست سنبھا لنے پہنچ گئے ہیں "
ہاں یار! اور میں نے کہا ں جانا ہے؟
ہادی! یار تم یہاں کیوں کام نہیں کرتے...اگر کہو تو اسٹیشن ماسٹر سے تمہا رے لیے بات کر لوں؟
اتنے میں انہیں شور سنائی دیا ۔ دورسامنے لوگ جمع ہو رہے تھے ۔وہ دونوں بھی اٹھ کر گئے ۔ دیکھا کہ ایک ادھیڑ عمر قلی نیچے گرا پڑا ہے اور اس بیچارے کو مار پڑ رہی ہے ۔ ہادی آگے گیااسے اٹھا نے کے لیےمگر وہ غضب ناک شخص پھر سے اسے مارنے آگے بڑھا ۔ ہادی اس قلی بیچارے کے آگے کھڑا ہو گیا اور اس شخص کو غضبناک لہجے میں خبردار کیا
اب اگر تم نے اسے ہا تھ بھی لگایا تو تمھارے لیے اچھا نہیں ہوگا ۔ وہ آدمی بھی سخت لہجے میں گویا ہوا...بڑا آیا اس کا ہمدرد ....اگر اتنی ہمدردی ہے ...تو میرا وہ نقصان بھرو جو اس کی وجہ سے ہوا ہے ۔ ہادی کی سمجھ میں کچھ نہ ایا ۔اتنے میں اس شخص نے کہا "نکالو دو ہزار روپے ...."
کیسے دو ہزار روپے اور کیسا نقصان؟ ہادی نے پوچھا ۔
اس شخص نے غضب ناک لہجے میں کہا " ایک قدم اس سے چلا تو جاتا نہیں.... اور چلا ہے قلی گیری کرنے ۔ ا س نے میرا قیمتی سامان گرا کر میرا نقصان کیا ہے حالانکہ میں نے اس سے کہا بھی تھا کہ احتیاط سے چلنا ہے ۔ہادی نے اور کچھ کہے بغیر جیب سے پیسے نکا ل کردے دیے ۔ قلی نے اس کے ہاتھ چوم کر شکریہ ادا کیا اور اپنی جیب سے چند سو روپے نکال کراسے دینے چاہے مگر اس نے لینے سے انکار کیا اور اس بیچارے کو تسلی دے کر رخصت کیا ۔وہ اور اس کا دوست واپس چل کر آنے لگے تو اس کے دوست نے اسے سمجھا تے ہوئے کہا: کیا ضرورت تھی پرائے پھڈے میں کودنے کی....اور تو اور نواب صاحب نے پیسے بھی نکال کر دے دئے....او بھائی! یہ مہینے کا اسٹارٹ ہے...یہ نوابی دکھا نے سے پہلپے سوچ لیا کرو ۔
وہ چپ چاپ سنتا رہا اور بس اتنا کہہ سکا
"سب سمجھتا ہوں پر انسانیت بھی کوئی چیز ہوتی ہے ۔"
یہ سن کر اس کے دوست نےافسوس سے سر ہلاتے ہوئے کہا" تم نہیں بدلوگے۔"یہ سن کر ہادی مسکرا دیئے ۔
اچھا یار مجھے تو ہو رہی ہے دیر.....میں تو چلا....اور تم دکھی انسانیت کے بارے میں بیٹھ کر سوچو....ھاھاھا.....
یہ سن کر وہ بھی زیر لب مسکرایا ۔اب کے وہ بنچ پر ٹیک لگا کر ٹانگیں پھیلائے بیٹھ گیا اور سکون سے آنکھیں بند کر لیں ۔اتنے میں کسی نے اچانک اسے جھنجھوڑا اور ایک نسوانی آواز ""مجھے بچا لو.... خدا کے لیے مجھے بچا لو... "کہتی ہوئی اس کے کانوں سے جا ٹکرائی ۔وہ کچھ سوچے سمجھے بغیربوکھلا کر اٹھ کھڑا ہوا اور دیکھا کہ ایک سہمی ہیبت زدہ لڑکی ہے جو اس کے پیچھے چھپنے کی کوشش کر رہی ہے ۔۔ ہادی نے پوچھا کون ہو...؟ لڑ کی نے فورا کہا
بعد میں بتا دونگی ۔لیکن خدا کی لیے مجھے ان بد معا شوں سے بچا لو....۔
اچھا اچھا ....تم اّؤ میرے ساتھ... ڈرو مت ۔
وہ چند قدم بھاگ کر گئے ...تو ہادی نے اسے روک دیا....اور اپنی گرم چادر اس کو دے کر کہا یہ جلدی سے اوڑھ لو...تا کہ پہچانی نہ جا سکو ۔اور یہ بتاو تم نے جانا کہاں ہے...؟
اپنی خالہ کے ہاں... گجرات.....!
اچھا تو ایسا کرتے ہیں کہ میں تمہیں ٹرین میں بٹھا دیتا ہوں ...آگے تو جا سکتی ہو نا....
لڑکی نے رو کر کہا میں نے کبھی اکیلے سفر نہیں کیا ہے ۔ میں کیسے جاؤںگی ...
تو.......؟ اس نے حیرت اور پریشانی کے ملے جلے جذبات سے پوچھا ۔
دیکھ بھائی! آپ مجھے وہان چھوڑ آئیں ...آپ کا مجھ پر بڑ ا احسان ہو گا ۔
"وہ تو ٹھیک ہے مگر......" وہ سوچنے لگا کہ لڑکی ذات ہے ....نا محرم ہے ...میں کیسے...؟
مگر ایک مجبور اور بے بس انسان کو بے یا رو مددگار چھوڑنا بھی تو اس کی کتاب میں نہیں تھا ۔
"اچھاٹھیک ہے...آؤجلدی سے........ٹرین روانہ ہونے کو ہے ۔"
وہ تیز قدموں کے ساتھ ٹرین کی جانب چل پڑے اور جلدی سے ٹرین پر چڑھ گئے ۔ انھوں نے دیکھا کہ اس بوگی میں صرف مرد حضرات ہیں سو وہ آگے بڑھے ۔اگلے سے اگلے ڈبے میں کچھ مرد و خواتین تھے ۔ وہ دونوں وہیں کھڑے ہو گئے ۔ ہر کوئی انہیں مشتبہ نظروں سے دیکھ رہا تھا ۔ ایک بڑے میاں نے ناک پر سے عینک نیچے کی اور ان کی طرف سوالیہ نظروں سے گھورتے ہوئے طنزیہ انداز میں کہا:
"کیوں بھئی! شاید اپ لوگ بہت جلدی میں چڑھے ہیں...ٹکٹ بھی آپ کے پاس نہیں ہوں گے.... کیوں ....میں ٹھیک کہہ رہا ہوں نا...؟"
ہادی نے بڑے حوصلے سے جواب دیا ۔"آپ کی سب باتیں درست ہیں ۔واقعی بہت جلدی میں چڑھے ہیں...ہمارے اکلوتے خالہ زاد کا ایکسڈنٹ ہو گیا ہے ۔اور خالہ جان اکیلی ہیں ۔ اور یہ میری بہن ہے ۔ بد قسمتی سے اسٹیشن پر سے ہی کوئی ہمارا سامان ا ٹھا کر لے گیا ۔ اس کی تلاش میں مارا مارا پھرا مگر ....نہیں ملا ۔ اسلئے جلدی میں .....سب کچھ گڈ مڈ ہو گیا ۔
ہادی کی معصومیت اور پر اعتماد انداز کے باعث یہ فرضی داستان سن کر سب کے منہ بند ہو گئے اور لڑکی کو بہن قرار دینے سے مشکوک نگاہوں میں ہمدردی کا تاثر ابھرا ۔ ہادی نے لڑکی کو نیچے بیٹھ جانے کو کہا مگر ایک مرد نے سیٹ سے اٹھ کر اپنی فیملی کی خواتین کے ساتھ اسے بٹھا دیا ۔
ہادی نے اپنا موبائل نکال کر بھا ئی کو میسج کیا کہ وہ کسی کام سے شہر سے باہر جا رہا ہے۔
وہ وہیں نیچے بیٹھ گیا ۔اور وہ آج کے اس واقعے پر سوچنے لگا .....یہ لڑکی کون ہے....اس کا پرابلم کیا ہے... کیا یہ واقعی مظلوم ہے......کیا میں اسے اس کی منزل پر پہنچا سکوں گا ؟
ادھر لڑکی چھپکے سے اسے دیکھ لیتی اور دل ہی دل میں کھڑتی کہ یہ بیچارہ اِس کی وجہ سے خوار ہو رہا ہے ۔ اور وہ یہ بھی سوچتی کہ آیا اُسے اس پر بھروسہ کرنا چاہئے ۔پھر سوچتی کہ اس نے اسے بچایا اور بہن بھی کہا ہے تو شاید وہ اس رشتے کی لاج رکھ لے ۔ گاڑی کی رفتار سے سیکنڈ منٹ اور گھنٹے گزرتے گئے اتنے میں ٹکٹس چیکنگ کی گھڑی سر پر آن پہنچی ۔ ہادی کی چانچ پڑتال بھی شروع ہوئی ۔ اس نے وہی فرضی قصہ سنا ڈالا مگر یہ آزمائش ایسے ٹلنے والی نہ تھی ۔ لڑکی بھی ڈری سہمی اسے دیکھ رہی تھی ۔ ہادی نے جیب سے کچھ رقم نکال کر معاملہ نمٹانا چاہا مگر....... لڑکی سمجھدار تھی ۔آہستہ سے اٹھ کر آئی اور اپنی بالیاں کانوں سے اتار کر دینی چاہی تو ہا دی نےاسے منع کیا ۔مگر اس نے ٹکٹ چیکر سے اصرار کرتے ہوئے کہا :
" جی ہم بہت مجبوری میں نکلے ہیں ....یہی اب پاس ہے..تو یہی رکھ لیں ۔" اور ہاتھ کی انگوٹھی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا-" یہ بھی دے دیتی مگر یہ میری منگنی کی ہے...."
ہادی نے قہر آلود نگاہوں سے دیکھا کہ یہ سب دینے کی کوئی ضرورت نہیں ...مگر لڑکی نے التجائیہ انداز میں اس کی طرف ایک نطر دیکھ کر کہابھائی! جلدی پہنچنا ازحد ضروری ہے..." یہ سن کر ہادی آگے سے کچھ نہ بول سکا ۔
وہ خاموش 'چھپ چھاپ ایک طرف کھڑکی کے پاس کھڑے ہو کر باہر دیکھنے لگا ۔ پھر حسب عادت نیچے بیٹھ کر گھٹنوں پر سر رکھ دیا ۔
ارے بھائی! کیا سو گئے ہو.....گجرات کا اسٹیشن آن پہنچا ہے۔ آپ نے شاید یہی اترنا تھا ۔ ایک آدمی اس سے مخاطب ہوا ۔
جی ؟ جی جی ....وہ ایک دم سے چونک گیا۔ اسے وقت گزرنے کا احساس ہی نہ ہوا ۔اتنے میں وہ لڑکی بھی پاس ہی آ کر کھڑی ہو گئ تا کہ جلدی سے دونوں اتر جائیں ۔
دونوں اتر گئے اور اسٹیشن سے باہر آئے ۔اندھیرا گہرا ہو گیا تھا ۔ لڑکی اسی کے چادر میں منہ ڈھانپے سہمی کھڑی تھی ۔
تمیں خالہ کے گھر کا اتہ پتہ تو یاد ہے نا؟
جی یاد ہے ۔
اچھا پھر میں کسی ٹیکسی کا بندوبست کرتا ہوں...تم اؤ مرے ساتھ..
ابھی تھوڑ ا دور ہی گئے ہونگے کہ ہادی کو خیال آیا کہ اس نے تو کچھ کھا یا بھی نہیں ہے ۔ سو وہ قریب ہی ایک ٹھیلے والے کے پاس گیا اور اس سے کچھ کھا نے کے لیے لے آیا ۔ لڑکی نے کچھ بھی کھانے سے تو صاف انکار کر دیا ۔ مگر تھوڑا سا پانی پینے اور پھر جلدی سے چلنے کو کہا ۔ ہادی پانی تو لے آیا لیکن پھر سےاصرار کیا ....آؤ یہاں سائید پر بیٹھ جاؤ اور تھوڑا سا کھا پی لو ۔ اب کے لڑکی انکار نہ کر سکی ۔وہ ایک طرف بیٹھ گئی ۔اورصرف تھوڑا سا پانی ہی پی لیا ۔جبکہ ہادی اس سے فاصلے پر سر جھکائے بیٹھا رہا ۔
لڑکی ہیبت زدہ ادھر ادھر دیکھ رہی تھی ہادی نے اسے سہما ہوا دیکھ کر کہا
بائے د وے ....!تم کس سےاتنی خوف زدہ ہو او ر بھاگ رہی ہو؟ لڑکی نے کچھ توقف کے بعد کہنا شروع کیا ۔
بد قسمتی سے یہ سب کیا دھرا میرے بھائی کا ہے ..یا ..شاید میرے اباکا ہے ...... ہم دو ہی بہن بھا ئی ہیں ۔ میرے ابا نے ہمیشہ سے میرے بھائی کو ڈھیل دے رکھی تھی کیونکہ وہ لڑکا تھا ۔ خاص مجھ پر ' اورمیری والدہ پر بھی' جو اب اس دنیا میں نہیں ہیں ہمیشہ بے جا سختی کی ۔ میرے بھائی کی ہر فرمائش وہ پوری کرتے تھے ۔ یہاں تک کہ وہ بڑا ہو گیا ۔اس کی کسی سیٹھ کے لڑکے کے ساتھ دوستی ہو گئی ....ابا بہت خوش ہوتے تھے کہ اتنے بڑے لوگوں کے ساتھ ان کے بیٹےکی دوستی ہے ' اٹھنا بیٹھنا ہے ۔ مگر یہ دوستی ان کےلڑکے تک محدود نہ تھی ....ان کی لڑکی کا بھی میرے بھائی پر دل آ گیا تھا ۔ایک دو بار میں نے بھائی کو فون پر اس لڑکی کو منع کرتے ہوئے سنا تھا کہ وہ اسے فون نہ کیا کرے ۔
مگر عشق اور مشک تو چھپائے نہیں چھپتے...
شاید آج کل ہی میں یہ راز فاش ہو چکا ہے ...اس لیے کہ آج اسی سیٹھ کے کچھ غنڈے ہمارے گھر میں گھس آئے اور بھائی کا پوچھنے لگے ۔ابا گھر پر ہی تھے ۔میں اندر کمرے میں تھی کہ غنڈوں نے گھر کی تلاشی لینی شروع کی...اور یہاں تک کہا کہ اگر وہ نہ ملے تو اس کی بہن کو اٹھا لو کیونکہ سیٹھ جبا ر کی عزت سے کھیلنا مزاق نہیں ۔ میں تو اشارہ سمجھ گئی ...ڈر کر بیڈ کے نیچے چھپ گئ ...اللہ کے مہربانی سے ان کی نظر مجھ پر نہ پڑی...غضب ناک ہو کر وہ ابا کو ساتھ لے گئے ۔ میں کچھ دیر بعد نکلی اور چھت کی دیوار پھلانگ کر پڑوس میں جو میری سہیلی رہتی ہے ان کے ہاں اتریں ۔ان کو رو رو کر سب بتا دیا ۔انھوں نے تسلی دی ۔ مین نے انہیں بتایا کہ میرے لیے سب سے محفوط ٹھکانہ خالہ کا گھر ہے۔ جو کہ گجرات مین رہتی ہین ۔میری وہ خالہ میری امی کو بہت عزیز تھی ...اور انہیں کے بیٹے کے ساتھ میری منگنی بھی ہوئی ہے... لہذا میں نے منت کی کہ اگر وہاں تک پہنچنے میں وہ میری مدد کرے تو.... لہزا اس کی امی نے مجھے اسٹیشن تک پہنچایا....ان کے گھر سے نکلتے ہی مجھے ایسا محسوس ہو رہاہے کہ کوئی میرا پیچھا کر رہا ہے.... " ہادی سر جھکائے سنتا رہا پھر اہستگی سے بولااچھاتو یہ مسئلہ ہے......مگر تم گھبراؤ مت....سب ٹھیک ہو جائےگا ... تم مجھ پر اعتماد کر سکتی ہو۔ میرا نام ہادی ہے ...بی اے تک تعلیم ہے... روزگار کوئی خاص نہیں...ایک فیکٹری میں مزدوری کرتا ہوں ...اور فارغ ہو کر اسٹیشن پر آ کر بیٹھ جا تا ہوں...میرے والدین اس دنیا میں نہیں ہے...دو بھائی ہیں جو اپنے اپنے دائروں میں بند ہیں... "
کچھ توقف کے بعد کہا " اورہاں !میری ایک بات غور سے سنو....خالہ کے ہاں تو تم انشاءاللہ پہنچ جاوگی مگر کبھی میرا ذکر نہ کرنا.....کیونکہ میرا نام ہمیشیہ کے لیے تمہارے لیے ایک طعنہ ایک گالی بن جائے گا کہ تم نے کسی غیر مرد کے ساتھ سفر کیا تھا ۔ سمجھ گئی"
جی! سمجھ گئی ۔ " لڑکی نے آہستہ سے کہا۔
ہادی نے جیسے تیسے کر کے ٹیکسی کا بندو بست کیا ۔ ٹیکسی والے کو پتہ سمجھایا اور روانہ ہو گئے ۔منزل پر پہنچنے پر وہ ٹیکسی ہی میں بیٹھا رہا اور وہ اتر گئی ۔ ہادی نےآہستہ سے اس سے کہا "
چادر مت اتارو ایک بھائی کا تحفہ سمجھ کررکھ لو ...جاؤاللہ کے حوالے.....
پچھلے ایک ہفتے سے وہ ظہر کی نماز پڑھ کر اسٹیشن پر آ جاتا کیو نکہ صبح سویرےسے وہ نوکری کی تلاش میں شہر کی سڑکیں ناپتا رہتا ۔ آج وہ تھوڑا سا فکر مند بھی لگ رہا تھا ۔ پیشانی پر بل ڈالےکسی سوچ میں غرق تھا ۔اسے کوئی کام بھی تونہیں مل رہا تھا اور اوپر سے بھائی اور بھابی کی جلی کٹھی باتیں ...ان کا رویہ....
اتنے میں اس کا ایک دوست چائے لے کر آگیا اور ساتھ میں بنچ پر بیٹھ گیا ۔ اس نے اسے نصیحت کرنی شروع کی ۔ دیکھ یار! میں تمھارے جذبے کی قدر کرتا ہوں...تم کسی پر ظلم ہوتا ہوا نہیں دیکھ سکتے... لیکن خود پر کیوں ظلم کرتے ہو.....آخر تمہیں ضرورت ہی کیا تھی ان مزدوروں کی سائیڈ لینے کی ..... انہیں ان کا حق ملنا تھا نہ ملے گا البتہ تم اپنی اس معمولی روزگار سے بھی گئے ..... اب کیا کیا جائے......بس! تمہیں تو واحد انسانیت کے ٹھیکیدار ہو ....
" خنجر چلے کسی پہ تڑپتے ہیں ہم امیر
سارے جہاں کا درد ہمارے جگر میں ہے"
ہادی خاموشی سے سنتا رہا اور پھر اس کی طرف دیکھ کر کہا :
" درد دل کے واسطے پیدا کیا انسان کو
ورنہ طاعت کے لیے کچھ کم نہ تھی کروبیاں"
انسان سے انسانیت نکل جائے تو انسان اور حیوان میں کوئی فرق نہیں رہتا ۔اج کا انسان بھی حیوان بنتا جا رہا ہے ۔ اور اس کی بڑی وجہ دین سے دوری ہے ...اسی دوری کی بنا پر انسان اسفلا سافلین بنتا ہے ۔ اور اپنے مقام سے گر جاتا ہے۔ بقول مولاناروم :"چراغ لے کر شہر مین پھرا مگر کوئی انسان نہیں ملا ۔" اب میں تو کسی مظلوم انسان کو کسی انسانیت سے عاری حیوان نما انسان کے ہاتھوں' چھیرتے پھاڑتے نہیں دیکھ سکتا ۔ کبھی بھی نہیں ۔ اور ہاں جب تک جان میں جان ہے ہادی مظلوموں کے حق کے لیے لڑتا رہے گا ....لڑتا رہے گا ۔
اتنے میں ایک شخص اور ایک پولیس والا سامنے آ کر کھڑے ہو گئے اور پوچھنے لگے
تم دونوں میں سے ہادی کون ہے ؟
ان کا یہ سوال سن کر ہادی اور اسکا دوست بوکھلا کر کھڑے ہو گئے ۔ ہادی نے انہیں سلام کیا اور اپنا تعارف کروایا ۔
ہادی اور اس کے دوست کی سمجھ میں یہی آیا کہ شایدفیکٹری کے فور مین نے اس پر کیس کر دیا ہے اور پولیس گرفتاری کے لیے آئی ہے ۔
اچھا تو آپ ہادی ہیں ...اپ کو ڈی ۔ سی صاحب نے بلایا ہے. ۔ پولیس والے نے کہا۔
اب تو ان دونوں کو پکا یقین ہو گیا کہ اس پر پکا پکا کیس بن چکا ہے ۔دونوں سوچنے لگے اب کیا ہو گا ۔
ہادی نے انھیں چلنے کو کہا اور اپنے دوست کو تنبیہہ کی کہ اس کے بھائی سے کچھ مت کہنا ۔اللہ مالک ہے ۔
سلام سر !...وہ ہادی صاحب کو لے آئے ہیں ۔
اوکے!انہیں اندر لے آئیں ...اور چائے بھی بھیج دیں...اور ہاں کسی کو اندر آنے مت دیں ۔ ڈی سی صاحب نےتحکما نہ لہجےمیں کہا
ہادی حیران و پریشان بیٹھا تھا کہ یہ کیا چکر ہے....اس کے ساتھ مجرموں کا سا سلوک بھی تو نہیں ہو رہاتھا۔
اتنے میں اسے اندر جانے کو کہا گیا ۔ ہادی اٹھا اور اندر کوچل دیا ۔اندر جا کر دیکھتا ہے کہ ایک بہت ہی سمارٹ اور جوان افسر بیٹھا ہے اور لگتا تھاکہ وہ اسی کا انتظار کر رہا تھا ..
السلام علیکم! ہادی نے انہیں سلام کیا ۔
وہ اٹھ کر آیا اور بہت گرمجوشی سے اس سے ملا ۔ ہادی اب بھی الجھن میں ہیں کہ شاید انہیں کوئی غلط فہمی ہو گئی ہے ۔
اس نے ہادی کو بیٹھنے کو کہا اور بہت ہی بےتکلفی سے پوچھا ۔
"ہادی کیسے ہو ۔آجکل کیا کر رہے ہو ؟" ہادی نے کوئی بھی جواب دینے سے پہلے ان سے کہا
"جی شاید آپ کو کوئی غلط فہمی ہو گئی ہے...آپ جو مجھے سمجھ رہے ہیں وہ میں نہیں ہوں ۔"
ڈی سی صاحب ہنس پڑے اور بولے:
کیا تم ہادی نہیں ہو..بی اے تک تعلیم ہے...فیکٹری میں کام کرتے ہو.... فارغ اوقات میں اسٹیشن پر آ کر بیٹھ جاتے ہو...والدین دنیا میں نہیں ہیں...دو بھائی ہیں اپنے اپنے دائروں میں بند.... آیا درست کہا ...۔؟
ہادی حیران تھا کہ وہ اس کے بارے میں سب کچھ جانتا ہے ۔اپنی حیرت چھپا تے ہوئے ہنس کر کہا
"باقی سب ٹھیک ہے مگر آجکل با لکل بے روزگار ہوں....فیکٹری کی نوکری چھوٹے ہفتہ ہو چکا ہے ۔"
ہادی تمہاری صورت بتاتی ہے کہ تم ایک نیک زمہ دار اور اما نت دار انسان ہو ۔ تمھیں شاید یاد ہو کچھ عرصہ پہلے......کوئی آٹھ مہینے پہلے... تم نے ایک مصیبت زدہ لڑکی کی مدد کی تھی ۔میں اسی کا شوہر ہوں ۔وہ مجھے سب کچھ بتاچکی ہے۔ پچھلے مہینے سے میری پہلی پوسٹنگ یہاں پر ہوئی ہے ۔ اتنے عرصے سے تمہا ری تلاش میں تھا۔اسٹیشن پر کافی لوگوں کی زبانی مجھے تمھاری اعلی کرداری خوبیوں کا پتہ چلا ہے۔ یقین جانو تمہا را قد میری نگاہ میں اور بھی بڑھ گیا ہے ۔ " ہادی نظریں جھکائے سن رہا تھا ۔ ڈی ۔ سی صاحب نے اپنی بات جاری رکھی ۔" اب میں چاہتا ہوں کہ میں تم جیسے اچھے انسان کے لیے کچھ کرو ں ۔"....پلیز انکار مت کرنا ...
ہادی نے سر اٹھا کر انہیں دیکھا ۔
ڈی سی صاحب اس کے قریب آ کر بیٹھا اور کہنے لگا ۔ میرا ایک بھائی دبئی میں ہے اگر تم چاہو تو تمہیں فری میں دبئی کا ویزہ دلوا سکتا ہوں اور اگر چاہو...... تو میں تمہیں پولیس فورس میں بھرتی بھی کروا سکتا ہوں ۔"
ہادی نے گہرا سانس لیا اور کہا آپ کی اس عزت افزائی کا بہت بہت شکریہ .... سر! میں نے ہمیشہ بے غرضی سے مظلوموں کی مدد کی ہے ۔ مجھے اسکا کوئی صلہ نہیں چاہیے ۔
بھائی میرے! صلہ کیسا....؟ تم میں خدمت کا جذبہ ہے ۔ میں چاہتا ہوں کہ تم مضبوط بن کر ظالم کا ہاتھ روک سکو ...مظلوم کے لیے مضبوط ڈھال بن سکو ... میرے خیال میں اس مقصد کے لیے پولیس فورس جوائن کرنا بہترین آپشن ہے ۔بس میں نےاور کچھ نہیں سننا ...تم جمعرات کے دن میرے آفس آ رہے ہو ...باقی کی تفصیلات اسی دن طے کر یں گے.... او کے.....!
ہادی آگے سے کچھ نہ کہہ سکا ۔وہ وہاں سے جب نکلا تو عجیب کیفیت سے دوچار تھا ۔ سڑک کے کنارے کنارے پیدل چلتا جا رہا تھا اسے اس بزرگ کی وہ باتیں کچھ کچھ یادآنے لگی کہ مخلوق خداکی قدر دانی کرنے والوں کی اللہ قدر کرتا ہے ۔ انہیں بہترین صلہ دیتا ہے ۔اللہ کی رحمت سے مایوس نہیں ہونا چاہئے۔واقعی یہ دنیا عارضی ہےاور اس کے غم وپریشانیاں بھی عارضی ہیں ۔ صرف اللہ پر بھروسہ کرنا چاہئے صرف اللہ پر ۔
خوشی و حیرت کے ملے جلے جذبات دل میں لیے اسٹیشن کی مسجد کا رخ کیا کیونکہ عصر کی نماز چھوٹی جا رہی تھی ۔