mmubin
محفلین
Urdu Short Story
Devta
By M.Mubin
ڈاکٹر کےآپریشن روم سےنکلتےہی چاروں طرف سےلوگوں نےاسےگھیرلیا۔
” ڈاکٹر صاحب ! ماما کی حالت اب کیسی ہے؟ “ وشواس گائیکواڑ نےپوچھا۔
” ڈاکٹر صاحب ! ماما کی زندگی کو تو اب کوئی خطرہ نہیں ہے؟ “ ارون شندےنےپوچھا ۔
” ڈاکٹر صاحب ماما جلدی اچھےہوجائیں گےناں؟ جلدی بتائیےمیرا دل بہت گھبرا رہا ہی۔ “ شنکر پاٹل نےبےچینی سےپوچھا ۔
” ڈاکٹر صاحب ! ماما یہاں پر اچھےہوجائیں گےنا؟ “ گوپی ناتھ مہسکر نےپوچھا ۔ ” انہیں کہیں اور لےجانےکی تو ضرورت نہیں آئےگی ؟ اگر ضرورت ہو تو بتا دیجئےہم نےانہیں کہیں اور لےجانےکےانتظامات بھی کرلئےہیں ۔ “
” ڈاکٹر صاحب ! باہر سےاگر دوائیں منگوانےکی ضرورت پڑی تو بےجھجھک کہہ دیجئے۔ ماما کےلئےہم مہنگی سےمہنگی دوائیں لانےکےلئےتیار ہیں ۔ “ پرکاش جادھو بولا ۔
ڈاکٹر گھبرا گیا ۔ اسےاس وقت کم سےکم بیس پچیس لوگوں نےگھیر رکھا تھا اور اسےمعلوم تھا اس وقت اسپتال کےکمپاو¿نڈ میں کم سےکم سو سوا سو لوگ ماما کی طبیعت کےبارےمیں جاننےکےلئےبےچین ہیں ۔
وہ لوگ قرب جوار کےدیہاتوں سےآئےہوئےتھے۔ کوئی نگر سول سےآیا تھا تو کوئی اندر سول سےکوئی لہیت سے، کوئی کسٹمری سےتو کوئی راجہ پور سے۔ ان میں سےبہت سےلوگ ایک دوسرےسےشناسا تھےتو بہت سےلوگ ایک دوسرےسےپہلی بارمل رہےتھے۔
وہ تمام افراد صرف ایک ہی مقصد کےلےجمع ہوئےتھے۔ وہ سب ماما کی حالت کےبارےمیں پتہ لگانےوہاں آئےتھےاور اسی کےلئےبےچین تھے۔ ان میں بہت سےلوگ ایسےتھےجنہوں نےماما کو لاکر اس اسپتال میں داخل کیا تھا ۔
جیسےجیسےماما پر قاتلانہ حملےکی خبر پھیل رہی تھی اور یہ معلوم ہورہا تھا ماما کو علاج کےلئےشہر کےاسپتال میں داخل کیا گیا ہے‘ لوگ جوق در جوق ماما کو دیکھنےکےلئےآرہےتھے۔
جب وہ لوگ زخمی ماما کو لےکر سرکاری اسپتال جارہےتھےتو راستہ میں جو بھی ملتا وہاں جیسےہی یہ خبر ملتی کہ ماما پر قاتلانہ حملہ ہوا ہےاور وہ بری طرح زخمی ہوئےہیں اور انہیں اسپتال لےجایا جارہا ہے۔ اس گاو¿ں سےکئی لوگ آکر ان کےساتھ ہوجاتےجو ماما کو اسپتال لےجارہےتھے۔
جس وقت ماما کو اسپتال میں داخل کیا گیا اس وقت پچاس کےقریب افراد اسپتال میں جمع تھے۔ پھر جیسےجیسےیہ خبر اطراف کےدیہاتوں میں پھیلتی گئی چاروں طرف سےلوگ ماما کی حالت کا پتہ لگانےاور اسےدیکھنےکےلےاسپتال میں آنےلگے۔
جس وقت ماما کو اسپتال میں داخل کیا گیا ماما بےہوش تھا ۔ اس کےسارےکپڑےخون میں لت پت تھے۔ جو لوگ ماما کو سہارا دےکر لائےتھےان کےکپڑوں پر بھی جگہ جگہ خون لگا ہوا تھا ۔
ڈاکٹر نےماما کےزخم کا معائنہ کیا ۔ زخم پشت پر تھا ۔ پورےڈیڑھ فٹ لمبا زخم تھا اور تقریباً ایک انچ گہرا ۔ کہیں کہیں تو گہرائی دو انچ بھی ہوگئی تھی ۔ کہیں کہیں ہڈی دکھائی دےرہی تھی ۔ تلوار کا وار تھا ۔ اس لئےایک دو جگہ کی ہڈی بھی متاثر ہوئی تھی ۔ ڈاکٹر نےفوراً ماما کو آپریشن وارڈ میں لےجانےکےلئےکہا ۔
” زخم بہت بڑا اور گہرا ہےٹانکےلگانےپریں گے۔ اس کےعلاوہ خون بہت بہہ گیا ہے۔ خون دینےکی بھی ضرورت پڑےگی ۔ “
” ڈاکٹر صاحب ! میرا خون لےلیجئے۔ “
” ڈاکٹر صاحب ! میرا خون لےلیجئے۔ “ تین چار آوازیں ایک ساتھ ابھریں ۔
” ٹھیک ہےہم پہلےخون ٹسٹ کرتےہیں ۔ اس کےبعد جس کےخون کی ضرورت محسوس ہوئی اس کا خون لےلیں گے۔ “
لوگوں کا اور ماما کا خون ٹسٹ کیا گیا ۔ ٠١ ۔ ٢١ افراد کا خون ماما کےخون سےمیل کھاتا تھا ۔
جےدیو پاٹل ‘ مانک شندے‘ انّا پوار اور وکرم کھیرنار کےجسم سےایک ایک بوتل خون نکالا گیا ۔
دو بوتل خون چڑھانےکےبعد ماما کےجسم میں ہلکی سی حرکت ہوئی ۔ ڈاکٹر اور نرسوں کےچہروں پر خوشی کی لہر دوڑ گئی ۔
” جو خون بہہ گیا تھا اس خون نےاس کی کمی پوری کردی ہے۔ مریض کو بہت جلد ہوش آجائےگا ۔ اسےجنرل وارڈ میں شفٹ کردیا جائے۔ “ ڈاکٹر نےنرسوں سےکہا اور وارڈ سےباہر نکلا تو لوگوں نےاسےگھیر لیا ۔
” دیکھئے! میں نےماما کا زخم سی دیا ہے۔ دو بوتل خون بھی چڑھایا جا چکا ہے۔ ضرورت پڑی تو اور دو بوتل خون چڑھادیا جائےگا ۔ اب ماما خطرےسےباہر ہیں ۔ گھبرانےکی کوئی بات نہیں ۔ ایک دو گھنٹےمیں شاید اسےہوش آجائےگا ۔ لیکن ہوش میں آنےکےفوراً بعد آرام کی غرض سےہم اسےنیند کا انجکشن دےکر سلادیں گے۔ آپ لوگ مریض کےکمرےمیں یا اس کےپلنگ کےپاس بھیڑ نہ لگائیں ۔ مریض کو دیکھنےکےلئےہم ہیں ۔ فکر کرنےکی کوئی ضرورت نہیں ۔ آپ ماما کو دیکھ کر اپنےاپنےگھر چلےجائیے۔
ڈاکٹر اتنا کہہ کر آگےبڑھ گیا اور لوگ ماما کےباہر آنےکا انتظار کرنےلگے۔ کچھ لوگوں نےماما ےرشتےداروں کو گھیر لیا ۔
” بھابی ! ہم نہ کہتےتھےکہ آپ بالکل مت گھبرائیے۔ ماما کو کچھ نہیں ہوگا ۔ اب تو آپ نےاپنےکانوں سےسن لیا ہےکہ ماما خطرےسےباہر ہے۔ اب یہ رونا دھونا چھوڑئیےاور اپنی حالت کو سنبھالیے۔ آپ کےرونےسےبچےبھی رونےلگتےہیں ۔ کچھ ماما کی بیوی کو سمجھانےلگےتو کچھ ماما کےبچوں کو ۔
” ارےفرت (فرحت ) کیوں رو رہا ہے؟ تیرےابا کو کچھ نہیں ہوگا ۔ وہ بالکل ٹھیک ہے۔ تھوڑی دیر میں ہم سب سےباتیں کریں گے۔ تو تو بڑا ہے‘ سمجھ دار ہےتُو روئےگا تو پھر تیری ماں ‘ بھائی ‘ بہنوں اور تیرےدادا دادی کو کون سمجھائےگا ۔ تُو خود کو سنبھال ۔ کسی طرح کی کوئی فکر نہ کر ہم تیرےساتھ ہیں ۔ “
کچھ ماما کےوالدین کو سمجھانےلگے۔
” سب کچھ ٹھیک ہوجائےگا ۔ ماما کو کچھ نہیں ہوگا ۔ ان کی جان بچانےکےلئےہم اپنی جان کی بازی لگا دیں گے۔ “
” میرےمعصوم بچےکو مار کر ان لوگوں کو کیا ملا ۔ “ ان کی باتیں سن کر ماما کےوالد بولے۔ ” وہ تو کسی کی چھیڑ چھاڑ میں نہیں رہتا تھا ۔ سویرےبھوکا پیاسہ گھر سےنکل کر دیہات ‘ دیہات کی خاک چھان کر اپنےبال بچوں اور ہمارےلئےدو وقت کی روٹی کا بندوبست کرتا تھا ۔ اس کو مار کر انہیں کیا ملا ۔ وہ تو نہ کوئی مذہبی رہنما تھا اور نہ ہی کوئی سیاسی لیڈر تھا پھر انہوں نےمیرےبچےکی جان لینےکی کوشش کیوں کی ؟ “
” ابا ! کچھ لوگ سر پھرےہوتےہیں اور اس دیوانگی کےلئےوہ انسانی قدروں اور رشتوں کو بھول جاتےہیں ان پر تو صرف اپنےمسلک کےافکار کا جنون طاری رہتا ہے۔ جن لوگوں نےماما پر حملہ کیا وہ لوگ بھی اسی گروہ سےوابستہ تھے۔ “ سب ماما کےوالد کو سمجھانےلگے۔
کسی نےبھی سوچا نہیں تھا کہ آج جب ماما ان کےگاو¿ں سےجائےگا تو اس پر اس طرح کا جان لیوا حملہ ہوگا اور اس کی جان لینےکی کوشش کی جائےگی ۔ آج بھی وہ معمول کےمطابق گاو¿ں آیا تھا ۔ جس طرح گذشتہ سالوں سےآرہا تھا ۔
اپنی سائیکل پر آگےبڑا سا پٹارا لٹکائےہر کسی کو سلام کرتا ان سےان کی خیریت دریافت کرتا اپنےمخصوص ٹھکانوں پر گیا تھا ۔ اسےپورےتعلقہ کےدیہاتوں میں کس کس گھر میں مرغیاں ہیں اس بات کا پتہ تھا ۔ اس نےروزانہ چند مخصوص دیہاتوں کا نشانہ باندھ لیا تطا ۔ وہ اس دن ان مخصوص دیہاتوں کےان گھروں اور کھیتوں میں جاتا تھا جہاں مرغیاں تھیں ۔ اس گھر کےمالکان بھی اس دن ماما کا انتظار کرتےتھے۔
ہفتہ بھر ان کی مرغیاں جو انڈےدیتی تھیں وہ انڈےوہ جمع کرتےتھےاور ماما کو فروخت کردیتےتھے۔ دن بھر ماما ان دیہاتوں سےانڈےجمع کرتا اور شام کو شہر آکر مرغی انڈےکےاس بیوپاری کو فروخت کردیتا تھا جو ان انڈوں کو ممبئی جیسےبڑےشہروں میں فروخت کرتا تھا ۔
گرمی کےدنوں میں انڈےگرمی سےجلد خراب ہوجاتےہیں ۔ گرمی کےدنوں میں وہ اپنےمخصوص دیہاتوں میں ہفتہ میں دوبار جاتا تھا ۔ تاکہ انڈےخراب نہ ہوں ۔ اپنی ٹوٹی پھوٹی پرانی سائیکل پر وہ روزانہ تیس چالیس کلومیٹر کا سفر طےکرتا تھا ۔
اس سےدیہات کا بچہ بچہ واقف تھا تو وہ بھی ہر گاو¿ں کےہر فرد کو جانتا تھا اور ان لوگوں کےگھروں کےحالات بھی جانتا تھا ۔ کبھی کبھی تو اسےان لوگوں کےگھریلو جھگڑوں میں منصف کا فرض بھی ادا کرنا پرتا تھا ۔ اس نےدیہاتوںکےسینکڑوں جھگڑےنپٹائےتھے۔ اس کےمنصفانہ فیصلوں پر کسی کو کوئی اعتراض نہیں ہوتا تھا ۔ ہر کوئی بڑےاحترام سےان فیصلوں کو قبول کرلیتا تھا ۔ نہ صرف تضادات بلکہ شادی بیاہ کےمعاملوں میں بھی ماما نمایاں کردار ادا کرتا تھا ۔
اگر کسی کےگھر تعلقہ میں کہیں سےرشتہ آتا تو وہ ماما سےاس گھر کےبارےمیں ضرور پوچھتا جہاں سےرشتہ آیا ہے۔ یا اس گھر اور لڑکےکےبارےمیں معلومات نکالنےکی ذمہ داری ماما پر ڈال دیتا تھا ۔
ماما اپنی ذمہ داری کو بڑی خوش اسلوبی سےنبھاتا تھا ۔ اور اتنی معلومات بہم پہنچا دیتا تھا کہ رشتےکےسلسلےمیں فیصلہ کرنےمیں اس شخص کو کوئی دقت پیش نہیںآتی تھی۔ کبھی کبھی اس شخص کا فیصلہ منفی ہوتا اور ماما کو محسوس ہوتا کہ وہ شخص فیصلہ لینےمیں کہیں غلطی کررہا ہےتو ماما اس کو ٹوک کر اپنا فیصلہ بتا دیتا تھا اور پھر وہی ہوتا تھا جو ماما کا فیصلہ ہوتا تھا ۔
کئی بڑےگھرانےاپنی لڑکیوں کےرشتہ کی ذمہ داری ماما پر ڈالتےتھے۔ اور ماما اس طرح ذمہ داری نبھاتےہوئےگذشتہ ٥٢ ٠٣ سالوں میں ہزاروں شادیاں کروا چکا تھا ۔
دیہاتوں کی ہر شادی بیاہ میں ماما کر شرکت لازمی تھی ۔ لڑکےکی شادی ہو یا لڑکی کی ۔ ماما کو وہی عزت دی جاتی تھی جو لڑکےکےباپ کو دی جاتی تھی ۔ ہر شادی میں ماما کو ایک اپرنا (ایک طرح کا رومال ) ضرور دیا جاتا تھا ۔ دیوالی دسہرہ یا ہولی پر ہر گھر میں ماما کو حاضری دینی پڑتی تھی ۔ جس گھر وہ کسی مجبوری کی وجہ سےنہیں جا پاتا تھا اس گھر کےمکین کو اس سےشکایت ہوتی تھی بلکہ ماما کا حصہ ہفتوں تک سنبھال کر رکھا جاتا تھا ۔ بلکہ کچھ معاملوں میں تو ماما کا حصہ اس کےگھر پہنچا دیا جاتا تھا ۔
عید بقر عید شب برات کےموقع پر ماما کےگھر میں دیہاتیوں کا میلہ لگا رہتا تھا ۔ ان تیوہاروں کےآنےسےقبل ماما تمام دیہاتوں میں عام دعوت دےآتا تھا ۔ اور شیر خورمہ پینےاور حلوہ کھانےکےلئےلوگ جوق در جوق اس کےگھر آتےتھے۔ ہر رات دو تین دیہاتوں کا قیام ماما کےگھر کا معمول تھا ۔ وہ لوگ جو کسی کام سےشہر آتےتھےاور کسی وجہ سےان کی آخری بس چھوٹ جاتی تھی یا واپس گاو¿ں جانےکےلئےان کےپاس کوئی ذریعہ نہیں ہوتا تھا ۔ وہ ماما کےگھر چلےجاتےتھے۔ ماما کےگھر میں ایک خاص کمرہ مہمان خانہ تھا ۔ وہاں اس طرح کےلوگوں کےلئےسونےکا خاص انتظام رہتا تھا ۔ رات کو وہ ماما کےمہمان خانےمیں آرام کرتےاور سویرےچائےاور ہلکا ناشتہ کرکےواپس اپنےگھر چلےجاتےتھے۔
ماما نےجب اپنی بڑی بیٹی کی شادی کی تھی تو اس کےگھر شادی میں ان دیہاتیوں کی بھیڑ سب سےزیادہ تھی ۔ ماما نےان کےلئےکھانےکا الگ انتظام کیا تھا ۔ وہ لوگ اپنےساتھ اتنےتحائف لائےتھےکہ بیٹی کےجہیز میں ایک ایک چیز دو دو تین تین دینےکےبعد بھی بہت سی بچ گئی تھی ۔
کسی ہفتہ ماما اگر گاو¿ں نہیں آتا تو سارےگاو¿ں میں ہلچل مچ جاتی تھی ۔ ” ماما اس ہفتہ نہیں آیا ‘ کیا بات ہے؟ جاکر پتہ لگانا ۔ “
جو بھی اس گاو¿ں سےدوسرےدن شہر جانےوالا ہوتا تھا اس کو یہ ذمہ داری سونپی جاتی تھی اور وہ واپس آکر سارےگاو¿ں کو اس بارےمیں بتاتا تھا ۔
” ماما بیمار ہے۔ “
” ماما ایک رشتہ دار کی شادی میں دوسرےشہر گیا ہے۔ “
دینداری ماما میں کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی ۔ جس جگہ نماز کا وقت ہوجاتا کہیں سےپانی مانگ کر وضو بناکر وہیں نماز کےلئےکھڑا ہوجاتا تھا ۔ بلکہ کچھ مخصوص گھروں کےلوگوں نےتو ماما کی نماز کےلئےانتظامات بھی کررکھےتھے۔
وہ دیہات جہاں مسجدیں تھیں یا مسلمان تھے۔ ان دیہاتوں کی مسجدوں میں اگر پیش امام نہیں ہوتا تھا تو عصر اور ظہر کی نمازیں ماما کی پیش امامی میں ہی ادا کی جاتی تھیں ۔ دیہاتوں میں اگر کسی مسلمان کی موت ہوجاتی تو اس کی میت کو غسل دینے‘ کفنانےاور نماز جنازہ ادا کرکےدفنانےکا کام بھی ماما انجام دیتا تھا ۔
دیہاتیوں کےاپنےاپنےکام ہوتےہیں ۔ خالی وقت میں بھی گفتگو کےاپنےموضوعات ہوتےہیں ۔ گھریلو معاملات ‘ کھیتی کےمعاملات ‘ بینک ‘ قرض کی جھنجھٹ کےقصے‘ گرام پنچایت ‘ ضلع پریشد اور پنچایت سمیتی کےالیکشن وغیرہ پر بحثیں ۔ عام دنوں میں کیا ہورہا تھا دیہاتوں کےچند لوگوں کو ہی معلوم رہتا ہے۔ وہ بھی صرف ان دیہاتوں میں جہاں اکا دکّہ اخبارا ت پہونچ جاتےتھے۔ یا جن لوگوں کےپاس ٹی وی اور ریڈیو تھا وہ خبریں سن کر اس بارےمیں دوسرےلوگوں کو بتا دیتےتھی۔ ان دنوں پتہ چلا کہ مسلمانوں کی کسی بڑی مسجد کو شہید کردیا گیا جو دراصل رام جنم بھومی تھی ۔ اتنی بڑی خبر پر بھی دیہاتوں میں کوئی ردِّ عمل نہیں ہوا ۔ پھر خبریں آنےلگیں کہ ملک کےبہت سےحصوں میں اس ردِّ عمل میں فسادات ہورہےہیں ۔ بمبئی میں خاص طور پر اس کا بہت زیادہ ردِّ عمل ہوا ہے۔اس سےزیادہ وہ لوگ اور نہیں جان سکی۔
ان دنوں بھی ماما معمول کےمطابق آتا تھا ۔ صرف کچھ لوگ اس سےان معاملوں پر بحث کرتےتھے۔ ماما کو جو معلوم ہوتا ماما اپنی معلومات کےمطابق انہیں مطمئن کرنےکی کوشش کرتا ۔ اس دن معمول کےمطابق ماما گاو¿ں آیا تھا ۔ اور گاو¿ں سےانڈےاور مرغیاں خرید کر دوسرےگاو¿ں کی طرف جارہا تھا ۔ اچانک ایک لڑکےنےآکر گاو¿ں میں خبر دی ۔
” وشنو پراڈکر ‘ بھاسکر پاٹل ‘ کشن جادھو ‘ اتل جاڑیہ نےگاو¿ں کےباہر ماما کو گھیر لیا ہے۔ ان کےہاتھوں میں ہتھیار ہیں ۔ ایک کےہاتھ میں تلوار ہے۔ وہ جےشری رام ‘ جےبھوانی اور جےشیواجی کےنعرےلگاتےہوئےماما پر حملہ کررہےہیں اور ماما اپنےبچاو¿ کی کوشش کررہا تھا ۔
یہ سننا تھا کہ تقریباً سو کےقریب افراد ماما کی مدد کےلئےبھاگےتھے۔ انہوں نےجاکر نہ صرف ماما کو بچایا تھا بلکہ ان لوگوں کو ہتھیاروں کےساتھ پکڑ بھی لیا تھا ۔ ماما سخت زخمی تھا ۔
فوراً ماما کو اسپتال لےجایا گیا ۔ اور ان لوگوں کو پولس اسٹیشن ۔
” ان لوگوں نےان ہتھیاروں کےساتھ عبدالغنی فضل الرحمن عرف ماما پر قاتلانہ حملہ کیا تھا ۔ ہم سب اس کےگواہ ہیں انہیں فوراً گرفتار کرکےان کےخلاف سخت سےسخت کاروائی کی جائے۔ “ دس بارہ لوگوں نےپولس اسٹیشن میں گواہیاں دیں تھیں ۔
ان سب کو حراست میں لےلیا گیا ۔ پولس کو خبر دار کیا گیا تھا کہ اگر ان لوگوں کےساتھ نرمی سےپیش آیا گیا یا ان کو رہا کردیا گیا تو اس کےخلاف تحریک چلائی جائےگی ۔ حملہ آوروں کےحق میں بولنےکےلئےان لوگوں کی پارٹی کےلوگ ہی آئےتھےلیکن ان کےخلاف بولنےکےلئےچاروں طرف سےلوگ آئےتھے۔ حملہ آوروں کو پولس کےحوالےکرنےکےبعد مجمع اسپتال میں اکٹھا جہاںماما کا علاج کیا جارہا تھا ۔
ماما کو درکار خون دینےکےلئےقطاریں لگی ہوئی تھیں ۔ چاروں طرف سےاسپتال کےڈاکٹروں اور نرسوں پر دباو¿ ڈالا جارہا تھا کہ وہ ماما کا اچھی طرح علاج کریں ۔ اس کےعلاج میں کوئی کوتاہی نہیں ہونی چاہیئے۔ اگر ان سےاس کا علاج نہیں ہوسکتا تو وہ کہہ دیں ہم لوگ ماما کےضلع کےسرکاری اسپتال لےجائیں گے۔ یا بڑےسےبڑےنجی اسپتال لےجائیں گے۔ لیکن ڈاکٹروں کےذریعہ ان لوگوں کو اطمینان دلایا جا چکا تھا کہ ماما کا علاج یہاں پر ہی ہوجائےگا ۔ فکر کرنےکی اور گھبرانےکی کوئی بات نہیں ہے۔
ماما کو آپریشن تھیٹر سےلاکر وارڈ میں رکھ دیا گیا ۔ وہ بےہوش تھا ۔ اس کےچاروں طرف بھیڑ تھی ۔ ڈاکٹر وغیرہ لوگوں کو ماما کےپاس سےہٹ جانےکےلئےاور وارڈ سےباہر جانےکےلئےبار بار اپیل کر رہےتھےلیکن سب ماما کو دیکھنا چاہتےتھے۔
دو گھنٹےبعد ماما نےآنکھ کھولی ۔ اپنےچاروں طرف دیکھا ۔ اپنےاطراف کھڑےچہروں کو پہچانا ۔ ایک شناسا سی مسکراہٹ اس کےچہرےپر ابھری ۔ اور وہ نحیف آواز میں بولا ۔
” میں بالکل ٹھیک ہوں ۔ ان لوگوں کو پولس کےحوالےنہ کرنا ۔ وہ نادان ہیں انہیں نہیں معلوم وہ کیا کررہےہیں ۔ “ سب چپ چاپ ماما کو دیکھ رہےتھے۔ ان کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ پلنگ پر ماما لیٹا ہےیا کوئی دیوتا ۔
ll
رابطہ
ایم مبین
303 کلاسک پلازہ
تین بتی
بھیونڈی 421 302
ضلع تھانہ
انڈیا
Devta
By M.Mubin
ڈاکٹر کےآپریشن روم سےنکلتےہی چاروں طرف سےلوگوں نےاسےگھیرلیا۔
” ڈاکٹر صاحب ! ماما کی حالت اب کیسی ہے؟ “ وشواس گائیکواڑ نےپوچھا۔
” ڈاکٹر صاحب ! ماما کی زندگی کو تو اب کوئی خطرہ نہیں ہے؟ “ ارون شندےنےپوچھا ۔
” ڈاکٹر صاحب ماما جلدی اچھےہوجائیں گےناں؟ جلدی بتائیےمیرا دل بہت گھبرا رہا ہی۔ “ شنکر پاٹل نےبےچینی سےپوچھا ۔
” ڈاکٹر صاحب ! ماما یہاں پر اچھےہوجائیں گےنا؟ “ گوپی ناتھ مہسکر نےپوچھا ۔ ” انہیں کہیں اور لےجانےکی تو ضرورت نہیں آئےگی ؟ اگر ضرورت ہو تو بتا دیجئےہم نےانہیں کہیں اور لےجانےکےانتظامات بھی کرلئےہیں ۔ “
” ڈاکٹر صاحب ! باہر سےاگر دوائیں منگوانےکی ضرورت پڑی تو بےجھجھک کہہ دیجئے۔ ماما کےلئےہم مہنگی سےمہنگی دوائیں لانےکےلئےتیار ہیں ۔ “ پرکاش جادھو بولا ۔
ڈاکٹر گھبرا گیا ۔ اسےاس وقت کم سےکم بیس پچیس لوگوں نےگھیر رکھا تھا اور اسےمعلوم تھا اس وقت اسپتال کےکمپاو¿نڈ میں کم سےکم سو سوا سو لوگ ماما کی طبیعت کےبارےمیں جاننےکےلئےبےچین ہیں ۔
وہ لوگ قرب جوار کےدیہاتوں سےآئےہوئےتھے۔ کوئی نگر سول سےآیا تھا تو کوئی اندر سول سےکوئی لہیت سے، کوئی کسٹمری سےتو کوئی راجہ پور سے۔ ان میں سےبہت سےلوگ ایک دوسرےسےشناسا تھےتو بہت سےلوگ ایک دوسرےسےپہلی بارمل رہےتھے۔
وہ تمام افراد صرف ایک ہی مقصد کےلےجمع ہوئےتھے۔ وہ سب ماما کی حالت کےبارےمیں پتہ لگانےوہاں آئےتھےاور اسی کےلئےبےچین تھے۔ ان میں بہت سےلوگ ایسےتھےجنہوں نےماما کو لاکر اس اسپتال میں داخل کیا تھا ۔
جیسےجیسےماما پر قاتلانہ حملےکی خبر پھیل رہی تھی اور یہ معلوم ہورہا تھا ماما کو علاج کےلئےشہر کےاسپتال میں داخل کیا گیا ہے‘ لوگ جوق در جوق ماما کو دیکھنےکےلئےآرہےتھے۔
جب وہ لوگ زخمی ماما کو لےکر سرکاری اسپتال جارہےتھےتو راستہ میں جو بھی ملتا وہاں جیسےہی یہ خبر ملتی کہ ماما پر قاتلانہ حملہ ہوا ہےاور وہ بری طرح زخمی ہوئےہیں اور انہیں اسپتال لےجایا جارہا ہے۔ اس گاو¿ں سےکئی لوگ آکر ان کےساتھ ہوجاتےجو ماما کو اسپتال لےجارہےتھے۔
جس وقت ماما کو اسپتال میں داخل کیا گیا اس وقت پچاس کےقریب افراد اسپتال میں جمع تھے۔ پھر جیسےجیسےیہ خبر اطراف کےدیہاتوں میں پھیلتی گئی چاروں طرف سےلوگ ماما کی حالت کا پتہ لگانےاور اسےدیکھنےکےلےاسپتال میں آنےلگے۔
جس وقت ماما کو اسپتال میں داخل کیا گیا ماما بےہوش تھا ۔ اس کےسارےکپڑےخون میں لت پت تھے۔ جو لوگ ماما کو سہارا دےکر لائےتھےان کےکپڑوں پر بھی جگہ جگہ خون لگا ہوا تھا ۔
ڈاکٹر نےماما کےزخم کا معائنہ کیا ۔ زخم پشت پر تھا ۔ پورےڈیڑھ فٹ لمبا زخم تھا اور تقریباً ایک انچ گہرا ۔ کہیں کہیں تو گہرائی دو انچ بھی ہوگئی تھی ۔ کہیں کہیں ہڈی دکھائی دےرہی تھی ۔ تلوار کا وار تھا ۔ اس لئےایک دو جگہ کی ہڈی بھی متاثر ہوئی تھی ۔ ڈاکٹر نےفوراً ماما کو آپریشن وارڈ میں لےجانےکےلئےکہا ۔
” زخم بہت بڑا اور گہرا ہےٹانکےلگانےپریں گے۔ اس کےعلاوہ خون بہت بہہ گیا ہے۔ خون دینےکی بھی ضرورت پڑےگی ۔ “
” ڈاکٹر صاحب ! میرا خون لےلیجئے۔ “
” ڈاکٹر صاحب ! میرا خون لےلیجئے۔ “ تین چار آوازیں ایک ساتھ ابھریں ۔
” ٹھیک ہےہم پہلےخون ٹسٹ کرتےہیں ۔ اس کےبعد جس کےخون کی ضرورت محسوس ہوئی اس کا خون لےلیں گے۔ “
لوگوں کا اور ماما کا خون ٹسٹ کیا گیا ۔ ٠١ ۔ ٢١ افراد کا خون ماما کےخون سےمیل کھاتا تھا ۔
جےدیو پاٹل ‘ مانک شندے‘ انّا پوار اور وکرم کھیرنار کےجسم سےایک ایک بوتل خون نکالا گیا ۔
دو بوتل خون چڑھانےکےبعد ماما کےجسم میں ہلکی سی حرکت ہوئی ۔ ڈاکٹر اور نرسوں کےچہروں پر خوشی کی لہر دوڑ گئی ۔
” جو خون بہہ گیا تھا اس خون نےاس کی کمی پوری کردی ہے۔ مریض کو بہت جلد ہوش آجائےگا ۔ اسےجنرل وارڈ میں شفٹ کردیا جائے۔ “ ڈاکٹر نےنرسوں سےکہا اور وارڈ سےباہر نکلا تو لوگوں نےاسےگھیر لیا ۔
” دیکھئے! میں نےماما کا زخم سی دیا ہے۔ دو بوتل خون بھی چڑھایا جا چکا ہے۔ ضرورت پڑی تو اور دو بوتل خون چڑھادیا جائےگا ۔ اب ماما خطرےسےباہر ہیں ۔ گھبرانےکی کوئی بات نہیں ۔ ایک دو گھنٹےمیں شاید اسےہوش آجائےگا ۔ لیکن ہوش میں آنےکےفوراً بعد آرام کی غرض سےہم اسےنیند کا انجکشن دےکر سلادیں گے۔ آپ لوگ مریض کےکمرےمیں یا اس کےپلنگ کےپاس بھیڑ نہ لگائیں ۔ مریض کو دیکھنےکےلئےہم ہیں ۔ فکر کرنےکی کوئی ضرورت نہیں ۔ آپ ماما کو دیکھ کر اپنےاپنےگھر چلےجائیے۔
ڈاکٹر اتنا کہہ کر آگےبڑھ گیا اور لوگ ماما کےباہر آنےکا انتظار کرنےلگے۔ کچھ لوگوں نےماما ےرشتےداروں کو گھیر لیا ۔
” بھابی ! ہم نہ کہتےتھےکہ آپ بالکل مت گھبرائیے۔ ماما کو کچھ نہیں ہوگا ۔ اب تو آپ نےاپنےکانوں سےسن لیا ہےکہ ماما خطرےسےباہر ہے۔ اب یہ رونا دھونا چھوڑئیےاور اپنی حالت کو سنبھالیے۔ آپ کےرونےسےبچےبھی رونےلگتےہیں ۔ کچھ ماما کی بیوی کو سمجھانےلگےتو کچھ ماما کےبچوں کو ۔
” ارےفرت (فرحت ) کیوں رو رہا ہے؟ تیرےابا کو کچھ نہیں ہوگا ۔ وہ بالکل ٹھیک ہے۔ تھوڑی دیر میں ہم سب سےباتیں کریں گے۔ تو تو بڑا ہے‘ سمجھ دار ہےتُو روئےگا تو پھر تیری ماں ‘ بھائی ‘ بہنوں اور تیرےدادا دادی کو کون سمجھائےگا ۔ تُو خود کو سنبھال ۔ کسی طرح کی کوئی فکر نہ کر ہم تیرےساتھ ہیں ۔ “
کچھ ماما کےوالدین کو سمجھانےلگے۔
” سب کچھ ٹھیک ہوجائےگا ۔ ماما کو کچھ نہیں ہوگا ۔ ان کی جان بچانےکےلئےہم اپنی جان کی بازی لگا دیں گے۔ “
” میرےمعصوم بچےکو مار کر ان لوگوں کو کیا ملا ۔ “ ان کی باتیں سن کر ماما کےوالد بولے۔ ” وہ تو کسی کی چھیڑ چھاڑ میں نہیں رہتا تھا ۔ سویرےبھوکا پیاسہ گھر سےنکل کر دیہات ‘ دیہات کی خاک چھان کر اپنےبال بچوں اور ہمارےلئےدو وقت کی روٹی کا بندوبست کرتا تھا ۔ اس کو مار کر انہیں کیا ملا ۔ وہ تو نہ کوئی مذہبی رہنما تھا اور نہ ہی کوئی سیاسی لیڈر تھا پھر انہوں نےمیرےبچےکی جان لینےکی کوشش کیوں کی ؟ “
” ابا ! کچھ لوگ سر پھرےہوتےہیں اور اس دیوانگی کےلئےوہ انسانی قدروں اور رشتوں کو بھول جاتےہیں ان پر تو صرف اپنےمسلک کےافکار کا جنون طاری رہتا ہے۔ جن لوگوں نےماما پر حملہ کیا وہ لوگ بھی اسی گروہ سےوابستہ تھے۔ “ سب ماما کےوالد کو سمجھانےلگے۔
کسی نےبھی سوچا نہیں تھا کہ آج جب ماما ان کےگاو¿ں سےجائےگا تو اس پر اس طرح کا جان لیوا حملہ ہوگا اور اس کی جان لینےکی کوشش کی جائےگی ۔ آج بھی وہ معمول کےمطابق گاو¿ں آیا تھا ۔ جس طرح گذشتہ سالوں سےآرہا تھا ۔
اپنی سائیکل پر آگےبڑا سا پٹارا لٹکائےہر کسی کو سلام کرتا ان سےان کی خیریت دریافت کرتا اپنےمخصوص ٹھکانوں پر گیا تھا ۔ اسےپورےتعلقہ کےدیہاتوں میں کس کس گھر میں مرغیاں ہیں اس بات کا پتہ تھا ۔ اس نےروزانہ چند مخصوص دیہاتوں کا نشانہ باندھ لیا تطا ۔ وہ اس دن ان مخصوص دیہاتوں کےان گھروں اور کھیتوں میں جاتا تھا جہاں مرغیاں تھیں ۔ اس گھر کےمالکان بھی اس دن ماما کا انتظار کرتےتھے۔
ہفتہ بھر ان کی مرغیاں جو انڈےدیتی تھیں وہ انڈےوہ جمع کرتےتھےاور ماما کو فروخت کردیتےتھے۔ دن بھر ماما ان دیہاتوں سےانڈےجمع کرتا اور شام کو شہر آکر مرغی انڈےکےاس بیوپاری کو فروخت کردیتا تھا جو ان انڈوں کو ممبئی جیسےبڑےشہروں میں فروخت کرتا تھا ۔
گرمی کےدنوں میں انڈےگرمی سےجلد خراب ہوجاتےہیں ۔ گرمی کےدنوں میں وہ اپنےمخصوص دیہاتوں میں ہفتہ میں دوبار جاتا تھا ۔ تاکہ انڈےخراب نہ ہوں ۔ اپنی ٹوٹی پھوٹی پرانی سائیکل پر وہ روزانہ تیس چالیس کلومیٹر کا سفر طےکرتا تھا ۔
اس سےدیہات کا بچہ بچہ واقف تھا تو وہ بھی ہر گاو¿ں کےہر فرد کو جانتا تھا اور ان لوگوں کےگھروں کےحالات بھی جانتا تھا ۔ کبھی کبھی تو اسےان لوگوں کےگھریلو جھگڑوں میں منصف کا فرض بھی ادا کرنا پرتا تھا ۔ اس نےدیہاتوںکےسینکڑوں جھگڑےنپٹائےتھے۔ اس کےمنصفانہ فیصلوں پر کسی کو کوئی اعتراض نہیں ہوتا تھا ۔ ہر کوئی بڑےاحترام سےان فیصلوں کو قبول کرلیتا تھا ۔ نہ صرف تضادات بلکہ شادی بیاہ کےمعاملوں میں بھی ماما نمایاں کردار ادا کرتا تھا ۔
اگر کسی کےگھر تعلقہ میں کہیں سےرشتہ آتا تو وہ ماما سےاس گھر کےبارےمیں ضرور پوچھتا جہاں سےرشتہ آیا ہے۔ یا اس گھر اور لڑکےکےبارےمیں معلومات نکالنےکی ذمہ داری ماما پر ڈال دیتا تھا ۔
ماما اپنی ذمہ داری کو بڑی خوش اسلوبی سےنبھاتا تھا ۔ اور اتنی معلومات بہم پہنچا دیتا تھا کہ رشتےکےسلسلےمیں فیصلہ کرنےمیں اس شخص کو کوئی دقت پیش نہیںآتی تھی۔ کبھی کبھی اس شخص کا فیصلہ منفی ہوتا اور ماما کو محسوس ہوتا کہ وہ شخص فیصلہ لینےمیں کہیں غلطی کررہا ہےتو ماما اس کو ٹوک کر اپنا فیصلہ بتا دیتا تھا اور پھر وہی ہوتا تھا جو ماما کا فیصلہ ہوتا تھا ۔
کئی بڑےگھرانےاپنی لڑکیوں کےرشتہ کی ذمہ داری ماما پر ڈالتےتھے۔ اور ماما اس طرح ذمہ داری نبھاتےہوئےگذشتہ ٥٢ ٠٣ سالوں میں ہزاروں شادیاں کروا چکا تھا ۔
دیہاتوں کی ہر شادی بیاہ میں ماما کر شرکت لازمی تھی ۔ لڑکےکی شادی ہو یا لڑکی کی ۔ ماما کو وہی عزت دی جاتی تھی جو لڑکےکےباپ کو دی جاتی تھی ۔ ہر شادی میں ماما کو ایک اپرنا (ایک طرح کا رومال ) ضرور دیا جاتا تھا ۔ دیوالی دسہرہ یا ہولی پر ہر گھر میں ماما کو حاضری دینی پڑتی تھی ۔ جس گھر وہ کسی مجبوری کی وجہ سےنہیں جا پاتا تھا اس گھر کےمکین کو اس سےشکایت ہوتی تھی بلکہ ماما کا حصہ ہفتوں تک سنبھال کر رکھا جاتا تھا ۔ بلکہ کچھ معاملوں میں تو ماما کا حصہ اس کےگھر پہنچا دیا جاتا تھا ۔
عید بقر عید شب برات کےموقع پر ماما کےگھر میں دیہاتیوں کا میلہ لگا رہتا تھا ۔ ان تیوہاروں کےآنےسےقبل ماما تمام دیہاتوں میں عام دعوت دےآتا تھا ۔ اور شیر خورمہ پینےاور حلوہ کھانےکےلئےلوگ جوق در جوق اس کےگھر آتےتھے۔ ہر رات دو تین دیہاتوں کا قیام ماما کےگھر کا معمول تھا ۔ وہ لوگ جو کسی کام سےشہر آتےتھےاور کسی وجہ سےان کی آخری بس چھوٹ جاتی تھی یا واپس گاو¿ں جانےکےلئےان کےپاس کوئی ذریعہ نہیں ہوتا تھا ۔ وہ ماما کےگھر چلےجاتےتھے۔ ماما کےگھر میں ایک خاص کمرہ مہمان خانہ تھا ۔ وہاں اس طرح کےلوگوں کےلئےسونےکا خاص انتظام رہتا تھا ۔ رات کو وہ ماما کےمہمان خانےمیں آرام کرتےاور سویرےچائےاور ہلکا ناشتہ کرکےواپس اپنےگھر چلےجاتےتھے۔
ماما نےجب اپنی بڑی بیٹی کی شادی کی تھی تو اس کےگھر شادی میں ان دیہاتیوں کی بھیڑ سب سےزیادہ تھی ۔ ماما نےان کےلئےکھانےکا الگ انتظام کیا تھا ۔ وہ لوگ اپنےساتھ اتنےتحائف لائےتھےکہ بیٹی کےجہیز میں ایک ایک چیز دو دو تین تین دینےکےبعد بھی بہت سی بچ گئی تھی ۔
کسی ہفتہ ماما اگر گاو¿ں نہیں آتا تو سارےگاو¿ں میں ہلچل مچ جاتی تھی ۔ ” ماما اس ہفتہ نہیں آیا ‘ کیا بات ہے؟ جاکر پتہ لگانا ۔ “
جو بھی اس گاو¿ں سےدوسرےدن شہر جانےوالا ہوتا تھا اس کو یہ ذمہ داری سونپی جاتی تھی اور وہ واپس آکر سارےگاو¿ں کو اس بارےمیں بتاتا تھا ۔
” ماما بیمار ہے۔ “
” ماما ایک رشتہ دار کی شادی میں دوسرےشہر گیا ہے۔ “
دینداری ماما میں کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی ۔ جس جگہ نماز کا وقت ہوجاتا کہیں سےپانی مانگ کر وضو بناکر وہیں نماز کےلئےکھڑا ہوجاتا تھا ۔ بلکہ کچھ مخصوص گھروں کےلوگوں نےتو ماما کی نماز کےلئےانتظامات بھی کررکھےتھے۔
وہ دیہات جہاں مسجدیں تھیں یا مسلمان تھے۔ ان دیہاتوں کی مسجدوں میں اگر پیش امام نہیں ہوتا تھا تو عصر اور ظہر کی نمازیں ماما کی پیش امامی میں ہی ادا کی جاتی تھیں ۔ دیہاتوں میں اگر کسی مسلمان کی موت ہوجاتی تو اس کی میت کو غسل دینے‘ کفنانےاور نماز جنازہ ادا کرکےدفنانےکا کام بھی ماما انجام دیتا تھا ۔
دیہاتیوں کےاپنےاپنےکام ہوتےہیں ۔ خالی وقت میں بھی گفتگو کےاپنےموضوعات ہوتےہیں ۔ گھریلو معاملات ‘ کھیتی کےمعاملات ‘ بینک ‘ قرض کی جھنجھٹ کےقصے‘ گرام پنچایت ‘ ضلع پریشد اور پنچایت سمیتی کےالیکشن وغیرہ پر بحثیں ۔ عام دنوں میں کیا ہورہا تھا دیہاتوں کےچند لوگوں کو ہی معلوم رہتا ہے۔ وہ بھی صرف ان دیہاتوں میں جہاں اکا دکّہ اخبارا ت پہونچ جاتےتھے۔ یا جن لوگوں کےپاس ٹی وی اور ریڈیو تھا وہ خبریں سن کر اس بارےمیں دوسرےلوگوں کو بتا دیتےتھی۔ ان دنوں پتہ چلا کہ مسلمانوں کی کسی بڑی مسجد کو شہید کردیا گیا جو دراصل رام جنم بھومی تھی ۔ اتنی بڑی خبر پر بھی دیہاتوں میں کوئی ردِّ عمل نہیں ہوا ۔ پھر خبریں آنےلگیں کہ ملک کےبہت سےحصوں میں اس ردِّ عمل میں فسادات ہورہےہیں ۔ بمبئی میں خاص طور پر اس کا بہت زیادہ ردِّ عمل ہوا ہے۔اس سےزیادہ وہ لوگ اور نہیں جان سکی۔
ان دنوں بھی ماما معمول کےمطابق آتا تھا ۔ صرف کچھ لوگ اس سےان معاملوں پر بحث کرتےتھے۔ ماما کو جو معلوم ہوتا ماما اپنی معلومات کےمطابق انہیں مطمئن کرنےکی کوشش کرتا ۔ اس دن معمول کےمطابق ماما گاو¿ں آیا تھا ۔ اور گاو¿ں سےانڈےاور مرغیاں خرید کر دوسرےگاو¿ں کی طرف جارہا تھا ۔ اچانک ایک لڑکےنےآکر گاو¿ں میں خبر دی ۔
” وشنو پراڈکر ‘ بھاسکر پاٹل ‘ کشن جادھو ‘ اتل جاڑیہ نےگاو¿ں کےباہر ماما کو گھیر لیا ہے۔ ان کےہاتھوں میں ہتھیار ہیں ۔ ایک کےہاتھ میں تلوار ہے۔ وہ جےشری رام ‘ جےبھوانی اور جےشیواجی کےنعرےلگاتےہوئےماما پر حملہ کررہےہیں اور ماما اپنےبچاو¿ کی کوشش کررہا تھا ۔
یہ سننا تھا کہ تقریباً سو کےقریب افراد ماما کی مدد کےلئےبھاگےتھے۔ انہوں نےجاکر نہ صرف ماما کو بچایا تھا بلکہ ان لوگوں کو ہتھیاروں کےساتھ پکڑ بھی لیا تھا ۔ ماما سخت زخمی تھا ۔
فوراً ماما کو اسپتال لےجایا گیا ۔ اور ان لوگوں کو پولس اسٹیشن ۔
” ان لوگوں نےان ہتھیاروں کےساتھ عبدالغنی فضل الرحمن عرف ماما پر قاتلانہ حملہ کیا تھا ۔ ہم سب اس کےگواہ ہیں انہیں فوراً گرفتار کرکےان کےخلاف سخت سےسخت کاروائی کی جائے۔ “ دس بارہ لوگوں نےپولس اسٹیشن میں گواہیاں دیں تھیں ۔
ان سب کو حراست میں لےلیا گیا ۔ پولس کو خبر دار کیا گیا تھا کہ اگر ان لوگوں کےساتھ نرمی سےپیش آیا گیا یا ان کو رہا کردیا گیا تو اس کےخلاف تحریک چلائی جائےگی ۔ حملہ آوروں کےحق میں بولنےکےلئےان لوگوں کی پارٹی کےلوگ ہی آئےتھےلیکن ان کےخلاف بولنےکےلئےچاروں طرف سےلوگ آئےتھے۔ حملہ آوروں کو پولس کےحوالےکرنےکےبعد مجمع اسپتال میں اکٹھا جہاںماما کا علاج کیا جارہا تھا ۔
ماما کو درکار خون دینےکےلئےقطاریں لگی ہوئی تھیں ۔ چاروں طرف سےاسپتال کےڈاکٹروں اور نرسوں پر دباو¿ ڈالا جارہا تھا کہ وہ ماما کا اچھی طرح علاج کریں ۔ اس کےعلاج میں کوئی کوتاہی نہیں ہونی چاہیئے۔ اگر ان سےاس کا علاج نہیں ہوسکتا تو وہ کہہ دیں ہم لوگ ماما کےضلع کےسرکاری اسپتال لےجائیں گے۔ یا بڑےسےبڑےنجی اسپتال لےجائیں گے۔ لیکن ڈاکٹروں کےذریعہ ان لوگوں کو اطمینان دلایا جا چکا تھا کہ ماما کا علاج یہاں پر ہی ہوجائےگا ۔ فکر کرنےکی اور گھبرانےکی کوئی بات نہیں ہے۔
ماما کو آپریشن تھیٹر سےلاکر وارڈ میں رکھ دیا گیا ۔ وہ بےہوش تھا ۔ اس کےچاروں طرف بھیڑ تھی ۔ ڈاکٹر وغیرہ لوگوں کو ماما کےپاس سےہٹ جانےکےلئےاور وارڈ سےباہر جانےکےلئےبار بار اپیل کر رہےتھےلیکن سب ماما کو دیکھنا چاہتےتھے۔
دو گھنٹےبعد ماما نےآنکھ کھولی ۔ اپنےچاروں طرف دیکھا ۔ اپنےاطراف کھڑےچہروں کو پہچانا ۔ ایک شناسا سی مسکراہٹ اس کےچہرےپر ابھری ۔ اور وہ نحیف آواز میں بولا ۔
” میں بالکل ٹھیک ہوں ۔ ان لوگوں کو پولس کےحوالےنہ کرنا ۔ وہ نادان ہیں انہیں نہیں معلوم وہ کیا کررہےہیں ۔ “ سب چپ چاپ ماما کو دیکھ رہےتھے۔ ان کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ پلنگ پر ماما لیٹا ہےیا کوئی دیوتا ۔
ll
رابطہ
ایم مبین
303 کلاسک پلازہ
تین بتی
بھیونڈی 421 302
ضلع تھانہ
انڈیا