mmubin
محفلین
Urdu Short Story
Rehai
By M.Mubin
دونوں چپ چاپ پولس اسٹیشن کےکونےمیں رکھی ایک بنچ پر بیٹھےصاحب کےآنےکا انتظار کر رہےتھے۔ انہیں وہاں بیٹھےتین گھنٹےہوگئےتھے۔ دونوں میں اتنی ہمت بھی نہیں تھی کہ ایک دوسرےسےباتیں کریں ۔جب بھی دونوں ایک دوسرےکو دیکھتےاور دونوں کی نظریں ملتیں تو وہ ایک دوسرےکو مجرم تصور کرتے۔
دونوں میں سےقصور کس کا تھا وہ خود ابھی تک یہ طےنہیں کرپائےتھے۔ کبھی محسوس ہوتا وہ مجرم ہیں کبھی محسوس ہوتا جیسےایک کےگناہ کی پاداش میں دوسرےکو سزا مل رہی ہی۔ وقت گذاری کےلئےوہ اندر چل رہی سرگرمیوں کا جائزہ لیتے۔ ان کےلئےیہ جگہ بالکل اجنبی تھی ۔ دونوں کو یاد نہیں آرہا تھا کہ کبھی انہیں کسی کام سےبھی اس جگہ یا ایسی جگہ جانا پڑا تھا ۔ یا اگر کبھی جانا پڑا ہوگا تو بھی وہ مقام ایسا نہیں تھا ۔
سامنےلاک اپ تھا ۔ پانچ چھ آہنی سلاخوں والےدروازےاور ان دروازوں کےچھوٹےچھوٹےکمرے۔ ہر کمرےمیں آٹھ دس افراد بند تھے۔ کوئی سو رہا تھا تو کوئی اونگھ رہا تھا ‘ کوئی آپس میں باتیں کررہا تھا تو کوئی سلاخوں کےپیچھےسےجھانک کر کبھی انہیں تو کبھی پولس اسٹیشن میں آنےجانےوالےسپاہیوں کو دیکھ کر طنزیہ انداز میں مسکرا رہا تھا ۔
ان میں سےکچھ کےچہرےاتنےبھیانک اور کرخت تھےکہ انہیں دیکھتےہی اندازہ ہوجاتا تھا کہ ان کا تعلق جرائم پیشہ افراد سےہےیا وہ خود جرائم پیشہ ہیں ۔ لیکن کچھ چہرےبالکل ان سےملتےجلتےتھے۔ معصوم بھولےبھالے۔ سلاخوں کےپیچھےسےجھانک کر بار بار وہ انہیں دیکھ رہےتھے۔ جیسےان کےاندر تجسس جاگا ہے۔ ” تم لوگ شاید ہماری برادری سےتعلق رکھتےہو ۔ تم لوگ یہاں کیسےآن پھنسے؟ “وہ جب بھی ان چہروں کو دیکھتےتو دل میں ایک ہی خیال آتا کہ صورت شکل سےتو یہ بھولےبھالےمعصوم اور تعلیم یافتہ لوگ لگتےہیں یہکیسے اس جہنم میں آن پھنسے۔
باہر دروازےپر دو بندوق بردار پہرہ دےرہےتھے۔ لاک اپ کےپاس بھی دو سپاہی بندوق لئےکھڑےتھے۔ کونےوالی میز پر ایک وردی والا مسلسل کچھ لکھ رہا تھا ۔ کبھی کوئی سپاہی آکر اس کی میز کےسامنےوالی کرسی پر بیٹھ جاتا تو وہ اپنا کام چھوڑ کر اس سےباتیں کرنےلگتا ۔ پھر اس کےجانےکےبعد اپنےکام میں مشغول ہو جاتا تھا ۔
اس کےبازو میں ایک میز خالی پڑی تھی ۔ اس میز پر دونوں کےبریف کیس رکھےہوئےتھے۔ ان کےساتھ اور بھی لوگ ریلوےاسٹیشن سےپکڑ کر لائےگئےتھےان کا سامان بھی اسی میز پر رکھا ہوا تھا ۔ وہ لوگ بھی ان کےساتھ ہی بینچ پر بیٹھےتھےلیکن کسی میں اتنیہمت نہیں تھی کہ ایک دوسرےسےباتیں کرسکے۔ ایک دو بار ان میں سےکچھ لوگوں نےآپس میں باتیں کرنےکی کوشش کی تھی ۔ اسی وقت سامنےکھڑا سپاہی گرج اٹھا ۔
” اےخاموش ! آواز مت نکالو ‘ شور مت کرو ۔ اگر شور کیا تو لاک اپ میں ڈال دوں گا ۔ “ اس کےبعد ان لوگوں نےسرگوشی میں بھی ایک دوسرےسےباتیں کرنےکی کوشش نہیں کی تھی۔ وہ سب ایک دوسرےکےلئےاجنبی تھے۔ یا ممکن ہےایک دوسرےکےشناسا ہوں جس طرح وہ اور اشوک ایک دوسرےکےشناسا تھے۔ نا صرف شناسا بلکہ دوست تھے۔ ایک ہی آفس میں برسوں سےکام کرتےتھےاور ایک ساتھ ہی اس مصیبت میں گرفتار ہوئےتھے۔
آج جب دونوں آفس سےنکلےتھےتو دونوں نےخواب میں بھی نہیں سوچا ہوگا کہ اس طرح مصیبت میں گرفتار ہوجائیں گے۔
آفس سےنکلتےہوئےاشوک نےکہا تھا ۔ ” میرےساتھ ذرا مارکیٹ چلوگی؟ ایک چھری کا سیٹ خریدنا ہے۔ بیوی کئی دنوں سےکہہ رہی ہےلیکن مصروفیات کی وجہ سےمارکیٹ تک جانا نہیں ہورہا ہے۔ “
” چلو ! “ اس نےگھڑی دیکھتےہوئےکہا ۔ مجھےسات بجےکی تیز لوکل پکڑنی ہےاور ابھی چھ بج رہےہیں ۔ اتنی دیر میں ہم یہ کام نپٹا سکتےہیں ۔ “ وہ اشوک کےساتھ مارکیٹ چلا گیا تھا ۔
ایک دوکان سےانہوں نےچھریوں کا سیٹ خریدا تھا ۔ اس سیٹ میں مختلف سائز کی آٹھ دس چھریاں تھیں ۔ ان کی دھار بڑی تیز تھی اور دوکاندار کا دعویٰ تھا روزانہ استعمال کےبعد بھی دو سالوں تک ان کی دھار خراب نہیں ہوگی کیونکہ یہ اسٹین لیس اسٹیل کی بنی ہوئی ہیں قیمت بھی واجب تھی ۔
قیمت ادا کرکےاشوک نےسیٹ اپنی اٹیچی میں رکھا اور وہ باتیں کرتےہوئےریلوےاسٹیشن کی طرف چل دئے۔ اسٹیشن پہنچےتو سات بجنےمیں بیس منٹ باقی تھےدونوں کی مطلوبہ تیز لوکل کےآنےمیں پورےبیس منٹ باقی تھے۔
فاسٹ ٹرین کےپلیٹ فارم پر زیادہ بھیڑ نہیں تھی دھیمی گاڑیوں والےپلیٹ فارم پر زیادہ بھیڑ تھی لوگ شاید بیس منٹ تک کسی گاڑی کا انتظار کرنےکی بہ نسبت دھیمی گاڑیوں سےجانا پسند کررہےتھے۔
اچانک وہ چونک پڑے۔ پلیٹ فارم پرپولس کی پوری فورس ابھر آئی تھی ۔ اور اس نےپلیٹ فارم کےہر فرد کو اپنی جگہ ساکت کردیا تھا ۔ دو دو تین تین سپاہی آٹھ آٹھ دس دس افراد کو گھیرےمیں لےلیتےان سےپوچھ تاچھ کرکےان کےسامان اور سوٹ کیس ‘ اٹیچیوں کی تلاشی لیتےکوئی مشکوک مطلوبہ چیز نہ ملنےکی صورت میں انہیں جانےدیتےیا اگر انہیں کوئی مشکوک یا مطلوبہ چیز مل جاتی تو فوراً دو سپاہی اس شخص کو پکڑ کر پلیٹ فارم سےباہر کھڑی پولس جیپ میں بٹھا آتے۔
انہیں بھی تین سپاہیوں نےگھیر لیا تھا ۔
” کیا بات ہےحولدار صاحب ؟ “ اس نےپوچھا ۔ ” یہ تلاشیاں کس لئےلی جارہی ہیں ؟ “
” ہمیں پتہ چلا ہےکہ کچھ دہشت گرد اس وقت پلیٹ فارم سےاسلحہ لےجارہےہیں ۔ انہیں گرفتار کرنےکےلئےیہ کاروائی کی جارہی ہے۔ “ سپاہی نےجواب دیا۔
وہ کل آٹھ لوگ تھےجنہیں ان سپاہیوں نےگھیرےمیں لےرکھا تھا ان میں سےچار کی تلاشیاں ہوچکی تھیں اور انہیں چھوڑ دیا گیا تھا ۔ اب اشوک کی باری تھی ۔
جسمانی تلاشی لینےکےبعد اشوک کوبریف کیس کھولنےکےلئےکہا گیا ۔ کھولتےہی ایک دو چیزوں کو الٹ پلٹ کر دیکھنےکےبعد جیسےہی ان کی نظریں چھریوں کےسیٹ پر پڑیں وہ اچھل پڑے۔ ” باپ رےاتنی چھریاں ؟ صاب ہتھیار ملےہیں ۔ “ ایک نےآواز دےکر تھوڑی دور کھڑےانسپکٹر کو بلایا ۔
” حولدار صاحب یہ ہتھیار نہیں ہیں ۔ سبزی ترکاری کاٹنےکی چھریوں کا سیٹ ہے۔ “ اشوک نےگھبرائی ہوئی آواز میں انہیں سمجھانےکی کوشش کی ۔
” ہاں حولدار صاحب ! یہ گھریلو استعمال کی چھریوں کا سیٹ ہےہم نےابھی بازار سےخریدا ہے۔ “ اس نےبھی اشوک کی صفائی پیش کرنےکی کوشش کی ۔
” تو تُو بھی اس کےساتھ ہے‘ تُو بھی اس کا ساتھی ہے؟“ کہتےہوئےایک سپاہی نےفوراً اسےدبوچ لیا ۔ دو سپاہی تو پہلےہی اشوک کو دبوچ چکےتھے۔ ” ہم سچ کہتےہیں حولدار صاحب ! یہ ہتھیار نہیں ہیں یہ گھریلو استعمال کی چھریوں کا سیٹ ہے۔ “ اشوک نےایک بار پھر ان لوگوں کو سمجھانےکی کوشش کی ۔
” چپ بیٹھ ! “ ایک زور دار ڈنڈا اس کےسر پرپڑا ۔
” حولدار صاحب ! آپ مار کیوں رہےہیں ؟ “ اشوک نےاحتجاج کیا ۔
” ماریں نہیں تو کیا تیری پوجا کریں ۔ یہ ہتھیار ساتھ میں لئےپھرتا ہے۔ دنگا فساد کرنےکا ارادہ ہے۔ ضرور تیرا تعلق ان دہشت پسندوں سےہوگا ۔ “ ایک سپاہی بولا اور دو سپاہی اس پر ڈنڈےبرسانےلگے۔ اس نےاشوک کو بچانےکی کوشش کی تو اس پر بھی ڈنڈےپڑنے لگے۔ اس نےعافیت اسی میں سمجھی کہ وہ چپ رہے۔ دو چار ڈنڈےاس پر پڑنےکےبعد میں ہاتھ رک گیا ۔ لیکن اشوک کا برا حال تھا ۔ وہ جیسےہی کچھ کہنےکےلئےمنہ کھولتا اس پر ڈنڈےبرسنےلگتےاور مجبوراً اسےخاموش ہونا پڑتا ۔
” کیا بات ہے؟“ اس درمیان انسپکٹر وہاں پہنچ گیا جسےانہوں نےآواز دی تھی ۔
” صاب اس کےپاس ہتھیار ملےہیں ۔ “
” اسےفوراً تھانےلےجاو¿ ۔ “ انسپکٹر نےآرڈر دیا اور دوسری طرف بڑھ گیا ۔ چار سپاہیوں نےانہیں پکڑا اور گھسیٹتےہوئےپلیٹ فارم سےباہر لےجانےلگے۔ باہر ایک پولس جیپ کھڑی تھی۔ اس جیپ میں انہیں بٹھا دیا گیا اس جیپ میں اور دوچار آدمی بیٹھےتھے۔ ان سب کو چار سپاہیوں نےاپنی حفاظت میں لےرکھا تھا ۔ اسی وقت جیپ چل پڑی ۔
” آپ لوگوں کو کس الزام میں گرفتار کیا گیا ہے؟ “ جیسےہی ان لوگوں میں سےایک آدمی نےان سےپوچھنےکی کوشش کی ایک سپاہی کا فولادی مکہ اس کےچہرےپر پڑا ۔
” چپ چاپ بیٹھا رہ نہیں تو منہ توڑ دوں گا ۔ “ اس آدمی کےمنہ سےخون نکل آیا تھا وہ اپنا منہ پکڑ کر بیٹھ گیا ۔ اور منہ سےنکلتےخون کو جیب سےرومال نکال کر صاف کرنےلگا ۔
پولس اسٹیشن لاکر انہیں اس کونےکی بینچ پر بٹھا دیا گیا اور ان کا سامان اس میز پر رکھ دیا گیا جو شاید انسپکٹر کی تھی ۔ جب وہ پولس اسٹیشن پہنچےتو مسلسل لکھنےوالےنےلانےوالےسپاہیوں سےپوچھا ۔
” یہ لوگ کون ہیں ؟ انہیں کہاں سےلارہےہو ؟ “
” ریلوےاسٹیشن پر چھاپےکےدوران پکڑےگئےہیں ان کےپاس سےمشکوک چیزیں یا ہتھیار برآمد ہوئےہیں ۔ “
” پھر انہیں یہاں کیوں بٹھا رہےہو ؟ انہیں لاک اپ میں ڈال دو ۔ “
”صاحب نےکہا ہےکہ انہیں باہر بٹھا کررکھو وہ آکر ان کےبارےمیں فیصلہ کریں گی۔“بینچ پر بٹھانےسےپہلےان کی اچھی طرح تلاشی لی گئی تھی ۔ کوئی مشکوک چیز برآمد نہیں ہوئی یہی غنیمت تھا ۔ ان کی پولس اسٹیشن آمد کی تھوڑی دیر بعد دوسرا جتھا پولس اسٹیشن پہنچا ۔ وہ بھی آٹھ دس لوگ تھےشاید انہیں کسی دوسرےانسپکٹر نےپکڑا تھا اس لئےانہیں دوسرےکمرےمیں بٹھایا گیا۔ اور بھی اس طرح کےکتنےلوگ لائےگئےانہیں اندازہ نہیں تھا کیونکہ وہ صرف اس کمرےکی سرگرمیاں دیکھ پا رہےتھےجس میں وہ مقیّد تھے۔
نئےسپاہی آتےتو ان پر ایک اچٹتی نظر ڈال کر اپنےدوسرےساتھیوں سےپوچھ لیتے۔ ”یہ کہاں سےپکڑےگئےہیں ۔ جُوئےگھر سے‘ بلیو فلم دیکھتےہوئےیا طوائفوں کےاڈوں سے؟“
” ہتھیاروں کی تلاش میں ۔ آج ریلوےاسٹیشن پر چھاپا مارا تھا ۔ وہاں پر پکڑےگئےہیں ۔ “
” کیا کچھ برآمد ہوا ؟ “
” خاطر خواہ تو کچھ بھی برآمد نہیں ہوسکا ۔ تلاش جاری ہے۔صاب ابھی نہیں آئےہیں ۔ آئیں تو پتہ چلےگا کہ خبر صحیح تھی یا غلط اور اس چھاپےسےکچھ حاصل ہوا ہےیا نہیں ؟ “
جیسےجیسےوقت گذر رہا تھا اس کےدل کی دھڑکنیں بڑھتی جارہی تھیں ۔ اشوک کی حالت غیر تھی ۔ اس کےچہرےپر اس کےدل کی کیفیت ابھر رہی تھی ۔ ہر لمحہ ایسا لگتا تھا جیسےوہ ابھی چکرا کر گرجائےگا ۔ اسےاندازہ تھا جن خدشات سےوہ ڈر رہا ہےاشوک کےخدشات کچھ زیادہ ہی ہوں گی۔ اسےاس بات کا اطمینان تھا تلاشی میں اس کےپاس سےکوئی بھی مشکوک چیز برآمد نہیں ہوئی تھی۔ اس لئےنہ تو پولس اس پر کوئی الزام لگا سکتی ہےنہ اس پر ہاتھ ڈال سکتی ہے۔ لیکن مصیبت یہ تھی کہ وہ اشوک کےساتھ گرفتار ہوا ہے۔ اشوک پر جو بھی فردِ جرم عائد کی جائےگی اس میں اسےبھی برابر کا شریک قرار دیا جائےگا ۔ کبھی کبھی اسےغصہ آجاتا ۔
” آخر ہمیں کس جرم میں گرفتار کیا گیا ہے؟ کس جرم میں ہمارےساتھ عادی مجرموں سا ذلت آمیزسلوک کیا جا رہا ہےاور یہاں گھنٹوں سےبٹھا کر رکھا گیا ہےاور ہماری تذلیل کی جارہی ہے؟ ہمارےپاس سےتو ایسی کوئی مشکوک قابل اعتراض چیز برآمد نہیں ہوئی ہے۔ وہ چھریوں کا سیٹ ؟ وہ تو گھریلو استعمال کی چیزیں ہیں ۔ انہیں اپنےپاس رکھنا یا کہیں لےجانا کوئی جرم نہیں ہے۔ اشوک ان چیزوں سےکوئی قتل و غارت گری یا دنگا فساد نہیں کرنا چاہتا تھا وہ تو انہیں اپنےگھر اپنےگھریلو استعمال کےلئےلےجانا چاہتا تھا ۔ “ لیکن وہ کس سےیہ باتیں کہے‘کس کےسامنےاپنی بےگناہی کی صفائی پیش کرے۔ یہاں تو آواز بھی منہ سےنکلتی ہےتو جواب میں کبھی گالیاں ملتی ہیں تو کبھی گھونسے۔ اس مصیبت سےکس طرح نجات پائیں دونوں اپنی اپنی طور پر سوچ رہےتھےجب ان سوچوں سےگھبرا جاتےتو سرگوشی میں ایک دوسرےسےایک دو باتیں کرلیتی۔
” انور اب کیا ہوگا ؟ “
” کچھ نہیں ہوگا اشوک ! تم حوصلہ رکھو ۔ ہم نےکوئی جرم نہیں کیا ہے۔ “
” پھر ہمیں یہاں یوں کیوں بٹھاکر رکھا گیا ہے۔ ہمارےساتھ عادی مجرموں کا سلوک کیوں کیا جارہا ہے؟ “
” یہاں کےطور طریقےایسےہی ہیں ۔ ابھی ہمارا کیس کسی کےسامنےگیا بھی نہیں ہے۔ “
” میرا سالہ مقامی ایم ۔ ایل ۔ اےکا دوست ہے۔ اسےفون کرکےتمام باتیں بتادوں گا وہ ہمیں اس جہنم سےنجات دلادےگا ۔ “
” پہلی بات تو یہ لوگ ہمیں فون کرنےنہیں دیں گے۔ پھر تھوڑا حوصلہ رکھو انسپکٹر کےآنےکےبعد کیا صورت حال پیدا ہوتی ہےاس وقت اس بارےمیں سوچیں گے۔ “
” اتنی دیر ہوگئی گھر نہ پہنچنےپر بیوی متفکّر ہوگی ۔ “
” میری بھی یہی حالت ہے۔ ایک دو گھنٹےلیٹ ہوجاتا ہوں تو وہ گھبرا جاتی ہی۔ان لوگوں کا کوئی بھروسہ نہیں کچھ نہ ملنےکی صورت میں کسی بھی الزام میں پھنسا دیں گے۔ “
” ارےسب ان کا پیسہ کھانےکےلئےیہ ڈرامہ رچایا گیا ہے۔ “ بغل میں بیٹھا آدمی ان کی سرگوشیوں کی باتیں سن کر پھسپھسایا ۔ ” کڑکی لگی ہوئی ہےکسی مجرم سےہفتہ نہیں ملا ہوگا یا اس نےہفتہ دینےسےانکار کردیا ہوگا ۔ اس کےخلاف تو کچھ نہیں کرسکتےاس کی بھرپائی کرنےکےلئےہم شریفوں کو پکڑا گیا ہے۔ “
” تمہارےپاس کیا ملا ؟ “ اس نےپلٹ کر اس آدمی سےپوچھا ۔
” تیزاب کی بوتل ۔ “ وہ آدمی بولا ۔ ” اس تیزاب سےمیں اپنےبیمار باپ کےکپڑےدھوتا ہوں جو کئی مہینوں سےبستر پر ہے۔ اس کی بیماری کےجراثیم مرجائیں ان سےکسی اور کو نقصان نہ پہنچےاس کےلئےڈاکٹر نےاس کےسارےکپڑےاس ایسڈ میں دھونےکےلئےکہا ہے۔ آج ایسڈ ختم ہوگیا تھا وہ میڈیکل اسٹور سےخرید کر لےجارہا تھا ۔ مجھےکیا معلوم تھا اس مصیبت میں پڑجاو¿ں گا۔ ورنہ میں اپنےگھر کےقریب کےمیڈیکل اسٹور سےخرید لیتا ۔ “
”اے! کیا کھسر پسر چالو ہے؟“ ان کی سرگوشیاں سن کر ایک سپاہی دہاڑا تو وہ سہم کر چپ ہوگئے۔ ذہن میں پھر وسوسےسر اٹھانےلگے۔ اگر اشوک پر کوئی فردِ جرم عائد کرکےگرفتار کرلیا گیا تو اسےبھی بخشا نہیں جائےگا ۔ اشوک کی مدد کرنےوالا ساتھی اسےقرار دےکر اس پر بھی وہی فردِ جرم عائد کرنا کون سی بڑی بات ہے۔ پولس تو ان پر فردِ جرم عائد کرکےانہیں عدالت میں پیش کردےگی ۔ انہیں عدالت میں اپنی بےگناہی ثابت کرنی ہوگی ۔ اور اس بےگناہی کو ثابت کرنےمیں سالوں لگ جائیں گی۔ سالوں عدالت کچہری کےچکر ۔ اس تصور سےہی اس کو جھرجھری آگئی ۔ پھر لوگ کیا کہیں گےکس کس کو وہ اپنی بےگناہی کی داستان سنا کر اپنی صفائی پیش کریں گے۔
اگر پولس نےان پر فرد جرم عائد کی تو معاملہ صرف عدالت تک محدود نہیں رہےگا ۔ پولس ان کےبارےمیں بڑھا چڑھا کر اخبارات میں بھی ان کےجرم کی کہانی چھپوادےگی ۔ اخبار والےتو اس طرح کی کہانیوں کی تاک میں ہی رہتےہیں ۔
” دو سفید پوشوں کےکالےکارنامے۔“
” ایک آفس میں کام کرنےوالےدو کلرک دہشت گردوں کےساتھی نکلی۔“
” ایک بدنام زمانہ گینگ سےتعلق رکھنےوالےدو غنڈےگرفتار ۔ “
” فساد کرنےکےلئےہتھیار لےجاتےہوئےدو غنڈےگرفتار ۔ “
” شہر کےدو شریف باشندوں کا تعلق خطرناک دہشت پسندوں سےنکلا ۔ “ ان باتوں کو سوچ کر وہ اپنا سر پکڑ لیتا ۔ جیسےجیسےوقت گذر رہا تھا ۔ اس کی حالت غیر ہورہی تھی اور اسےان باتوں خیالوں سےنجات حاصل کرنا مشکل ہورہا تھا ۔
گیارہ بجےکےقریب انسپکٹر آیا وہ غصےمیں بھرا تھا ۔
” نالائق ، پاجی ، حرامی ، سالےکچھ بھی جھوٹی اطلاعیں دےکر ہمارا وقت خراب کرتےہیں۔ اطلاع ہےکہ دہشت گرد ریلوےاسٹیشن سےخطرناک اسلحہ لےکر جانےوالےہیں ۔ کہاں ہیں دہشت گرد ‘ کہاں ہےاسلحہ ؟ چار گھنٹےریلوےاسٹیشن پر مغز پاشی کرنی پڑی ۔ رامو یہ کون لوگ ہیں ؟ “
” انہیں ریلوےاسٹیشن پر شک میں گرفتار کیا گیا تھا ۔ “
” ایک ایک کو میرےپاس بھیجو ۔“
ایک ایک آدمی اٹھ کر انسپکٹر کےپاس جانےلگا اور سپاہی اسےبتانےلگےکہ اس شخص کو کس لئےگرفتار کیا گیا ہے۔
” اس کےپاس سےتیزاب کی بوتل ملی ہے۔ “
” صاحب ! وہ تیزاب مہلک نہیں ہے۔ اس سےمیں اپنےبیمار باپ کےکپڑےدھوتا ہوں ۔ وہ میں نےایک میڈیکل اسٹور سےخریدی تھی ۔ اس کی رسید بھی میرےپاس ہےاور جس ڈاکٹر نےیہ لکھ کر دی ہےاس ڈاکٹر کی چٹھی بھی ۔ یہ جراثیم کش تیزاب ہے۔ برف کی طرح ٹھنڈا ۔ “ وہ شخص اپنی صفائی پیش کرنےلگا ۔
” جانتےہو تیزاب لےکر لوکل میں سفر کرنا جرم ہے؟ “
” جانتا ہوں صاحب ! لیکن یہ تیزاب آگ لگانےوالا نہیں ہے۔ “
” زیادہ منہ زوری مت کرو ۔ تمہارےپاس تیزاب ملا ہے۔ ہم تمہیں تیزاب لےکر سفر کرنےکےجرم میں گرفتار کرسکتےہیں ۔ “
” اب میں کیا کہوں صاحب ! “ وہ آدمی بےبسی سےانسپکٹر کا منہ تکنےلگا ۔
” ٹھیک ہےتم جاسکتےہو لیکن آئندہ تیزاب لےکر ٹرین میں سفر نہیں کرنا۔“
” نہیں صاحب ! اب تو ایسی غلطی پھر کبھی نہیں ہوگی ۔ “ کہتا ہوا وہ آدمی اپنا سامان اٹھا کر تیزی سےپولس اسٹیشن کےباہر چلا گیا ۔
اب اشوک کی باری تھی ۔
” ہم دونوں ایک کمپنی کےسیلس ڈپارٹمنٹ میں کام کرتےہیں ۔ یہ ہمارےکارڈ ہیں ۔ کہتےاشوک نےاپنا کارڈ دکھایا میں نےیہ چھریوں کا سیٹ گھریلو استعمال کےلئےخریدا تھا اور گھر لےجارہا تھا ۔ آپ خود دیکھئےیہ گھریلو استعمال کی چھریاں ہیں ۔
” صاب ان کی دھار بہت تیز ہے۔ “درمیان میں سپاہی بول اٹھا ۔
انسپکٹر ایک ایک چھری اٹھا کر اس کی دھار پرکھنےلگا ۔
” سچ مچ ان کی دھار بہت تیز ہے۔ ان کےایک ہی وار سےکسی کی جان بھی لی جاسکتی ہے۔ “
” اس بارےمیں میں کیا کہہ سکتا ہوں صاحب ! “ اشوک بولا ۔ ” کمپنی نےاس طرح کی دھار بنائی ہے۔ کمپنی کو اتنی تیز دھار والی گھریلو استعمال کی چھریاں نہیں بنانی چاہیئے۔ “
” ٹھیک ہےتم جاسکتےہو ۔ انسپکٹر اشوک سےبولا اور اس سےمخاطب ہوا ۔
” تم ؟ “
” صاحب ! یہ اس کےساتھ تھا ۔ “
” تم بھی جاسکتےہو لیکن سنو ۔ “ اس نےاشوک کو روکا ۔ پورےشہر میں اس طرح کی تلاشیاں چل رہی ہیں ۔ یہاں سےجانےکےبعد ممکن ہےتم ان چھریوں کی وجہ سےکسی اور جگہ دھر لئےجاو¿ ۔ “
” نہیں انسپکٹر صاحب ! اب مجھ میں یہ چھریاں لےجانےکی ہمت نہیں ہے۔ میں اسےیہیں چھوڑےجاتا ہوں ۔ “ اشوک بولا تو انسپکٹر اور سپاہی کےچہرےپر فاتحانہ مسکراہٹ ابھر آئی ۔
وہ دونوں اپنےاپنیبریف کیس اٹھا کر پولس اسٹیشن کےباہر آئےتو انہیں ایسا محسوس ہوا جیسےانہیں جہنم سےرہائی کا حکم مل گیا ہے۔
ll
ایم مبین
303 کلاسک پلازہ
تین بتی
بھیونڈی 421 302
ضلع تھانہ انڈیا
فون 09372436628
Email:-mmubin123@gmail.com
webiste:-www.adabnama.tk
Rehai
By M.Mubin
دونوں چپ چاپ پولس اسٹیشن کےکونےمیں رکھی ایک بنچ پر بیٹھےصاحب کےآنےکا انتظار کر رہےتھے۔ انہیں وہاں بیٹھےتین گھنٹےہوگئےتھے۔ دونوں میں اتنی ہمت بھی نہیں تھی کہ ایک دوسرےسےباتیں کریں ۔جب بھی دونوں ایک دوسرےکو دیکھتےاور دونوں کی نظریں ملتیں تو وہ ایک دوسرےکو مجرم تصور کرتے۔
دونوں میں سےقصور کس کا تھا وہ خود ابھی تک یہ طےنہیں کرپائےتھے۔ کبھی محسوس ہوتا وہ مجرم ہیں کبھی محسوس ہوتا جیسےایک کےگناہ کی پاداش میں دوسرےکو سزا مل رہی ہی۔ وقت گذاری کےلئےوہ اندر چل رہی سرگرمیوں کا جائزہ لیتے۔ ان کےلئےیہ جگہ بالکل اجنبی تھی ۔ دونوں کو یاد نہیں آرہا تھا کہ کبھی انہیں کسی کام سےبھی اس جگہ یا ایسی جگہ جانا پڑا تھا ۔ یا اگر کبھی جانا پڑا ہوگا تو بھی وہ مقام ایسا نہیں تھا ۔
سامنےلاک اپ تھا ۔ پانچ چھ آہنی سلاخوں والےدروازےاور ان دروازوں کےچھوٹےچھوٹےکمرے۔ ہر کمرےمیں آٹھ دس افراد بند تھے۔ کوئی سو رہا تھا تو کوئی اونگھ رہا تھا ‘ کوئی آپس میں باتیں کررہا تھا تو کوئی سلاخوں کےپیچھےسےجھانک کر کبھی انہیں تو کبھی پولس اسٹیشن میں آنےجانےوالےسپاہیوں کو دیکھ کر طنزیہ انداز میں مسکرا رہا تھا ۔
ان میں سےکچھ کےچہرےاتنےبھیانک اور کرخت تھےکہ انہیں دیکھتےہی اندازہ ہوجاتا تھا کہ ان کا تعلق جرائم پیشہ افراد سےہےیا وہ خود جرائم پیشہ ہیں ۔ لیکن کچھ چہرےبالکل ان سےملتےجلتےتھے۔ معصوم بھولےبھالے۔ سلاخوں کےپیچھےسےجھانک کر بار بار وہ انہیں دیکھ رہےتھے۔ جیسےان کےاندر تجسس جاگا ہے۔ ” تم لوگ شاید ہماری برادری سےتعلق رکھتےہو ۔ تم لوگ یہاں کیسےآن پھنسے؟ “وہ جب بھی ان چہروں کو دیکھتےتو دل میں ایک ہی خیال آتا کہ صورت شکل سےتو یہ بھولےبھالےمعصوم اور تعلیم یافتہ لوگ لگتےہیں یہکیسے اس جہنم میں آن پھنسے۔
باہر دروازےپر دو بندوق بردار پہرہ دےرہےتھے۔ لاک اپ کےپاس بھی دو سپاہی بندوق لئےکھڑےتھے۔ کونےوالی میز پر ایک وردی والا مسلسل کچھ لکھ رہا تھا ۔ کبھی کوئی سپاہی آکر اس کی میز کےسامنےوالی کرسی پر بیٹھ جاتا تو وہ اپنا کام چھوڑ کر اس سےباتیں کرنےلگتا ۔ پھر اس کےجانےکےبعد اپنےکام میں مشغول ہو جاتا تھا ۔
اس کےبازو میں ایک میز خالی پڑی تھی ۔ اس میز پر دونوں کےبریف کیس رکھےہوئےتھے۔ ان کےساتھ اور بھی لوگ ریلوےاسٹیشن سےپکڑ کر لائےگئےتھےان کا سامان بھی اسی میز پر رکھا ہوا تھا ۔ وہ لوگ بھی ان کےساتھ ہی بینچ پر بیٹھےتھےلیکن کسی میں اتنیہمت نہیں تھی کہ ایک دوسرےسےباتیں کرسکے۔ ایک دو بار ان میں سےکچھ لوگوں نےآپس میں باتیں کرنےکی کوشش کی تھی ۔ اسی وقت سامنےکھڑا سپاہی گرج اٹھا ۔
” اےخاموش ! آواز مت نکالو ‘ شور مت کرو ۔ اگر شور کیا تو لاک اپ میں ڈال دوں گا ۔ “ اس کےبعد ان لوگوں نےسرگوشی میں بھی ایک دوسرےسےباتیں کرنےکی کوشش نہیں کی تھی۔ وہ سب ایک دوسرےکےلئےاجنبی تھے۔ یا ممکن ہےایک دوسرےکےشناسا ہوں جس طرح وہ اور اشوک ایک دوسرےکےشناسا تھے۔ نا صرف شناسا بلکہ دوست تھے۔ ایک ہی آفس میں برسوں سےکام کرتےتھےاور ایک ساتھ ہی اس مصیبت میں گرفتار ہوئےتھے۔
آج جب دونوں آفس سےنکلےتھےتو دونوں نےخواب میں بھی نہیں سوچا ہوگا کہ اس طرح مصیبت میں گرفتار ہوجائیں گے۔
آفس سےنکلتےہوئےاشوک نےکہا تھا ۔ ” میرےساتھ ذرا مارکیٹ چلوگی؟ ایک چھری کا سیٹ خریدنا ہے۔ بیوی کئی دنوں سےکہہ رہی ہےلیکن مصروفیات کی وجہ سےمارکیٹ تک جانا نہیں ہورہا ہے۔ “
” چلو ! “ اس نےگھڑی دیکھتےہوئےکہا ۔ مجھےسات بجےکی تیز لوکل پکڑنی ہےاور ابھی چھ بج رہےہیں ۔ اتنی دیر میں ہم یہ کام نپٹا سکتےہیں ۔ “ وہ اشوک کےساتھ مارکیٹ چلا گیا تھا ۔
ایک دوکان سےانہوں نےچھریوں کا سیٹ خریدا تھا ۔ اس سیٹ میں مختلف سائز کی آٹھ دس چھریاں تھیں ۔ ان کی دھار بڑی تیز تھی اور دوکاندار کا دعویٰ تھا روزانہ استعمال کےبعد بھی دو سالوں تک ان کی دھار خراب نہیں ہوگی کیونکہ یہ اسٹین لیس اسٹیل کی بنی ہوئی ہیں قیمت بھی واجب تھی ۔
قیمت ادا کرکےاشوک نےسیٹ اپنی اٹیچی میں رکھا اور وہ باتیں کرتےہوئےریلوےاسٹیشن کی طرف چل دئے۔ اسٹیشن پہنچےتو سات بجنےمیں بیس منٹ باقی تھےدونوں کی مطلوبہ تیز لوکل کےآنےمیں پورےبیس منٹ باقی تھے۔
فاسٹ ٹرین کےپلیٹ فارم پر زیادہ بھیڑ نہیں تھی دھیمی گاڑیوں والےپلیٹ فارم پر زیادہ بھیڑ تھی لوگ شاید بیس منٹ تک کسی گاڑی کا انتظار کرنےکی بہ نسبت دھیمی گاڑیوں سےجانا پسند کررہےتھے۔
اچانک وہ چونک پڑے۔ پلیٹ فارم پرپولس کی پوری فورس ابھر آئی تھی ۔ اور اس نےپلیٹ فارم کےہر فرد کو اپنی جگہ ساکت کردیا تھا ۔ دو دو تین تین سپاہی آٹھ آٹھ دس دس افراد کو گھیرےمیں لےلیتےان سےپوچھ تاچھ کرکےان کےسامان اور سوٹ کیس ‘ اٹیچیوں کی تلاشی لیتےکوئی مشکوک مطلوبہ چیز نہ ملنےکی صورت میں انہیں جانےدیتےیا اگر انہیں کوئی مشکوک یا مطلوبہ چیز مل جاتی تو فوراً دو سپاہی اس شخص کو پکڑ کر پلیٹ فارم سےباہر کھڑی پولس جیپ میں بٹھا آتے۔
انہیں بھی تین سپاہیوں نےگھیر لیا تھا ۔
” کیا بات ہےحولدار صاحب ؟ “ اس نےپوچھا ۔ ” یہ تلاشیاں کس لئےلی جارہی ہیں ؟ “
” ہمیں پتہ چلا ہےکہ کچھ دہشت گرد اس وقت پلیٹ فارم سےاسلحہ لےجارہےہیں ۔ انہیں گرفتار کرنےکےلئےیہ کاروائی کی جارہی ہے۔ “ سپاہی نےجواب دیا۔
وہ کل آٹھ لوگ تھےجنہیں ان سپاہیوں نےگھیرےمیں لےرکھا تھا ان میں سےچار کی تلاشیاں ہوچکی تھیں اور انہیں چھوڑ دیا گیا تھا ۔ اب اشوک کی باری تھی ۔
جسمانی تلاشی لینےکےبعد اشوک کوبریف کیس کھولنےکےلئےکہا گیا ۔ کھولتےہی ایک دو چیزوں کو الٹ پلٹ کر دیکھنےکےبعد جیسےہی ان کی نظریں چھریوں کےسیٹ پر پڑیں وہ اچھل پڑے۔ ” باپ رےاتنی چھریاں ؟ صاب ہتھیار ملےہیں ۔ “ ایک نےآواز دےکر تھوڑی دور کھڑےانسپکٹر کو بلایا ۔
” حولدار صاحب یہ ہتھیار نہیں ہیں ۔ سبزی ترکاری کاٹنےکی چھریوں کا سیٹ ہے۔ “ اشوک نےگھبرائی ہوئی آواز میں انہیں سمجھانےکی کوشش کی ۔
” ہاں حولدار صاحب ! یہ گھریلو استعمال کی چھریوں کا سیٹ ہےہم نےابھی بازار سےخریدا ہے۔ “ اس نےبھی اشوک کی صفائی پیش کرنےکی کوشش کی ۔
” تو تُو بھی اس کےساتھ ہے‘ تُو بھی اس کا ساتھی ہے؟“ کہتےہوئےایک سپاہی نےفوراً اسےدبوچ لیا ۔ دو سپاہی تو پہلےہی اشوک کو دبوچ چکےتھے۔ ” ہم سچ کہتےہیں حولدار صاحب ! یہ ہتھیار نہیں ہیں یہ گھریلو استعمال کی چھریوں کا سیٹ ہے۔ “ اشوک نےایک بار پھر ان لوگوں کو سمجھانےکی کوشش کی ۔
” چپ بیٹھ ! “ ایک زور دار ڈنڈا اس کےسر پرپڑا ۔
” حولدار صاحب ! آپ مار کیوں رہےہیں ؟ “ اشوک نےاحتجاج کیا ۔
” ماریں نہیں تو کیا تیری پوجا کریں ۔ یہ ہتھیار ساتھ میں لئےپھرتا ہے۔ دنگا فساد کرنےکا ارادہ ہے۔ ضرور تیرا تعلق ان دہشت پسندوں سےہوگا ۔ “ ایک سپاہی بولا اور دو سپاہی اس پر ڈنڈےبرسانےلگے۔ اس نےاشوک کو بچانےکی کوشش کی تو اس پر بھی ڈنڈےپڑنے لگے۔ اس نےعافیت اسی میں سمجھی کہ وہ چپ رہے۔ دو چار ڈنڈےاس پر پڑنےکےبعد میں ہاتھ رک گیا ۔ لیکن اشوک کا برا حال تھا ۔ وہ جیسےہی کچھ کہنےکےلئےمنہ کھولتا اس پر ڈنڈےبرسنےلگتےاور مجبوراً اسےخاموش ہونا پڑتا ۔
” کیا بات ہے؟“ اس درمیان انسپکٹر وہاں پہنچ گیا جسےانہوں نےآواز دی تھی ۔
” صاب اس کےپاس ہتھیار ملےہیں ۔ “
” اسےفوراً تھانےلےجاو¿ ۔ “ انسپکٹر نےآرڈر دیا اور دوسری طرف بڑھ گیا ۔ چار سپاہیوں نےانہیں پکڑا اور گھسیٹتےہوئےپلیٹ فارم سےباہر لےجانےلگے۔ باہر ایک پولس جیپ کھڑی تھی۔ اس جیپ میں انہیں بٹھا دیا گیا اس جیپ میں اور دوچار آدمی بیٹھےتھے۔ ان سب کو چار سپاہیوں نےاپنی حفاظت میں لےرکھا تھا ۔ اسی وقت جیپ چل پڑی ۔
” آپ لوگوں کو کس الزام میں گرفتار کیا گیا ہے؟ “ جیسےہی ان لوگوں میں سےایک آدمی نےان سےپوچھنےکی کوشش کی ایک سپاہی کا فولادی مکہ اس کےچہرےپر پڑا ۔
” چپ چاپ بیٹھا رہ نہیں تو منہ توڑ دوں گا ۔ “ اس آدمی کےمنہ سےخون نکل آیا تھا وہ اپنا منہ پکڑ کر بیٹھ گیا ۔ اور منہ سےنکلتےخون کو جیب سےرومال نکال کر صاف کرنےلگا ۔
پولس اسٹیشن لاکر انہیں اس کونےکی بینچ پر بٹھا دیا گیا اور ان کا سامان اس میز پر رکھ دیا گیا جو شاید انسپکٹر کی تھی ۔ جب وہ پولس اسٹیشن پہنچےتو مسلسل لکھنےوالےنےلانےوالےسپاہیوں سےپوچھا ۔
” یہ لوگ کون ہیں ؟ انہیں کہاں سےلارہےہو ؟ “
” ریلوےاسٹیشن پر چھاپےکےدوران پکڑےگئےہیں ان کےپاس سےمشکوک چیزیں یا ہتھیار برآمد ہوئےہیں ۔ “
” پھر انہیں یہاں کیوں بٹھا رہےہو ؟ انہیں لاک اپ میں ڈال دو ۔ “
”صاحب نےکہا ہےکہ انہیں باہر بٹھا کررکھو وہ آکر ان کےبارےمیں فیصلہ کریں گی۔“بینچ پر بٹھانےسےپہلےان کی اچھی طرح تلاشی لی گئی تھی ۔ کوئی مشکوک چیز برآمد نہیں ہوئی یہی غنیمت تھا ۔ ان کی پولس اسٹیشن آمد کی تھوڑی دیر بعد دوسرا جتھا پولس اسٹیشن پہنچا ۔ وہ بھی آٹھ دس لوگ تھےشاید انہیں کسی دوسرےانسپکٹر نےپکڑا تھا اس لئےانہیں دوسرےکمرےمیں بٹھایا گیا۔ اور بھی اس طرح کےکتنےلوگ لائےگئےانہیں اندازہ نہیں تھا کیونکہ وہ صرف اس کمرےکی سرگرمیاں دیکھ پا رہےتھےجس میں وہ مقیّد تھے۔
نئےسپاہی آتےتو ان پر ایک اچٹتی نظر ڈال کر اپنےدوسرےساتھیوں سےپوچھ لیتے۔ ”یہ کہاں سےپکڑےگئےہیں ۔ جُوئےگھر سے‘ بلیو فلم دیکھتےہوئےیا طوائفوں کےاڈوں سے؟“
” ہتھیاروں کی تلاش میں ۔ آج ریلوےاسٹیشن پر چھاپا مارا تھا ۔ وہاں پر پکڑےگئےہیں ۔ “
” کیا کچھ برآمد ہوا ؟ “
” خاطر خواہ تو کچھ بھی برآمد نہیں ہوسکا ۔ تلاش جاری ہے۔صاب ابھی نہیں آئےہیں ۔ آئیں تو پتہ چلےگا کہ خبر صحیح تھی یا غلط اور اس چھاپےسےکچھ حاصل ہوا ہےیا نہیں ؟ “
جیسےجیسےوقت گذر رہا تھا اس کےدل کی دھڑکنیں بڑھتی جارہی تھیں ۔ اشوک کی حالت غیر تھی ۔ اس کےچہرےپر اس کےدل کی کیفیت ابھر رہی تھی ۔ ہر لمحہ ایسا لگتا تھا جیسےوہ ابھی چکرا کر گرجائےگا ۔ اسےاندازہ تھا جن خدشات سےوہ ڈر رہا ہےاشوک کےخدشات کچھ زیادہ ہی ہوں گی۔ اسےاس بات کا اطمینان تھا تلاشی میں اس کےپاس سےکوئی بھی مشکوک چیز برآمد نہیں ہوئی تھی۔ اس لئےنہ تو پولس اس پر کوئی الزام لگا سکتی ہےنہ اس پر ہاتھ ڈال سکتی ہے۔ لیکن مصیبت یہ تھی کہ وہ اشوک کےساتھ گرفتار ہوا ہے۔ اشوک پر جو بھی فردِ جرم عائد کی جائےگی اس میں اسےبھی برابر کا شریک قرار دیا جائےگا ۔ کبھی کبھی اسےغصہ آجاتا ۔
” آخر ہمیں کس جرم میں گرفتار کیا گیا ہے؟ کس جرم میں ہمارےساتھ عادی مجرموں سا ذلت آمیزسلوک کیا جا رہا ہےاور یہاں گھنٹوں سےبٹھا کر رکھا گیا ہےاور ہماری تذلیل کی جارہی ہے؟ ہمارےپاس سےتو ایسی کوئی مشکوک قابل اعتراض چیز برآمد نہیں ہوئی ہے۔ وہ چھریوں کا سیٹ ؟ وہ تو گھریلو استعمال کی چیزیں ہیں ۔ انہیں اپنےپاس رکھنا یا کہیں لےجانا کوئی جرم نہیں ہے۔ اشوک ان چیزوں سےکوئی قتل و غارت گری یا دنگا فساد نہیں کرنا چاہتا تھا وہ تو انہیں اپنےگھر اپنےگھریلو استعمال کےلئےلےجانا چاہتا تھا ۔ “ لیکن وہ کس سےیہ باتیں کہے‘کس کےسامنےاپنی بےگناہی کی صفائی پیش کرے۔ یہاں تو آواز بھی منہ سےنکلتی ہےتو جواب میں کبھی گالیاں ملتی ہیں تو کبھی گھونسے۔ اس مصیبت سےکس طرح نجات پائیں دونوں اپنی اپنی طور پر سوچ رہےتھےجب ان سوچوں سےگھبرا جاتےتو سرگوشی میں ایک دوسرےسےایک دو باتیں کرلیتی۔
” انور اب کیا ہوگا ؟ “
” کچھ نہیں ہوگا اشوک ! تم حوصلہ رکھو ۔ ہم نےکوئی جرم نہیں کیا ہے۔ “
” پھر ہمیں یہاں یوں کیوں بٹھاکر رکھا گیا ہے۔ ہمارےساتھ عادی مجرموں کا سلوک کیوں کیا جارہا ہے؟ “
” یہاں کےطور طریقےایسےہی ہیں ۔ ابھی ہمارا کیس کسی کےسامنےگیا بھی نہیں ہے۔ “
” میرا سالہ مقامی ایم ۔ ایل ۔ اےکا دوست ہے۔ اسےفون کرکےتمام باتیں بتادوں گا وہ ہمیں اس جہنم سےنجات دلادےگا ۔ “
” پہلی بات تو یہ لوگ ہمیں فون کرنےنہیں دیں گے۔ پھر تھوڑا حوصلہ رکھو انسپکٹر کےآنےکےبعد کیا صورت حال پیدا ہوتی ہےاس وقت اس بارےمیں سوچیں گے۔ “
” اتنی دیر ہوگئی گھر نہ پہنچنےپر بیوی متفکّر ہوگی ۔ “
” میری بھی یہی حالت ہے۔ ایک دو گھنٹےلیٹ ہوجاتا ہوں تو وہ گھبرا جاتی ہی۔ان لوگوں کا کوئی بھروسہ نہیں کچھ نہ ملنےکی صورت میں کسی بھی الزام میں پھنسا دیں گے۔ “
” ارےسب ان کا پیسہ کھانےکےلئےیہ ڈرامہ رچایا گیا ہے۔ “ بغل میں بیٹھا آدمی ان کی سرگوشیوں کی باتیں سن کر پھسپھسایا ۔ ” کڑکی لگی ہوئی ہےکسی مجرم سےہفتہ نہیں ملا ہوگا یا اس نےہفتہ دینےسےانکار کردیا ہوگا ۔ اس کےخلاف تو کچھ نہیں کرسکتےاس کی بھرپائی کرنےکےلئےہم شریفوں کو پکڑا گیا ہے۔ “
” تمہارےپاس کیا ملا ؟ “ اس نےپلٹ کر اس آدمی سےپوچھا ۔
” تیزاب کی بوتل ۔ “ وہ آدمی بولا ۔ ” اس تیزاب سےمیں اپنےبیمار باپ کےکپڑےدھوتا ہوں جو کئی مہینوں سےبستر پر ہے۔ اس کی بیماری کےجراثیم مرجائیں ان سےکسی اور کو نقصان نہ پہنچےاس کےلئےڈاکٹر نےاس کےسارےکپڑےاس ایسڈ میں دھونےکےلئےکہا ہے۔ آج ایسڈ ختم ہوگیا تھا وہ میڈیکل اسٹور سےخرید کر لےجارہا تھا ۔ مجھےکیا معلوم تھا اس مصیبت میں پڑجاو¿ں گا۔ ورنہ میں اپنےگھر کےقریب کےمیڈیکل اسٹور سےخرید لیتا ۔ “
”اے! کیا کھسر پسر چالو ہے؟“ ان کی سرگوشیاں سن کر ایک سپاہی دہاڑا تو وہ سہم کر چپ ہوگئے۔ ذہن میں پھر وسوسےسر اٹھانےلگے۔ اگر اشوک پر کوئی فردِ جرم عائد کرکےگرفتار کرلیا گیا تو اسےبھی بخشا نہیں جائےگا ۔ اشوک کی مدد کرنےوالا ساتھی اسےقرار دےکر اس پر بھی وہی فردِ جرم عائد کرنا کون سی بڑی بات ہے۔ پولس تو ان پر فردِ جرم عائد کرکےانہیں عدالت میں پیش کردےگی ۔ انہیں عدالت میں اپنی بےگناہی ثابت کرنی ہوگی ۔ اور اس بےگناہی کو ثابت کرنےمیں سالوں لگ جائیں گی۔ سالوں عدالت کچہری کےچکر ۔ اس تصور سےہی اس کو جھرجھری آگئی ۔ پھر لوگ کیا کہیں گےکس کس کو وہ اپنی بےگناہی کی داستان سنا کر اپنی صفائی پیش کریں گے۔
اگر پولس نےان پر فرد جرم عائد کی تو معاملہ صرف عدالت تک محدود نہیں رہےگا ۔ پولس ان کےبارےمیں بڑھا چڑھا کر اخبارات میں بھی ان کےجرم کی کہانی چھپوادےگی ۔ اخبار والےتو اس طرح کی کہانیوں کی تاک میں ہی رہتےہیں ۔
” دو سفید پوشوں کےکالےکارنامے۔“
” ایک آفس میں کام کرنےوالےدو کلرک دہشت گردوں کےساتھی نکلی۔“
” ایک بدنام زمانہ گینگ سےتعلق رکھنےوالےدو غنڈےگرفتار ۔ “
” فساد کرنےکےلئےہتھیار لےجاتےہوئےدو غنڈےگرفتار ۔ “
” شہر کےدو شریف باشندوں کا تعلق خطرناک دہشت پسندوں سےنکلا ۔ “ ان باتوں کو سوچ کر وہ اپنا سر پکڑ لیتا ۔ جیسےجیسےوقت گذر رہا تھا ۔ اس کی حالت غیر ہورہی تھی اور اسےان باتوں خیالوں سےنجات حاصل کرنا مشکل ہورہا تھا ۔
گیارہ بجےکےقریب انسپکٹر آیا وہ غصےمیں بھرا تھا ۔
” نالائق ، پاجی ، حرامی ، سالےکچھ بھی جھوٹی اطلاعیں دےکر ہمارا وقت خراب کرتےہیں۔ اطلاع ہےکہ دہشت گرد ریلوےاسٹیشن سےخطرناک اسلحہ لےکر جانےوالےہیں ۔ کہاں ہیں دہشت گرد ‘ کہاں ہےاسلحہ ؟ چار گھنٹےریلوےاسٹیشن پر مغز پاشی کرنی پڑی ۔ رامو یہ کون لوگ ہیں ؟ “
” انہیں ریلوےاسٹیشن پر شک میں گرفتار کیا گیا تھا ۔ “
” ایک ایک کو میرےپاس بھیجو ۔“
ایک ایک آدمی اٹھ کر انسپکٹر کےپاس جانےلگا اور سپاہی اسےبتانےلگےکہ اس شخص کو کس لئےگرفتار کیا گیا ہے۔
” اس کےپاس سےتیزاب کی بوتل ملی ہے۔ “
” صاحب ! وہ تیزاب مہلک نہیں ہے۔ اس سےمیں اپنےبیمار باپ کےکپڑےدھوتا ہوں ۔ وہ میں نےایک میڈیکل اسٹور سےخریدی تھی ۔ اس کی رسید بھی میرےپاس ہےاور جس ڈاکٹر نےیہ لکھ کر دی ہےاس ڈاکٹر کی چٹھی بھی ۔ یہ جراثیم کش تیزاب ہے۔ برف کی طرح ٹھنڈا ۔ “ وہ شخص اپنی صفائی پیش کرنےلگا ۔
” جانتےہو تیزاب لےکر لوکل میں سفر کرنا جرم ہے؟ “
” جانتا ہوں صاحب ! لیکن یہ تیزاب آگ لگانےوالا نہیں ہے۔ “
” زیادہ منہ زوری مت کرو ۔ تمہارےپاس تیزاب ملا ہے۔ ہم تمہیں تیزاب لےکر سفر کرنےکےجرم میں گرفتار کرسکتےہیں ۔ “
” اب میں کیا کہوں صاحب ! “ وہ آدمی بےبسی سےانسپکٹر کا منہ تکنےلگا ۔
” ٹھیک ہےتم جاسکتےہو لیکن آئندہ تیزاب لےکر ٹرین میں سفر نہیں کرنا۔“
” نہیں صاحب ! اب تو ایسی غلطی پھر کبھی نہیں ہوگی ۔ “ کہتا ہوا وہ آدمی اپنا سامان اٹھا کر تیزی سےپولس اسٹیشن کےباہر چلا گیا ۔
اب اشوک کی باری تھی ۔
” ہم دونوں ایک کمپنی کےسیلس ڈپارٹمنٹ میں کام کرتےہیں ۔ یہ ہمارےکارڈ ہیں ۔ کہتےاشوک نےاپنا کارڈ دکھایا میں نےیہ چھریوں کا سیٹ گھریلو استعمال کےلئےخریدا تھا اور گھر لےجارہا تھا ۔ آپ خود دیکھئےیہ گھریلو استعمال کی چھریاں ہیں ۔
” صاب ان کی دھار بہت تیز ہے۔ “درمیان میں سپاہی بول اٹھا ۔
انسپکٹر ایک ایک چھری اٹھا کر اس کی دھار پرکھنےلگا ۔
” سچ مچ ان کی دھار بہت تیز ہے۔ ان کےایک ہی وار سےکسی کی جان بھی لی جاسکتی ہے۔ “
” اس بارےمیں میں کیا کہہ سکتا ہوں صاحب ! “ اشوک بولا ۔ ” کمپنی نےاس طرح کی دھار بنائی ہے۔ کمپنی کو اتنی تیز دھار والی گھریلو استعمال کی چھریاں نہیں بنانی چاہیئے۔ “
” ٹھیک ہےتم جاسکتےہو ۔ انسپکٹر اشوک سےبولا اور اس سےمخاطب ہوا ۔
” تم ؟ “
” صاحب ! یہ اس کےساتھ تھا ۔ “
” تم بھی جاسکتےہو لیکن سنو ۔ “ اس نےاشوک کو روکا ۔ پورےشہر میں اس طرح کی تلاشیاں چل رہی ہیں ۔ یہاں سےجانےکےبعد ممکن ہےتم ان چھریوں کی وجہ سےکسی اور جگہ دھر لئےجاو¿ ۔ “
” نہیں انسپکٹر صاحب ! اب مجھ میں یہ چھریاں لےجانےکی ہمت نہیں ہے۔ میں اسےیہیں چھوڑےجاتا ہوں ۔ “ اشوک بولا تو انسپکٹر اور سپاہی کےچہرےپر فاتحانہ مسکراہٹ ابھر آئی ۔
وہ دونوں اپنےاپنیبریف کیس اٹھا کر پولس اسٹیشن کےباہر آئےتو انہیں ایسا محسوس ہوا جیسےانہیں جہنم سےرہائی کا حکم مل گیا ہے۔
ll
ایم مبین
303 کلاسک پلازہ
تین بتی
بھیونڈی 421 302
ضلع تھانہ انڈیا
فون 09372436628
Email:-mmubin123@gmail.com
webiste:-www.adabnama.tk