نیچا سا کرتہ۔ میں نے غلہ جو مارا تو جسم کے بجائے کرتے کے دامن میں لگا۔ رک گئے۔ مڑ کر دیکھنے کی ضرورت پڑی۔ غلہ اٹھایا۔ ہاتھ میں غلہ لے کر فرماتے ہیں ادھر ادھر دیکھ کر۔ "کون ملعون ہے؟" اس تحقیقات ملعونیت کے سلسلہ میں جو مرے تو میں نے ایک غلہ پشت پر عرض دیا۔ بڑی پھرتی سے گھوم کر تڑپ کی کہا۔ "خبیث!" پہلے والا غلہ ناپسند کر کے پھینک کر دوسرا غلہ اٹھایا کہ میں نے تیسرا رسید کیا۔ جوتے کے پاس زمین پر یہ غلہ لگا۔ تڑپ کر منہ سے نکلا "مردود" اور غلہ پھینک کر لاحول پرھتے روانہ مگر اس طرح کہ سمجھ میں نہ آیا کہ چلے گئے یا بھاگ گئے۔
(7)
ایک لوندا کوئی بارہ چودا سال کا جا رہا تھا۔ غلہ جو مارا تو خالی گیا زمین پر پرا۔ فوراً غلہ اٹھا کر تڑپ کر بھاگا۔ ہاتھ کی چونچ بنا کر ہاتھ ہلاتا ہوا واہ بیٹا۔۔۔
(
ایک صاحب آئے گاتے ہوئے "۔۔۔۔۔ سکھی رے نا مانے رے جیا مورا رے" میں نے ان کے بھی پشت پر ایک غلہ عرض کیا۔ ایک دم سے گانا بند کر کے بولے "کون ہے؟" غلہ اٹھا کر دیکھا "کون بدمعاش ہے" یہ کہہ کر سامنے والے مکان کے کوٹھے کی طرف شبہ کر کے کہا "میں نے دیکھ لیا ہے۔" ہاتھ اٹھا کر بولے۔ ہوش ٹھکانے کر دوں گا۔"
"۔۔۔۔گا۔۔۔۔" کر کے اچھل پڑے کیونکہ میں نئ پشت پر ایک اور غلہ عرض کیا۔ نیچے دیکھا۔ پہلا غلہ ناپسند کر کے پھینک کر دوسرا اٹھایا۔ گالیاں دے کر لگے بلبلانے۔ مگر یہ نہ سمجھ سکے کہ مارتا کون ہے اس لیے میری خس کی ٹٹی سے ملا ہوا چھجا پڑوسی کا تھا۔ اس کا دروازہ تو بند مگر کئی کھڑکیاں قریب ہی کھلی ہوئی ۔ ہماری بھی کئی کھڑکیاں کھلی ہوئی۔ گالیاں تو دے رہے ہیں مگر یہ پتہ نہیں کہ کس کھڑکی کو' میں نے ایک اور غلہ مارا' وہ زمین پر پرا۔ پھر کیا تھا۔ گالیاں دے کر فرماتے ہیں "تیری ایسی کی تیسی مجھے کوئی وہ سمجھا ہے؟۔۔۔" یہ کہہ کر اینٹ اٹھا کر دیوار پر مارتے ہیں اور اب میں نے چلائے دو۔۔ تین۔۔ چار۔۔۔ پہلا خالی۔۔ دوسرا خالی۔ تیسرا لگا۔ چوتھا خالی۔۔ پانچواں جو لگا تو ہاتھ ڈھیلا پھینک کے جو بھاگے ہیں تو مڑ کر نہ دیکھا۔
(9)
ایک خوانچے والے صاحب نکلے صدا لگاتے۔ دال سیو وغیرہ وغیرہ مین نے خوانچہ پر غلے لگانے شروع کیے۔۔ ایک ۔۔ دو ۔۔ تین۔۔ چار۔۔ ایک بجائے خوانچے کے خود ان کو لگ گیا۔ "ارے کون ہے۔۔ یہ کون" کھڑے خوانچے لئے بغل میں مونڈھا' گھوم رہے ہیں۔ لگا جو غلہ تو خفا ہو کر