افسانہ : غُلیل

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
MirAzeem%20-%200000184.gif


MirAzeem%20-%200000185.gif


MirAzeem%20-%200000186.gif
 

مقدس

لائبریرین
غلیل

(1)

گرمی کا موسم تھا۔ دوپہر کا وقت۔ گلی بھی سنسان تھی۔ خس کی ٹٹی سبب خنکی تھی اور بجلی کا پنکھا ایک رفتار سے چل رہا تھا۔ تمام دروازے بند تھے۔

چارپائی کے برابر فرش پر میرے میزبان کا لرکا کھیلتے کھیلتے سو گیا تھا۔ پاس ہی اس کی ربڑ کی غلیل اور غلوں کی تھیلی رکھی تھی۔

میں نے غلیل کی طرف دیکھا۔ "اس سے چڑیا مر سکتی ہو گی۔" میں نے دل میں کہا۔ اس کو اٹھا کر دیکھا۔ "ایک غلہ لے کر نشانہ باندھ کر دیکھا کہ اتنے میں سڑک پر سے آواز آئی:

"گزر گیا ہے زمانہ گلے لگائے ہوئے"

خس کی ٹٹی کے بازو میں سے میں نے جھانک کر دیکھا۔ ایک جوان آدمی ایک رومال میں کچھ لٹکائے چلا جا رہا تھا گاتا ہوا۔ جی میں آیا اسے غلہ مار کر دیکھیں' قریب تو تھا ہی۔ سیدھ باندھ کر میں نے ربڑ کو خوب کھینچ کر غلہ مارا' غلہ پشت میں لگا اور گاتے گاتے وہ ایک دم سے رک گیا۔"زمانہ۔۔۔۔۔۔۔ مڑ کر اس نے اوپر دیکھا۔ ایک نظر پھر فوراً زمین پر غلے کی طرف۔ غلہ اٹھایا۔ غور سے غلے کو دیکھا اور ہاتھ میں غلہ لیے اب دیکھتے ہیں اوپر چاروں طرف' کچھ سمجھ میں نہ آیا کہ غلہ کدھر سے آیا۔ میری طرف سے کہ سامنے والے مکان کی چھت پر یا اس کے برابر والی چھت سے۔ غلہ ہاتھ میں لے کر دیکھ بھال کر چل دیا۔ گانا بند۔

(2)

منٹ بھر نہ گزرا تھا کہ ایک کتے صاحب نظر پڑے۔ جاتے جاتے رک کر بجلی کے کھمبے کو حوائج ضروریہ کے مسائل کے انعقاد کے لیے منتخب فرمایا اور مراحل طے کر رہے تھے کہ میں نے غلہ مارا۔ "پیں۔۔۔۔۔" کر کے مسئلہ مذکور کو التو میں ڈال کر پہلے غلہ سونگھا کہ میں نے ایک اور غلہ مارا۔ یہ پیر کے قریب ہی پرا۔ ایک دم سے اچھل کر بھاگ گئے۔
 

مقدس

لائبریرین
(3)

ایک گدھے صآحب آئے۔ یہ مٹھائی کا خالی دونہ نالی کے پاس نوش کرنے لگے کہ میں نے کس کر غلہ مارا۔ جس جگہ غلہ لگا تھا اس جگہ کی کھال کو قدرے جنبش سی دی اور بس۔ میں نے دوسرا غلہ مارا۔ اب جنبش بھی نہ دی میں نے فضول سمجھا۔ چلے گئے۔

(4)

دیر تک کوئی نطر نہ آیا تو میں پڑ رہا۔ پھر کوئی پندرہ منٹ بعد جو جھانکتا ہوں تو کیا دیکھتا ہوں کہ سامنے والہ نالی کے قریب نم زمین پر ایک کتےصاحب محو خواب ہیں۔ نالی کے اوپر چھوٹی سی پلیا تھی جس پر دو سیڑھیاں مکان میں جانے کے لیے تھیں اور اس کے قریب ہی کتے صاھب سوتے تھے میں نے نشانہ تاک کر ایک غلہ رسید کیا تو ان کے کان کے پاس زمین میں لگا، ہڑبڑا کر یہ اٹھ بیٹھے۔ معاملہ سمجھنے سے قاصر رہے۔ اچھی طرح سونگھا' دیکھا بھالا کچھ سمجھ میں نہ آیا۔ بیٹھ رہے کہ میں نے دوسرا غلہ مارا جو پیٹ میں لگا "میں" کر کے غلہ سونگھ کر لگے ادھر ادھر دیکھنے۔ چاروں طرف دیکھا۔ مگر پتہ نہ چلا۔ پھر بیٹھ گئے۔ تھوڑی دیر گزرنے کے بعد میں نے پھر غلہ مارا۔ تو اب کے انتقاماً بھونکے۔ مگر کس پر۔ غالباً خود جناب کو پتہ نہ تھا۔ اس کے بعد پھر گلی کی طرف شبہ کیا۔ پھر اس کے بعد خود پلیا کے اندر دشمن کا شبہ کیا اور اس کے بعد جو غلہ پڑا ہے تو یہ طے کر کے ہو نہ ہو دشمن پلیا کے نیچے ہے' لہذا قریب ہی کھرے ہو کر انہماک اور جوش کے ساتھ آگے بڑھ بڑھ کر ایسے بھونکنا شروع کیا معلوم ہو کہ پلیا ارا دیں گے اور یہ حملے شباب پر پہنچے ہیں کہ میں نے آخری غلہ جو مارا ہے تو حملے کی کاروائی ملتوی کر کے جو بھاگے ہیں تو لوٹ کر نہ دیکھا۔

(5)

ایک عورت گھونگھٹ میں منہ چھپائے جاتی تھی۔ پشت پر میں نے غلہ مارا۔ رک کر مڑی۔ بجائے اوپر کی پشت کی طرف سڑک پر مڑ کر دیکھا۔ غلہ اٹھا کر دیکھا۔ گھونگھٹ سے نشانہ سا لگایا ادھر ادھر۔ سمجھ میں نہ آیا کدھر سے غلہ آیا۔ ذرا دیر ٹھہر کر چلی جو سہی تو ایک اور۔ ایک دم مری۔ دوسرے مکان کی بند کھڑکیوں کی سمت دیکھ کر بولی "مجھے جو ابکی چھیڑا۔۔۔" بڑبڑاتی چلی گئی۔

(6)

اتنے میں کیا دیکھتا ہوں کہ ایک عدد "علمائے کرام" چلا آ رہا ہے۔' کندھے پر رومال دالے
 

مقدس

لائبریرین
نیچا سا کرتہ۔ میں نے غلہ جو مارا تو جسم کے بجائے کرتے کے دامن میں لگا۔ رک گئے۔ مڑ کر دیکھنے کی ضرورت پڑی۔ غلہ اٹھایا۔ ہاتھ میں غلہ لے کر فرماتے ہیں ادھر ادھر دیکھ کر۔ "کون ملعون ہے؟" اس تحقیقات ملعونیت کے سلسلہ میں جو مرے تو میں نے ایک غلہ پشت پر عرض دیا۔ بڑی پھرتی سے گھوم کر تڑپ کی کہا۔ "خبیث!" پہلے والا غلہ ناپسند کر کے پھینک کر دوسرا غلہ اٹھایا کہ میں نے تیسرا رسید کیا۔ جوتے کے پاس زمین پر یہ غلہ لگا۔ تڑپ کر منہ سے نکلا "مردود" اور غلہ پھینک کر لاحول پرھتے روانہ مگر اس طرح کہ سمجھ میں نہ آیا کہ چلے گئے یا بھاگ گئے۔

(7)

ایک لوندا کوئی بارہ چودا سال کا جا رہا تھا۔ غلہ جو مارا تو خالی گیا زمین پر پرا۔ فوراً غلہ اٹھا کر تڑپ کر بھاگا۔ ہاتھ کی چونچ بنا کر ہاتھ ہلاتا ہوا واہ بیٹا۔۔۔

(8)

ایک صاحب آئے گاتے ہوئے "۔۔۔۔۔ سکھی رے نا مانے رے جیا مورا رے" میں نے ان کے بھی پشت پر ایک غلہ عرض کیا۔ ایک دم سے گانا بند کر کے بولے "کون ہے؟" غلہ اٹھا کر دیکھا "کون بدمعاش ہے" یہ کہہ کر سامنے والے مکان کے کوٹھے کی طرف شبہ کر کے کہا "میں نے دیکھ لیا ہے۔" ہاتھ اٹھا کر بولے۔ ہوش ٹھکانے کر دوں گا۔"

"۔۔۔۔گا۔۔۔۔" کر کے اچھل پڑے کیونکہ میں نئ پشت پر ایک اور غلہ عرض کیا۔ نیچے دیکھا۔ پہلا غلہ ناپسند کر کے پھینک کر دوسرا اٹھایا۔ گالیاں دے کر لگے بلبلانے۔ مگر یہ نہ سمجھ سکے کہ مارتا کون ہے اس لیے میری خس کی ٹٹی سے ملا ہوا چھجا پڑوسی کا تھا۔ اس کا دروازہ تو بند مگر کئی کھڑکیاں قریب ہی کھلی ہوئی ۔ ہماری بھی کئی کھڑکیاں کھلی ہوئی۔ گالیاں تو دے رہے ہیں مگر یہ پتہ نہیں کہ کس کھڑکی کو' میں نے ایک اور غلہ مارا' وہ زمین پر پرا۔ پھر کیا تھا۔ گالیاں دے کر فرماتے ہیں "تیری ایسی کی تیسی مجھے کوئی وہ سمجھا ہے؟۔۔۔" یہ کہہ کر اینٹ اٹھا کر دیوار پر مارتے ہیں اور اب میں نے چلائے دو۔۔ تین۔۔ چار۔۔۔ پہلا خالی۔۔ دوسرا خالی۔ تیسرا لگا۔ چوتھا خالی۔۔ پانچواں جو لگا تو ہاتھ ڈھیلا پھینک کے جو بھاگے ہیں تو مڑ کر نہ دیکھا۔

(9)

ایک خوانچے والے صاحب نکلے صدا لگاتے۔ دال سیو وغیرہ وغیرہ مین نے خوانچہ پر غلے لگانے شروع کیے۔۔ ایک ۔۔ دو ۔۔ تین۔۔ چار۔۔ ایک بجائے خوانچے کے خود ان کو لگ گیا۔ "ارے کون ہے۔۔ یہ کون" کھڑے خوانچے لئے بغل میں مونڈھا' گھوم رہے ہیں۔ لگا جو غلہ تو خفا ہو کر
 

مقدس

لائبریرین
اس زور سے بھاگے ہیں کہ میں تعجب کرتا رہ گیا کہ خوانچہ لے کر بھی آدمی اتنا تیز بھاگ سکتا ہے۔

(10)

اس کے بعد پندرہ منٹ کوئی آیا ہی نہیں کہ ایک صاحب گردن جھکائے مسکین صورت بنائے چلے جا رہے تھے۔ میں نے کس کر ایک غلہ جو پشت پر دیا ہے تو بدن میں چستی آ گئی۔ غلہ اٹھا کر حسرت سے مسکین صورت بنا کر چاروں طرج دیکھا کر بولے:

"بھلا یہ بھی کوئی بات ہے۔"

سامنے والے مکان کے مکیں نہ معلوم کیا پکارے۔ جواب میں ان حضرت نے کہا: "صاحب یہ بھی کوئی بات ہے کہ راستہ چلتے غریبوں کو ستانا۔"

انہوں نے کچھ نہ سنا۔ دروازہ کھول کر بولے: "کیا کہتے ہو؟"

وہ بولے۔ "کہتے کیا ہیں۔ یہ دیکھیئے۔ " غلہ ہتھیلی پر رکھ کر دکھایا۔

اب میں بھی غلیل سے پورے فوائد اٹھانے کے لیے تیار ہو گیا تھا، میں نے سر نکال کر کہا۔ قبل اس کے کہ وہ حضرت کچھ جواب دیں۔ "صاحب ایسا نہین چاہیے۔ بچارے سیدھے آدمی ہیں۔۔۔ دیکھ بھال کے چلانا چاہیے اور جو آنکھ میں لگ جاتی تب۔۔۔"

راہ گیر صاحب بولے۔۔ "دیکھ لیجیئے آپ میں کیا تو کیا کہوں۔"

سامنے والے حضرت بولے۔"کنے مارا یہ غلہ۔"

میں نے چلا کر کہا "خوب۔"

راہ گیر صاحب بولے۔ "دیکھ لو صاحب' ایک تو غلہ مار دیا پھر۔۔۔" میں نے کہا "اب جانے دیجیئے۔ لگ گیا دھوکے سے۔۔۔" پھر سامنے والے حضرت کی طرف متوجہ ہو کر "صاحب کوئی بات بھی ہو۔ لگ ہی جاتی ہے۔ وہ بچارے کب شکایت کرتے ہیں۔ ذرا دیکھ کر چلایا کیجیئے۔"

راہ گیر۔۔ "میں نے تو کچھ بھی نہیں کہا۔۔"

سامنے والے حضرت تڑپ کر بولے۔۔ "واہ صاحب واہ۔۔ میں جانتا نہیں۔ غلیل چیز کیا ہوتی ہے' آپ غضب کرتے ہیں۔ قسم لے لیجیے مجھ سے۔۔۔"

میں نے کہا "بچارے کچھ کہتے بھی ہوں۔۔ آپ قسمیں ناحق کھاتے ہیں۔۔"
مگر توبہ کیجیے یہ حضرت قسموں سے باز نہ آئے۔۔ نتیجہ ظاہر۔۔ جس کے لگی اس نے خود کہہ دیا کہ غلہ کدھر سے آیا،، مجبوراً کہتا گیا۔۔ "بڑے افسوس کی بات ہے جو میں کچھ بھی نہیں کہتا۔ ایک
 

مقدس

لائبریرین
تو غلہ مارا پھر جھوٹ بولتے ہیں۔"

ادھر پڑوسی صاحب نے قسموں کا تانتا باندھ دیا۔ میں نے بہت سمجھایا کہ قسمیں کھانے کی ضرورت ہی نہیں ہے بس احتیاط کافی ہے آئندہ کے لیے'حتی کہ ان حضرت کو میرے چہرے کی طرف گور سے دیکھنا پڑا کہ گویا مجھے پاگل تصور کرتے ہیں۔

(11)

شام کو ٹہلنے چلا گیا۔ بعد مغرب واپس جو آیا تو کیا دیکھتا ہوں کہ صاحبزادے پٹ رہے ہیں' میں نے سفارش کی اور بچایا۔ معلوم ہو کہ آج صاحبزادے صاحب نے یہ شرارت کی ہے کہ غلیل سے راہ گیروں کی خبر لے ڈالی۔

میں نے کہا کہ بچہ ہے' کیا مضائقہ ہے، آئندہ ایسا نہیں کرے گا۔ پھر بچے کو بھی سمجھا دیا۔ میاں صاحبزادے غلیل کا شوق ہی ٹھیک نہیں ہے' اب تو شرارت نہین کرو گے۔ اس نے سر ہلا کر وعدہ کیا۔ میں نے کہا مانگو معافی' تو بیچارے نے معافی مانگ لی' اس کے بعد دیر تک بچے کو سمجھاتا رہا کہ لڑکوں کو چاہیے غلیل دیکھ بھال کر چلایا کریں۔۔


××××××××
 
Top