افسانہ : فقیر

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
MirAzeem%20-%200000186.gif
[/CENTER]
 

مقدس

لائبریرین
فقیر

(1)

ایک روز کا ذکر ہے کہ میں غسل خانے سے نہا کر برآمدہ میں جو نکلا تو کسی فقیر بے سڑک پر کھڑکی کی چلمن میں شاید پرچھائیں یا جنبش دیکھ کر صدا دی۔ "مائی تیرے بیٹا ہوئے۔۔۔" نہ تو یہاں کوئی مائی تھی اور نہ کسی کو یہ گھبراہٹ تھی کہ ایک عدد لڑکا خواہ مخواہ تولد ہوتاپھرے۔ دراصل یہ فقیر ان میں سے تھا جو مانگنا بھی نہیں جانتے۔ ذرا اس احمق سے کوئی پوچھتا کہ بیوقوف یہ کونسی عقلمندی ہے کہ کسی سوراخ میں سے بھی کوئی ہلتی چیز دیکھ پائی اور بیٹا بیٹی تقسیم کرنا شروع کر دے۔ پھر مجھے فقیروں سے بھی بغض ہے کیونکہ جب کبھی کوئی فقیر ملتا ہے اور میں اسے دیکھتا ہوں تو اسے ایسا پاتا ہوں کہ مجھ سے دو کو کافی ہو۔ چنانچہ میں نے کھڑی کی سلاخوں میں سے چق اٹھا کر اس نیت سے دیکھا کہ اس سے کیوں نہ پوچھا جائے کہ نوکری کرے گا۔

لیکن جب میں نے دیکھا تو ایک قابل رحم ہستی کو پایا۔ ایک فاقہ زدہ ضعیف العمر چیتھڑے لگائے بےکسی اور بےبسی کی زندہ تصویر تھا۔ سچ ہے ان لوگوں کو مانگنا بھی نہیں آتا۔ نہ تو یہ عمدہ گیت جانتے ہیں' نہ کوئی لے جانتے ہیں' نہ صدا جانتے ہیں۔ بس آئے اور دانت نکال دیے یہ دکھانے کو کہ دیکھو ہم بھی اس دنیا میں رہتے ہیں اور یوں رہتے ہیں۔

مجھے اس کی حالت زار دیکھ کر بڑا رحم آیا اور میں نے اس سے کہا کہ گھوم کر صدر دروازے پر آ جائے۔

صبح کا وقت تھا۔ میں تو چائے پینے لگا اور گھر والی سے کہا کہ ایک انےہا سے زیادہ قابل رحم فقیر آیا ہے' اسے دو چار پیسے دے دو' صبح کا وقت ہے' دو توس اور ایک پیالی چائے دیدو۔

جتنی مشٹنڈے فقیروں سے مجھے نفرت ہے اس سے دوگنی نفرت میری بیوی کو ہے اور اسی مناسبت سے ان فقیروں یعنی محتاجوں سے الفت ہے جو واقعی رحم و کرم کے مستحق ہیں۔

خانم نے فقیر کا نام سن کر جلدی جلدی دو گرما گرم توسوں کو انگیٹھی پر سینک کر خوب مکھن
 

مقدس

لائبریرین
لگایا اور ایک پیالی میں خوب سارا دودھ ڈال کر چائے بنا دی اور مزید برآں کچھ مٹھائی بھی رکھ دی اور سینی میں چار پیسے رکھ دیے اور لڑکے سے کہا کہ فقیر کو صدر دروازے سے اندر یعنی برآمدے میں بٹھلا کر کھلا دے۔


(2)

اب قسمت تو ہماری ملاحظہ ہو کہ وہ غرریب محتاج جسے میں نے بلایا صدر دروازے کی پشت پر تھا۔ گھوم کر آجانا اس کے لیے مشکل ہوا یا آتے میں کسی دوسرے سے مانگنے لگا یا پھر اپنی راہ کھوٹی نہ کرنا چاہتا ہو گا۔ قصہ مختصر وہ تو آیا نہیں اور اس کے بدلے پھاٹک میں ایک اور فقیر صاحب داخل ہوئے اور اپنی صدا لگانے بھی نہ پائے تھے کہ کتے نے ان کا استقبال کیا، ان کے پاس ایک موٹا سا ڈنڈا تھا، اس کے دو چار ہاتھ نہ گھمانے پائے تھے کہ لرکا ناشتہ لے کر پہنچا۔ کیا دیکھتا ہے کہ ایک فقیر صاحب گلے میں مالا ڈال۔ موٹا سا فقیرانہ ڈنڈا اور لباس۔ گلے میں جھولی' تمہد باندھے موجود ہیں۔ اس نے کتے کو ڈانٹا اور کہا سائیں جی برآمدے میں آ جاؤ۔ سائیں جی نے غنیمت سمجھا اور ناشتہ شروع کر دیا اور ادھر میں نے خانم سے کہا کہ پرانا سوئیٹر اور ایک قمیض فقیر کو اور بھیج دو۔ سردی کا وقت ہے اور غریب مر رہا ہو گا جاڑے میں۔ خانم نے جلدی سے ایک قمیض اور سوئیٹر پرانا لیا اور لڑکے کو دیا۔ میں نے لڑکے سے پوچھا کہ فقیر کیا کہتا ہے؟ لڑکے نے کہا خوب دعائیں دے رہا ہے اور کھا رہا ہے۔ لڑکا قمیض اور سوئیٹر لے کر پہنچا اور وہ بھی صاحب کی نذر کیا۔ اتنے میں میں چائے پی کر باہر پہنچا تاکہ فقیر کو گرم کپڑے پہنتے ہوئے دیکھنے سے جو خوشی حاصل ہو سکتی ہے اس سے لطف اٹھاؤں۔

(3)

میں باہر ہپنچا تو کیا دیکھتا ہوں کہ ایک ہٹا کٹا انتہا سے زیادہ مضبوط مضبوط فقیر ڈکاریں لے رہا ہے اور سوئیٹر اور قمیض ہزاروں دعاؤں کے ساتھلپیٹ کر جھولی میں رکھ رہا ہے۔ دراصل یہ مشٹنڈا صرف ایک سینہ کھلی فقیروں والی صدری پہنے ہوئے تھا اور ایسا معلوم ہوتا تھا کہ صبح کی سرد ہوا سے لطف اٹھا رہا ہے۔ سینہ بالشت بھر اونچا، داڑھی منڈی ہوئی' بلے چرھے ہوئے۔ مجھے دیکھتے ہی حضرت لگے مجھے دعائیں دینے۔

اب میں آپ سے کیا عرض کروں۔ سارا کھایا پیا خون ہو گیا۔ جان سلھ کر رہ گئی۔ جی میں تو یہی آیا کہ اس کمبخت کا منہ نوچ لوں۔ لگے حضرت دعائیں سے کر رخصت ہونے۔ دعاؤں میں مبالغہ اور غلو سے میری اور بھی جان جلی۔ اتنے میں خانم نے بھی جھانک کر دیکھا وہاں بھی یہی حال ہوا۔ اب بتائیے کیا کیا جا سکتا تھا۔ یہ ناممکن تھا کہ میں حضرت کو اس طرح ستم توڑ
 

مقدس

لائبریرین
کر چلا جانے دوں۔ میں اسی شش و پنج میں تھا کہ میرے ایک دوست آگئے۔ میں نے دو لفظوں میں فقیر کی ستم آرائی بیان کی اور پھر فقیر سے کہا:

"تمہیں شرم نہیں آتی۔۔۔"
سادہ لوح تو دیکھے کہ یہ حضرت اس ریمارک کو سن کر اپنے تہمد کی طرف متوجہ ہو کر محض میری جان حزیں پر گرم گستری کے خیال سے ذرا نیچا کر لیتے ہیں۔

"کمبخت" میں نے اور جل کر کہا "اتنے موٹے تگڑے ہو کر بھیک مانگتے ہو۔ بڑے شرم کی بات ہے۔"

اس کے جواب میں' فقیر صاحب نے اپنے پیدائشی حقوق کا اعادہ کرتے ہوئے ان سے دست برداری سے مقذوری ظاہر کی اب میں یہ سوچنے لگا کہ اس بدتمیز سے کم ازکم سوئیٹر اور قمیض ہی شھین لی جائے' میرے دوست نے کہا کہ یہ مناسب نہیں مگر وہ حضرت وہ کو کسی نے کہا ہے "درد اس سے پوچھیئے جس کے جگر میں ٹیس ہو۔"

میں نے کہا کہ خواہ ادھر کی دنیا ادھر ہو جائے میں اس موذی کو یہ چیزیں ہر گز ہر گز نہ لے جانے دوں گا۔ میں نے ادھر فقیر صاحب کو لیا آڑے ہاتھوں۔ میں نے کہا:
"تم نوکری کیوں نہیں کرتے۔"

وہ کچھ جل کر بولا: "آپ ہی رکھ لیجیے۔"

میں نے فوراً رضامندی ظاہر کی اور دس روپے ماہوار اور کھانا تجویز کیا۔ فقیر صاحب اس کے جواب میں بولے:

"اور گھر والوں کو زہر دے دوں۔"

میں نے کہا۔ "کیوں؟"

وہ بولا۔ "آپ دس روپیہ دیتے ہیں۔ ڈھائی آنہ روز کا تو گائے رزقہ کھاتی ہے اور ایک بیوی اور تین بچے۔ پانچ روپے میں گذر کیسے ہو۔"

گائے بھی ہے۔ تمہارے پاس؟ میں نے متعجب ہو کر کہا۔

وہ بولا۔ "دو روپیہ مہینہ چرانے والا لیتا ہے' گائے نہ ہو تو صاحب کام کیسے چلے۔"

"کام کیسے چلے!" میں نے تعجب سے کہا۔ "ہمارا کام کیسے چلتا ہے۔"

وہ بولا: "صاحب آپ بڑے آدمی ہیں۔ ہم بھلا کہاں سے پیسہ لائیں جو روز تین سیر دودھ خریدیں۔"

"تین سیر!" میں نے متعجب ہو کر کہا۔ "تین سیر! بھئی تین سیر کا خرچ کیسا۔"
 

مقدس

لائبریرین
معلوم ہوا تو خیر سے خود حضرت دو سیر دودھ یومیہ نوش کرتے ہیں۔ میں پھر تنخواہ کے سوال پر آیا تو عسرت کی شکایت کرتے ہوئے تیس روپیہ ماہوار گھر کا خرچ بتایا اور قائل ہو کر کہا کہ اگر کم و بیش کسی روزگار میں اتنی کمائی ہو جائے کہ تنگ ترشی سے بھی گھر کا خرچ چل جائے تو فقیری چھوڑنے کو ابھی تیار ہوں۔

اب میں اپنے دوست کی طرف دیکھتا ہوں اور وہ میری طرف' پھر معلوم ہوا کہ حضرت دوپہر میں قیلولہ کے سخت عادی ہیں اور کسی صورت میں بھی دوپہر میں تو کام کر ہی نہیں سکتے۔ ویسے ہر طرح کوئی پیشہ' دھندا' نوکری' غرض جو بھی بتاؤ اس کے لیے حاضر ہیں اب آپ ہی بتائیے میں اس موذی کو کیا جواب دیتا۔ میرا وہ حال کہ مرے پہ سو درے' اتنے میں ملازم آیا' باوجود سخت تلاش کے وہ محتاج نہ ملا۔ اگر میرے دوست نہ ہوتے تو غالباً میں اس موذی سے ضرور کپڑے چھین لیتا۔ مگر میں نے اور ترکیب سوچی۔

(3)

میں نے قطعی طور پر فقیر صاحب سے کہا کہ میں تمہیں اس حرام خوری کی سزا دیے بغیر ہر گز ہرگز نہ جانے دوں گا۔ پچاس دفعہ کان پکڑ کر اٹھو بیٹھو اور خبردار جو پھر کبھی اس طرف کا رخ بھی کیا۔

فقیر نے غصے کے شعلے میری آنکھوں میں دیکھے' ممکن ہے یہی سوچا ہو کہ سوئیٹر اور قمیض دونوں بالکل ثابت ہیں' سودا پھر بھی برا نہیں' نہایت ہی خاموشی اور سادگی سے اپ نے ڈنڈا اور پیالہ اپنا ایک طرف رکھا۔ جھولی اور مالا اتار کر رکھا اور تہمد اونچی کر کے کسنے لگے کہ میں نے ڈانٹا۔ "بدتمیز۔۔۔" اس کے جواب میں نہایت اطمینان سے فرماتے ہیں ۔"نیچے جانگیا پہنے ہوں۔" اور عذر کیا کہ اٹھنے بیٹھنے میں تہمد مخل ہو گی۔

لیکن میں چونکہ سزا دینا چاہتا تھا لہذا میں نے اس کی بھی اجازت دے دی۔ اب یہ حضرت ایک ہونکارے کے ساتھ بڑے زور سے ہونہہ کر کے بغیر کان پکڑے ہوئے پہلوانوں کی چرح ایک سپاٹے کے ساتھ پاؤں سرکا کر بیٹھک لگا گئے۔"

"بدتمیز بیہودہ۔۔" میں نے جل کر کہا۔ "یاد رکھو تمہیں پولیس میں دے دوں گا کان پکڑ کر سیدھی طرح اٹھو بیٹھو۔"

دو دفعہ ان کو میں ھنے کان پکڑوا کر اٹھنا بیٹھنا بتایا اور یہ حضرت سزا بھگتنے میں مشغول ہو گئے۔ یہ حضرت میری پشت کی طرف تھے اور ہم دونوں دوست فقیروں کو برا بھلا کہنے میں مشغول ہوئے۔
 

مقدس

لائبریرین
(5)

ایک دم سے مجھے خیال آیا کہ "کان پکڑی" غالباً پچاس دفعہ ہو چکی۔ مڑ کر میں نے دیکھاتو سرعت کے ساتھ جاری تھی۔ میں نے پوچھا تو وہ بولا کہ ایک سو دس دفعہ کر لی۔ میں نے کہا۔ "بس بس۔ اب اجؤ۔ میں نے پچاس دفعہ کو کہا تھا۔ زیادہ کیوں کی"

وہ بولا۔ "صاحب پانچ سو بیٹھکیں روز لگاتا ہوں، میں نے سوچا کہ اب بار بار کون کرتا پھرے لاؤ یہیں پوری کر لوں۔"

"ارے!" میں نے اس کمبخت کو اوپر سے نیچے تک غور سے دیکھتے ہوئے کہا۔ " کیا تو پہلوانی کرتا ہے؟" واللہ میں نے اب اس کو غور سے دیکھا۔ کان تاٹے ہوئے۔ سینہ اور شانہ اور پتیں! خوب کسرتی بدن!

جواب دیتے ہیں " ویسے نہیں کہتا۔ شہر کے جس پٹھے سے جی چاہے لرا لیجیے۔"

میں نے کہا کمبخت جی میں تو یہی آتا یے کہ تیرا اور اپنا سر ملا کر لرا لوں نکل یہاں سے ابھی۔۔ ابھی۔۔ نکل۔۔ نکالو اسے۔۔"

جلد جلدی اس نے اپنی جھولی وغیرہ اٹھائی اور سینکڑوں دعائیں دیتا ہوا چلا گیا اور کمبخت مجھے انتہا سے زیادہ پست اور شکست خوردہ حالت میں چھوڑ گیا۔

××××××
 
Top