فقیر
(1)
ایک روز کا ذکر ہے کہ میں غسل خانے سے نہا کر برآمدہ میں جو نکلا تو کسی فقیر بے سڑک پر کھڑکی کی چلمن میں شاید پرچھائیں یا جنبش دیکھ کر صدا دی۔ "مائی تیرے بیٹا ہوئے۔۔۔" نہ تو یہاں کوئی مائی تھی اور نہ کسی کو یہ گھبراہٹ تھی کہ ایک عدد لڑکا خواہ مخواہ تولد ہوتاپھرے۔ دراصل یہ فقیر ان میں سے تھا جو مانگنا بھی نہیں جانتے۔ ذرا اس احمق سے کوئی پوچھتا کہ بیوقوف یہ کونسی عقلمندی ہے کہ کسی سوراخ میں سے بھی کوئی ہلتی چیز دیکھ پائی اور بیٹا بیٹی تقسیم کرنا شروع کر دے۔ پھر مجھے فقیروں سے بھی بغض ہے کیونکہ جب کبھی کوئی فقیر ملتا ہے اور میں اسے دیکھتا ہوں تو اسے ایسا پاتا ہوں کہ مجھ سے دو کو کافی ہو۔ چنانچہ میں نے کھڑی کی سلاخوں میں سے چق اٹھا کر اس نیت سے دیکھا کہ اس سے کیوں نہ پوچھا جائے کہ نوکری کرے گا۔
لیکن جب میں نے دیکھا تو ایک قابل رحم ہستی کو پایا۔ ایک فاقہ زدہ ضعیف العمر چیتھڑے لگائے بےکسی اور بےبسی کی زندہ تصویر تھا۔ سچ ہے ان لوگوں کو مانگنا بھی نہیں آتا۔ نہ تو یہ عمدہ گیت جانتے ہیں' نہ کوئی لے جانتے ہیں' نہ صدا جانتے ہیں۔ بس آئے اور دانت نکال دیے یہ دکھانے کو کہ دیکھو ہم بھی اس دنیا میں رہتے ہیں اور یوں رہتے ہیں۔
مجھے اس کی حالت زار دیکھ کر بڑا رحم آیا اور میں نے اس سے کہا کہ گھوم کر صدر دروازے پر آ جائے۔
صبح کا وقت تھا۔ میں تو چائے پینے لگا اور گھر والی سے کہا کہ ایک انےہا سے زیادہ قابل رحم فقیر آیا ہے' اسے دو چار پیسے دے دو' صبح کا وقت ہے' دو توس اور ایک پیالی چائے دیدو۔
جتنی مشٹنڈے فقیروں سے مجھے نفرت ہے اس سے دوگنی نفرت میری بیوی کو ہے اور اسی مناسبت سے ان فقیروں یعنی محتاجوں سے الفت ہے جو واقعی رحم و کرم کے مستحق ہیں۔
خانم نے فقیر کا نام سن کر جلدی جلدی دو گرما گرم توسوں کو انگیٹھی پر سینک کر خوب مکھن