میں بدتمیز و بدگو یا زبان دراز نہیں ، مگر منہ سے کچھ سخت جملہ نکلتے نکلتے رہ گیا ۔ لیکن پھر بھی بجائے ان کے برا کہنے کے پان کی مذمت کرنے لگا اور بوجہ پان کے گندہ ہونے کے اس کے چھونے سے مجبوری ظاہر کی ۔
"معاف کیجیے گا" انہوں نے پان کھا کر کہا ۔ "آپ میں تہذیب نہیں ہے۔" یہ الفاظ انہوں نے رویہ بدل کر کچھ سنجیدگی سے کہے۔
میں نے کہا : "جی ہاں ، آپ صحیح فرماتے ہیں لیکن مجھ کو اس پر فخر ہے کہ پان کھانے والوں کی بد تہذیبی کا جواب بد تہذیبی سے دوں۔
ماشآاللہ یہ کہہ کر وہ اٹھے اور اپنا سوٹ کیس کھولنے لگے۔ میں اپنے ساتھی سے جو غازی آباد سے میرے ساتھ بیٹھے بیٹھے باتیں کرنے لگا کہ اتنے میں انہوں نے میرا بازو پکڑ کر اپنی طرف متوجہ کر کے ایک کاپی میرے سامنے کر کے کہا : "آپ اس خط کو پہچانتے ہیں؟"
میں کچھ سٹ پٹا سا گیا اور کچھ عقل نے کام نہ کیا ۔ میں نے ان حضرت کے چہرے کی طرف دیکھا جو میرے سٹ پٹا جانے سے لطف اندوز ہو رہے تھے ۔ ۔ ۔ میں علاوہ گھبرانے کے سخت خفیف سا ہورہا تھا ۔ ۔ ۔ یہ واقعہ تھا کہ میرے سامنے محمڈن لا (قانون محمدی) کے امتحان کی کاپی تھی ۔ اس پر سرخ رنگ سے اس طرح نمبر دیے ہوئے تھے 65 جمع 10 گویا میں نے سو نمبروں میں سے پچھتر نمبر پائے تھے ۔ نمبروں کو دیکھ کر خوشی سی ہوئی تھی کہ وہ بولے: "آپ نے پرچہ بہت اچھا کیا تھا اور آپ نے 65 نمبر حاصل کیے تھے لیکن چونکہ آپ نے قانون کے حوالے کے علاوہ تمام ان احادیث کا بھی حوالہ دیا تھا جن پر قانون کی دفعات اور سوالات اور جوابات کا دار و مدار تھا لہذا میں نے آپ کو دس نمبر اور دئے تھے لیکن اب مجھ کو معلوم ہوا کہ آپ اسلامی قانون تو بڑی چیز ہے ، اسلامی تہذیب سے بھی نا واقف ہیں لہذا میری دانست میں تو آپ کو کل دس نمبر سے زائد نہ ملنا چاہییں۔" یہ کہہ کر انہوں نے میرے اور میرے ساتھی کے سامنے سرخ پنسل جیب سے نکال کر 65 نمبر کو سرخی سے کاٹ دیا اور اپنے وہاں دستخط بھی کر دئے ۔ اب مجھ کو ان حروف کے معنی بھی معلوم ہو گئے تھے ، جو میں نے ان کے ہینڈ بیگ پر لکھے تھے ۔
یہ حضرت میرے ممتحن تھے ۔ ۔ ۔ میری حالت جو تھی وہ تھی مگر میرے ساتھی جو خود طالب تھے سخت متعجب اور متاثر تھے ۔ دراصل ہم دونوں ہی ہکا بکا تھے ۔
میری کاپی وہ اطمینان سے سوٹ کیس میں رکھتے ہوئے بولے۔ "کم از کم تین سال تک تو آپ پاس ہونے کا خیال ہی ترک فرما دیں کیونکہ میں ممتحن ضرور ہوں گا اور آپ کو فیل کروں گا کیونکہ میرا خیال ہے کہ ایک بدتہذیب شخص اس سے کم عرصہ میں تہذیب نہیں سیکھ سکتا ۔"
میں اس کا جواب سختی سے بھلا کیسے دیتا ، میرے تو ہوش ہی بجا نہ تھے ۔ وہ غیر متعلق ہو کر اپنا چہرہ اخبار سے چھپائے ہوئے دوسری بنچ پر جا بیٹھے ۔ تھوڑی دیر میں جب ذرا دل کی دھڑکن کم ہوئی تو میرے ساتھی نے آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر گفتگو کرنا شروع کی ۔ خوشامد کا تو خیال ہی نہیں تھا ، کہنے لگے کہ "میں گواہ ہوں آپ ان پر دعویٰ کر دیجیے گا۔" انہوں نے شاید یہ سن لیا جو اخبار پھینک کر بولے: "شاید آپ دونوں صاحبان سے قانون میں زیادہ جانتا ہوں، جناب من اگر یہ ممکن ہوتا تو ہر ممتحن پر طالب علم ایک گواہ تلاش کر کے مقدمہ کر دیتے، خواہ واقعہ ہو یا نہ ہو۔ میں آپ دونوں صاحبان کو یقین دلاتا ہوں کہ میرا فیصلہ اٹل ہے، آپ شوق سے دعوٰی کریں۔"
میں تو چپ تھا مگر میرے ساتھی نے ان سے بحث کرنا شروع کی مگر تھوڑی دیر میں مجبورا مجھے ان کا منہ بند کرنا پڑا کیونکہ ممتحن صاحب غصہ ہوئے جاتے تھے ۔ تھوڑی دیر کی خاموشی کے بعد میرے ہمدرد ساتھی پھر ممتحن صاحب کو قائل کرنے کی کوشش کر رہے تھے اور نرمی کی تلقین کر رہے تھے ۔ میں چپ بیٹھا دعا مانگ رہا تھا کہ خدا کرے یہ راضی ہو جائیں ، مگر توبہ کیجیے "میری جان مت کھائیے۔" یہ کہہ کر وہ اخبار پڑھنے میں مشغول ہو گئے۔
(3)
ہاتھرس کا اسٹیشن قریب آ رہا تھا اور میرے ساتھی اترنے والے تھے ۔ ممتحن صاحب اپنی پان کی ڈبیا لینے اٹھے ۔انہوں نے ڈبیا کھول کر ایک پان نکالا اور میرے سامنے پیش کیا ۔ میرا دل تیزی سے دھڑکنے لگا ۔ میں نے معصومیت سے رنجیدہ صورت بنائے ہوئے ان کی طرف دیکھا ، میرا ہاتھ خودبخود بڑھ گیا ۔ ۔ ۔ آپ یقین کریں کہ میں پان کھا رہا تھا ۔
"چھالیا تو لیجیے!" ممتحن صاحب نے بٹوا سامنے کرتے ہوئے کہا کیونکہ میں بغیر چھالیا کے پان کھا رہا تھا اور وہ قریب الختم تھا ، انکار کرتے ڈر لگا لہذا لے کر منہ میں ڈال لی ۔ وہ اپنی جگہ پھر جا بیٹھے اور یہاں چھالیا ایسی معلوم ہو رہی تھی جیسے منہ کو کوئی چھیل رہا ہے ، حالانکہ ممتحن صاحب میری طرف دیکھ نہیں رہے تھے مگر پھر بھی میں نے تھوکنا مناسب نہیں سمجھا کہ کہیں دیکھ نہ لیں ۔ چونکہ قطعی عادت نہ تھی ، مجھے چھالیا مصیبت معلوم ہونے لگی ۔ لیکن میں نے چبا چبا کر اس کو سرمہ کر ڈالا ۔ پان کھانے کے قواعد کی رُو سے اس منزل پر پہنچ کر پان کھانے والا تھوک سکتا ہے مگر مجھ کو شاید معلوم نہ تھا ۔ گو دیکھا تو تھا کہ لوگ اگال کر تھوک دیتے ہیں ۔ تھوڑی دیر مین چھالیا کا پھول رہ گیا ۔ چونکہ ضرورت سے زیادہ کھا لی تھی لہذا اتنی مقدار نگل بھی نہ سکتا تھا ۔ بڑی دیر تک منہ میں پھراتا رہا پھر تھوکنے کے لیے بیت الخلا کو بہتر سمجھا تا کہ ممتحن صاحب نہ دیکھ سکیں۔ وہاں جو چھالیا تھوک کر نکلا تو ممتحن صاحب کچھ تحکمانہ لہجہ میں بولے: "کیا آپ نے پان تھوک دیا؟"
میں سن سا ہو گیا ، اور جھوٹ بولا: "جی نہیں !" مگر نہایت ہی مردہ آواز سے کہا ۔
اس دوران میرے ساتھی ، گو ایم – ایس – سی کے طالب علم تھے ، مگر میرے چہرے کو فلسفیانہ انداز سے دیکھ رہے تھے ۔ میرا چہرہ واقعی ہو گا بھی اس لائق کیونکہ خفت ، حماقت ، رنج ، تکلیف وغیرہ وغیرہ علاوہ گھبراہٹ اور پریشانی کے ضرور میرے چہرہ سے عیاں ہو رہی ہو گی ۔ ہاتھرس کا اسٹیشن آیا اور وہ اتر گئے۔
(4)
میرے ساتھی کے چلے جانے کے بعد اب میں نہ معلوم کن کن خیالات میں غرق تھا ۔ ۔ ۔ خوشامد کرو ۔ ۔ ۔ کبھی کی نہیں ۔ ۔ ۔ نلکہ یوں کہنا چاہیے کہ آتی ہی نہیں ۔ ۔ ۔ مگر ہاتھ جوڑنے سے کام بن جائے گا ۔ اگر نہ مانیں تو قدموں پر سر رکھ دینا چاہیے ، پھر خیال آیا ، لا حول ولا قوۃ۔ آئندہ سال دیکھا جائے گا ورنہ پھر نوکری کر لیں گے ۔ ایسی خوشامد سے تو موت بہتر ہے۔
ٹونڈلہ کا اسٹیشن آیا ، میں آگرہ جا رہا تھا کیونکہ سخت ضروری کام تھا ، میں چونک سا پڑا ۔ ۔ ۔ اب کیا کروں؟ یہ سوال تھا ۔ واللہ اعلم ممتحن صاحب کہاں جا رہے ہیں ۔ خیر کم از کم کانپور کا تو ٹکٹ لے لینا چاہیے ، چنانچہ یہی کیا ۔ ٹکٹ لے کر واپس آیا تو ممتحن صاحب بیٹھے ہوئے ایک صاحب سے باتیں کر رہے تھے ۔ شاید ان کے ملاقاتی ہیں ، میں نے دل میں کہا ۔ میں بیٹھ گیا ۔ ممتحن صاحب نے پان کی ڈبیا نکالی ۔ ۔ ۔ میں گھرایا مگر مجبوری ۔ ۔ ۔ انہوں نے پیش کیا اور مجھے خوش ہو کر کھانا پڑا۔
"کیوں جناب ، پان بھی خوب چیز ہے۔" ممتحن صاحب نے اپنے دوست سے کہا ۔
انہوں نے جواب دیا : "جی ہاں ، مجھے تو بغیر پان کے سفر دو بھر ہو جاتا ہے۔"
"یہی میرا ھال ہے۔" ممتحن صاحب بولے، اور پھر میری طرف مکاطب ہو کر پوچھا : "کیوں جناب آپ کی کیا رائے ہے؟"
میری حالت کا اندازہ لگانا آسان ہے ممتحن صاحب کے چہرے سے فتح کی مسرت عیاں تھی ، میں بت کی طرح شکست خوردہ تھا ، گلا صاف کر کے کہا : "جی ہاں!"
"اوہو آپ تو بڑی تیزی سے پان کھاتے ہیں ، ختم ہو گیا ، اور لیجیے۔" بیرسٹر صاحب نے کہا۔
حالانکہ ختم نہ ہوا تھا مگر کیسے کہتا کہ ختم نہیں ہوا اور دوسرا نہیں لوں گا سو لیا اور کھایا۔ میں خاموش تھا اور ایک گونہ خوشی تھی کہ بیرسٹر صاحب اپنے دوست سے باتیں کرنے میں مشغول ہیں ۔ تھوڑی دیر تک باتیں کرتے رہے ، میں سنتا رہا ، مجھے یہ بھی معلوم ہو گیا کہ اب مجھے کہاں جانا ہے۔
اتنے میں بیرسٹر صاحب نے شاید میری مصیبت کا اندازہ لگا لیا اور شش و پنچ میں پا کر کہا "اب تھوک دیجیے آپ تو چھالیا کھا رہے ہیں۔" میں نے تھوک کر خلاصی پائی۔ شکر ہے کہ انہوں نے پھر پان نہیں دیا۔