محمد علم اللہ
محفلین
محمد علم اللہ اصلاحی
معروف افسانہ نگار عبید قمر کا آج صبح پٹنہ میں انتقال ہو گیا ۔ انا للہ و انا الیہ راجعون نمازِ جنازہ آج بعد نماز عصر محمد پور مسجد (شاہ گنج، پٹنہ) میں ادا کی جائے گی۔قمر مرحوم کا اصل نام عبدالکریم تھا ،آپ کی پیدائش ۴؍ستمبر ۱۹۴۸ء کو بہار ہوئی تھی ۔ بی ایس سیاور ادیب کامل کے بعد میڈیکل ریپر زنٹیٹو کی حیثیت سے اپنی خدمات انجام دینے والے عبید قمر صاحب ۱۹۶۸ء سے افسانے لکھ رہے تھے ۔اب تک ان کے متعدد افسانے ملک کے مختلف رسائل میں شائع ہو کر ادبی حلقہ میں اپنی پہچان تسلیم کروا چکے تھے۔ ان کے دو افسانوی مجموعے آخری کش ۱۹۸۲ ءاور ۱۹۸۲ء اور ننگی آوازیں،۱۹۸۸ء میں شائع ہو چکے ہیں جسے کافی پذیرائی ملی ۔عبید قمر افسانوں کے علاوہ بچوں کیلئے کچھ کہانیاں اور چند انشایئے وغیر ہ بھی لکھ چکے ہیں۔
عبیدقمر کا شمار جدید افسانہ نگاروں میں ہوتا تھا لیکن ان کی جدیدیت ایسی نہیں ہوتی جو قارئین کو ابہام میں مبتلا کر دے، انہوں نے تمثیل اور علامت نگاری کو فنکاری کے ساتھ اپنا یا ہے سعادت حسن منٹو اور بیدی وغیرہ نے جو روایات چھوڑیں انہیں بر قرار رکھنے والے بہت سے اچھے افسانے نگاروں میں ایک نام عبید قمر کا بھی ہے انہوں نے کہا نی سے کہانی پن کو نہیں نکالا ہے، بھلے ہی پیرایہ بیان علامتی ہی کیوں نہ رہا ہو۔
مختصر یہ کہ انہوں نے نہ تو پروپگنڈہ زدہ ترقی پسندی کواور نہ ہی انتہا پسند یدیت کے شکار رہے ،وہ ہمیشہ ماحول سے پیدا شدہ نفسیاتی گرہ کھولنے کی کوشش کرتے رہے ہیں انہوں نے خود ہی لکھا ہے۔"میں نے ساری کہانیاں جھیل کر لکھی ہیں، ماحول میں ڈوب کر لکھی ہیں،میں پروپگنڈہ زدہ ترقی پسندی اور انتہا پسند جدیدیت سے ہمیشہ دور رہا، اپنے ماحول سے بے پرواہو کر لکھنا تو خلاء میں بھٹکنے کےسواکچھ بھی نہیں ہے ابہام واہمال زدہ تخلیقات کی ڈھیر پر کھڑے ہو کر چند نے اپنا قداونچا کرنا چاہا نتیجہ وہی ہوا کہ جدیدیت کے سیلاب میں اپلانے والے خس وخاشاک آج لا پتہ ہیں"۔
نوٹ : اس تحریر کے لئے کامران غنی اور اردو یوتھ فورم کے ہم شکر گذار ہیں کہ بیشتر معلومات وہیں سے اخذ کی گئی ہیں ۔
معروف افسانہ نگار عبید قمر کا آج صبح پٹنہ میں انتقال ہو گیا ۔ انا للہ و انا الیہ راجعون نمازِ جنازہ آج بعد نماز عصر محمد پور مسجد (شاہ گنج، پٹنہ) میں ادا کی جائے گی۔قمر مرحوم کا اصل نام عبدالکریم تھا ،آپ کی پیدائش ۴؍ستمبر ۱۹۴۸ء کو بہار ہوئی تھی ۔ بی ایس سیاور ادیب کامل کے بعد میڈیکل ریپر زنٹیٹو کی حیثیت سے اپنی خدمات انجام دینے والے عبید قمر صاحب ۱۹۶۸ء سے افسانے لکھ رہے تھے ۔اب تک ان کے متعدد افسانے ملک کے مختلف رسائل میں شائع ہو کر ادبی حلقہ میں اپنی پہچان تسلیم کروا چکے تھے۔ ان کے دو افسانوی مجموعے آخری کش ۱۹۸۲ ءاور ۱۹۸۲ء اور ننگی آوازیں،۱۹۸۸ء میں شائع ہو چکے ہیں جسے کافی پذیرائی ملی ۔عبید قمر افسانوں کے علاوہ بچوں کیلئے کچھ کہانیاں اور چند انشایئے وغیر ہ بھی لکھ چکے ہیں۔
عبیدقمر کا شمار جدید افسانہ نگاروں میں ہوتا تھا لیکن ان کی جدیدیت ایسی نہیں ہوتی جو قارئین کو ابہام میں مبتلا کر دے، انہوں نے تمثیل اور علامت نگاری کو فنکاری کے ساتھ اپنا یا ہے سعادت حسن منٹو اور بیدی وغیرہ نے جو روایات چھوڑیں انہیں بر قرار رکھنے والے بہت سے اچھے افسانے نگاروں میں ایک نام عبید قمر کا بھی ہے انہوں نے کہا نی سے کہانی پن کو نہیں نکالا ہے، بھلے ہی پیرایہ بیان علامتی ہی کیوں نہ رہا ہو۔
مختصر یہ کہ انہوں نے نہ تو پروپگنڈہ زدہ ترقی پسندی کواور نہ ہی انتہا پسند یدیت کے شکار رہے ،وہ ہمیشہ ماحول سے پیدا شدہ نفسیاتی گرہ کھولنے کی کوشش کرتے رہے ہیں انہوں نے خود ہی لکھا ہے۔"میں نے ساری کہانیاں جھیل کر لکھی ہیں، ماحول میں ڈوب کر لکھی ہیں،میں پروپگنڈہ زدہ ترقی پسندی اور انتہا پسند جدیدیت سے ہمیشہ دور رہا، اپنے ماحول سے بے پرواہو کر لکھنا تو خلاء میں بھٹکنے کےسواکچھ بھی نہیں ہے ابہام واہمال زدہ تخلیقات کی ڈھیر پر کھڑے ہو کر چند نے اپنا قداونچا کرنا چاہا نتیجہ وہی ہوا کہ جدیدیت کے سیلاب میں اپلانے والے خس وخاشاک آج لا پتہ ہیں"۔
نوٹ : اس تحریر کے لئے کامران غنی اور اردو یوتھ فورم کے ہم شکر گذار ہیں کہ بیشتر معلومات وہیں سے اخذ کی گئی ہیں ۔