افطار : تاخیر ---؟ / افطار : وقت سے پہلے ---؟

باذوق

محفلین
افطار میں تاخیر ۔۔۔ خلافِ سنت ہے !

امت مسلمہ کو اس بات کی خوش خبری دی گئی ہے کہ وہ جب تک روزہ افطار کرنے میں جلدی (مغرب کی اذاں کے ساتھ ہی روزہ افطار) کریں گے ، خیریت سے رہیں گے ۔
حضرت سہل بن سعد (رضی اللہ عنہ) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) نے فرمایا :
اس وقت تک لوگ خیر و عافیت سے رہیں گے جب تک وہ روزہ افطار کرنے میں جلدی کریں گے ۔
(بخاری، مسلم ، جامع ترمذی ، سنن ابی نسائی)

روزہ جلدی افطار کرنا اس بات کی علامت ہے کہ دین کی بالادستی قائم ہے ۔ کیونکہ روزہ کا دیر سے افطار کرنا یہودیوں اور نصاریٰ کے ہاں رائج ہے ۔
حضرت ابو ہریرہ (رضی اللہ عنہ) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) نے فرمایا:
دین اسلام اس وقت تک بلند رہے گا جب تک لوگ روزہ افطار کرنے میں جلدی کریں گے ، کیونکہ یہودی اور نصاریٰ (اپنے مذہب کے مطابق) دیر سے روزہ افطار کرتے ہیں۔
(مسند احمد ، جامع ترمذی ، سنن ابن ماجہ)
لہذا ہر مسلمان پر فرض ہے کہ وہ ہر بات میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کرے ۔

سحری اور افطاری میں سنت نبوی یہ ہے کہ سحری دیر سے تناول کی جائے جبکہ روزہ افطار کرنے میں جلدی کی جائے۔
امام نسائی (رحمة اللہ) ، حضرت ابو عطیہ (رضی اللہ عنہ) سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے حضرت عائشہ (رضی اللہ عنہا) سے سوال کیا کہ ہم میں دو آدمی ایسے ہیں جن میں سے ایک روزہ افطار کرنے میں جلدی اور سحری کرنے میں تاخیر کرتا ہے ۔۔۔ جبکہ دوسرا شخص روزہ افطار کرنے میں تاخیر اور سحری کرنے میں جلدی کرتا ہے ؟ حضرت عائشہ(رضی اللہ عنہا) جواب میں فرماتی ہیں :
"جو شخص روزہ افطار کرنے میں جلدی اور سحری کرنے میں تاخیر کرتا ہے ، وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقے پر عمل کرتا ہے ۔ "


وقت سے پہلے افطار

جو شخص رمضان کے مہینے میں روزہ رکھ کر کسی شرعی عذر کے بغیر قبل از وقت روزہ توڑ دے تو یہ بڑ ا سنگین جرم ہے، اور اس کی سزا بھی بڑی عبرت ناک ہے ۔
ایک حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے :
" میں نے خواب میں دیکھا کہ میرا گزر ایسے لوگوں کے پاس سے ہوا جو اُلٹے لٹکائے گئے تھے ، اُن کے جبڑے پھٹے ہوئے تھے اور اُن سے خون رس رہا تھا ۔ میں نے پوچھا کہ یہ کون لوگ ہیں ؟
مجھے بتایا گیا کہ یہ وہ لوگ ہیں جو وقت سے پہلے روزہ افطار کر لیا کرتے تھے ۔ یعنی افطاری سے پہلے ہی روزہ توڑ لیا کرتے تھے ۔ "
(صحیح ابن خزیمہ / صحیح ابن حبان)

اس کے علاوہ ، کسی شرعی عذر کے بغیر عمداً روزہ توڑ دینے کی دنیاوی سزا بھی شریعت نے سخت رکھی ہے کہ ایسے شخص کو قضا کے ساتھ کفارہ میں لگاتار ساٹھ دن کے روزے رکھنا ضروری قرار دیا گیا !
 

میر انیس

لائبریرین
براہِ مہر بانی میرے علم میں ضافہ کے لیئے قران کی وہ آیات پیش کردیں جس میں افطار کا وقت عین سورج کے غروب ہونے کے وقت ہے
 

مغزل

محفلین
کیا کہنے باذوق صاحب ، شکریہ ، اور دل پاکستانی ، جواب کا شکریہ ، کم از کم یہ لڑی تو خوامخواہ کی بحث سے بچ جائے گی ، شکریہ
 

میر انیس

لائبریرین
کیا کہنے باذوق صاحب ، شکریہ ، اور دل پاکستانی ، جواب کا شکریہ ، کم از کم یہ لڑی تو خوامخواہ کی بحث سے بچ جائے گی ، شکریہ

اگر کسی کے علم میں اضافہ کرنے اور قران فہمی کو بحث کہتے ہیں تو آپ سے معافی چاہتا ہوں میں نے تو صرف قران کی رو سے ایک بات پوچھی تھی اگر اسکا جواب نہیں ہے آپ لوگوں کے پاس تو کہ دیتے میں کسی اور سے پوچھ لیتا۔ جب افطار کہ وقت سے متعلق کوئی دھاگہ ہوگا تو یہ سوال تو پوچھا ہی جائے گا نا
 

میر انیس

لائبریرین
آپ اپنے فقہ کے مطابق ۱۰ منٹ لیٹ افطار کیجیے۔ کوئی آپ کو مجبور نہیں کر رہا۔ :)

میرے بھائی میں نے کسی فرقے کہ حساب سے افطار کا وقت نہیں پوچھا بلکہ قران کی آیات کے حوالے سے پوچھا ہے ۔ جب بھی کوئی بات کی جاتی ہے تو مستند حوالے سے کی جاتی ہے اور سب سے مستند حوالہ قران ِ کریم ہی تو ہے ۔ باقی میں کئی دفعہ پہلے بتا چکا ہوں کہ میں فرقہ واریت پر یقین نہیں رکھتا اور نا ہی مسلمانوں کی گنتی فرقوں کے حساب سے کرتا ہوں ۔ سب میرے بھائی ہیں اور قابلِ احترام ہیں میرے لیئے
 
قرآن بلاشبہ رہنمائی کیلیے سرچشمہ ہے۔
قرآن کے بعد حدیث ہی مستند ترین ذریعہ ہے جناب۔ بات بالکل سادہ سی ہے، جس بات کی وضاحت قرآن میں نہ ملتی ہو اس کیلیے حدیث اور فقہ سے رہنمائی لینی پڑتی ہے۔ حضور اکرم ﷺ کی بات کو جھٹلایا نہیں جا سکتا۔ اگر آپ کو اوپر بیان کردہ احادیث سے اختلاف ہے تو اس کا حل یہی ہے جو میں نے اوپر بیان کر دیا ہے، بجائے اس کے کہ یہاں شیعہ سنی بحث چھڑ جائے۔
اگر آپ کے پاس کوئی قرآنی حوالہ ہے تو بیان کر کے ہمارے علم میں بھی اضافہ فرمائیں۔
معافی چاہتا ہوں میری بات اگر آپ کو بری لگی ہو تو۔
 

میر انیس

لائبریرین
قرآن بلاشبہ رہنمائی کیلیے سرچشمہ ہے۔
قرآن کے بعد حدیث ہی مستند ترین ذریعہ ہے جناب۔ بات بالکل سادہ سی ہے، جس بات کی وضاحت قرآن میں نہ ملتی ہو اس کیلیے حدیث اور فقہ سے رہنمائی لینی پڑتی ہے۔ حضور اکرم ﷺ کی بات کو جھٹلایا نہیں جا سکتا۔ اگر آپ کو اوپر بیان کردہ احادیث سے اختلاف ہے تو اس کا حل یہی ہے جو میں نے اوپر بیان کر دیا ہے، بجائے اس کے کہ یہاں شیعہ سنی بحث چھڑ جائے۔
اگر آپ کے پاس کوئی قرآنی حوالہ ہے تو بیان کر کے ہمارے علم میں بھی اضافہ فرمائیں۔
معافی چاہتا ہوں میری بات اگر آپ کو بری لگی ہو تو۔

میرے بھائی اگر بحث کی تو بات ہی نہیں ہے اور نہ میں بحث برائے بحث کا قائل ہوں اگر میں شیعہ ہوں تو اسکا یہ مطلب نہیں کے اگر میں آپ سے کسی فورم میں کسی بات میں تبادلہ ِ خیال کرنا چاہوں تو آپ اسکو سنی شیعہ بحث کا نام دیں اور اگر میں آپ کے علم سے کوئی فائدہ اٹھانا چاہوں تو وہیں رک جائوں ہم اسوقت کے شیعہ ہوں یا سنی دونوں آنحضرت(ص) کے زمانہ میں موجود نہیں تھے لہٰذا اسکے لیئے تحقیق بہت ضروری ہے اور یہ بات صحیح نہیں کہ ہم بس اپنے علما پر اندھی تقلید کریں کیونکہ ہم کو تو قران میں واضع طور پر کہا گیا ہے کہ تحقیق کرو ۔اپنے علم میں اضافہ کرو ۔ اگر پھر بھی سمجھ نہ آئے تو راسخونَ فی العلم سے پوچھ لو۔ اب یہاں ہی اپ دیکھیں اپ نے کتنی آسانی سے فرمادیا کہ روزہ کب کھولنا چاہیئے اسکی وضاحت قران مجید میں نہیں ملتی جبکہ اللہ خود سورہَ بقرہ آیت نمبر 186 میں ارشاد فرماتا ہے کہ
ثُمَ اَتمُ اصیامَ اِلّیلِ
ترجمہ : روزہ رات تک پورا کرو

آپکی بات 100 فیصد درست ہے کہ حضور(ص) کی حدیث کو جھٹلایا نہیں جاسکتا بلکہ اسکی حثیت کلام اللہ سے کم نہیں ہے اگر اسکا صحیح ہونا ثابت ہوجائے پر ہم کیا کریں کہ حدیث کی صحیح کتابوں میں بھی بہت سی احادیث ایک دوسرے کہ متضاد ہیں۔ ہم حدیث کے صحیح اور ضعیف ہونے کا اندازہ اس بات سے لگاتے ہیں کہ وہ کہیں قران کی کسی آیت کی نفی نہیں کر رہی ہو جب کوئی حکم قران میں واضع انداز میں موجود ہو تو وہ حدیث پر نص ہوتی ہے۔ واللہ عالم بالثواب۔
اب یہاں کوئی بحث کا پہلو نہیں ہے جو بات میرے علم میں تھی وہ آپ کو بتادی باقی ماننا نا ماننا تو آپ کا کام ہے نا۔اور میں نے یہ بات اپنے مسلک کے نظریئے کہ طور پر آپ پر نہیں ٹھونسی بلکہ میرے مسلک کے بھی بعض حضرات ہوسکتا ہے میری اس بات سے اتفاق نہیں کریں جو انکا حق ہے۔
 

باذوق

محفلین
۔۔۔۔۔۔۔
اللہ خود سورہَ بقرہ آیت نمبر 186 میں ارشاد فرماتا ہے کہ
ثُمَ اَتمُ اصیامَ اِلّیلِ
ترجمہ : روزہ رات تک پورا کرو
[ARABIC]ثُمَّ أَتِمُّواْ الصِّيَامَ إِلَى الَّليْلِ[/ARABIC]
روزے کو رات تک پورا کرو
( البقرة:2 - آيت:187 )

رات کب آتی ہے؟
کیا سورج کے غروب ہوتے ہی رات نازل نہیں ہوتی؟
اسی لئے امام ابن کثیر اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں :
[ARABIC]{ ثُمَّ أَتِمُّواْ ٱلصِّيَامَ إِلَى ٱلَّيْلِ } يقتضي الإفطار عند غروب الشمس حكماً شرعياً، كما جاء في الصحيحين عن أمير المؤمنين عمر بن الخطاب رضي الله عنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " إذا أقبل الليل من ههنا، وأدبر النهار من ههنا، فقد أفطر الصائم "[/ARABIC]
اردو ترجمہ :
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : روزے کو رات تک پورا کرو
اس سے ثابت ہوا کہ سورج کے ڈوبتے ہی افطار کر لینا چاہئے ، یہی شرعی حکم ہے۔
بخاری و مسلم میں امیر المومنین عمر بن خطاب (رضی اللہ عنہ) سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
جب ادھر سے رات آ جائے اور ادھر سے دن چلا جائے تو روزہ دار افطار کر لے۔


اور یہ مشہور حدیث تو پہلے ہی لکھی جا چکی ہے کہ :
[ARABIC]لا يزال الناس بخير ما عجلوا الفطر[/ARABIC]
اس وقت تک لوگ خیر و عافیت سے رہیں گے جب تک وہ روزہ افطار کرنے میں جلدی کریں گے ۔

*****
واضح رہے کہ آیاتِ ربانی کو احادیثِ صحیحہ ہی کے ذریعے سے سمجھنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ ورنہ صرف قرآن سے یہ کبھی ثابت نہیں کیا جا سکتا کہ دو رکعت نماز میں کتنے قیام ، کتنے رکوع ، کتنے سجدے اور کتنے قعدہ ہوں گے ؟
 

میر انیس

لائبریرین
عربی زبان میں رات کے لیئے لیل کا لفظ استعمال کیا جاتا ہے جب کے سورج غروب ہوتے ہی جو لالی آسمان پر پائی جاتی ہے وہ وقت مغرب کہلاتا ہے اگر اس وقت روزہ افطار کرنے کا وقت ہوتا تو آیت میں مغرب کا لفظ ہی استعمال کیا جاتا۔ قران میں جو باتیں واضع بیان نہیں کی جاتیں انکی تشریح حدیث سی کی جاتی ہے جیسا آپ نے نماز کا بیان کیا پر جو بات بالکل واضع ہو اورانکا مطلب صرف اپنے علما اور احادیث کی اپنی ہی کتابوں سے اخذ کرلیا جائے تو پھر تو فرقہ بندی ہوگی ہی اسلام میں فرقہ اسی لیئے تو اتنے زیادہ بن گئے کہ قران کا واضع مطلب بھی چھوڑ کر انکا مطالب اپنے من پسند نکال لیئے گئے اور اس بات میں شیعہ سنی دونوں ایک جیسے ہی ہیں ۔ میرا نظریہ تو یہ ہے کہ حدیث کے صحیح یا ضعیف قرار دینا کا پہلا پیمانہ قران ہے اگر کوئی بھی حدیث چاہے وہ سنی محدثین نے لکھی ہو یا شیعہ یا اہلِ حدیث نے اگر قران کی آیت سے متصادم ہے تو وہ میرے نزدیک قابلِ تقلید نہیں ہے۔ آپکو پتا ہی ہے کہ خود صحیح بخاری میں ایسی احادیث شامل ہیں جنکو کسی صورت صحیح نہیں کہا جاسکتا اور اس پر کافی تحافظات موجود ہیں ۔ وہ اسلئے کہ یہ اللہ کی کتاب نہیں ہے ظاہر ہے اللہ کی کتاب اور ایک انسان کی لکھی کتاب میں کچھ تو فرق ہوگا نا کیونکہ انسان پھر انسان ہے وہ تو غلطی بھی کرسکتا ہے۔
ویسے آپ نے کافی عرصہ بعد جواب دیا میں تو سمجھا تھا یہ موضوع ختم ہوچکا ہے
 

میر انیس

لائبریرین
واضع رہے رات سورج غروب ہوتے ہی نہیں آتی بلکہ جب سورج غروب ہونے کے بعد جو لالی آسمان پر نطر آتی ہے جب وہ بھی ختم ہوجائے اور تارے نکل آئیں تب اسکو لیل کہا جاتا ہے ورنہ وہ مغرب کہلاتی ہے
 
Top