”جہاد کشمیر“ کے ثمرات، پختون اور جناح صاحب کا ٹیلکس
01/05/2019 شازار جیلانی
ہندوستان تقسیم کیا گیا تو نیا اسلامی ملک 1935 کے انگریز کے بنائے ہوئے قانون کے تحت چلانا منظور ہوا۔ وزیر خارجہ قادیانی، وزیر قانون ہندو، اور جرنیل کرنیل انگریز بنے۔ فارورڈ پالیسی والوں نے گریٹ گیم کے تحت جیسی فیلڈنگ ترتیب دی تھی۔ اسی فیلڈنگ کے ساتھ دوسری اننگ شروع کی۔ میدانی علاقوں کے پختونوں پر سیاسی، مفتی و ملا، سرکاری اور انگریز دوست پیر اور دوسرے صوبوں سے لائے گئے موقع پرست سیاستدان مسلط کیے گئے۔ اور پہاڑی علاقوں کے پختونوں (قبائل) کو الگ رکھ کر اولف کیرو اور اس قبیل کے دوسرے برطانوی منصوبہ بندوں کے حوالے کیے گئے۔ ان پختون قبائل میں غالب اکثریت مطلق ان پڑھ، حماقت کی حد تک بہادر، اس صلاحیت پر فخر کرنے والوں اور اس کو ثابت کرنے والوں پر مشتمل تھی۔ میجر خورشید، میجر جنرل اکبر خان اور اس قبیل کے لوگوں نے انگریز سول اور فوجی افسروں کی ایما پر، بندوق سے پیار کرنے والے ان سادہ دل پختونوں کو اپنے علاقوں سے دور، کشمیر میں ”جہاد“ کے لیے بھیجا۔ جہاں آج ان کی نسل چھلیاں بیچتی ہیں جوتے پالش کرتی ہے۔ اور کشمیری لوگوں اور اخبارات کے بد ترین تعصب کا شکار ہیں۔
پختونوں کو کشمیر میں داخل کرنے سے دل چسپی رکھنے والی مختلف پارٹیوں نے، مختلف اور دیرپا مفادات حاصل کیے۔ انگریزوں نے برصغیر کو تقسیم تو کیا لیکن تقسیم کے دونوں ممالک کے درمیان موجود اور پیدا ہونے والے تنازعات کی حل کے لئے کوئی قابل قبول اور قابل عمل میکینزم نہیں بنایا۔ (تا کہ انگریز کو مسائل بنانے اور حل کرنے میں بالا دستی حاصل رہے)۔ پھر بھی تصفیے کی کوئی صورت ہو سکتی تھی تو اس کا امکان جناح صاحب نے عین آخری وقت پر خود کو گورنر جنرل نام زد کرکے ہمیشہ کے لیے ختم کر دیا۔
یہ تقسیم ویسے بھی تضادات اور تنازعات کی شروعات تھی خاتمہ نہیں۔ کیوں کہ آدھی سے کچھ کم مسلمان ابادی کو، جس میں آدھی نے پاکستان جانا ہی نہیں تھا، ہندوستان کے دونوں کناروں پر، ایک دوسرے سے دور، زمین کے چھوٹے چھوٹے، دو ٹکڑے دیے، جو ثقافتی، اقتصادی، فکری، تاریخی اور لسانی طور پر ایک دوسرے سے بالکل مختلف تھے۔ یوں پاکستان کے اندرونی اور مستقبل کے معاملات، دفاعی، انتظامی اور خارجہ امور پر ملک میں موجود انگریز افسر مکمل طور پر حاوی ہو گئے۔
این ڈبلیو ایف پی (پختون خوا) میں موجود انگریزوں کی ایما پر کشمیری اور لوکل سرکاری اور غیر سرکاری افراد نے قبائلیوں کو بندوق، جیب خرچ اور ٹرانسپورٹ دی، یوں کشمیر جہاد شروع ہوا۔ جس کی پہلی گولی چلانے کے دعوے مختلف اقوام کے بہادر لیڈر اور رہنما آج تک کرتے آرہے ہیں۔ اس کے بعد جو ہوا سب جانتے ہیں۔ لیکن چارسدے کے میجر جنرل اکبر خان کی کتاب The raiders کے علاوہ ان سادہ دل اور بے وقوف پختونوں کا ذکر تاریخ کی کسی پاکستانی کتاب میں موجود نہیں، البتہ کشمیری آج بھی ان کو ڈاکوؤں کے نام سے یاد کرتے ہیں۔
اس ”جہاد“ سے انگریزوں نے ایک نئے، چھوٹے اور کم زور ملک کو ایک بڑے، پرانے اور مضبوط ملک کے ساتھ مستقل بنیادوں پر دشمنی میں مبتلا کیا۔ جس کی وجہ سے انگریز نے اس نئے ملک کو دشمن کا خوف دلا کر، ہمیشہ اپنی مدد، اسلحے اور سفارتی حمایت کا باج گزار بنایا۔ اسے قرضے دیے، اس کی فوج کو ٹریننگ دی۔ نیز ابادی کی مناسبت سے زیادہ فوج رکھنے کے راستے پر ڈال کر اس کو مستقل معاشی، فکری اور سیاسی بحران میں گرفتار کیا۔ آگے سیٹو، سینٹو، نان نیٹو اتحادی، افغان وار، طالبان، دہشت گردی، ایوب خان، یحییٰ خان، ضیاء الحق، مشرف اور ایٹم بم کے تحفے دیے۔
آئی ایم ایف اور ورلڈ بنک کی دریوزہ گری سکھائی۔ جس کی بنا پر ملک میں دو مخالف پارٹیوں یعنی سیاسی یا سویلین اور فوجی یا مارشلائی قطبین تخلیق کیے گئے۔ جو ملکی بگ بینگ کے دن سے لے کر اج تک مسلسل ایک دوسرے سے فاصلے بڑھاتے رہے ہیں۔ نتیجتاً قوم بارود کی بنی، بارود کھاتی، بارود سونگھتی اور بارود سوچتی ہے۔ کرہ ارض کی سب سے بڑی جنگ، جس میں ہر قوم اور ملک شامل تھا، ہمارے ہاں لڑی گئی۔ جس سے مغرب کو آزادی ملی، جرمنی کو اتحاد، امریکا کو بلا شرکت غیرے پوری دنیا، لیکن جادو یہ ہوا کہ اس عالمی جنگ میں مغربی ممالک پر کوئی حملہ ہوا، نہ کوئی یورپی چینی جاپانی برطانوی یا امریکی مرا۔ پختونوں نے دنیا تبدیل کی لیکن اپنی حالت بد تر کر لی۔
اس ”جہاد“ کا دوسرا پہلو یہ تھا۔ کہ تقسیم کے وقت اس وقت کی سرحد اور آج کے پختونخوا میں خدائی خدمت گار تحریک اور کانگریس کی مشترک حکومت تھی۔ ہندوؤں اور مسلمانوں (پختونوں) کے درمیان مثالی، پر امن اور دوستانہ تعلقات تھے۔ گاندھی چارسدہ آتے تھے اور عبدالغفار خان کو ہندو، گاندھی جتنی عزت دیتے تھے۔ پختونوں کو کشمیر میں گھسا کر کانگریس اور خدائی خدمت گار تحریک، پختون قوم پرست اور ہندوستانی عوام، عبدالغفار خان اور کانگریس لیڈر شپ کے درمیان باہمی خیرخواہی پر مبنی تعلقات کو خراب کیا گیا۔
نیز فقیر ایپی اور باچہ خان کے پیروکاوں کو شیر و شکر ہونے اور متحد ہونے کی بجائے ایک دوسرے سے دور، مخالفت اور مخاصمت کے راستوں پر ڈالا گیا۔ جس کا بد ترین مظاہرہ، فقیر ایپی کے علاقے کے باشندوں کے، باچہ خان کے پیروکاروں کے علاقے پر مسلسل حملوں، بم دھماکوں، تعلیمی اداروں کی تباہی، سیاسی رہنماؤں اور ورکروں کی بے رحمانہ قتال کی صورت میں کیا گیا۔
چودھری محمد علی، پاکستان کے مشہور بیورو کریٹ، مسلم لیگ کے سیکرٹری جنرل اور پاکستان کے چوتھے وزیر اعظم نے، اپنی کتاب the emergence of Pakistan میں ایک ٹیلکس کی کاپی لگا کر لکھا ہے۔ کہ یہ ٹیلکس پاکستان کے گورنر جنرل اور بابائے قوم نے ہندوستان کے گورنر جنرل لارڈ ماؤنٹ بیٹن کو پختون حملہ آوروں کے کشمیر میں گھسنے کے بعد بھیجا۔ جس میں لکھا ہے کہ کشمیر پر حملہ پاکستانی فوج نے نہیں بلکہ پختون قبائل نے کیا ہے۔
بھارت کو چاہیے کہ ان حملہ آوروں کو کشمیر سے نکل جانے کا الٹی میٹم دے اگر مجوزہ دنوں میں یہ لوگ کشمیر سے نہ نکلے۔ تو بھارت ایک طرف سے اور پاکستان دوسری طرف سے حملہ کر کے ان حملہ اور قبائلیوں کو زبردستی کشمیر سے نکال دیں گے۔ چودھری محمد علی اگے لکھتے ہیں۔ کہ بھارت جناح صاحب کی تجویز ماننے کی بجائے سلامتی کونسل چلا گیا۔
اگر جناح صاحب کی تجویز بھارت مان لیتا، تو قبائلی سورمے ستر سال پہلے اپنے انجام کو پہنچ جاتے۔ لیکن انگریزوں کو روس کے خلاف مستقبل میں ان کی ضرورت تھی۔ اس لیے لارڈ ماؤنٹ بیٹن کی دور اندیشی نے ان کو بچالیا۔ کیوں کہ پاکستانی اور بھارتی فوج کی کمان دونوں طرف برطانوی فوجی افسروں کے ہاتھوں میں تھی۔ اور وہ کشمیر کا مسئلہ پیدا کر کے پاکستان کو قابو، روس کو تباہ اور ہندوستان کو مستقبل میں زیراحسان رکھنا چاہتے تھے۔
جب کہ پاکستان کے ساتھ مل کر، پختونوں کے خلاف فوج کشی نہ کر کے ان کو مستقبل کے لیے سنبھال کر رکھنا چاہتے تھے۔ دوسری طرف، اس وقت کی مسلم لیگی، پاکستانی سیاسی قیادت، پختونوں کو قربانی کے بکرے کے طور پر استعمال کرنا چاہتی تھی۔ تا کہ بھارت کے ساتھ مسائل کے حل کے لیے کوئی قابل عمل میکینزم بن سکے۔ جس کے تحت بیٹھ کر دونوں اپنے مسائل حل کر سکیں۔ حیرانی اس وقت ہوتی ہے کہ جب پاکستانی حکومت انگریزی رضا مندی سے پختون قبائل کو کشمیر میں بھیج رہی تھی، تو وہ اپنے آپ کو کیسے مطمئن کرتی، کہ یہاں کے انگریز وہاں کے انگریزوں کو اس ساری صورت احوال سے پیشگی آگاہ نہیں کریں گے اور ان کا راز راز رہے گا؟