افغانستان: عدالت کے عملے کی بس پر حملہ، دس افراد ہلاک

افغانستان کے دارالحکومت کابل میں وزارت داخلہ کے ایک ترجمان نے بتایا ہے کہ ایک بس پر ہونے والے حملے میں دس افراد ہلاک جبکہ چار زخمی ہو گئے ہیں۔
اس بس ایک اپیل کورٹ کا عملہ سفر کر رہا تھا۔
ابھی تک کسی نے بھی اس حملے کی ذمہ داری قبول نہیں کی ہے۔
وزارت داخلہ کے نائب ترجمان نجیب دانش نے بتایا کہ بمبار پیدل تھا اور اس نے گاڑی کے پاس سے گزرتے ہوئے خود کو دھماکے سے اڑا لیا۔
یہ واقعہ بدھ کی صبح رش والے وقت میں کابل کے مغربی علاقے میں پیش آیا ہے۔
خبر رساں ادارے اے پی کے مطابق انھوں نے بتایا کہ مرنے والوں میں عدالت کا عملہ اور عام شہری دونوں شامل ہیں۔
وزارت کے ایک ترجمان نے بی بی سی کو بتایا کہ یہ بس میدان وردک صوبے کو جا رہی تھی۔
خیال رہے کہ یہ حملہ طالبان کی جانب سے اپنے رہنما ملا اختر منصور کی امریکی ڈرون حملے میں ہلاکت کی تصدیق اور ان کے نائب ہیبت اللہ اخونزادہ کے ان کے جانشین بننے کے اعلان کے بعد ہوا ہے۔
اے پی کے مطابق اس سے قبل کابل میں 19 اپریل کو بڑا دھماکہ ہوا تھا جس میں 60 سے زائد افراد ہلاک ہوئے تھے۔
http://www.bbc.com/urdu/regional/2016/05/160525_kabul_explosion_many_dead_mb
 
اسلام میں کسی گروہ و جماعت کو یہ حق حاصل نہ ہے کہ وہ قانونی حکومت کی طرف سے دہشتگردوں کو پھانسی دئیے جانے پر ردعمل کے طور پر مزید دہشتگردی کرے۔یہ جہاد نہ ہے بلکہ سیدھی سادھی دہشتگردی ہے۔ جہاد تو اللہ کی خشنودی کےلئے ،اللہ کےر استہ میں کی جاتی ہے۔
خودکش حملے،دہشتگردی اور بم دھماکے اسلام میں جائز نہیں یہ اقدام کفر ہے. اسلام ایک بے گناہ فرد کے قتل کو پوری انسانیت کا قتل قرار دیتا ہے ۔معصوم شہریوں کو دہشت گردی کا نشانہ بنانا، قتل و غارت کرنا، خود کش حملوں کا ارتکاب کرنا خلاف شریعہ ہے۔
علمائے اسلام ایسے جہاد کو’’ فساد فی الارض ‘‘اور دہشت گردی قرار دیتے ہیں جس میں ،بے گناہ لوگوں کو بے دردی کیساتھ شہید کیا جائے ، جس میں جہاد فی سبیل اللہ کی بجائے جہاد فی سبیل غیر اللہ ہو ۔​
 
Top