قارئین کرام کے علم میں ہوگا کہ ماہ اکتوبر کی 26 تاریخ کو برطانوی فوج ہلمند میں موجود بیرونی افواج کے دوسرے سب سے بڑے فوجی مرکز شوراب میں اپنی قیام گاہ بوسٹن سے بوریا بستر لپیٹ کر سرزمین افغانستان سے راہ فرار اختیارکرگئی۔
اسلام اورمسلمانوں کے خلاف اعلان شدہ صلیبی جنگ جس کے لئے 50 سے زیادہ مغربی ممالک متحد ہوئے اور 2001 میں افغانستان پر حملے اورقبضہ سے باقاعدہ طور پریہ لڑائی شروع ہوگئی جس کی قیادت امریکہ کے ہاتھ میں تھی جبکہ برطانیہ اس جنگ کا سب سے بڑا اتحادی تھا ۔وہی برطانیہ جوآج سے تقریبا ایک صدی قبل دنیا کی سب سے بڑی سلطنت ہونے کے باوجود عددووسائل کے لحاظ سے انتہائی کمزور مگر حب الوطنی اورایمانی جذبہ سے سرشار افغانوں سے 1919،1880،1842 کے تین لڑائیوں میں ایسی شرمنا ک شکست سے دوچارہواتھا جس کی بدولت خطے کے دیگر مقبوضہ ممالک میں برطانیہ کے خلاف اٹھنے کی جرات پیداہوئی اوریوں برطانوی سلطنت پھرسے ایک چھوٹی سی ریاست میں تبدیل ہوکر رہ گئی ۔
کیا برطانیہ نے زمانہ قریب میں ہونے والی شرمناک شکستوں کو بھلادیاتھا جو افغانستان پر پھر سے حملہ کرنے کی جسارت کی ۔جی بالکل نہیں ، وہ اپنی ان تینوں شکستوں کو بالکل بھی نہیں بھولالیکن یہ کہ دنیا کی نظروں میں ناقابل شکست امریکا کی سربراہی میں پورامغرب جنگ زدہ ،غریب اورجدید جنگی وسائل سےتہی دست افغانستا ن پرحملہ کرنے والاتھا توبرطانویوں نے اسے افغانیوں سے اپنے آباء واجداد کی ذلت کا بدلہ لینے اورامریکہ سے مل کر شیطانی منصوبوں کو عملی جامہ پہننانے کا بہترین موقع خیال کیا ۔اسی وجہ سے برطانوی وزیر اعظم ٹونی بلیئرنے نہ صرف یہ کہ آنکھیں بند کرکے افغانستان پر حملے میں امریکا کے شانہ بہ شانہ رہنے کا فیصلہ کیا بلکہ امریکہ کو بھی جلدسے جلد افغانستان پر حملہ کرنے کے لئے ابھارتا رہا۔
برطانوی فوج کی نظریں پورے افغانستان میں خصوصی طورپر اسی علاقہ پر تھیں جس کو تاریخ اٹھارہویں صدی کے آواخر میں انگریزی افواج کی مقتل گاہ کے نام سے یادکرتی ہے ،اسی وجہ سے برطانوی فوج نے 2006 میں افغانستان کے دیگر علاقوں سے تقریباً تمام فوجیوں کواس امید کے ساتھ غاصب افواج کے افغانستان میں دوسرے سب سے بڑے اڈے شورا ب میں جمع کیا کہ جہاں ان کے آباء واجداد تاریخی شکست سے دوچارہوئے تھے یہ وہاں فتح وکامرانی کے جھنڈے گاڑسکیں جوطاقت کے نشے میں چور اورجدید جنگی وسائل سے لیس مغرور برطانوی فوج کی بڑی خام خیالی اور افغانوں کی تابندہ تاریخ سے آنکھیں چرانے کے سواکچھ بھی نہ تھا ۔
افغان قوم جودنیا کی کسی بھی بڑی طاقت کے سامنے کبھی سرنگوں نہ ہوئی ہے اورنہ ہی کبھی کسی کے تسلط کو برداشت کیاہے ،مغربی اتحادکے دیگراتحادیوں کی طرح برطانیہ کا بھی یہ خیال تھا کہ اس وقت جب کہ افغانی جنگ زدہ اور مادی وجنگی وسائل کی عدم دستیبابی کا شکار ہیں ،مقابلے کے لئے نکلنے کی جرات نہیں کریں گے اوراگرنکل بھی آئے تو چند دن بھی میدان میں ٹھہرنہ سکیں گے لیکن ان کی بدقسمتی دیکھئے کہ اس بار بھی یہ مکار دشمن اپنی جدید جنگی آلات اورجنگی ٹیکنالوجی کے باوجود افغانیوں کو ہراساں اورخوف زدہ نہ کرسکا ۔
بیرونی غاصب افواج کی قیادت چونکہ امریکا کے ہاتھ میں تھی توطالبان مجاہدین کااصل مقابل بھی وہی تھا لیکن جب پرانا دشمن برطانیہ نئے مذموم ارادوں کے ساتھ میدان میں آیا تو طالبان قیادت نے اپنی زیادہ توجہ انہی کی جانب مرکوز کردی اورہلمند میں داخل ہوتے ہی یہاں کے شیروں نے برطانوی فوج پر ایسے تابڑ توڑ حملے کئےکہ ان کے اوسان خطاہوگئے اوربہت جلد ہی مقابلے کی طاقت کھوبیٹھے، برطانوی فوج کی اس بری حالت کودیکھتے ہوئے ان کی مدد کے لئے امریکی فوج یہاں آگئی لیکن اس سے برطانوی فوج کی حالت پہلے سے بھی ابترہوگئی کیونکہ ہلمند جیسے علاقے میں صف اول کے دوبڑے دشمنوں کا ایک جگہ جمع ہونا مجاہدین کے لئے بڑی خوشی کی بات تھی کہ یہی ان دونوں کو سبق سکھانے کا بہترین موقع تھا۔ مجاہدین نے اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے دیگر محاذوں کی بہ نسبت ہلمند کے محاذ کوزیادہ گرم رکھا اور ہلمند کے ہرمیدان وپہاڑ،ہر صحرا ودرےاور ہرگلی کوچہ میں ان پر جان لیواحملے کئے یہاں تک کہ غاصب فوج اپنے چھوٹے بڑے کسی مرکز میں بھی بچ کر نہ رہ سکی ۔ان کی توقعات کے برعکس ہلمند ان کے لئےایسا خطرناک محاذ ثابت ہواکہ وہ خود اسے موت کاکنواں کہنے لگے ۔برطانوی فوج کی اعترافات کے مطابق یہاں ان کے 453 فوجی جان سے ہاتھ دھوبیٹھے،2400زخمی اور5000سے زائد نفسیاتی بیماریوں میں مبتلاہوگئے جبکہ مالی نقصان 40 ارب پونڈ کے قریب پہنچ چکاہے ۔حالانکہ ان کے نقصانات اس سے کئی گنا زیاہ ہیں لیکن یہ لوگ شرم کے مارے ان کا اظہارنہیں کرتے۔
اتنے طویل،بدنام اور مہنگی لڑائی کا نتیجہ اورفائدہ ؟۔
فائدہ ! یہ کہ انہوں نے افغانستان میں چوتھی مرتبہ اپنی شکست تسلیم کرلی ۔شوراب کے بڑے اڈے میں امریکیوں کی قیام گاہ لیدرنیک کے ساتھ ہی برطانوی فوج کی قیام گاہ بوسٹن کیمپ سے بھی 26 اکتوبر2014کو برطانوی پر چم ہمیشہ کے لئے اتاراگیا اوربے شمار تلخ یادوں اورشکست کے سیاہ دھبے کے ساتھ برطانیہ کی راہ لے کرفرارہوگئے۔
برطانیہ کی افغانستان میں یہ چوتھی مرتبہ شکست ایسی شکست ہے کہ برطانوی رہنماوں کے پاس اس کے اعتراف کے سواکوئی چارہ نہیں ۔برطانیہ کے سابق وزیر دفاع " لیام فاکس" کہتاہے کہ : ْ ْافغانستان سے متعلق مغرب کی پالیسی احمقانہ تھی ،برطانیہ کے منصوبہ سازتاریخ سے نابلد تھے اگرانہوں نے تاریخ پڑھی ہوتی تووہ کبھی بھی اپنی فوج افغانستان نہ بھیجتے ٗ ٗ۔
برطانیہ کے مشہور صحافی اور سیاسی مبصر فزنک لیدویج کا کہنا ہے کہ برطانوی فوج کا افغانستان میں بھیجنا خون میں سرمایہ کاری کے مترادف ہے ۔برطانیہ کے موجودہ وزیردفاع نے کہا ہے کہ برطانیہ آئندہ کے لئے کبھی بھی اپنی فوج افغانستان نہیں بھیجے گا ۔
قوم مطمئن رہے ،کٹھ پتلیوں کے ساتھ امریکی معاہدوں کوخاطرمیں نہ لائے ،ان شاء اللہ وہ قت اب زیادہ دورنہیں جب مجاہدین کی لازوال قربانیوں کی بدولت امریکہ بھی اپنے اس دم دباکر بھاگنے والے اہم اتحادی کی طرح افغانستان سے بھاگنے پر مجبورہوگا اورپھر ان کے سربراہ کا یہ اعلان بھی نشرہوگا کہ :
ہم آئندہ کے لئے اپنے فوجی کبھی بھی افغانستان بھیجنے کی غلطی نہیں کریں گے ۔
بشکریہ