گرائیں
محفلین
پاکستان میں سرگرم شدت پسند تنظیموں میں تقسیم در تقسیم اتنی ہوگئی ہے کہ ان کا حساب رکھنا تقریبا ناممکن ہوتا جا رہا ہے۔ اس فہرست میں ایک نیا اضافہ قاری ظفر گروپ ہے جس کے رہنما قاری ظفر گزشتہ دنوں ایک امریکی ڈرون حملے میں مارے گئے تھے۔
بی بی سی کے ساتھ ایک انٹرویو میں بھی یہ بات واضح ہوکر سامنے آئی ہے کہ اگرچہ اس گروپ کا ایجنڈا بھی تقریباً دیگر تنظیموں کی طرح ایک ہی ہے لیکن یہ اپنا الگ تشخص رکھنا چاہتی ہے۔ اس کا تعلق نہ تو کالعدم تحریک طالبان اور نہ ہی القاعدہ یا پنجابی طالبان کے کسی گروپ سے تعلق ہے۔ اس تنظیم میں شریک افراد کی تعداد یا دستیاب وسائل بھی واضح نہیں ہیں۔
بی بی سی اردو سروس کی جانب سے بھیجے گئے سوالات کا تحریری جواب دیتےقاری ظفر گروپ کے نئے امیر ابو ذر خنجری کا کہنا ہے کہ ان کی جنگی توجہ کا مرکز پاکستان ہوگا اور ہمسایہ ملک افغانستان کے لیے افغان طالبان کافی ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ’ہم پرویز مشرف کی طرح اس بات کے قائل ہیں کہ سب سے پہلے پاکستان۔ افغانستان کے لیے وہاں کے طالبان کافی ہیں‘۔
اس شدت پسند گروپ کے سربراہ قاری ظفر گزشتہ دنوں شمالی وزیرستان میں ایک ڈرون حملے میں ہلاک ہوگئے تھے جس کے بعد تنظیم نے ابو ذر خنجری نامی شخص کو نیا امیر مقرر کیا تھا۔ نئے امیر کے بارے میں کچھ زیادہ معلومات دستیاب نہیں ہیں اور نہ ہی اس بات سوال کا جواب انہوں نے اس انٹرویو میں دینا پسند کیا ہے۔
ابو ذر خنجری کا کہنا تھا کہ ان کی تنظیم القاعدہ اور طالبان کے ساتھ روابط کس حد تک بڑھانا چاہتے ہیں تو ان کا کہنا تھا کہ وہ طالبان اور تحریک طالبان کی قدر اور عزت کرتے ہیں لیکن اپنی مدد آپ کے قائل ہیں۔
اسی قسم کے ایک اور سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ پنجاب سے تعلق رکھنے والے عسکریت پسند پنجابی کہلواتے ہیں اور ان کے ان سے اچھے تعلقات ہیں۔ ان جوابوں سے بظاہر محسوس ہوتا ہے کہ یہ گروپ آزاد حیثیت میں کام کر رہا ہے اور اس کے نہ تو تحریک طالبان اور نہ ہی پنجابی طالبان سے قریبی تعلق ہے۔
بقیہ
بی بی سی کے ساتھ ایک انٹرویو میں بھی یہ بات واضح ہوکر سامنے آئی ہے کہ اگرچہ اس گروپ کا ایجنڈا بھی تقریباً دیگر تنظیموں کی طرح ایک ہی ہے لیکن یہ اپنا الگ تشخص رکھنا چاہتی ہے۔ اس کا تعلق نہ تو کالعدم تحریک طالبان اور نہ ہی القاعدہ یا پنجابی طالبان کے کسی گروپ سے تعلق ہے۔ اس تنظیم میں شریک افراد کی تعداد یا دستیاب وسائل بھی واضح نہیں ہیں۔
بی بی سی اردو سروس کی جانب سے بھیجے گئے سوالات کا تحریری جواب دیتےقاری ظفر گروپ کے نئے امیر ابو ذر خنجری کا کہنا ہے کہ ان کی جنگی توجہ کا مرکز پاکستان ہوگا اور ہمسایہ ملک افغانستان کے لیے افغان طالبان کافی ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ’ہم پرویز مشرف کی طرح اس بات کے قائل ہیں کہ سب سے پہلے پاکستان۔ افغانستان کے لیے وہاں کے طالبان کافی ہیں‘۔
اس شدت پسند گروپ کے سربراہ قاری ظفر گزشتہ دنوں شمالی وزیرستان میں ایک ڈرون حملے میں ہلاک ہوگئے تھے جس کے بعد تنظیم نے ابو ذر خنجری نامی شخص کو نیا امیر مقرر کیا تھا۔ نئے امیر کے بارے میں کچھ زیادہ معلومات دستیاب نہیں ہیں اور نہ ہی اس بات سوال کا جواب انہوں نے اس انٹرویو میں دینا پسند کیا ہے۔
ابو ذر خنجری کا کہنا تھا کہ ان کی تنظیم القاعدہ اور طالبان کے ساتھ روابط کس حد تک بڑھانا چاہتے ہیں تو ان کا کہنا تھا کہ وہ طالبان اور تحریک طالبان کی قدر اور عزت کرتے ہیں لیکن اپنی مدد آپ کے قائل ہیں۔
اسی قسم کے ایک اور سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ پنجاب سے تعلق رکھنے والے عسکریت پسند پنجابی کہلواتے ہیں اور ان کے ان سے اچھے تعلقات ہیں۔ ان جوابوں سے بظاہر محسوس ہوتا ہے کہ یہ گروپ آزاد حیثیت میں کام کر رہا ہے اور اس کے نہ تو تحریک طالبان اور نہ ہی پنجابی طالبان سے قریبی تعلق ہے۔
بقیہ