افغانستان ایشیاء کا ایک ملک ہے جس کا سرکاری نام اسلامی جمہوریہ افغانستان ہے۔ اس کے جنوب اور مشرق میں پاکستان، مغرب میں ایران، شمال مشرق میں چین، شمال میں ترکمانستان، ازبکستان اور تاجکستان ہیں۔ اردگرد کے تمام ممالک سے افغانستان کے تاریخی، مذہبی اور ثقافتی تعلق بہت گہرا ہے۔ اس کے بیشتر لوگ مسلمان ہیں۔ یہ ملک بالترتیب ایرانیوں، یونانیوں، عربوں، ترکوں، منگولوں، برطانیوں، روسیوں اور اب امریکہ کے قبضے میں رہا ہے۔ مگر اس کے لوگ بیرونی قبضہ کے خلاف ھمیشہ مزاحمت کرتے رہے ہیں۔ ایک ملک کے طور پر اٹھارویں صدی کے وسط میں احمد شاہ درانی کے دور میں یہ ابھرا اگرچہ بعد میں درانی کی سلطنت کے کافی حصے اردگرد کے ممالک کے حصے بن گئے۔
1919ء میں انگریزوں سے اسے آزادی حاصل ہوئی۔ جس کے بعد افغانستان صحیح معنوں میں ایک ملک بن گیا۔ مگر انگریزوں کے دور میں اس کے بیشتر علاقے حقیقت میں آزاد ہی تھے اور برطانیہ کبھی اس پر مکمل قبضہ نہیں رکھ سکا۔ آج افغانستان امریکی قبضہ میں ہے اور بظاہر ایک آزاد ملک اور حکومت کے طور پر تسلیم کیا جاتا ہے۔ افغانستان پچھلے پینتیس سال سے مسلسل جنگ کی سی حالت میں ہے جس نے اس کو تباہ کر دیا ہے اور اس کی کئی نسلوں کو بے گھر کر دیا ہے۔ یہ تباہی کبھی غیروں کے ہاتھوں ہوئی اور کبھی خانہ جنگی سے یہ صورتحال پیدا ہوئی۔ اگرچہ افغانستان کے پاس تیل یا دوسرے وسائل کی کمی ہے مگر اس کی جغرافیائی حیثیت ایسی ہے کہ وہ وسطی ایشیاء، جنوبی ایشیاء اور مشرقِ وسطیٰ کے درمیان ہے اور تینوں خطوں سے ھمیشہ اس کے نسلی، مذہبی اور ثقافتی تعلق رہا ہے اور جنگی لحاظ سے اور علاقے میں اپنا دباؤ رکھنے کے لیے ھمیشہ اہم رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ استعماری طاقتوں نے ھمیشہ اس پر اپنا قبضہ یا اثر رکھنے کی کوشش کی ہے۔ افغانستان کا زیادہ رقبہ پتھریلا پہاڑی علاقہ ہے اس وجہ سے کسی بھی بیرونی طاقت کا یہاں قبضہ رکھنا مشکل ہے اور لوگ زیادہ تر قبائلی ہیں اس لیے کبھی بیرونی طاقتوں کو تسلیم نہیں کرتے، نتیجہ یہ کہ اس ملک کو کبھی بھی لمبے عرصے کے لیے امن نصیب نہیں ہو سکا۔
قبل اسلام
فارس کے بادشاہ شاپور اول کا سکہ ۔ زمانہ: تیسری صدی عیسوی
افغانستان میں پچاس ھزار سال پہلے بھی انسانی آبادی موجود تھی اور اس کی زراعت بھی دنیا کی اولین زراعت میں شامل ہے۔ سن 2000 قبل مسیح میں آریاؤں نے افغانستان کو تاراج کیا۔ جسے ایرانیوں نے ان سے چھین لیا۔ اس کے بعد یہ عرصہ تک سلطنت فارس کا حصہ رہا۔ 329 قبل مسیح میں اس کے کئی حصے ایرانیوں سے سکندر اعظم نے چھین لیے جس میں بلخ شامل ہے مگر یونانیوں کا یہ قبضہ زیادہ دیر نہ رہا۔ 642 عیسوی تک یہ علاقہ وقتاً فوقتاً ہنوں، منگولوں، ساسانیوں اور ایرانیوں کے پاس رہا۔ جس کے بعد اس علاقے کو مسلمانوں نے فتح کر لیا۔ مسلمانوں کی اس فتح کو تاریخ میں عربوں کی فتح سمجھا جاتا ہے جو غلط ہے کیونکہ مسلمانوں میں کئی اقوام کے لوگ شامل تھے۔ اسلام سے پہلے یہاں کے لوگ بدھ مت اور کچھ قبائلی مذاہب کے پیروکار تھے۔
اسلامی دور احمد شاہ درانی (ابدالی) تک (642ء سے 1747ء)
شہنشاہ بابر جس نے کابل کو دارالحکومت بنایا
642ء میں مسلمانوں نے اس علاقے کو فتح کیا مگر یہاں کے حکمران علاقائی لوگوں ہی کو بنایا۔ پہلے یہ حکمرانی خراسانی عربوں کے پاس رہی۔ 998ء میں محمود غزنوی نے ان سے اقتدار چھین لیا۔ غوریوں نے 1146ء میں غزنویوں کو شکست دی۔ اور انہیں غزنی کے علاقے تک محدود کر دیا۔ یہ سب مسلمان تھے مگر 1219ء میں چنگیز خانی منگولوں نے افغانستان کو تاراج کر دیا۔ ھرات ، غزنی اور بلخ مکمل طور پر تباہ ہو گئے۔ منگول بعد میں خود مسلمان ہو گئے حتیٰ کہ تیمور نے چودھویں صدی میں ایک عظیم سلطنت قائم کر لی۔ اسی کی اولاد سے شہنشاہ بابر نے کابل کو سولہویں صدی کے شروع میں پہلی دفعہ اپنا دارالحکومت قرار دیا۔ سولہویں صدی سے اٹھارویں صدی تک افغانستان کئی حصوں میں تقسیم رہا۔ شمالی حصہ پر ازبک ، مغربی حصے (ھرات سمیت) پر ایرانی صفویوں ، اور مشرقی حصہ پر مغل اور پشتون قابض رہے۔ 1709ء میں پشتونوں نے صفویوں کے خلاف جنگ لڑی اور 1719ء سے 1729ء تک افغانستان بلکہ ایرانی شہر اصفہان پر قبضہ رکھا۔ 1729ء میں ایرانی بادشاہ نادر شاہ نے انھیں واپس دھکیلا اور ان کے قبضے سے تمام علاقے چھڑائے حتیٰ کہ 1738ء میں قندھار اور غزنی پر بھی قبضہ کر لیا۔ جو 1747ء تک جاری رہا۔ پشتونوں اور فارسی بولنے والوں کی یہ کشمکش آج بھی جاری ہے حالانکہ دونوں مسلمان ہیں۔
یورپی اثر (1823ء۔1919ء)
امیر دوست محمد خان، جس نے کابل کی حکومت 1826ء میں سنبھال لی تھی، نے روس اور ایران سے تعلقات پڑھانا شروع کیے کیونکہ سکھوں نے پنجاب پر قبضہ کر لیا تھا اور انگریزوں نے اپنی روایتی چالاکی کا ثبوت دیتے ہوئے سکھوں اور دھلی کے شاہ شجاع کے ساتھ مل کر افغانستان میں اپنا اثر پڑھانا شروع کیا۔ حالانکہ دونوں انگریزوں کے بظاہر دشمن تھے۔ شاہ شجاع کو انگریزوں نے کابل کے تخت کے سبز باغ دکھائے۔ اس زمانے میں روس اور برطانوی ھند میں کئی ھزار میل کا فاصلہ تھا اور وسطی ایشیاء کے شہروں مرو، خیوا، بخارا اور تاشقند کو مغرب میں زیادہ لوگ نہیں جانتے تھے مگر انگریز یہ جانتے تھے کہ روسی ان پر قبضہ کرنا چاہتے ہیں۔ ان کو روکنے اور افغانستان میں اپنا اثر بڑھانے کے لیے انگریزوں کی مکارانہ جدوجہد کو 'عظیم چالبازیوں' (The Great Game) کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ [2] اس سلسلے میں انگریزوں نے دو جنگیں لڑیں۔ پہلی جنگ ( 1839ء-1842ء) اس وقت ہوئی جب ایرانیوں نے ھرات کے لوگوں کے ساتھ مل کر انگریزوں اور روسیوں کو افغانستان سے بے دخل کرنے کے لیے افواج پورے ملک میں روانہ کیں۔ انگریزوں نے کابل پر قبضہ کر کے دوست محمد خان کو گرفتار کر لیا۔ افغانیوں نے برطانوی فوج کے ایک حصے کو مکمل طور پر قتل کر دیا جو سولہ ھزار افراد پر مشتمل تھی۔ صرف ایک شخص زندہ بچا۔ انگریز مدتوں اپنے زخم چاٹتے رہے۔ اسی وجہ سے مجبوراً انگریزوں نے دوست محمد خان کو رہا کر دیا۔ بعد میں دوست محمد خان نے ھرات کو بھی فتح کر لیا۔ دوسری جنگ (1878ء-1880ء) اس وقت ہوئی جب امیر شیر علی نے برطانوی سفارت کاروں کو کابل میں رہنے کی اجازت نہ دی۔ اس جنگ کے بعد انگریزوں کی ایما پر1880ء میں امیر عبدالرحمٰن نے افغانستان کا اقتدار حاصل کیا مگر عملاً کابل کے خارجی معاملات انگریزوں کے ہاتھ میں چلے گئے۔
امیر امان اللہ خان
اسی اثر کا فائدہ اٹھاتے ہوئے انگریزوں نے افغانستان کے ساتھ سرحدوں کے تعین کا معاہدہ بھی کیا۔ امیر عبدالرحمٰن کے بیٹے امیر حبیب اللہ خان بعد میں افغانستان کے بادشاہ ہوئے۔ ان کے دور میں افغانستان میں مغربی مدرسے کھلے اور انگریزوں کا اثر مزید بڑھ گیا۔ اگرچہ بظاہر انگریزوں نے افغانستان کو ایک آزاد ملک کے طور پر تسلیم کیا۔ 1907ء میں امیر حبیب اللہ خان نے انگریزوں کی دعوت پر برطانوی ھند کا دورہ بھی کیا۔ اسی مغربی دوستی اور اثر کی وجہ سے امیر حبیب اللہ خان کو اس کے رشتہ داروں نے 20 فروری 1919ء کو قتل کر دیا۔ اس کے قتل کے بعد اس کا بیٹا امان اللہ خان بادشاہ بن گیا اور انگریزوں کے خلاف جنگ چھیڑ دی مگر 19 اگست 1919ء کو اس کے اور انگریزوں کے درمیان راولپنڈی میں ایک معاہدہ ہوا جس میں انگریزوں نے افغانستان پر اپنا کنٹرول ختم کیا اور افغانستان میں ان کا اثر تقریباً ختم ہو گیا۔ 19 اگست 1919ء کو اسی وجہ سے افغانستان کی یومِ آزادی کے طور پر منایا جاتا ہے۔
آزادی کے بعد (1919ء-1978ء)
امان اللہ خان (دورِ اقتدار: 1919ء-1929ء) نے افغانستان کا اقتدار سنبھالنے کے بعد اصلاحات کیں اور مغربی دنیا سے تعلقات قائم کیے۔ اصلاحات میں بنیادی تعلیم کا لازمی قرار دینا اور مغربی طرز کی دیگر اصلاحات شامل تھیں۔ اس نے 1921ء میں افغانستان میں ہوائی فوج بھی بنائی جس کے جہاز روس سے آئے لیکن افواج کی تربیت ترکی اور فرانس سے کروائی گئی۔ 1927ء میں امان اللہ خان نے یورپ اور ترکی کا دورہ بھی کیا جس میں اس نے مغربی مادی ترقی کا جائزہ لیا اور افغانستان میں ویسی ترقی کی خواہش کی مگر جب اس نے کمال اتاترک کی طرز پر پردہ پر پابندی لگانے کی کوشش کی تو قبائل میں بغاوت پھوٹ پڑی اور افغان اس کے سخت خلاف ہو گئے۔ شنواری قبائل نے نومبر 1928ء میں جلال آباد سے بغاوت شروع کی اور دوسرے لوگوں کو ساتھ ملا کر کابل کی طرف بڑھنے لگے۔ شمال سے تاجک کابل کی طرف بڑھنے لگے۔ امان اللہ خان پہلے قندھار بھاگا اور فوج تیار کرنے کی کوشش کی مگر ناکام ہوا جس کے بعد وہ بھارت فرار ہو گیا۔ وہاں سے پہلے اطالیہ اور بعد میں سوئٹزرلینڈ میں پناہ لی جہاں 1960 میں وفات پائی۔ اس بغاوت کے دوران جنوری 1929ء میں حبیب اللہ کلاکانی عرف بچہ سقا نے کابل پر قبضہ کیا اور حبیب اللہ شاہ غازی کے نام سے حکومت قائم کی مگر اکتوبر 1929ء میں جنرل نادر خان کی فوج نے کابل کو گھیر لیا جس پر بچہ سقا فرار ہو کر اپنے گاؤں چلا گیا۔ جنرل نادر خان کو انگریزوں کی مکمل حمایت حاصل تھی جنہوں نے اسے ہتھیار اور پیسہ دیا تھا۔ اس کے علاوہ انگریزوں نے جنرل نادر خان کو ایک ھزار افراد کی فوج بھی تیار کر کے دی تھی جو وزیرستانی قبائلیوں پر مشتمل تھی۔ نادر خان نے قرآن کو ضامن بنا کر اس کو پناہ اور معافی دی مگر جب وہ کابل آیا تو اسے قتل کروا دیا۔ [
نادر خان (دورِ اقتدار: 1929ء۔1933ء ) جو امان اللہ خان کا رشتہ دار تھا اس نے نادر شاہ کے نام سے 1929ء میں افغانستان کا تخت سنبھالا۔ مگر 1933ء میں کابل کے ایک طالب علم نے اسے قتل کر دیا جس کے بعد اس کے انیس سالہ بیٹے ظاہر شاہ بادشاہ بن گیا۔ ظاہر شاہ (دورِ اقتدار: 1933ء۔1973ء ) نے چالیس سال تک افغانستان پر حکومت کی۔ وہ افغانستان کا آخری بادشاہ تھا۔ اس نے کئی وزیر اعظم بدلے جن کی مدد سے اس نے حکومت کی۔ جن میں سے ایک سردار محمد داؤد خان (المعروف سردار داؤد) تھا جو اس کا کزن تھا۔ سردار داؤد نے روس اور بھارت سے تعلقات بڑھائے۔ اسے پاکستان سے نفرت تھی۔ پاکستان سے تعلقات کی خرابی کی وجہ سے افغانستان کو اقتصادی مشکلات ہوئیں تو سردار داؤد کو 1963ء میں استعفیٰ دینا پڑا۔ مگر سردار داؤد (دورِصدارت: 1973ء-1978ء) اس نے دس سال بعد 17 جولائی 1973ء کو ایک فوجی بغاوت میں افغانستان پر قبضہ کر لیا۔ اس بغاوت کو روس (اس وقت سوویت یونین) کی مدد حاصل تھی۔ ظاہر شاہ فرار ہو کر اطالیہ چلا گیا۔27 اپریل 1978ء کو سردار داؤد کو ایک اور بغاوت میں قتل کر دیا گیا۔ اور نور محمد ترہ کئی صدر بن گیا۔ اس بغاوت کو بھی روس کی مدد سے ممکن بنایا گیا۔ اس حکومت نے کمیونزم کو رائج کرنے کی کوشش کی اور روس کی ہر میدان میں مدد لی جن میں سڑکوں کی تعمیر سے لے کر فوجی مدد تک سب کچھ شامل تھا۔ روس کی یہ کامیابی امریکہ کو کبھی پسند نہیں آئی چنانچہ سی آئی اے (CIA) نے اسلامی قوتوں کو مضبوط کرنا شروع کیا۔ جس سے ملک میں فسادات پھوٹ پڑے۔ نتیجتاً 1979ء میں روس نے افغانستان کی حکومت کی دعوت پر افغانستان میں اپنی فوج اتار دی اور عملاً افغانستان پر اسی طرح روس کا قبضہ ہو گیا جس طرح آج کل امریکہ کا قبضہ ہے۔
روسی قبضہ اور جہاد
روس کی کمیونسٹ پارٹی نے کمال اتا ترک کی طرز پر غیر اسلامی نظریات کی ترویج کی مثلاً پردہ پر پابندی لگانے کی کوشش کی۔ یہ تبدیلیاں افغانی معاشرہ سے بالکل مطابقت نہیں رکھتی تھیں۔ افغانستان میں حالات جب بہت خراب ہو گئے تو افغانی کمیونسٹ حکومت کی دعوت پر روس نے اپنی فوج افغانستان میں اتار دی۔25 دسمبر 1979 کو روسی فوج کابل میں داخل ہوگئی۔ افغانستان میں مجاہدین نے ان کے خلاف جنگ شروع کر دی۔ امریکہ نے ان مجاہدین کو خوب مدد فراہم کی مگر امریکہ کا مقصد اسلام کی خدمت نہیں بلکہ روس کے خلاف ایک قوت کو مضبوط کرنا تھا۔ امریکہ کو پاکستان کو بھی ساتھ ملانا پڑا۔ پاکستان کی مذہبی جماعتوں کو بھی امریکہ نے روس کے خلاف استعمال کیا۔ پاکستان نے بھی دنیا کو روس سے نجات دلا کر ساری مسلم دنیا کو امریکی چنگل میں پھنسانے میں مدد کی۔ افغان مجاہدین اسلام سے مخلص تھے مگر امریکہ انھیں اپنے مقصد کے لیے استعمال کرتا رہا۔ مگر جب امریکہ کو ان کی ضرورت نہ رہی تو وہی مجاہدین امریکی اور پاکستانی زبان میں دہشت گرد کہلانے لگے۔ امریکی سی آئی اے، پاکستان، امریکہ اور سعودی عرب نے اس دوران اپنا اپنا کردار ادا کیا جس میں ان ممالک کے کچھ مفادات مشترک تھے اور کچھ ذاتی۔ اس جہاد کا نتیجہ یہ نکلا کہ روس کو 1989 میں مکمل طور پر افغانستان سے نکلنا پڑا بلکہ بعض دانشوروں کے خیال میں روس کے ٹوٹنے کی ایک بڑی وجہ یہی تھی۔ اس سلسلے میں روس، افغانستان اور پاکستان کے درمیان 1988 میں جنیوا معاہدہ ہوا تھا۔
روسیوں کے بعد
روس نے افغانستان سے فوج نکالنے کے بعد بھی اس وقت کی نجیب اللہ حکومت کی مدد جاری رکھی مگر 18 اپریل 1992 کو مجاہدین کے ایک گروہ نے جنرل عبدالرشید دوستم اور احمد شاہ مسعود کی قیادت میں کابل پر قبضہ کر لیا اور افغانستان کو اسلامی جمہوریہ بنانے کا اعلان کر دیا۔ مگر امریکہ اسلحہ کی مدد سے مجاہدین کے مختلف گروہوں کے درمیان اقتدار کے حصول کے لیے خانہ جنگی شروع ہو گئی۔ اس وقت ایک اسلامی جہادی کونسل بنائی گئی جس کی قیادت پہلے صبغت اللہ مجددی اور بعد میں برہان الدین ربانی نے کی مگر مجاہدین کی آپس کی لڑائی میں اضافہ ہوتا چلا گیا۔ بیرونی طاقتوں نے پشتو اور فارسی بولنے والوں کی باہمی منافرت کا خوب فائدہ اٹھایا۔ اس وقت کی حکومت میں پشتونوں کی نمائندگی نہ ہونے کے برابر تھی جس سے ان میں شدید احساسِ محرومی پیدا ہوا۔ پاکستان اور افغانستان کے کچھ علما نے مدرسوں کے طلبا کو منظم کرنا شروع کیا جن کو بعد میں طالبان کہا جانے لگا۔ پاکستانی فوج کے جنرل نصیر اللہ بابر طلبا کو استعمال کرنے کے خیال کے بانی تھے۔ 1996ء میں طالبان کے رہنما ملا محمد عمر نے کابل پر قبضہ کیا۔ انھوں نے افغانستان کو اسلامی امارت قرار دیا اور طالبان نے انھیں امیر المومنین تسلیم کر لیا۔ طالبان نے 2000 تک افغانستان کے پچانوے فی صد علاقے پر قبضہ کر کے ایک اسلامی حکومت قائم کی۔ اس زمانے میں افغانستان میں نسبتاً امن قائم رہا اور پوست کی کاشت بھی نہ ہوئی۔ طالبان کو بجز پاکستان اور سعودی عرب کے کسی نے تسلیم نہ کیا اور مغربی دنیا نے شمالی اتحاد کی مدد جاری رکھی جو افغانستان کے شمال میں کچھ اختیار رکھتے تھے۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ ایک خالص اسلامی حکومت مغربی دنیا اور بھارت کو ھرگز قبول نہ تھی۔ یاد رہے کہ طالبان سے پہلے بھارت کو افغانستان میں خاصا عمل دخل تھا۔ طالبان کے دور میں پاکستان کا اثر افغانستان میں بڑھ گیا اور پچاس سال میں پہلی دفعہ پاکستان اور افغانستان کی سرحد پر ایک طرح سے دوستانہ امن قائم رہا۔ مگر پاکستان نے طالبان کے خلاف امریکہ کی مدد کر کے نہ صرف طالبان کا اعتماد کھویا بلکہ ایک پاکستان دشمن اور بھارت دوست حکومت افغانستان میں قائم ہو گئی۔
امریکی قبضہ اور حالاتِ حاضرہ
طالبان کے دور میں کچھ ایسے لوگوں نے افغانستان میں اپنے اڈے بنائے جو پہلے امریکہ کے منظورِ نظر تھے مگر جب امریکہ کو ان کی ضرورت نہ رہی تو وہ یکایک امریکہ کی نظر میں دہشت گردوں میں تبدیل ہو گئے۔ ان میں اسامہ بن لادن اور اس کے حواری شامل تھے۔ جو افغان میں روس کے خلاف جہاد میں سرگرم تھے۔ 11 ستمبر 2001 کے عالمی تجارتی مرکز ( ورلڈ ٹریڈ سنٹر) کے حادثے کا الزام اسامہ بن لادن اور القاعدہ پر لگایا گیا۔ ان لوگوں کو طالبان نے پناہ دے رکھی تھی اور افغانی روایات کے مطابق انھیں دشمن کے حوالے نہیں کیا جاسکتا تھا۔ اس بہانے 7 اکتوبر 2001 کو امریکہ نے افغانستان پر پاکستان کی مدد سے حملہ کر دیا اور افغانستان پر قبضہ کر لیا۔ پاکستان کا کردار تاریخی لحاظ سے نہایت شرمناک کہلایا جا سکتا ہے کیونکہ امریکی دباؤ کی وجہ سے انھوں نے اپنے سابقہ دوستوں کے خلاف کاروائی میں مدد کی۔ امریکہ نے بعد میں عراق پر بھی قبضہ کیا جس سے سوچا جا سکتا ہے کہ ایک تو اس نے عراق پر حملہ سے پہلے افغانستان میں ایسی حکومت کو ختم کیا جہاں سے ممکنہ مدد عراق کو جہاد کے نام پر مل سکتی تھی۔ دوسرے افغانستان اور عراق پر قبضہ کر کے اور پاکستان کو دباؤ میں رکھ کر امریکہ نے ایران اور کسی حد تک اسلام کے مرکز سعودی عرب کو گھیرے میں لے لیا۔ خلیج فارس میں اتنی زیادہ امریکی بحری طاقت قائم ہو گئی جس کی تاریخ میں مثال نہیں ملتی۔ امریکی ایما پر جرمنی کے شہر بون میں ایک افغانی حکومت کا قیام عمل میں آیا جس کے سربراہ حامد کرزئی تھے ۔ 9 اکتوبر 2004 کو حامد کرزئی کو افغانستان کا صدر چن لیا گیا۔ موجودہ حالات یہ ہیں کہ حامد کرزئی کی کٹھ پتلی حکومت قائم ہے۔ افغانستان میں امریکی اور اتحادی فوج تاحال موجود ہے جو افغانستان کی اصل حاکم ہے۔ بھارت کا اثرو رسوخ افغانستان میں بہت زیادہ ہوچکا ہے۔ یہاں تک کہ بھارت اور امریکہ پاکستان کے صوبے بلوچستان جیسے علاقوں میں پرتشدد کاروائیوں اور دہشت گردی کو خوب فروغ دے رہے ہیں۔ 13 اور 14مئی 2007 کو افغانی و امریکی فوج اور پاکستانی افواج میں آپس میں پہلی باقاعدہ جھڑپ ہوچکی ہے جس میں کچھ پاکستانی اور کچھ امریکی فوجی ھلاک ہوئے ہیں۔ یہاں یہ یاد رہے کہ امریکہ وقتاً فوقتاً پاکستانی علاقے میں متعدد بار میزائیل پھینک چکا ہے جس سے سو سے زائد پاکستانی شہری ھلاک ہو چکے ہیں۔ یہ کاروائیاں بعینہ اسی طرز پر ہوتی ہیں جیسے اسرائیل جنوبی لبنان میں کرتا ہے۔ 16 مئی کو ایک مزید جھڑپ میں افغانی قومی فوج کے چار افراد ھلاک اور ایک پاکستانی زخمی ہوا۔
جغرافیہ اور موسم
افغانستان چاروں طرف سے خشکی سے گھرا ہوا ملک ہے جس کا کوئی ساحلِ سمندر نہیں۔ اس کی سمندری تجارت اسی لیے پاکستان کے ذریعے ہوتی ہے۔ زیادہ علاقہ پہاڑی ہے جو زیادہ تر کوہ ہندوکش پر مشتمل ہے۔ افغانستان میں پانی کی شدید کمی ہے اگرچہ چار دریا ہیں جن کے نام دریائے آمو، دریائے کابل، دریائے ہلمند اور ھریرود ہیں۔ اونچا ترین مقام نوشک ہے جو 24,557 فٹ بلند ہے اور ترچ میر کے بعد کوہ ہندوکش کا دوسرا اونچا پہاڑ ہے۔ سطح سمندر سے سب سے کم بلند علاقہ (پست ترین مقام) دریائے آمو ہے جو صرف 846 فٹ بلند ہے۔[4]
افغانستان کی جغرافیائی سرحد 5529 کلومیٹر لمبی ہے جس میں سب سے زیادہ علاقہ (2,640 کلومیٹر) پاکستان کے ساتھ لگتا ہے۔ %12 علاقہ زراعت کے قابل ہے مگر صرف %0.22 علاقہ زیرِ کاشت ہے۔ چونکہ زیادہ علاقہ پہاڑی ہے اس لیے زلزلے کثرت سے آتے ہیں۔ افغانستان کے علاقے میں سونا، چاندی، کوئلہ، تانبا، کانسی، کرومائیٹ، زنک، سلفر، لوہا، قیمتی پتھر اور نمک پائے جاتے ہیں۔ تیل کے بھی وسیع ذخائر ہیں۔ یہ تمام قدرتی وسائل مسلسل جنگ کی وجہ سے کبھی استعمال نہیں ہو سکے۔افغانستان کا موسم شدید ہے یعنی گرمیوں میں شدید گرمی اور سردیوں میں شدید سردی ہوتی ہے مگر سردیاں زیادہ شدید ہیں۔ کابل میں دو سے تین ماہ برف پڑی رہتی ہے۔ جلال آباد اور اس سے نیچے کا موسم نسبتاً گرم ہے۔ زیادہ بارشیں گرمیوں میں ہوتی ہیں جب برصغیر میں مون سون ہوتا ہے۔ [5]
معیشت
افغانستان دنیا کے غریب ترین ممالک میں شامل ہے۔ اس کی بنیادی وجہ روس اور امریکہ کی کشمکش اور اس علاقے میں ان کے مزموم مقاصد ہیں۔ افغانستان مسلسل جنگ کا شکار رہا ہے اور اسے معاشی ترقی کی مہلت ہی نہیں ملی۔ افغانستان کی خاصی آبادی ایران اور پاکستان کو ہجرت کر گئی تھی جن میں سے کچھ اب واپس آنا شروع ہوئے ہیں مگر ہجرت نے ان کی معیشت کو تباہ کر دیا ہے اور نئی پود کو پڑھنے لکھنے اور کوئی ھنر سیکھنے کے مواقع بھی کم ہی ملے ہیں۔ افغانستان میں جن لوگوں نے ہجرت نہیں بھی کی انھیں جنگ نے مصروف رکھا۔ مجبوراً اسلحہ کی تجارت، جنگ بطور سلسلہ روزگار اور افیم و پوست کی تجارت ہی ان کا مقدر بنی۔ ایک بڑی تعداد سمگلنگ سے بھی وابستہ ہوئی۔ بہت معمولی تعداد پوست کے علاوہ دوسری اجناس بھی کاشت کرتی ہے۔ ایشیائی ترقیاتی بنک کے مطابق 2001ء کے بعد معیشت نے خاصی ترقی کی ہے مگر اس سلسلے میں کوئی قابلِ اعتماد اعدادوشمار نہیں ملتے۔ البتہ افغانستان سے باہر رہنے والے افغانیوں نے اب کچھ سرمایہ کاری شروع کی ہے مثلاً 2005ء میں دبئی کے ایک افغانی خاندان نے ڈھائی کروڑ ڈالر سے کوکا کولا کا ایک پلانٹ افغانستان میں لگایا ہے۔ افغانستان کو ابھی غیر ملکی امداد پر انحصار کرنا پڑتا ہے اور2006 میں زرِ مبادلہ کے بیرونی ذخائر صرف پچاس کروڑ امریکی ڈالر کے لگ بھگ تھے۔ افراطِ زر افغانستان کا ایک بنیادی مسئلہ رہا ہے اور افغانی روپیہ کی قیمت بھی مسلسل گرتی رہی ہے مگر اب حالات کچھ بہتر ہیں۔ 2003ء کے بعد 14 نئے بنک بھی کھلے ہیں جن میں کئی غیر ملکی بنک بھی شامل ہیں۔ کابل کی ترقی کے لیے بھی نو ارب امریکہ ڈالر مہیا کیے گئے ہیں۔ افغانستان کئی بین الاقوامی ادارون کا رکن ہے اور حال ہی میں سارک (SAARC) کا رکن بھی بنا ہے۔ ایک اہم پیش رفت قدرتی گیس کی دریافت ہے جس کا استعمال اور فروخت بڑے پیمانے پر شروع ہونے کی امید ہے۔
انتظامی تقسیم
افغانستان میں صوبے کو ولایت کہتے ہیں مثلاً ولایت بدخشان۔ افغانستان کو کل چونتیس ولایات میں تقسیم کیا گیا ہے۔ جن کے نام نیچے دیے گئے ہیں۔
• ارزگان
• بادغیس
• بامیان
• بدخشان
• بغلان
• بلخ
• پروان
• پکتیا
• پکتیکا
• پنجشیر
• تخار
• جوزجان
• خوست
• دایکندی
• زابل
• سر پل
• سمنگان
• غزنی
• غور
• فاریاب
• فراہ
• کندوز
• قندھار
• کابل
• کاپیسا
• کنر
• لغمان
• لوگر
• ننگرھار
• نورستان
• نیمروز
• وردک
• ھرات
• ھلمند
مشہور شہر
افغانستان کے مرکزی ادارہ برائے شماریات کے مطابق آبادی کے حساب سے 2006ء میں افغانستان کے بارہ بڑے شہر درج ذیل ہیں۔ آبادی بھی ان کے ساتھ دی گئی ہے۔
• کابل - 2,536,300
• قندھار - 450,300
• ھرات - 349,000
• مزار شریف - 300,600
• قندوز - 264,100
• طالقان - 196,400
• پلِ خمری - 180,800
• جلال آباد - 168,600
• چاریکار - 153,500
• شبرغن - 143,900
• غزنی - 141,000
• سرِپل - 136,000
ثقافت
افغانی ثقافت کی تین اہم بنیادیں ہیں۔ ایرانی ثقافت، پشتون ثقافت اور اسلام۔ اس میں اسلام کا اثر سب سے زیادہ ہے۔ افغانیوں کے لیے ان کا ملک، قبیلہ سے وفاداری، مذہب، اپنا شجرہ نسب اور سب سے بڑھ کر آزادی بہت اہم ہیں۔ مذہب کے ساتھ ساتھ شاعری اور موسیقی بھی ان کی زندگی میں اہمیت رکھتے ہیں۔ افغانستان ایک تاریخ رکھتا ہے جس کے نشان جابجا آثارِ قدیمہ کی صورت میں نظر آتے ہیں۔ بز کشی ان کا قومی کھیل ہے جو پولو سے ملتا جلتا ہے۔ اگرچہ تعلیم کی شرح کم ہے مگر قرآن و مذہب کی تعلیم اور شاعری خصوصاً قدیم فارسی شاعری ان کی زندگی اور خیالات کی تشکیل میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ افغانستان کی سرزمین کو قدیم زمانے میں خراسان بھی کہا جاتا تھا۔ اب خراسان ایران کے ایک حصے کو کہا جاتا ہے مگر یہ دونوں علاقے (ایرانی اور افغانی خراسان) تاریخی طور پر ہمیشہ متعلق رہے ہیں۔ افغانی خراسان نے بڑے اہم لوگوں کو جنم دیا ہے جن کو عام لوگ عرب سمجھتے ہیں۔ مثلاً امام ابو حنیفہ کے قریبی اجداد کا تعلق افغانستان سے تھا۔ اسی طرح بو علی سینا جسے اسلامی اور مغربی دنیاؤوں میں اپنے وقت کا سب سے بڑا طبیب اور حکیم گردانا جاتا ہے، کا تعلق بلخ سے تھا۔ بو علی سینا کے والد نے عرب کو ہجرت کی تھی۔ مولانا رومی کی پیدائش اور تعلیم بھی بلخ ہی میں ہوئی تھی۔ مشہور فلسفی ابو الحسن الفارابی کا تعلق افغانستان کے صوبہ فاریاب سے تھا۔ پندرہویں صدی کے مشہور فارسی صوفی شاعر نور الدین عبدالرحمٰن جامی کا تعلق افغانستان کے صوبہ غور کے گاؤں جام سے تھا۔
افغانستان کے کھانے بھی لاجواب ہوتے ہیں جن میں سے افغانی یا کابلی پلاؤ، خمیری روٹی اور تکے کباب شاید دنیا میں اپنی قسم کے مزیدار ترین کھانوں میں شامل ہیں جو دیگر علاقوں میں بھی مقبول ہیں۔ مذہب کو افغانستان میں بہت اہمیت حاصل ہے اور ان کی چار اہم چھٹیاں عیدالفطر ، عیدالاضحیٰ، عاشورہ اور عید میلادالنبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم مذہبی نوعیت کی ہیں۔ اس کے علاوہ افغانستان کا یومِ آزادی ( 19اگست) اور نوروز (21 مارچ) بھی چھٹیوں میں شامل ہیں۔
اعداد و شمار
نسلیں
نسلاً لوگ پشتون، تاجک، ھزارہ، ازبک، ایمک، ترکی، بلوچی اور دیگر لوگ ہیں۔ دیگر لوگوں میں نورستانی، پشائی، براھوی وغیرہ شامل ہیں۔
زبانیں
افغانستان میں %50 لوگ فارسی (دری لہجہ)، %35 لوگ پشتو اور باقی لوگ ازبک، ترکی، نورستانی، بلوچی وغیرہ بولتے ہیں۔[6] نورستانی اور بلوچی سمیت تیس کے قریب علاقائی زبانیں ہیں جو چار فی صد کے قریب لوگ بولتے ہیں۔ جنگ اور ہجرت کی وجہ سے افغانی اب اردو بھی بخوبی سمجھتے ہیں۔ یہ ایک ایسا ملک ہے جس میں دو یا زیادہ زبانیں جاننا ایک عام بات ہے۔ پشتو بولنے والے لوگوں کے علاقے زیادہ تر پاکستانی سرحد سے قریب ہیں۔ یعنی ملک کے جنوب مشرق اور جنوب میں ہیں۔
مذاہب
افغانستان کے %99 لوگ مسلمان ہیں جن میں سنی مسلمانوں کی اکثریت ہے۔ ایک لاکھ کے قریب ہندو اور سکھ بھی ہیں جو کابل، قندھار اور جلال آباد سے تعلق رکھتے ہیں۔
1919ء میں انگریزوں سے اسے آزادی حاصل ہوئی۔ جس کے بعد افغانستان صحیح معنوں میں ایک ملک بن گیا۔ مگر انگریزوں کے دور میں اس کے بیشتر علاقے حقیقت میں آزاد ہی تھے اور برطانیہ کبھی اس پر مکمل قبضہ نہیں رکھ سکا۔ آج افغانستان امریکی قبضہ میں ہے اور بظاہر ایک آزاد ملک اور حکومت کے طور پر تسلیم کیا جاتا ہے۔ افغانستان پچھلے پینتیس سال سے مسلسل جنگ کی سی حالت میں ہے جس نے اس کو تباہ کر دیا ہے اور اس کی کئی نسلوں کو بے گھر کر دیا ہے۔ یہ تباہی کبھی غیروں کے ہاتھوں ہوئی اور کبھی خانہ جنگی سے یہ صورتحال پیدا ہوئی۔ اگرچہ افغانستان کے پاس تیل یا دوسرے وسائل کی کمی ہے مگر اس کی جغرافیائی حیثیت ایسی ہے کہ وہ وسطی ایشیاء، جنوبی ایشیاء اور مشرقِ وسطیٰ کے درمیان ہے اور تینوں خطوں سے ھمیشہ اس کے نسلی، مذہبی اور ثقافتی تعلق رہا ہے اور جنگی لحاظ سے اور علاقے میں اپنا دباؤ رکھنے کے لیے ھمیشہ اہم رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ استعماری طاقتوں نے ھمیشہ اس پر اپنا قبضہ یا اثر رکھنے کی کوشش کی ہے۔ افغانستان کا زیادہ رقبہ پتھریلا پہاڑی علاقہ ہے اس وجہ سے کسی بھی بیرونی طاقت کا یہاں قبضہ رکھنا مشکل ہے اور لوگ زیادہ تر قبائلی ہیں اس لیے کبھی بیرونی طاقتوں کو تسلیم نہیں کرتے، نتیجہ یہ کہ اس ملک کو کبھی بھی لمبے عرصے کے لیے امن نصیب نہیں ہو سکا۔
قبل اسلام
فارس کے بادشاہ شاپور اول کا سکہ ۔ زمانہ: تیسری صدی عیسوی
افغانستان میں پچاس ھزار سال پہلے بھی انسانی آبادی موجود تھی اور اس کی زراعت بھی دنیا کی اولین زراعت میں شامل ہے۔ سن 2000 قبل مسیح میں آریاؤں نے افغانستان کو تاراج کیا۔ جسے ایرانیوں نے ان سے چھین لیا۔ اس کے بعد یہ عرصہ تک سلطنت فارس کا حصہ رہا۔ 329 قبل مسیح میں اس کے کئی حصے ایرانیوں سے سکندر اعظم نے چھین لیے جس میں بلخ شامل ہے مگر یونانیوں کا یہ قبضہ زیادہ دیر نہ رہا۔ 642 عیسوی تک یہ علاقہ وقتاً فوقتاً ہنوں، منگولوں، ساسانیوں اور ایرانیوں کے پاس رہا۔ جس کے بعد اس علاقے کو مسلمانوں نے فتح کر لیا۔ مسلمانوں کی اس فتح کو تاریخ میں عربوں کی فتح سمجھا جاتا ہے جو غلط ہے کیونکہ مسلمانوں میں کئی اقوام کے لوگ شامل تھے۔ اسلام سے پہلے یہاں کے لوگ بدھ مت اور کچھ قبائلی مذاہب کے پیروکار تھے۔
اسلامی دور احمد شاہ درانی (ابدالی) تک (642ء سے 1747ء)
شہنشاہ بابر جس نے کابل کو دارالحکومت بنایا
642ء میں مسلمانوں نے اس علاقے کو فتح کیا مگر یہاں کے حکمران علاقائی لوگوں ہی کو بنایا۔ پہلے یہ حکمرانی خراسانی عربوں کے پاس رہی۔ 998ء میں محمود غزنوی نے ان سے اقتدار چھین لیا۔ غوریوں نے 1146ء میں غزنویوں کو شکست دی۔ اور انہیں غزنی کے علاقے تک محدود کر دیا۔ یہ سب مسلمان تھے مگر 1219ء میں چنگیز خانی منگولوں نے افغانستان کو تاراج کر دیا۔ ھرات ، غزنی اور بلخ مکمل طور پر تباہ ہو گئے۔ منگول بعد میں خود مسلمان ہو گئے حتیٰ کہ تیمور نے چودھویں صدی میں ایک عظیم سلطنت قائم کر لی۔ اسی کی اولاد سے شہنشاہ بابر نے کابل کو سولہویں صدی کے شروع میں پہلی دفعہ اپنا دارالحکومت قرار دیا۔ سولہویں صدی سے اٹھارویں صدی تک افغانستان کئی حصوں میں تقسیم رہا۔ شمالی حصہ پر ازبک ، مغربی حصے (ھرات سمیت) پر ایرانی صفویوں ، اور مشرقی حصہ پر مغل اور پشتون قابض رہے۔ 1709ء میں پشتونوں نے صفویوں کے خلاف جنگ لڑی اور 1719ء سے 1729ء تک افغانستان بلکہ ایرانی شہر اصفہان پر قبضہ رکھا۔ 1729ء میں ایرانی بادشاہ نادر شاہ نے انھیں واپس دھکیلا اور ان کے قبضے سے تمام علاقے چھڑائے حتیٰ کہ 1738ء میں قندھار اور غزنی پر بھی قبضہ کر لیا۔ جو 1747ء تک جاری رہا۔ پشتونوں اور فارسی بولنے والوں کی یہ کشمکش آج بھی جاری ہے حالانکہ دونوں مسلمان ہیں۔
یورپی اثر (1823ء۔1919ء)
امیر دوست محمد خان، جس نے کابل کی حکومت 1826ء میں سنبھال لی تھی، نے روس اور ایران سے تعلقات پڑھانا شروع کیے کیونکہ سکھوں نے پنجاب پر قبضہ کر لیا تھا اور انگریزوں نے اپنی روایتی چالاکی کا ثبوت دیتے ہوئے سکھوں اور دھلی کے شاہ شجاع کے ساتھ مل کر افغانستان میں اپنا اثر پڑھانا شروع کیا۔ حالانکہ دونوں انگریزوں کے بظاہر دشمن تھے۔ شاہ شجاع کو انگریزوں نے کابل کے تخت کے سبز باغ دکھائے۔ اس زمانے میں روس اور برطانوی ھند میں کئی ھزار میل کا فاصلہ تھا اور وسطی ایشیاء کے شہروں مرو، خیوا، بخارا اور تاشقند کو مغرب میں زیادہ لوگ نہیں جانتے تھے مگر انگریز یہ جانتے تھے کہ روسی ان پر قبضہ کرنا چاہتے ہیں۔ ان کو روکنے اور افغانستان میں اپنا اثر بڑھانے کے لیے انگریزوں کی مکارانہ جدوجہد کو 'عظیم چالبازیوں' (The Great Game) کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ [2] اس سلسلے میں انگریزوں نے دو جنگیں لڑیں۔ پہلی جنگ ( 1839ء-1842ء) اس وقت ہوئی جب ایرانیوں نے ھرات کے لوگوں کے ساتھ مل کر انگریزوں اور روسیوں کو افغانستان سے بے دخل کرنے کے لیے افواج پورے ملک میں روانہ کیں۔ انگریزوں نے کابل پر قبضہ کر کے دوست محمد خان کو گرفتار کر لیا۔ افغانیوں نے برطانوی فوج کے ایک حصے کو مکمل طور پر قتل کر دیا جو سولہ ھزار افراد پر مشتمل تھی۔ صرف ایک شخص زندہ بچا۔ انگریز مدتوں اپنے زخم چاٹتے رہے۔ اسی وجہ سے مجبوراً انگریزوں نے دوست محمد خان کو رہا کر دیا۔ بعد میں دوست محمد خان نے ھرات کو بھی فتح کر لیا۔ دوسری جنگ (1878ء-1880ء) اس وقت ہوئی جب امیر شیر علی نے برطانوی سفارت کاروں کو کابل میں رہنے کی اجازت نہ دی۔ اس جنگ کے بعد انگریزوں کی ایما پر1880ء میں امیر عبدالرحمٰن نے افغانستان کا اقتدار حاصل کیا مگر عملاً کابل کے خارجی معاملات انگریزوں کے ہاتھ میں چلے گئے۔
امیر امان اللہ خان
اسی اثر کا فائدہ اٹھاتے ہوئے انگریزوں نے افغانستان کے ساتھ سرحدوں کے تعین کا معاہدہ بھی کیا۔ امیر عبدالرحمٰن کے بیٹے امیر حبیب اللہ خان بعد میں افغانستان کے بادشاہ ہوئے۔ ان کے دور میں افغانستان میں مغربی مدرسے کھلے اور انگریزوں کا اثر مزید بڑھ گیا۔ اگرچہ بظاہر انگریزوں نے افغانستان کو ایک آزاد ملک کے طور پر تسلیم کیا۔ 1907ء میں امیر حبیب اللہ خان نے انگریزوں کی دعوت پر برطانوی ھند کا دورہ بھی کیا۔ اسی مغربی دوستی اور اثر کی وجہ سے امیر حبیب اللہ خان کو اس کے رشتہ داروں نے 20 فروری 1919ء کو قتل کر دیا۔ اس کے قتل کے بعد اس کا بیٹا امان اللہ خان بادشاہ بن گیا اور انگریزوں کے خلاف جنگ چھیڑ دی مگر 19 اگست 1919ء کو اس کے اور انگریزوں کے درمیان راولپنڈی میں ایک معاہدہ ہوا جس میں انگریزوں نے افغانستان پر اپنا کنٹرول ختم کیا اور افغانستان میں ان کا اثر تقریباً ختم ہو گیا۔ 19 اگست 1919ء کو اسی وجہ سے افغانستان کی یومِ آزادی کے طور پر منایا جاتا ہے۔
آزادی کے بعد (1919ء-1978ء)
امان اللہ خان (دورِ اقتدار: 1919ء-1929ء) نے افغانستان کا اقتدار سنبھالنے کے بعد اصلاحات کیں اور مغربی دنیا سے تعلقات قائم کیے۔ اصلاحات میں بنیادی تعلیم کا لازمی قرار دینا اور مغربی طرز کی دیگر اصلاحات شامل تھیں۔ اس نے 1921ء میں افغانستان میں ہوائی فوج بھی بنائی جس کے جہاز روس سے آئے لیکن افواج کی تربیت ترکی اور فرانس سے کروائی گئی۔ 1927ء میں امان اللہ خان نے یورپ اور ترکی کا دورہ بھی کیا جس میں اس نے مغربی مادی ترقی کا جائزہ لیا اور افغانستان میں ویسی ترقی کی خواہش کی مگر جب اس نے کمال اتاترک کی طرز پر پردہ پر پابندی لگانے کی کوشش کی تو قبائل میں بغاوت پھوٹ پڑی اور افغان اس کے سخت خلاف ہو گئے۔ شنواری قبائل نے نومبر 1928ء میں جلال آباد سے بغاوت شروع کی اور دوسرے لوگوں کو ساتھ ملا کر کابل کی طرف بڑھنے لگے۔ شمال سے تاجک کابل کی طرف بڑھنے لگے۔ امان اللہ خان پہلے قندھار بھاگا اور فوج تیار کرنے کی کوشش کی مگر ناکام ہوا جس کے بعد وہ بھارت فرار ہو گیا۔ وہاں سے پہلے اطالیہ اور بعد میں سوئٹزرلینڈ میں پناہ لی جہاں 1960 میں وفات پائی۔ اس بغاوت کے دوران جنوری 1929ء میں حبیب اللہ کلاکانی عرف بچہ سقا نے کابل پر قبضہ کیا اور حبیب اللہ شاہ غازی کے نام سے حکومت قائم کی مگر اکتوبر 1929ء میں جنرل نادر خان کی فوج نے کابل کو گھیر لیا جس پر بچہ سقا فرار ہو کر اپنے گاؤں چلا گیا۔ جنرل نادر خان کو انگریزوں کی مکمل حمایت حاصل تھی جنہوں نے اسے ہتھیار اور پیسہ دیا تھا۔ اس کے علاوہ انگریزوں نے جنرل نادر خان کو ایک ھزار افراد کی فوج بھی تیار کر کے دی تھی جو وزیرستانی قبائلیوں پر مشتمل تھی۔ نادر خان نے قرآن کو ضامن بنا کر اس کو پناہ اور معافی دی مگر جب وہ کابل آیا تو اسے قتل کروا دیا۔ [
نادر خان (دورِ اقتدار: 1929ء۔1933ء ) جو امان اللہ خان کا رشتہ دار تھا اس نے نادر شاہ کے نام سے 1929ء میں افغانستان کا تخت سنبھالا۔ مگر 1933ء میں کابل کے ایک طالب علم نے اسے قتل کر دیا جس کے بعد اس کے انیس سالہ بیٹے ظاہر شاہ بادشاہ بن گیا۔ ظاہر شاہ (دورِ اقتدار: 1933ء۔1973ء ) نے چالیس سال تک افغانستان پر حکومت کی۔ وہ افغانستان کا آخری بادشاہ تھا۔ اس نے کئی وزیر اعظم بدلے جن کی مدد سے اس نے حکومت کی۔ جن میں سے ایک سردار محمد داؤد خان (المعروف سردار داؤد) تھا جو اس کا کزن تھا۔ سردار داؤد نے روس اور بھارت سے تعلقات بڑھائے۔ اسے پاکستان سے نفرت تھی۔ پاکستان سے تعلقات کی خرابی کی وجہ سے افغانستان کو اقتصادی مشکلات ہوئیں تو سردار داؤد کو 1963ء میں استعفیٰ دینا پڑا۔ مگر سردار داؤد (دورِصدارت: 1973ء-1978ء) اس نے دس سال بعد 17 جولائی 1973ء کو ایک فوجی بغاوت میں افغانستان پر قبضہ کر لیا۔ اس بغاوت کو روس (اس وقت سوویت یونین) کی مدد حاصل تھی۔ ظاہر شاہ فرار ہو کر اطالیہ چلا گیا۔27 اپریل 1978ء کو سردار داؤد کو ایک اور بغاوت میں قتل کر دیا گیا۔ اور نور محمد ترہ کئی صدر بن گیا۔ اس بغاوت کو بھی روس کی مدد سے ممکن بنایا گیا۔ اس حکومت نے کمیونزم کو رائج کرنے کی کوشش کی اور روس کی ہر میدان میں مدد لی جن میں سڑکوں کی تعمیر سے لے کر فوجی مدد تک سب کچھ شامل تھا۔ روس کی یہ کامیابی امریکہ کو کبھی پسند نہیں آئی چنانچہ سی آئی اے (CIA) نے اسلامی قوتوں کو مضبوط کرنا شروع کیا۔ جس سے ملک میں فسادات پھوٹ پڑے۔ نتیجتاً 1979ء میں روس نے افغانستان کی حکومت کی دعوت پر افغانستان میں اپنی فوج اتار دی اور عملاً افغانستان پر اسی طرح روس کا قبضہ ہو گیا جس طرح آج کل امریکہ کا قبضہ ہے۔
روسی قبضہ اور جہاد
روس کی کمیونسٹ پارٹی نے کمال اتا ترک کی طرز پر غیر اسلامی نظریات کی ترویج کی مثلاً پردہ پر پابندی لگانے کی کوشش کی۔ یہ تبدیلیاں افغانی معاشرہ سے بالکل مطابقت نہیں رکھتی تھیں۔ افغانستان میں حالات جب بہت خراب ہو گئے تو افغانی کمیونسٹ حکومت کی دعوت پر روس نے اپنی فوج افغانستان میں اتار دی۔25 دسمبر 1979 کو روسی فوج کابل میں داخل ہوگئی۔ افغانستان میں مجاہدین نے ان کے خلاف جنگ شروع کر دی۔ امریکہ نے ان مجاہدین کو خوب مدد فراہم کی مگر امریکہ کا مقصد اسلام کی خدمت نہیں بلکہ روس کے خلاف ایک قوت کو مضبوط کرنا تھا۔ امریکہ کو پاکستان کو بھی ساتھ ملانا پڑا۔ پاکستان کی مذہبی جماعتوں کو بھی امریکہ نے روس کے خلاف استعمال کیا۔ پاکستان نے بھی دنیا کو روس سے نجات دلا کر ساری مسلم دنیا کو امریکی چنگل میں پھنسانے میں مدد کی۔ افغان مجاہدین اسلام سے مخلص تھے مگر امریکہ انھیں اپنے مقصد کے لیے استعمال کرتا رہا۔ مگر جب امریکہ کو ان کی ضرورت نہ رہی تو وہی مجاہدین امریکی اور پاکستانی زبان میں دہشت گرد کہلانے لگے۔ امریکی سی آئی اے، پاکستان، امریکہ اور سعودی عرب نے اس دوران اپنا اپنا کردار ادا کیا جس میں ان ممالک کے کچھ مفادات مشترک تھے اور کچھ ذاتی۔ اس جہاد کا نتیجہ یہ نکلا کہ روس کو 1989 میں مکمل طور پر افغانستان سے نکلنا پڑا بلکہ بعض دانشوروں کے خیال میں روس کے ٹوٹنے کی ایک بڑی وجہ یہی تھی۔ اس سلسلے میں روس، افغانستان اور پاکستان کے درمیان 1988 میں جنیوا معاہدہ ہوا تھا۔
روسیوں کے بعد
روس نے افغانستان سے فوج نکالنے کے بعد بھی اس وقت کی نجیب اللہ حکومت کی مدد جاری رکھی مگر 18 اپریل 1992 کو مجاہدین کے ایک گروہ نے جنرل عبدالرشید دوستم اور احمد شاہ مسعود کی قیادت میں کابل پر قبضہ کر لیا اور افغانستان کو اسلامی جمہوریہ بنانے کا اعلان کر دیا۔ مگر امریکہ اسلحہ کی مدد سے مجاہدین کے مختلف گروہوں کے درمیان اقتدار کے حصول کے لیے خانہ جنگی شروع ہو گئی۔ اس وقت ایک اسلامی جہادی کونسل بنائی گئی جس کی قیادت پہلے صبغت اللہ مجددی اور بعد میں برہان الدین ربانی نے کی مگر مجاہدین کی آپس کی لڑائی میں اضافہ ہوتا چلا گیا۔ بیرونی طاقتوں نے پشتو اور فارسی بولنے والوں کی باہمی منافرت کا خوب فائدہ اٹھایا۔ اس وقت کی حکومت میں پشتونوں کی نمائندگی نہ ہونے کے برابر تھی جس سے ان میں شدید احساسِ محرومی پیدا ہوا۔ پاکستان اور افغانستان کے کچھ علما نے مدرسوں کے طلبا کو منظم کرنا شروع کیا جن کو بعد میں طالبان کہا جانے لگا۔ پاکستانی فوج کے جنرل نصیر اللہ بابر طلبا کو استعمال کرنے کے خیال کے بانی تھے۔ 1996ء میں طالبان کے رہنما ملا محمد عمر نے کابل پر قبضہ کیا۔ انھوں نے افغانستان کو اسلامی امارت قرار دیا اور طالبان نے انھیں امیر المومنین تسلیم کر لیا۔ طالبان نے 2000 تک افغانستان کے پچانوے فی صد علاقے پر قبضہ کر کے ایک اسلامی حکومت قائم کی۔ اس زمانے میں افغانستان میں نسبتاً امن قائم رہا اور پوست کی کاشت بھی نہ ہوئی۔ طالبان کو بجز پاکستان اور سعودی عرب کے کسی نے تسلیم نہ کیا اور مغربی دنیا نے شمالی اتحاد کی مدد جاری رکھی جو افغانستان کے شمال میں کچھ اختیار رکھتے تھے۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ ایک خالص اسلامی حکومت مغربی دنیا اور بھارت کو ھرگز قبول نہ تھی۔ یاد رہے کہ طالبان سے پہلے بھارت کو افغانستان میں خاصا عمل دخل تھا۔ طالبان کے دور میں پاکستان کا اثر افغانستان میں بڑھ گیا اور پچاس سال میں پہلی دفعہ پاکستان اور افغانستان کی سرحد پر ایک طرح سے دوستانہ امن قائم رہا۔ مگر پاکستان نے طالبان کے خلاف امریکہ کی مدد کر کے نہ صرف طالبان کا اعتماد کھویا بلکہ ایک پاکستان دشمن اور بھارت دوست حکومت افغانستان میں قائم ہو گئی۔
امریکی قبضہ اور حالاتِ حاضرہ
طالبان کے دور میں کچھ ایسے لوگوں نے افغانستان میں اپنے اڈے بنائے جو پہلے امریکہ کے منظورِ نظر تھے مگر جب امریکہ کو ان کی ضرورت نہ رہی تو وہ یکایک امریکہ کی نظر میں دہشت گردوں میں تبدیل ہو گئے۔ ان میں اسامہ بن لادن اور اس کے حواری شامل تھے۔ جو افغان میں روس کے خلاف جہاد میں سرگرم تھے۔ 11 ستمبر 2001 کے عالمی تجارتی مرکز ( ورلڈ ٹریڈ سنٹر) کے حادثے کا الزام اسامہ بن لادن اور القاعدہ پر لگایا گیا۔ ان لوگوں کو طالبان نے پناہ دے رکھی تھی اور افغانی روایات کے مطابق انھیں دشمن کے حوالے نہیں کیا جاسکتا تھا۔ اس بہانے 7 اکتوبر 2001 کو امریکہ نے افغانستان پر پاکستان کی مدد سے حملہ کر دیا اور افغانستان پر قبضہ کر لیا۔ پاکستان کا کردار تاریخی لحاظ سے نہایت شرمناک کہلایا جا سکتا ہے کیونکہ امریکی دباؤ کی وجہ سے انھوں نے اپنے سابقہ دوستوں کے خلاف کاروائی میں مدد کی۔ امریکہ نے بعد میں عراق پر بھی قبضہ کیا جس سے سوچا جا سکتا ہے کہ ایک تو اس نے عراق پر حملہ سے پہلے افغانستان میں ایسی حکومت کو ختم کیا جہاں سے ممکنہ مدد عراق کو جہاد کے نام پر مل سکتی تھی۔ دوسرے افغانستان اور عراق پر قبضہ کر کے اور پاکستان کو دباؤ میں رکھ کر امریکہ نے ایران اور کسی حد تک اسلام کے مرکز سعودی عرب کو گھیرے میں لے لیا۔ خلیج فارس میں اتنی زیادہ امریکی بحری طاقت قائم ہو گئی جس کی تاریخ میں مثال نہیں ملتی۔ امریکی ایما پر جرمنی کے شہر بون میں ایک افغانی حکومت کا قیام عمل میں آیا جس کے سربراہ حامد کرزئی تھے ۔ 9 اکتوبر 2004 کو حامد کرزئی کو افغانستان کا صدر چن لیا گیا۔ موجودہ حالات یہ ہیں کہ حامد کرزئی کی کٹھ پتلی حکومت قائم ہے۔ افغانستان میں امریکی اور اتحادی فوج تاحال موجود ہے جو افغانستان کی اصل حاکم ہے۔ بھارت کا اثرو رسوخ افغانستان میں بہت زیادہ ہوچکا ہے۔ یہاں تک کہ بھارت اور امریکہ پاکستان کے صوبے بلوچستان جیسے علاقوں میں پرتشدد کاروائیوں اور دہشت گردی کو خوب فروغ دے رہے ہیں۔ 13 اور 14مئی 2007 کو افغانی و امریکی فوج اور پاکستانی افواج میں آپس میں پہلی باقاعدہ جھڑپ ہوچکی ہے جس میں کچھ پاکستانی اور کچھ امریکی فوجی ھلاک ہوئے ہیں۔ یہاں یہ یاد رہے کہ امریکہ وقتاً فوقتاً پاکستانی علاقے میں متعدد بار میزائیل پھینک چکا ہے جس سے سو سے زائد پاکستانی شہری ھلاک ہو چکے ہیں۔ یہ کاروائیاں بعینہ اسی طرز پر ہوتی ہیں جیسے اسرائیل جنوبی لبنان میں کرتا ہے۔ 16 مئی کو ایک مزید جھڑپ میں افغانی قومی فوج کے چار افراد ھلاک اور ایک پاکستانی زخمی ہوا۔
جغرافیہ اور موسم
افغانستان چاروں طرف سے خشکی سے گھرا ہوا ملک ہے جس کا کوئی ساحلِ سمندر نہیں۔ اس کی سمندری تجارت اسی لیے پاکستان کے ذریعے ہوتی ہے۔ زیادہ علاقہ پہاڑی ہے جو زیادہ تر کوہ ہندوکش پر مشتمل ہے۔ افغانستان میں پانی کی شدید کمی ہے اگرچہ چار دریا ہیں جن کے نام دریائے آمو، دریائے کابل، دریائے ہلمند اور ھریرود ہیں۔ اونچا ترین مقام نوشک ہے جو 24,557 فٹ بلند ہے اور ترچ میر کے بعد کوہ ہندوکش کا دوسرا اونچا پہاڑ ہے۔ سطح سمندر سے سب سے کم بلند علاقہ (پست ترین مقام) دریائے آمو ہے جو صرف 846 فٹ بلند ہے۔[4]
افغانستان کی جغرافیائی سرحد 5529 کلومیٹر لمبی ہے جس میں سب سے زیادہ علاقہ (2,640 کلومیٹر) پاکستان کے ساتھ لگتا ہے۔ %12 علاقہ زراعت کے قابل ہے مگر صرف %0.22 علاقہ زیرِ کاشت ہے۔ چونکہ زیادہ علاقہ پہاڑی ہے اس لیے زلزلے کثرت سے آتے ہیں۔ افغانستان کے علاقے میں سونا، چاندی، کوئلہ، تانبا، کانسی، کرومائیٹ، زنک، سلفر، لوہا، قیمتی پتھر اور نمک پائے جاتے ہیں۔ تیل کے بھی وسیع ذخائر ہیں۔ یہ تمام قدرتی وسائل مسلسل جنگ کی وجہ سے کبھی استعمال نہیں ہو سکے۔افغانستان کا موسم شدید ہے یعنی گرمیوں میں شدید گرمی اور سردیوں میں شدید سردی ہوتی ہے مگر سردیاں زیادہ شدید ہیں۔ کابل میں دو سے تین ماہ برف پڑی رہتی ہے۔ جلال آباد اور اس سے نیچے کا موسم نسبتاً گرم ہے۔ زیادہ بارشیں گرمیوں میں ہوتی ہیں جب برصغیر میں مون سون ہوتا ہے۔ [5]
معیشت
افغانستان دنیا کے غریب ترین ممالک میں شامل ہے۔ اس کی بنیادی وجہ روس اور امریکہ کی کشمکش اور اس علاقے میں ان کے مزموم مقاصد ہیں۔ افغانستان مسلسل جنگ کا شکار رہا ہے اور اسے معاشی ترقی کی مہلت ہی نہیں ملی۔ افغانستان کی خاصی آبادی ایران اور پاکستان کو ہجرت کر گئی تھی جن میں سے کچھ اب واپس آنا شروع ہوئے ہیں مگر ہجرت نے ان کی معیشت کو تباہ کر دیا ہے اور نئی پود کو پڑھنے لکھنے اور کوئی ھنر سیکھنے کے مواقع بھی کم ہی ملے ہیں۔ افغانستان میں جن لوگوں نے ہجرت نہیں بھی کی انھیں جنگ نے مصروف رکھا۔ مجبوراً اسلحہ کی تجارت، جنگ بطور سلسلہ روزگار اور افیم و پوست کی تجارت ہی ان کا مقدر بنی۔ ایک بڑی تعداد سمگلنگ سے بھی وابستہ ہوئی۔ بہت معمولی تعداد پوست کے علاوہ دوسری اجناس بھی کاشت کرتی ہے۔ ایشیائی ترقیاتی بنک کے مطابق 2001ء کے بعد معیشت نے خاصی ترقی کی ہے مگر اس سلسلے میں کوئی قابلِ اعتماد اعدادوشمار نہیں ملتے۔ البتہ افغانستان سے باہر رہنے والے افغانیوں نے اب کچھ سرمایہ کاری شروع کی ہے مثلاً 2005ء میں دبئی کے ایک افغانی خاندان نے ڈھائی کروڑ ڈالر سے کوکا کولا کا ایک پلانٹ افغانستان میں لگایا ہے۔ افغانستان کو ابھی غیر ملکی امداد پر انحصار کرنا پڑتا ہے اور2006 میں زرِ مبادلہ کے بیرونی ذخائر صرف پچاس کروڑ امریکی ڈالر کے لگ بھگ تھے۔ افراطِ زر افغانستان کا ایک بنیادی مسئلہ رہا ہے اور افغانی روپیہ کی قیمت بھی مسلسل گرتی رہی ہے مگر اب حالات کچھ بہتر ہیں۔ 2003ء کے بعد 14 نئے بنک بھی کھلے ہیں جن میں کئی غیر ملکی بنک بھی شامل ہیں۔ کابل کی ترقی کے لیے بھی نو ارب امریکہ ڈالر مہیا کیے گئے ہیں۔ افغانستان کئی بین الاقوامی ادارون کا رکن ہے اور حال ہی میں سارک (SAARC) کا رکن بھی بنا ہے۔ ایک اہم پیش رفت قدرتی گیس کی دریافت ہے جس کا استعمال اور فروخت بڑے پیمانے پر شروع ہونے کی امید ہے۔
انتظامی تقسیم
افغانستان میں صوبے کو ولایت کہتے ہیں مثلاً ولایت بدخشان۔ افغانستان کو کل چونتیس ولایات میں تقسیم کیا گیا ہے۔ جن کے نام نیچے دیے گئے ہیں۔
• ارزگان
• بادغیس
• بامیان
• بدخشان
• بغلان
• بلخ
• پروان
• پکتیا
• پکتیکا
• پنجشیر
• تخار
• جوزجان
• خوست
• دایکندی
• زابل
• سر پل
• سمنگان
• غزنی
• غور
• فاریاب
• فراہ
• کندوز
• قندھار
• کابل
• کاپیسا
• کنر
• لغمان
• لوگر
• ننگرھار
• نورستان
• نیمروز
• وردک
• ھرات
• ھلمند
مشہور شہر
افغانستان کے مرکزی ادارہ برائے شماریات کے مطابق آبادی کے حساب سے 2006ء میں افغانستان کے بارہ بڑے شہر درج ذیل ہیں۔ آبادی بھی ان کے ساتھ دی گئی ہے۔
• کابل - 2,536,300
• قندھار - 450,300
• ھرات - 349,000
• مزار شریف - 300,600
• قندوز - 264,100
• طالقان - 196,400
• پلِ خمری - 180,800
• جلال آباد - 168,600
• چاریکار - 153,500
• شبرغن - 143,900
• غزنی - 141,000
• سرِپل - 136,000
ثقافت
افغانی ثقافت کی تین اہم بنیادیں ہیں۔ ایرانی ثقافت، پشتون ثقافت اور اسلام۔ اس میں اسلام کا اثر سب سے زیادہ ہے۔ افغانیوں کے لیے ان کا ملک، قبیلہ سے وفاداری، مذہب، اپنا شجرہ نسب اور سب سے بڑھ کر آزادی بہت اہم ہیں۔ مذہب کے ساتھ ساتھ شاعری اور موسیقی بھی ان کی زندگی میں اہمیت رکھتے ہیں۔ افغانستان ایک تاریخ رکھتا ہے جس کے نشان جابجا آثارِ قدیمہ کی صورت میں نظر آتے ہیں۔ بز کشی ان کا قومی کھیل ہے جو پولو سے ملتا جلتا ہے۔ اگرچہ تعلیم کی شرح کم ہے مگر قرآن و مذہب کی تعلیم اور شاعری خصوصاً قدیم فارسی شاعری ان کی زندگی اور خیالات کی تشکیل میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ افغانستان کی سرزمین کو قدیم زمانے میں خراسان بھی کہا جاتا تھا۔ اب خراسان ایران کے ایک حصے کو کہا جاتا ہے مگر یہ دونوں علاقے (ایرانی اور افغانی خراسان) تاریخی طور پر ہمیشہ متعلق رہے ہیں۔ افغانی خراسان نے بڑے اہم لوگوں کو جنم دیا ہے جن کو عام لوگ عرب سمجھتے ہیں۔ مثلاً امام ابو حنیفہ کے قریبی اجداد کا تعلق افغانستان سے تھا۔ اسی طرح بو علی سینا جسے اسلامی اور مغربی دنیاؤوں میں اپنے وقت کا سب سے بڑا طبیب اور حکیم گردانا جاتا ہے، کا تعلق بلخ سے تھا۔ بو علی سینا کے والد نے عرب کو ہجرت کی تھی۔ مولانا رومی کی پیدائش اور تعلیم بھی بلخ ہی میں ہوئی تھی۔ مشہور فلسفی ابو الحسن الفارابی کا تعلق افغانستان کے صوبہ فاریاب سے تھا۔ پندرہویں صدی کے مشہور فارسی صوفی شاعر نور الدین عبدالرحمٰن جامی کا تعلق افغانستان کے صوبہ غور کے گاؤں جام سے تھا۔
افغانستان کے کھانے بھی لاجواب ہوتے ہیں جن میں سے افغانی یا کابلی پلاؤ، خمیری روٹی اور تکے کباب شاید دنیا میں اپنی قسم کے مزیدار ترین کھانوں میں شامل ہیں جو دیگر علاقوں میں بھی مقبول ہیں۔ مذہب کو افغانستان میں بہت اہمیت حاصل ہے اور ان کی چار اہم چھٹیاں عیدالفطر ، عیدالاضحیٰ، عاشورہ اور عید میلادالنبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم مذہبی نوعیت کی ہیں۔ اس کے علاوہ افغانستان کا یومِ آزادی ( 19اگست) اور نوروز (21 مارچ) بھی چھٹیوں میں شامل ہیں۔
اعداد و شمار
نسلیں
نسلاً لوگ پشتون، تاجک، ھزارہ، ازبک، ایمک، ترکی، بلوچی اور دیگر لوگ ہیں۔ دیگر لوگوں میں نورستانی، پشائی، براھوی وغیرہ شامل ہیں۔
زبانیں
افغانستان میں %50 لوگ فارسی (دری لہجہ)، %35 لوگ پشتو اور باقی لوگ ازبک، ترکی، نورستانی، بلوچی وغیرہ بولتے ہیں۔[6] نورستانی اور بلوچی سمیت تیس کے قریب علاقائی زبانیں ہیں جو چار فی صد کے قریب لوگ بولتے ہیں۔ جنگ اور ہجرت کی وجہ سے افغانی اب اردو بھی بخوبی سمجھتے ہیں۔ یہ ایک ایسا ملک ہے جس میں دو یا زیادہ زبانیں جاننا ایک عام بات ہے۔ پشتو بولنے والے لوگوں کے علاقے زیادہ تر پاکستانی سرحد سے قریب ہیں۔ یعنی ملک کے جنوب مشرق اور جنوب میں ہیں۔
مذاہب
افغانستان کے %99 لوگ مسلمان ہیں جن میں سنی مسلمانوں کی اکثریت ہے۔ ایک لاکھ کے قریب ہندو اور سکھ بھی ہیں جو کابل، قندھار اور جلال آباد سے تعلق رکھتے ہیں۔