صرف علی
محفلین
افغان انتخابات کی کامیابی، طالبان کی طاقت پر سوالیہ نشان
افغانستان میں ہفتہ پانچ اپریل کو ہونے والے صدارتی انتخابات میں ڈالے جانے والے ووٹوں کی شرح توقعات سے بہت زیادہ رہی۔ طالبان کی دھمکیوں کے باوجود یہ کامیابی افغانستان میں جمہوریت کی کامیابی کی ایک روشن دلیل ہے۔
افغان صدارتی انتخابات سے قبل طالبان کی طرف سے نہ صرف اس عمل کو سبوتاژ کرنے کے لیے دہشت گردانہ کارروائیوں کی دھمکیاں دی گئی تھیں بلکہ ووٹرز کو بھی ڈرایا دھمکایا گیا تھا کہ اگر وہ انتخابات میں ووٹ ڈالنے گئے تو انہیں سنگین نتائج بھگتنا پڑیں گے۔ تاہم ان تمام تر دھمکیوں کے باوجود یہ کامیابی طالبان کی طاقت اور غیر ملکی فوجوں کی واپسی کے بعد ملک کو دوبارہ خانہ جنگی کی طرف دھکیلنے کی اُس صلاحیت پر ایک سوالیہ نشان بن گئی ہے جس کے بارے میں ماہرین خدشات کا اظہار کرتے آئے ہیں۔
افغان طالبان نے دعویٰ کیا ہے کہ انہوں نے ہفتہ پانچ اپریل کو ہونے والے انتخابات کے دوران ایک ہزار حملے کیے جن میں درجنوں افراد ہلاک ہوئے۔ تاہم افغان سکیورٹی حکام نے ان دعووں کو بہت زیادہ مبالغہ آرائی قرار دیا ہے۔
ووٹنگ کی گنتی کا عمل ہفتے کی شب سے شروع ہو چکا ہے اور کسی امیدوار کی حتمی کامیابی کے اعلان میں کئی ہفتوں کا وقت لگ سکتا ہے
خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق ووٹنگ کے دن سڑک کنارے نصب درجنوں چھوٹے چھوٹے بموں کے دھماکے ہوئے جبکہ پولنگ اسٹیشنوں پر بھی حملے کیے گئے۔ تاہم مجموعی طور پر تشدد کا درجہ اس سے کہیں زیادہ کم رہا جس کے بارے میں طالبان دھمکیاں دیتے رہے تھے۔
تمام تر دھمکیوں اور خطرات کے باوجود ہفتہ پانچ اپریل کو ہونی والی ووٹنگ کے موقع پر قریب 12 ملین اہل ووٹروں کا 60 فیصد اپنا حق رائے دہی استعمال کرنے کے لیے پولنگ اسٹیشنوں تک پہنچا۔ یہ دراصل افغان قوم کی جانب سے اپنے ملک میں جمہوری طور پر اقتدار کی منتقلی کے اولین موقع پر ووٹ دے کر اس عمل میں شمولیت کی خواہش کا اظہار تھا۔
ایک افغان شہری کی جانب سے بھیجے گئے ایک ٹوئٹر پیغام کے مطابق، ’’لوگوں نے ووٹ کی طاقت سے اس بات کا اظہار کیا ہے کہ طالبان مردہ باد۔‘‘ اس پیغام میں اس شہری نے اپنے ایک دوست کی تصویر بھی شامل کی ہے جس میں وہ اپنی نیلی روشنائی کے نشان والی انگلی دکھا رہا ہے جس کا مطلب ہے کہ اس نے اپنا ووٹ ڈال دیا ہے۔
افغان پارلیمان کی ایک رکن شکریہ بارکزئی کے مطابق، ’’یہ ایک طرح سے خواب پورا ہو جانے جیسا ہے۔‘‘ وہ مزید کہتی ہیں، ’’یہ افغانستان کے دشمنوں کے منہ پر ایک زور دار طمانچہ ہے اور ان لوگوں کے منہ پر ایک بھرپور مُکا جو یہ مانتے ہیں کہ افغانستان ابھی جمہوریت کے لیے تیار نہیں ہے۔‘‘
12 ملین اہل ووٹروں کا 60 فیصد اپنا حق رائے دہی استعمال کرنے کے لیے پولنگ اسٹیشنوں تک پہنچا
روئٹرز کے مطابق طالبان ووٹنگ کے دن تو بڑے حملوں میں کامیاب نہیں ہو سکے تاہم بعض لوگوں کے خدشات ہیں کہ وہ ووٹوں کی گنتی کے عمل کو سبوتاژ کرنے کی تیاریوں میں مصروف ہیں۔ گنتی کا یہ عمل ہفتے کی شب سے شروع ہو چکا ہے اور کسی امیدوار کی حتمی کامیابی کے اعلان میں کئی ہفتوں کا وقت لگ سکتا ہے۔
پولنگ کا عمل مکمل ہونے کے بعد ہونے والے ایسے پہلے حملے میں دو الیکشن ورکرز اور ایک پولیس اہلکار اس وقت ہلاک ہو گئے جب انہیں سڑک کنارے نصب بم کا نشانہ بنایا گیا۔ اتوار کے روز ہونے والے اس حملے میں بیلٹ پیپرز بھی ضائع ہوئے۔
افغان اینالسٹس نیٹ ورک نامی ایک ادارے کے تجزیہ کار برہان عثمان کے خیال میں اب کے بعد افغانستان میں عسکریت پسندی کے جیتنے کے کوئی امکانات نہیں ہیں، بھلے طالبان اس بات کا جتنا بھی دعویٰ کریں کہ انہوں نے امریکا جیسی طاقت کو شکست دے دی ہے اور یہ کہ وہ اپنی لڑائی جاری رکھیں گے۔
دوسری طرف روئٹرز کے مطابق بعض مبصرین کا یہ بھی خیال ہے کہ طالبان کی جانب سے انتخابی عمل پر اثر انداز ہونے میں ناکامی کے باوجود ابھی یہ کہنا قبل از وقت ہو گا کہ طالبان پسپا ہو گئے ہیں۔
http://www.dw.de/افغان-انتخابات-کی-کامیابی-طالبان-کی-طاقت-پر-سوالیہ-نشان/a-17548667
افغانستان میں ہفتہ پانچ اپریل کو ہونے والے صدارتی انتخابات میں ڈالے جانے والے ووٹوں کی شرح توقعات سے بہت زیادہ رہی۔ طالبان کی دھمکیوں کے باوجود یہ کامیابی افغانستان میں جمہوریت کی کامیابی کی ایک روشن دلیل ہے۔
افغان صدارتی انتخابات سے قبل طالبان کی طرف سے نہ صرف اس عمل کو سبوتاژ کرنے کے لیے دہشت گردانہ کارروائیوں کی دھمکیاں دی گئی تھیں بلکہ ووٹرز کو بھی ڈرایا دھمکایا گیا تھا کہ اگر وہ انتخابات میں ووٹ ڈالنے گئے تو انہیں سنگین نتائج بھگتنا پڑیں گے۔ تاہم ان تمام تر دھمکیوں کے باوجود یہ کامیابی طالبان کی طاقت اور غیر ملکی فوجوں کی واپسی کے بعد ملک کو دوبارہ خانہ جنگی کی طرف دھکیلنے کی اُس صلاحیت پر ایک سوالیہ نشان بن گئی ہے جس کے بارے میں ماہرین خدشات کا اظہار کرتے آئے ہیں۔
افغان طالبان نے دعویٰ کیا ہے کہ انہوں نے ہفتہ پانچ اپریل کو ہونے والے انتخابات کے دوران ایک ہزار حملے کیے جن میں درجنوں افراد ہلاک ہوئے۔ تاہم افغان سکیورٹی حکام نے ان دعووں کو بہت زیادہ مبالغہ آرائی قرار دیا ہے۔
ووٹنگ کی گنتی کا عمل ہفتے کی شب سے شروع ہو چکا ہے اور کسی امیدوار کی حتمی کامیابی کے اعلان میں کئی ہفتوں کا وقت لگ سکتا ہے
خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق ووٹنگ کے دن سڑک کنارے نصب درجنوں چھوٹے چھوٹے بموں کے دھماکے ہوئے جبکہ پولنگ اسٹیشنوں پر بھی حملے کیے گئے۔ تاہم مجموعی طور پر تشدد کا درجہ اس سے کہیں زیادہ کم رہا جس کے بارے میں طالبان دھمکیاں دیتے رہے تھے۔
تمام تر دھمکیوں اور خطرات کے باوجود ہفتہ پانچ اپریل کو ہونی والی ووٹنگ کے موقع پر قریب 12 ملین اہل ووٹروں کا 60 فیصد اپنا حق رائے دہی استعمال کرنے کے لیے پولنگ اسٹیشنوں تک پہنچا۔ یہ دراصل افغان قوم کی جانب سے اپنے ملک میں جمہوری طور پر اقتدار کی منتقلی کے اولین موقع پر ووٹ دے کر اس عمل میں شمولیت کی خواہش کا اظہار تھا۔
ایک افغان شہری کی جانب سے بھیجے گئے ایک ٹوئٹر پیغام کے مطابق، ’’لوگوں نے ووٹ کی طاقت سے اس بات کا اظہار کیا ہے کہ طالبان مردہ باد۔‘‘ اس پیغام میں اس شہری نے اپنے ایک دوست کی تصویر بھی شامل کی ہے جس میں وہ اپنی نیلی روشنائی کے نشان والی انگلی دکھا رہا ہے جس کا مطلب ہے کہ اس نے اپنا ووٹ ڈال دیا ہے۔
افغان پارلیمان کی ایک رکن شکریہ بارکزئی کے مطابق، ’’یہ ایک طرح سے خواب پورا ہو جانے جیسا ہے۔‘‘ وہ مزید کہتی ہیں، ’’یہ افغانستان کے دشمنوں کے منہ پر ایک زور دار طمانچہ ہے اور ان لوگوں کے منہ پر ایک بھرپور مُکا جو یہ مانتے ہیں کہ افغانستان ابھی جمہوریت کے لیے تیار نہیں ہے۔‘‘
12 ملین اہل ووٹروں کا 60 فیصد اپنا حق رائے دہی استعمال کرنے کے لیے پولنگ اسٹیشنوں تک پہنچا
روئٹرز کے مطابق طالبان ووٹنگ کے دن تو بڑے حملوں میں کامیاب نہیں ہو سکے تاہم بعض لوگوں کے خدشات ہیں کہ وہ ووٹوں کی گنتی کے عمل کو سبوتاژ کرنے کی تیاریوں میں مصروف ہیں۔ گنتی کا یہ عمل ہفتے کی شب سے شروع ہو چکا ہے اور کسی امیدوار کی حتمی کامیابی کے اعلان میں کئی ہفتوں کا وقت لگ سکتا ہے۔
پولنگ کا عمل مکمل ہونے کے بعد ہونے والے ایسے پہلے حملے میں دو الیکشن ورکرز اور ایک پولیس اہلکار اس وقت ہلاک ہو گئے جب انہیں سڑک کنارے نصب بم کا نشانہ بنایا گیا۔ اتوار کے روز ہونے والے اس حملے میں بیلٹ پیپرز بھی ضائع ہوئے۔
افغان اینالسٹس نیٹ ورک نامی ایک ادارے کے تجزیہ کار برہان عثمان کے خیال میں اب کے بعد افغانستان میں عسکریت پسندی کے جیتنے کے کوئی امکانات نہیں ہیں، بھلے طالبان اس بات کا جتنا بھی دعویٰ کریں کہ انہوں نے امریکا جیسی طاقت کو شکست دے دی ہے اور یہ کہ وہ اپنی لڑائی جاری رکھیں گے۔
دوسری طرف روئٹرز کے مطابق بعض مبصرین کا یہ بھی خیال ہے کہ طالبان کی جانب سے انتخابی عمل پر اثر انداز ہونے میں ناکامی کے باوجود ابھی یہ کہنا قبل از وقت ہو گا کہ طالبان پسپا ہو گئے ہیں۔
http://www.dw.de/افغان-انتخابات-کی-کامیابی-طالبان-کی-طاقت-پر-سوالیہ-نشان/a-17548667