منیرالدین احمد
جرمن افورسم
جرمنی میں بیسویں صدی کی ساتویں اور آٹھویں دہائی میں افورسم (جس کو اردو میں اقوال محال یا بلیغیات کا نام دیا جا سکتا ہے) کا بہت چرچا تھا۔ آئےدن نئےافورسم تخلیق ہوتےتھےاور دنو ں کےاندر سارےملک میں پھیل جاتےتھے ۔ پبلشروں نےاس سلسلےمیں بےشمار مجموعےبھی شائع کیے میرےدوستوں میں گابریل لاوب شامل تھا ، جس کا شمار اس صدی کےاہم ترین افورسم لکھنےوالےادیبوں میں ہوتا تھا۔ میں مختلف اوقات میں گابریل کےاقوال کو اردو کےادبی مجلات میں چھپواتا رہاہوں۔ ان دنوں میں اس کےافورسم پر مشتمل ایک کتاب ترتیب دےرہا ہوں۔ اس کام کےدوران مجھے آٹھویں دہائی کےلکھےہوئےاپنےنوٹ ملےہیں ، جن میں میں گاہےبگاہےنظر سےگذرنےوالےافورسم درج کرتا رہا ہوں۔ ان اقوال کےمصنفوں کو کوئی نہیں جانتا۔ ان کےلئےاس زمانےمیں ایک خاص لفظ Sponties گھڑا گیا تھا ، جس کا ترجمہ فی البدیع تخلیق کیا جا سکتاھے
٭میرےخدا مجھےجوان نہ ہونےدے، وگرنہ مجھےبیکاری کا سامنا کرنا پڑےگا۔
٭ہمارےہاں ہر کوئی بن سکتا ہے، جو وہ چاہتا ہے، خواہ وہ چاہتا ہےیا نہیں۔
٭جو کوئی شادی کرتا ہے، وہ ان غموں کو آپس میں بانٹ سکتا ہے، جو پہلےاس کو لاحق نہیں تھے۔
٭ذرا سوچو جنگ ہوتی ہےاور تمہارا ٹیلی ویژن خراب ہے۔
٭جب مجھ پر کام کرنےکا جنون طاری ہوتا ہے، تو میں خاموشی سےایک کونےمیں بیٹھ جاتا ہوں اور انتظار کرتا ہوں جنون کےختم ہونےکا۔
٭ہم اپنےغموں کو ڈبونےکےلئےشراب نوشی کرتےہیں۔ مگر بعض اوقات پتہ چلتا ہےکہ ان کو پیراکی آتی ہے۔
٭آدمی کےپاس دو بازو ہیں کام کرنےکےلئےاور دو ٹانگیں کام سےدور بھاگنےکےلئے۔
٭اگر تم نےگزشتہ برسوں میں اپنی رائےنہیں بدلی، تو اپنی نبض ٹٹولو، ہو سکتا ہےکہ تم مر چکےہو۔
٭اتنا کافی نہیں ہےکہ انسان کوئی رائےنہ رکھتا ہو۔ انسان کےلئےاس رائےکےاظہار سےقاصر ہونا بھی ضروری ہے۔
٭جو کوئی سیگریٹ نوشی نہیں کرتا ، وہ صحت مند مرتا ہے۔
٭کوئی مجھ سےنہیں ڈرتا، سوائےمیرے۔
٭ایک عورت مرد کےبغیر مچھلی کی طرح ہے، جس کےپاس بائیسیکل نہیں ہے۔
٭انسان پھولوں سےمحبت کرتےہیں اور ان کو توڑتےہیں۔ انسان درختوں سےمحبت کرتےہیں اور ان کو کاٹتےہیں ۔ انسان زمین سےمحبت کرتےہیں اور اس کو اجاڑتےہیں۔اس لئےمیں ڈر جاتی ہوں ۔ جب کوئی شخص مجھےکہتا ہے: میں تم سےمحبت کرتا ہوں۔
٭عقل مندی خفیہ پولیس کی طرح ہے، جو ہماری خواہشات پر پہرہ دیتی ہی۔
٭اگر تم چاہتےہو کہ تمہارےخواب پورے ہوں ، تو جاگ جاو۔
٭محبت انسان کو اندھا کر دیتی ہے۔شادی کر لو ، تمہیں فوراً دکھائی دینےلگےگا۔
٭اپنی جان لےلو، یہ تمہاری اپنی ہے۔
٭مرد مشکلات جانتےہیں ہر حل کےلئے۔
٭محبت ایک صحرا ہےاور جو اس میں گھومتا پھرتا ہےوہ اونٹ ہے۔
٭میں اپنےخوابوں کو برخواست نہیں کر سکتا۔ مجھےانہیں اپنی زندگی بطور تاوان ادا کرنی ہو گی۔
٭محبت جنگ کی طرح ہے، جسکی ابتداء آسان ہے، مگر ختم کرنا بہت مشکل امر ہے۔
٭پہلی نظر کی محبت کا علاج دوسری نظر ہے۔
٭میں ایک آنسو ہونا چاہتا ہوں ، جو تمہاری آنکھوں میں پیدا ہوتا ہے۔ تمہارےگال پر جیتا ہےاور تمہارے لبوں پر مرتا ہے۔
٭محبت ایک ابتداءہے، جس کی کوئی انتہاءنہیں۔
٭ڈرو نہیں، ہم جہنم میں نہیں جائیں گے، ہم اس میں جی رہےہیں۔
٭جو کوئی خواب نہیں دیکھتا ، وہ اپنی زندگی سو کر گنوا دیتا ہے۔
٭جب کوئی شخص اکیلا خواب دیکھتا ہے، تو وہ ایک خواب ہوتا ہے۔ مگر جب سب لوگ وہی خواب دیکھتےہیں ،تو وہ نئی حقیقت کی ابتداءہوتی ہے۔
٭اگر دھرتی چیخ سکتی، تو ہمارےکان بہرےہو گئےہوتے۔
٭ذمہ داریاں انسان کو ملتی ہیں، حقوق اس کو خود لینےہوتےہیں۔
٭بڑےشہروں میں موسم بہار....انسان صبح سویرےپرندوں کو کھانستےہوئےسنتاھے۔
٭برابری اس چیز کا نام ہے، جب گڈریا بھی ایک بھیڑ ہو۔
٭امن اس چیز کا نام ہے، جب بچوں کودشمن کا لفظ سمجھایا نہ جا سکے۔
٭ایک کمزور امن بہتر ہےایک اچھی جنگ سے۔
٭جو کوئی دریا کےپانی کےبہاو کے ساتھ بہتا ہے۔ وہ کبھی نہ کبھی سمندر میں جا گرتا ہے۔
٭جو کوئی لڑتا ہے، وہ شکست کھاسکتا ہے، جو نہیں لڑتا ، وہ شکست کھا چکا ہے۔
٭خیالات آزاد ہیں ، مگر خبردار جو تم ان کو لبوں پر لاءے
٭انسان خطا کار ہے۔ بخشش خدائی صفت ہے۔
٭ذرا سوچو کہ امن چھا جائےاور کوئی آدمی باقی نہ ہو۔
٭پہلےوقتوں میں ایک مکان درختوں میں کھڑا ہوتا تھا ۔ اب ایک درخت مکانوں کےدرمیان کھڑا ہوتا ہے۔
٭سیاست نام ہےلوگوں کو اس طرح دھوکہ دینےکا کہ وہ سمجھیں کہ یہ چیز وہ ہمیشہ سےچاہتےتھے۔
٭غیر ملکیوچلےجاو ، ہم اپنی گندگی کا ٹوکرا خود اٹھانا چاہتےہیں۔
٭لوگو ، امن خریدو، جب تک اسٹاک موجود ہے۔
٭شماریات پر اعتبار نہ کرو ، سوائےان کے، جن میں تم نےخود دھاندلی کی ہو۔
٭کچھ نہ کرنےمیں صرف ایک گڑ بڑ ہےکہ آدمی کو پتہ نہیں چلتا کہ وہ کب کام سےفارغ ہو چکا ہے۔
٭میرےاند رکی آواز کا گلا بیٹھا ہوا ھے
٭چرب زبانی واحد آلہ ہے، جو مسلسل استعمال سےتیر ہوتا جاتا ہے
٭میں کوئی وعدہ نہیں کرتا اور اس کو پورا کرتا ہوں۔
٭لوگ ہر چیز کو سنبھال کر رکھتےہیں سوائےاپنی باتوں کی۔
٭رنجیدہ نہ ہو ، ہاتھی بھی نہیں اڑ سکتے۔
٭حقیقت ایک خوبصورت محبوبہ ہے، جس کا انسان اکیلا مالک نہیں ہوتا۔
٭اگر انسان بجلی کا بٹن دبانےمیں جلدی کرے، تو وہ دیکھ سکتا ہےکہ اندھیرا کیسےدکھائی دیتا ہے۔
٭جو کوئی اپنےخواب کو پورا کرنا چاہتا ہے، اسےپہلےبیدار ہوجانا چاھیءے
٭جو کوئی اپنےپیچھےسارےپل توڑ دیتا ہے، اس کو پیراکی آنی چاہئیے
٭میں اکیلا نہیں ہوں ۔ میرےساتھ میرا اکلاپا ہے۔
٭گرنا شرم کی بات نہیں ، مگر پڑے رہنا ضرور ہے۔
٭اگر ایک آدمی تمہیں گدھا کہتا ہے، تو اس کی پرواہ نہ کرو۔ مگر جب پانچ آدمی یہی بات کہیں ، تو جاو او ر کاٹھی خریدو۔
٭چوٹی پر سےانسان صرف نیچےاتر سکتا ھے۔
٭بوجھ کو صرف گدھا محسوس کرتا ہے۔
٭جو کوئی بروقت نہیں جاتا ، اس کو بےوقت اٹھا کر لےجایا جاتاھے۔
٭بہتیرےلوگ پردیس میں رہ رہےہیں، صرف انکو اس بات کا پتہ نہیں ھے ۔
٭مرنےکی مشق انسان کو عمر بھر کرنی چاہئے۔
جرمن افورسم
جرمنی میں بیسویں صدی کی ساتویں اور آٹھویں دہائی میں افورسم (جس کو اردو میں اقوال محال یا بلیغیات کا نام دیا جا سکتا ہے) کا بہت چرچا تھا۔ آئےدن نئےافورسم تخلیق ہوتےتھےاور دنو ں کےاندر سارےملک میں پھیل جاتےتھے ۔ پبلشروں نےاس سلسلےمیں بےشمار مجموعےبھی شائع کیے میرےدوستوں میں گابریل لاوب شامل تھا ، جس کا شمار اس صدی کےاہم ترین افورسم لکھنےوالےادیبوں میں ہوتا تھا۔ میں مختلف اوقات میں گابریل کےاقوال کو اردو کےادبی مجلات میں چھپواتا رہاہوں۔ ان دنوں میں اس کےافورسم پر مشتمل ایک کتاب ترتیب دےرہا ہوں۔ اس کام کےدوران مجھے آٹھویں دہائی کےلکھےہوئےاپنےنوٹ ملےہیں ، جن میں میں گاہےبگاہےنظر سےگذرنےوالےافورسم درج کرتا رہا ہوں۔ ان اقوال کےمصنفوں کو کوئی نہیں جانتا۔ ان کےلئےاس زمانےمیں ایک خاص لفظ Sponties گھڑا گیا تھا ، جس کا ترجمہ فی البدیع تخلیق کیا جا سکتاھے
٭میرےخدا مجھےجوان نہ ہونےدے، وگرنہ مجھےبیکاری کا سامنا کرنا پڑےگا۔
٭ہمارےہاں ہر کوئی بن سکتا ہے، جو وہ چاہتا ہے، خواہ وہ چاہتا ہےیا نہیں۔
٭جو کوئی شادی کرتا ہے، وہ ان غموں کو آپس میں بانٹ سکتا ہے، جو پہلےاس کو لاحق نہیں تھے۔
٭ذرا سوچو جنگ ہوتی ہےاور تمہارا ٹیلی ویژن خراب ہے۔
٭جب مجھ پر کام کرنےکا جنون طاری ہوتا ہے، تو میں خاموشی سےایک کونےمیں بیٹھ جاتا ہوں اور انتظار کرتا ہوں جنون کےختم ہونےکا۔
٭ہم اپنےغموں کو ڈبونےکےلئےشراب نوشی کرتےہیں۔ مگر بعض اوقات پتہ چلتا ہےکہ ان کو پیراکی آتی ہے۔
٭آدمی کےپاس دو بازو ہیں کام کرنےکےلئےاور دو ٹانگیں کام سےدور بھاگنےکےلئے۔
٭اگر تم نےگزشتہ برسوں میں اپنی رائےنہیں بدلی، تو اپنی نبض ٹٹولو، ہو سکتا ہےکہ تم مر چکےہو۔
٭اتنا کافی نہیں ہےکہ انسان کوئی رائےنہ رکھتا ہو۔ انسان کےلئےاس رائےکےاظہار سےقاصر ہونا بھی ضروری ہے۔
٭جو کوئی سیگریٹ نوشی نہیں کرتا ، وہ صحت مند مرتا ہے۔
٭کوئی مجھ سےنہیں ڈرتا، سوائےمیرے۔
٭ایک عورت مرد کےبغیر مچھلی کی طرح ہے، جس کےپاس بائیسیکل نہیں ہے۔
٭انسان پھولوں سےمحبت کرتےہیں اور ان کو توڑتےہیں۔ انسان درختوں سےمحبت کرتےہیں اور ان کو کاٹتےہیں ۔ انسان زمین سےمحبت کرتےہیں اور اس کو اجاڑتےہیں۔اس لئےمیں ڈر جاتی ہوں ۔ جب کوئی شخص مجھےکہتا ہے: میں تم سےمحبت کرتا ہوں۔
٭عقل مندی خفیہ پولیس کی طرح ہے، جو ہماری خواہشات پر پہرہ دیتی ہی۔
٭اگر تم چاہتےہو کہ تمہارےخواب پورے ہوں ، تو جاگ جاو۔
٭محبت انسان کو اندھا کر دیتی ہے۔شادی کر لو ، تمہیں فوراً دکھائی دینےلگےگا۔
٭اپنی جان لےلو، یہ تمہاری اپنی ہے۔
٭مرد مشکلات جانتےہیں ہر حل کےلئے۔
٭محبت ایک صحرا ہےاور جو اس میں گھومتا پھرتا ہےوہ اونٹ ہے۔
٭میں اپنےخوابوں کو برخواست نہیں کر سکتا۔ مجھےانہیں اپنی زندگی بطور تاوان ادا کرنی ہو گی۔
٭محبت جنگ کی طرح ہے، جسکی ابتداء آسان ہے، مگر ختم کرنا بہت مشکل امر ہے۔
٭پہلی نظر کی محبت کا علاج دوسری نظر ہے۔
٭میں ایک آنسو ہونا چاہتا ہوں ، جو تمہاری آنکھوں میں پیدا ہوتا ہے۔ تمہارےگال پر جیتا ہےاور تمہارے لبوں پر مرتا ہے۔
٭محبت ایک ابتداءہے، جس کی کوئی انتہاءنہیں۔
٭ڈرو نہیں، ہم جہنم میں نہیں جائیں گے، ہم اس میں جی رہےہیں۔
٭جو کوئی خواب نہیں دیکھتا ، وہ اپنی زندگی سو کر گنوا دیتا ہے۔
٭جب کوئی شخص اکیلا خواب دیکھتا ہے، تو وہ ایک خواب ہوتا ہے۔ مگر جب سب لوگ وہی خواب دیکھتےہیں ،تو وہ نئی حقیقت کی ابتداءہوتی ہے۔
٭اگر دھرتی چیخ سکتی، تو ہمارےکان بہرےہو گئےہوتے۔
٭ذمہ داریاں انسان کو ملتی ہیں، حقوق اس کو خود لینےہوتےہیں۔
٭بڑےشہروں میں موسم بہار....انسان صبح سویرےپرندوں کو کھانستےہوئےسنتاھے۔
٭برابری اس چیز کا نام ہے، جب گڈریا بھی ایک بھیڑ ہو۔
٭امن اس چیز کا نام ہے، جب بچوں کودشمن کا لفظ سمجھایا نہ جا سکے۔
٭ایک کمزور امن بہتر ہےایک اچھی جنگ سے۔
٭جو کوئی دریا کےپانی کےبہاو کے ساتھ بہتا ہے۔ وہ کبھی نہ کبھی سمندر میں جا گرتا ہے۔
٭جو کوئی لڑتا ہے، وہ شکست کھاسکتا ہے، جو نہیں لڑتا ، وہ شکست کھا چکا ہے۔
٭خیالات آزاد ہیں ، مگر خبردار جو تم ان کو لبوں پر لاءے
٭انسان خطا کار ہے۔ بخشش خدائی صفت ہے۔
٭ذرا سوچو کہ امن چھا جائےاور کوئی آدمی باقی نہ ہو۔
٭پہلےوقتوں میں ایک مکان درختوں میں کھڑا ہوتا تھا ۔ اب ایک درخت مکانوں کےدرمیان کھڑا ہوتا ہے۔
٭سیاست نام ہےلوگوں کو اس طرح دھوکہ دینےکا کہ وہ سمجھیں کہ یہ چیز وہ ہمیشہ سےچاہتےتھے۔
٭غیر ملکیوچلےجاو ، ہم اپنی گندگی کا ٹوکرا خود اٹھانا چاہتےہیں۔
٭لوگو ، امن خریدو، جب تک اسٹاک موجود ہے۔
٭شماریات پر اعتبار نہ کرو ، سوائےان کے، جن میں تم نےخود دھاندلی کی ہو۔
٭کچھ نہ کرنےمیں صرف ایک گڑ بڑ ہےکہ آدمی کو پتہ نہیں چلتا کہ وہ کب کام سےفارغ ہو چکا ہے۔
٭میرےاند رکی آواز کا گلا بیٹھا ہوا ھے
٭چرب زبانی واحد آلہ ہے، جو مسلسل استعمال سےتیر ہوتا جاتا ہے
٭میں کوئی وعدہ نہیں کرتا اور اس کو پورا کرتا ہوں۔
٭لوگ ہر چیز کو سنبھال کر رکھتےہیں سوائےاپنی باتوں کی۔
٭رنجیدہ نہ ہو ، ہاتھی بھی نہیں اڑ سکتے۔
٭حقیقت ایک خوبصورت محبوبہ ہے، جس کا انسان اکیلا مالک نہیں ہوتا۔
٭اگر انسان بجلی کا بٹن دبانےمیں جلدی کرے، تو وہ دیکھ سکتا ہےکہ اندھیرا کیسےدکھائی دیتا ہے۔
٭جو کوئی اپنےخواب کو پورا کرنا چاہتا ہے، اسےپہلےبیدار ہوجانا چاھیءے
٭جو کوئی اپنےپیچھےسارےپل توڑ دیتا ہے، اس کو پیراکی آنی چاہئیے
٭میں اکیلا نہیں ہوں ۔ میرےساتھ میرا اکلاپا ہے۔
٭گرنا شرم کی بات نہیں ، مگر پڑے رہنا ضرور ہے۔
٭اگر ایک آدمی تمہیں گدھا کہتا ہے، تو اس کی پرواہ نہ کرو۔ مگر جب پانچ آدمی یہی بات کہیں ، تو جاو او ر کاٹھی خریدو۔
٭چوٹی پر سےانسان صرف نیچےاتر سکتا ھے۔
٭بوجھ کو صرف گدھا محسوس کرتا ہے۔
٭جو کوئی بروقت نہیں جاتا ، اس کو بےوقت اٹھا کر لےجایا جاتاھے۔
٭بہتیرےلوگ پردیس میں رہ رہےہیں، صرف انکو اس بات کا پتہ نہیں ھے ۔
٭مرنےکی مشق انسان کو عمر بھر کرنی چاہئے۔