محمد تابش صدیقی
منتظم
اقبال اورمسجدِ قرطبہ
ڈاکٹر رؤف پاریکھ
November 4, 2022
باربرا ڈی میٹکاف (Barbara D Metcalf) کا نام برعظیم پاک و ہند کے علمی حلقوں میں معروف ہے۔ یونیورسٹی آف کیلی فورنیا میں تاریخ کی پروفیسر تھیں اور اب وہاں پروفیسر ایمریطس ہیں۔ جنوبی ایشیا کی تاریخ بالخصوص انگریزی دور اور مسلم تاریخ و ثقافت کی ماہر سمجھی جاتی ہیں۔ کئی زبانوں سے واقف ہیں اور برعظیم پاک و ہند کے ادب پر بھی ان کی نظر ہے۔ اسلام اور برعظیم پاک و ہند کی تاریخ کے موضوع پر کئی کتابیں لکھ چکی ہیں۔ ان کی 2009ء میں شائع ہونے والی کتاب مولانا حسین احمد مدنی پر ہے جس کا عنوان ہے:”Hussain Ahmed Madani: Jihad for Islam and India’s freedom”ان کا ایک مضمون Reflections of Iqbal’s mosque کے عنوان سے ہے جس میں ’’بالِ جبریل‘‘ میں شامل اقبال کی نظم ’’مسجدِ قرطبہ‘‘ پر اظہار خیال کیا گیا ہے۔ اس مضمون کا ترجمہ پیش خدمت ہے۔ ترجمے کے متن میں جو عبارت چوکور خطوط ِ وحدانی (یعنی [ ]) میں دی گئی ہے وہ مترجم کی جانب سے کیا گیا اضافہ ہے۔
اقبال 1932ء میں لندن تشریف لے گئے تاکہ تیسری گول میز کانفرنس میں شریک ہوسکیں جو برطانوی حکومت نے اپنے زیرنگیں خطے ہندوستان کے آئین میں اصلاح کی غرض سے تبادلۂ خیال کے لیے منعقد کی۔ اس کانفرنس میں اقبال کا کردار اتنا بڑا نہیں تھا لیکن اس سفر سے واپسی پر وہ اسپین میں ٹھیر گئے اور انہوں نے وہاں ان آثار کو دیکھا جو اندلس کی عظمتِ رفتہ کے شاہد تھے۔ اسپین کے اس دورے سے وہ بے حد متاثر ہوئے، خاص طور پر مسجد قرطبہ نے ان کے قلب و ذہن پر ایسے اثرات چھوڑے کہ ان کے خیالات اور جذبات اسی مسجد پر مرکوز ہوگئے۔ انہوں نے افسرانِ مجاز سے اس مسجد (جو اب گرجا ہے) میں اپنے مذہب کے مطابق عبادت ادا کرنے کی اجازت حاصل کی۔ عبادت کے انہی لمحات سے ان پر وہ تاثرات‘ احساسات اور خیالات مرتسم ہوئے جن کی مدد سے انہوں نے ایک ایسی نظم کہی جو ان کے تمام اردو کلام میں معروف ترین اور مقبول ترین ہے۔
اقبال کی نظم ’’مسجدِ قرطبہ‘‘ میں ان کی شاعری کی وہ خصوصیات موجود ہیں جنہوں نے اقبال کو شہرت و مقبولیت عطا کی۔ اگرچہ اس نظم کی اصل خوبی اکثر اس کے موضوع کو قرار دیا جاتا ہے، لیکن محض موضوع کو اس نظم کی سحر آفرینی کی اصل وجہ قرار دینا صحیح نہیں ہوگا، کیوں کہ یہ مسجد تو اندلس کی تاریخوں میں بھی موضوع بنی ہے اور بائیڈکر (Baedeker) کے ہاں بھی اس سے متعلق مواد موجود ہے۔ اس نظم میں مسجد کا موضوع ہونا بھی صرف اس لیے اہم ہے کہ اقبال نے اس مسجد کو ایک مخصوص زاویۂ نگاہ کے ساتھ اور ایک خاص انداز میں اس نظم میں سمویا ہے۔ پس اس نظم کا فی نفسہٖ جانچنا‘ بندوں کے لحاظ سے اس کی ہیئت کو دیکھنا‘ اس میں موجود قافیہ بندی اور اس کے صوتی آہنگ، نیز اس کے مشمولات و مطالب کا جائزہ لینا بھی ضروری ہے۔ مطالعۂ اقبال کے سلسلے میں جو تحریریں ملتی ہیں ان میں سے بیشتر ایسی ہیں جن میں پہلے سے یہ طے کرلیا گیا ہے کہ اقبال ایک شاعر ہے اور بس۔ ان میں اقبال کی فنکارانہ مہارت اور ان کے شعری ہنر کا جائزہ نہیں لیا گیا ہے۔ اقبال کی شاعری کے جائزوں میں اقبال کے سیاسی‘ مذہبی اور فلسفیانہ افکار کو تو زیربحث لایا گیا ہے لیکن اقبال کی شاعری میں ہیئت اور معنی کے اس سیاق و سباق کو نظرانداز کردیا گیا ہے جو ان فلسفیانہ‘ سیاسی اور مذہبی افکار کو خاص شکل اور مفہوم دیتا ہے۔
اس نظم میں ایک طرف تو مصرعے‘ ان کی ترتیب‘ بحر اور قوافی اور دوسری طرف استعارے اور لفظیات سب مجموعی طور پر نظم کے تاثر میں مرکزی اہمیت کے حامل ہیں۔ مزید برآں یہ کہ میری رائے میں اس نظم کا مفہوم اس کی خوب صورت فنکارانہ ساخت اور ہیئت کے ساتھ اس طرح مربوط ہے کہ دونوں کو الگ کرنا ممکن نہیں۔ یوں کہہ لیجیے کہ اس نظم میں اقبال نے صرف ایک مسجد کی مدح و ثنا ہی نہیں بیان کی بلکہ اس نظم کی متناسب ساخت کی مدد سے ایک طرح سے خود اپنی ایک ’’مسجد‘‘ تعمیر کی ہے۔ میں چاہوں گی کہ پہلے اس نظم کی ساخت اور ہیئت کا جائزہ لیا جائے اور پھر اس کے استعاروں اور لفظیات پر غور کیا جائے، اور آخر میں اس مفہوم کو سمجھا جائے جس کی تجسیم ساخت سے ہوئی ہے۔
اپنے جدید افکار کے باوجود اقبال نے اپنی شاعری کی ہیئت کے معاملے میں کلاسیکی رجحانات سے روگردانی نہیں کی۔ ان کی نظمیں انہی بحروں میں لکھی گئیں جو مروج تھیں اور جنہیں وہ نہایت مہارت سے برتتے تھے۔ ’’مسجدِ قرطبہ‘‘ ایک طویل نظم ہے، اس میں آٹھ بند ہیں‘ ہر بند میں سولہ مصرعے ہیں جن میں سے دو آخری مصرعے بند کا اختتام ایک بھرپور شعر کی صورت میں کرتے ہیں۔ یہاں بحر اور قوافی بنیادیطور پر وہی ہیں جو غزل میں ہوتے ہیں۔ گویا یہ آٹھ بند ایک طرح سے آٹھ غزلیں ہیں۔ البتہ اس نظم میں آٹھوں بندوں کے اپنے اپنے قوافی ہیں اور یہ اپنی ساخت کے اعتبار سے ’’ترکیب بند‘‘ ہیں۔ ہر بند کا اختتام جس شعر پر ہوتا ہے اس کی اہمیت اس طرح واضح ہوتی ہے کہ اس کے قافیے اس بند کے گزشتہ اشعار کے قوافی سے الگ ہوتے ہیں۔ ہر مصرعے میں وقف ِشعری ہے اور یہاں یعنی مصرعے کے وسط میں کبھی کبھی قافیہ بھی آجاتا ہے۔ مثال کے طور پر پہلے بند میں قافیہ صرف پہلے دو مصرعوں اور اس کے بعد ایک مصرع چھوڑ کر ایک مصرعے ہی میں نہیں ہے بلکہ تین مصرعے ایسے ہیں جن کے درمیان میں بھی قافیہ آتا ہے۔ یہاں قافیے کی اہمیت بہت زیادہ ہے، کیوں کہ یہ ہر شعر میں گونجتا ہے اور قافیے کے انتخاب سے قاری یا سامع پر آہنگ کی وجہ سے عجیب اثر ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر پہلے شعر کا اختتام ’’ات‘‘ پر ہوتا ہے۔ یہاں قافیے ہیں: حادثات‘ ممات‘ صفات‘ ممکنات‘ کائنات وغیرہ۔ یہ صوت رکن (syllable) ]یعنی ا ت[ اکثر عربی الفاظ کی جمع کو ظاہر کرتا ہے۔ میری رائے میں یہاں اس کا انتخاب لہجے میں رسمی انداز، تجریدیت اور تمکنت پیدا کرتا ہے۔
اس ہیئت کے اندر رہتے ہوئے اقبال نے بعض تراکیب کی تکرار سے اور مکرر آنے والی تراکیب میں تغیر کرکے نئے نقوش ابھارے ہیں۔ مثلاً پہلے بند کا آغاز انہوں نے ’’سلسلۂ روز و شب‘‘ کی ترکیب سے کیا ہے اور بند کے آٹھ اشعار میں سے پانچ کے پہلے مصرعوں کا آغاز اسی ترکیب سے ہوتا ہے۔ اس طرح اس بند میں بلکہ اس پوری نظم میں وہ متوازی ساخت کے جملوں کے استعمال کے بڑے شائق نظر آتے ہیں۔ یہاں تک کہ ایک بند کے چار چار یا پانچ پانچ مصرعوں میں ملتے جلتے الفاظ یا متوازی ساخت کے مرکبات ملتے ہیں جیسے:
ایسی اور بھی کئی مثالیں ہیں۔ ایک مصرعے یا فقرے کی تکرار اس نظم میں بالعموم نئے بند کی ابتداء میں ملتی ہے جس سے نئے بند کی جانب مراجعت پُرتاثیر ہوجاتی ہے۔ نظم کے اس انداز کے سانچے کا نتیجہ یہ ہوا ہے کہ نظم گنگنا اٹھی ہے۔ اس کی سبک رفتاری اور روانی قاری کو ہپناٹائز کردیتی ہے۔ قافیے‘ تکرار اور الفاظ و تراکیب کی متوازیت سے نہ صرف یہ کہ سامع یا قاری کو بہت کچھ یاد رہ جاتا ہے بلکہ وہ تکرار اور قافیے کی پیش بندی کرنے لگتا ہے، اور یہ بات اردو کی ساری کی ساری کامیاب شاعری پر صادق آتی ہے، کیوں کہ یہ بنیادی طور پر وہ شاعری ہے جو خوش خوانی یعنی ترتیل کے خیال سے لکھی گئی۔ اگرچہ اقبال کی شاعری پڑھتے وقت اس میں موجود تصوف یا اشتراکیت کے بارے میں بلند پایہ خیالات کی طرف ذہن مبذول ہوتا ہے، لیکن ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ روایتی بحروں اور شاعری کی روایتی ہیئت کو مہارت سے برتنے کا فن ہی اقبال کی شاعری کو بنیاد فراہم کرتا ہے۔ اگرچہ شاعری محض اس قسم کی صناعی کا نام نہیں ہے لیکن صناعی یقینا شاعری کا اہم جزو ہے۔
اقبال کی مہارت اور ہنرمندی کا ایک اور پہلو اس نظم میں موجود استعاراتی تصویروں اور لفظیات سے عیاں ہے۔ میں چاہوں گی کہ اس نظم کی میں بند بہ بند مختصراً وضاحت کروں تاکہ یہ دیکھا جاسکے کہ اس میں پیش کیے گئے مرکزی خیال کیا ہیں اور شاعر نے زبان کو کس طرح برتا ہے۔
نظم کا آغاز وقت یا زمانے کے بارے میں ایک خیال سے ہوتا ہے کہ کس طرح دن کے بعد رات اور رات کے بعد دن کا تسلسل قائم ہے۔ یہ تسلسل بذات ِ خود تمام واقعات کے وقوع پذیر ہونے کا عکاس ہے۔ اقبال کے الفاظ میں یہ وہ ’’تارِ حریر دو رنگ‘‘ ہے جس سے خدا اپنی ’’قبائے صفات‘‘ بناتا ہے۔ اس ایک جان دار خیال کے توسط سے اقبال ہمارا تعارف اس عمیق اور پیچیدہ مسئلے سے کراتے ہیں جس کا نام خالق اور مخلوق کا باہمی رشتہ ہے۔ اگلے شعر میں وہ لمحے بھر کے لیے انسان کی ناپائیداری پر زور دیتے ہوئے روز و شب کے دائمی تسلسل کے لیے ’’سازِ ازل کی فغاں‘‘ کا استعارہ لاتے ہیں۔ وہ وقت یا سلسلۂ روز و شب کی تمثیل یا تجسیم ایک ایسے صراف یا سنار سے کرتے ہیں جو مخلوق کو پرکھتا اور اسے کم عیار پاکر موت کا حق دار قرار دیتا ہے۔ وقت کو یہاں اقبال نے تکرار کے ساتھ فارسی ترکیب ’’سلسلۂ روز و شب‘‘ کی مدد سے بیان کیا ہے۔ اس کے مقابلے میں جب وہ عام معنوں میں وقت کا لفظ لانا چاہتے ہیں تو اردو زبان میں موجود الفاظ کے انتخاب کے بھرپور مواقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ’’دن‘‘ اور ’’رات‘‘ کے عام الفاظ استعمال کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ تخلیق اور ہنر سے وابستہ ہر شے کی طرح وقت بھی فانی اور بے ثبات ہے۔ اس بند کا آخری شعر بڑا پُرزور ہے اور عدم اور لاشئیت پر اصرار کرتا ہے۔ اس کے الفاظ ’’منزلِ آخر فنا‘‘ اس حتمی منزل کی یاد دلاتے ہیں جس کی تمنا صوفی کو ہوتی ہے۔ لیکن ان الفاظ میں تکمیل کے بجائے خالی پن کی صدائے بازگشت سنائی دیتی ہے۔
دوسرے بند میں پہلے بند کے بعض الفاظ و تراکیب کی بازگشت سنائی دیتی ہے اور وقت کے بہائو کا خیال جاری رہتا ہے، اور اس میں وقت کو پانی یا سیل قرار دیا گیا ہے۔ پروفیسر این میری شمل کے بقول اس بند میں عشق کو ایک ایسا سیل قرار دیا گیا ہے جو باقی ہر شے کو تھام لیتا ہے۔ عشق مردِ خاص یعنی مردِ خدا‘ مومن بندے کی صفت ہے۔ عشق کو یہاں اقبال نے یکے بعد دیگرے مختلف تراکیب اور فقروں سے واضح کیا ہے اور اسے دمِ جبرئیل‘ دلِ مصطفی ]صلی اللہ علیہ وسلم[، خدا کا رسول اور خدا کا کلام قرار دیا ہے‘ اسے فقیہ اور امیر کہا ہے۔ عشق کو ابن السبیل لکھا ہے۔ خدا اور بندے کے تعلق کی طرف لوٹتے ہوئے کہتے ہیں کہ عشق ہی میں حق کا ظہور ہوا ہے۔ اس کے بعد اقبال پھر ساز کی بات کرتے ہیں‘ لیکن اب کے یہ فغاں نہیں ہے بلکہ ’’نغمۂ تارِ حیات‘‘ ہے جو ’’عشق کے مضراب‘‘ سے پھوٹا ہے۔ اس پورے بند میں تابناکی‘ روشنی اور آب و تاب نظر آتی ہے جو ’’عشق‘‘ کی مرہونِ منت ہے۔
تیسرے بند میں اقبال نظم کے بنیادی مفہوم کو اجاگر کرتے ہیں۔ یہاں مسجد کو عشق کی تجسیم کے طور پر پیش کیا گیا ہے کہ یہ خونِ جگر کی جیتی جاگتی نمود ہے۔ اقبال کہتے ہیں کہ ایسا معجزۂ فن جس کی نمود خونِ جگر سے ہوئی ہو‘ چاہے وہ مسجد کی خشت کی صورت میں ہو یا شاعر کے الفاظ کی صورت میں‘ موت اور فنا کے بجائے زندگی اور لافانیت سے ہم کنار ہوجاتا ہے۔ بقول اقبال انسان کے ذوق و شوق کی قدروقیمت فرشتوں کے سجدوں سے بڑھ کر ہے کیوں کہ فرشتوں کو سجدہ تو میسر ہے وہ سوزوگداز میسر نہیں جو انسان کو عطا ہوا ہے، اور انسانوں میں بھی شاعر ہی ہے، اور بالخصوص یہ شاعر‘ جسے یہ سوزوگداز بخشا گیا ہے۔ یہاں اقبال خود کو کافرِ ہندی کہتے ہیں اور اپنے ذوق وشوق کو بیان کرتے ہیں۔ اس ذوق و شوق میں شدت اور تفاخر کا اظہار مطلوب ہے اسی لیے وہ اپنے آپ کو نومسلم (کافر ہندی) قرار دیتے ہیں۔ اس بند کے آخری شعر میں وہ اپنے رگ و پے میں نغمۂ اللہ ہو، یعنی خود کو خدا کے نام کی تجسیم بتاتے ہیں۔
اللہ خالق ہے، وہ صناع ہے اور اس کی یہ صفات اور صفاتِ جلال و جمال مسجدِ قرطبہ کے معمار میں بھی ہیں اور مسجدِ قرطبہ میں بھی۔ یہ خیال چوتھے بند کے آغاز میں پیش کیا گیا ہے۔ اقبال مسجد کے حسن و جمال کو اس بند میں آشکار کرتے ہیں اور اسے عشق کے جذبے سے مربوط کرتے ہیں۔ انہوں نے مسلمانوں کے ماضی پر فخر کیا ہے اور آخری شعر میں اپنے اسلامی عقیدے کا اظہار کرتے ہوئے وہ کلمۂ شہادت کے ابتدائی الفاظ لائے ہیں۔
بالآخر پانچویں بند میں اقبال نے فن کار یا خالق اور خالقِ حقیقی کے باہمی رشتے کا مسئلہ مزید وضاحت کے ساتھ چھیڑا ہے اور کہا ہے کہ
چھٹے اور ساتویں بند میں اقبال تاریخی تناظر کو مزید آگے بڑھاتے ہیں اور مسلمانوں کے ماضی کے ان عظیم لمحات کو یاد کرتے ہیں جن کی اب صرف یاد ہی مسلمانوں کے دلوں میں ہے۔ بقول اقبال مسلمان حکمران ’’حاملِ خلقِ عظیم‘‘ تھے اور ان اہلِ دل کی سلطنت فقر پر قائم تھی، جب کہ مغربیوں کی سلطنت ’’شاہی‘‘ پر۔ مسلمان حکمرانوں نے باقی دنیا کی تربیت کی۔ اس دور کی گونج شاعر کو بھی سنائی دی، کیوں کہ اس نے جن اندلسیوں کو اس وقت دیکھا وہ اسے مسلمانوں کے اثر سے گرم اختلاط اور روشن جبیں نظر آئے۔ اسے اندلس کی ہوائوں میں بوئے یمن آئی اور اسے وہاں کے نغموں میں رنگ ِ حجاز نظر آیا۔ لیکن شاعر جب اس سہانے سپنے سے جاگتا ہے تو اس حقیقت کا سامنا کرنا پڑتا ہے کہ مسلمانوں کی دنیاوی عظمت اب قصۂ ماضی ہوچکی ہے۔ اب اسے پروٹسٹنٹوں کی اصلاحِ دین کی کوششوں اور انقلابِ فرانس کا خیال آتا ہے، اور یہ کہ اب ’’عشق بلا خیز کے قافلۂ سخت جاں‘‘ نے اسلام کی صورت میں اپنی نئی جائے قیام پالی ہے۔ وہ پوچھتے ہیں کہ اس بحر کی تہہ سے کیا اچھلے گا جو پوری کائنات کا رنگ بدل دے۔
نظم کے آخری بند میں اقبال ان اجزائے ترکیبی کو یکجا کرتے ہیں جن سے ان کا تصورِ وقت اور اس کے بہائو کا خیال اور موسیقی‘ رنگ‘ روشنی اور صناعی کے بارے میں ان کے تصورات عبارت ہیں۔ اس بند کی ابتداء ماضی کی یاد سے معمور اور کسی حد تک خاموش خاموش سی ہے۔ یہاں دن یا رات کے بجائے جھٹپٹے کا سماں ہے۔ اب یہاں نظم کی لَے تجریدی نہیں مادی ہے‘ مثلاً وہ یہاں ’’دختر دہقاں کے گیت‘‘ کا ذکر کرتے ہیں۔ اسی طرح اب پانی کوئی کائناتی سیلِ رواں نہیں بلکہ دریائے وادالکبیر ]جس کے قریب ہی مسجد قرطبہ واقع ہے[ کا پانی ہے جس کے کنارے شاعر کھڑا ہے‘ لیکن نظم جیسے جیسے آگے بڑھتی ہے اس کا یہ آہنگ بدلتا جاتا ہے اور شاعر کہتا ہے کہ ایک نئی سحر اس کی نگاہوں کے سامنے بے حجاب ہورہی ہے اور اس کے اندر ایک ایسا نغمہ خوابیدہ ہے کہ اگر وہ اس سے پردہ اٹھادے تو فرنگ اس کی تاب نہ لاسکے گا۔ اب یہاں ان الفاظ میں جھٹپٹا نہیں بلکہ تابناکی ہے۔ اب وہ کہتے ہیں کہ کسی قوم کو خود اپنے عمل کا حساب کرنا چاہیے نہ کہ سلسلۂ روز و شب کو۔ اور کوئی قوم ہی اپنے اندر وہ جذبہ پیدا کرسکتی ہے جس سے زندگی صحیح معنوں میں زندگی بنتی ہے۔ یہی وہ جذبہ ہے اور یہی وہ خونِ جگر ہے جس کی نمود کسی تخلیقی کام کو، بشمول ایک نظم کے، اکملیت عطا کرتی ہے۔
ایک نظم جس قوت اور تاثیر کی حامل ہوسکتی ہے اقبال کی یہ نظم بیک وقت اس کا اعلان بھی ہے اور عملی اظہار بھی۔ معنی کی ایک سطح پر اقبال قاری کی تربیت کررہے ہیں اور اسے اس کے ماضی کا احتشام اور اس کے مستقبل کی امکانی عظمت یاد دلارہے ہیں، دوسری سطح پر جو کہیں زیادہ عمیق ہے‘ وہ اپنے طرزِ فکر و احساس کو مجسم شکل میں پیش کررہے ہیں اور اسے ابدیت دے رہے ہیں۔ اپنے اس دوسرے مقصد کے حصول کے لیے وہ صناعی کا ایک نمونہ پیش کرتے ہیں یعنی ایک ایسی نظم جو حسن تعمیر اور ترتیب و تناسب کی مثال ہے، بالکل اس مسجد کی طرح جو اس نظم کا موضوع ہے۔ گویا اس نظم کی ہیئت اور اس میں پیش کے گئے تمثالی نقوش نہ صرف اس کی غنائیت اور مسحور کن صدائے بازگشت کی سی کیفیت کی تخلیق کے لحاظ سے بلکہ اس نظم کے فطری خلقی مفہوم کی وضاحت کے لیے بھی اہم ہیں۔
’’مسجد قرطبہ‘‘ ایک نمایاں مقام کی حامل نظم ہے، کیوں کہ اس میں دو ایسے مسائل کو موضوع بنایا گیا ہے جو بیسویں صدی کے فہمیدہ مسلم اذہان کے لیے اہم رہے ہیں۔ اوّل: مسلمانوں کا شان دار ماضی اور ان کی تاریخ‘ دوم: خدا اور بندے کے باہمی تعلق کو سمجھنے کی کوشش۔ یہ دوسرا مسئلہ ایسا ہے جس کی جڑیں مسلمانوں کے فلسفیانہ افکار بالخصوص صوفی افکار و نظریات میں بہت دور تک جاتی ہیں اور اقبال کے ہاں اس نظریے کی ترکیب و تالیف بہت دلچسپ طور پر ہوئی ہے۔ ان دونوں مسائل کو بنیادی حیثیت دینا جدید اردو ادب کی ایسی امتیازی خصوصیت ہے جس سے اردو ادب کے رخ یا مزاج کا تعین ہوتا ہے۔ یہاں ’’خصوصیت‘‘ سے ہماری مراد اردو ادب کی علمی و اخلاقی خصوصیت ہے۔ انیسویں صدی کے اواخر میں مسدس حالی اور ڈپٹی نذیر احمد کے اخلاقی قصوں سے لے کر خود اقبال کے دور میں ترقی پسند تحریک تک اردو ادب نے قوم کو درس و ہدایت دینے کو اپنا مشن بنایا ہے۔ اقبال کی تمام شاعری اگرچہ اس درس و ہدایت کے مقصد کے تابع نہیں ہے لیکن یہ نظم یقینا اس مقصد کو آگے بڑھاتی ہے۔
جو مفکر مسلمانوں کے طرزِعمل اور رویوں میں تبدیلی چاہتے تھے‘ ان میں سے کئی ایک نے ماضی پر توجہ مرکوز کی اور عہدِ رفتہ کی عظمت کو موضوع بنایا، جس نے نہ صرف یہ کہ اس مسلمان قوم کو فخر کرنا سکھایا جو اب محکوم ہوچکی تھی، بلکہ اس نے اس منزل کے لیے مثالی نمونے کا بھی کام کیا جس کا وہ خواب دیکھ اور دکھا رہے تھے۔ ماضی پر اس طرح زور دینا ایک طرح سے اس کشمکش اور اس سوال کا جواب تھا جس سے اس وقت کے برطانوی دور کے تمام ہندوستانی مفکر اور دانش ور دوچار تھے، اور یہ کشمکش اور یہ سوال یہ تھا کہ ہم اتنے کمزور‘ اتنے لاچار کیوں ہیں؟ ہمارے اور ہمارے انگریز حاکموں کے درمیان تفاوت اتنا عظیم کیوں ہے؟
عمومی طور پر اس کا جواب مسلمانوں اور ہندوئوں‘ دونوں کے لیے یہی تھا کہ اس کے ذمے دار ہم خود ہیں، کیوں کہ ہم ایک مناسب طرزعمل‘ نظم و ضبط اور مناسب فکر کی پابندی نہ کرسکے اور ہماری کوتاہیوں کے سبب ہی یہ محکومی ہمارا مقدر بنی ہے اور ہم اس کے مستحق تھے۔ لیکن اس نتیجے پر پہنچنا بہت تکلیف دہ تھا۔ تاہم یہ نتیجہ اس صورت حال سے نکلنے کا راستہ بھی دیتا تھا اور اس میں وجۂ تسلی یہ تھی کہ یہ محض انسانی غلطی تھی کہ ہم زوال کی اس حد تک جا پہنچے، اور یہ ہماری تہذیب و ثقافت کی پیدائشی و فطری خامی نہ تھی۔ نیز یہ کہ مذہبی متون اور ماضی کے صحیح طرزعمل کے احیاء سے اس خطے کے باشندے دوبارہ عظمت کو چھوسکتے ہیں۔ مثال کے طور پر مسلمانوں میں 1830ء کے مجاہدین اور اہل حدیث کے ابتدائی علماء اور ہندوئوں میں رام موہن رائے اور بنگال میں شروع کے دور کے مصلحین سبھی نے مذہبی متون کے احیاء پر زور دیا۔ انہوں نے اصرار کیا کہ اگر اس نئے مواد کو جس کو بعد میں اخذ کرلیا گیا ہے الگ کردیا جائے تو ایسی منور و مجلیٰ حقیقت سامنے آئے گی جو فرد اور معاشرے دونوں کو صحیح راہ پر ڈال دے گی۔ انیسویں صدی میں مزید آگے چل کر بعض دیگر مصلحین نے ماضی کے ان شان دار ادوار پر زور دیا جب ان کی قوم کسی کی محکوم نہ تھی اور ان کے علوم ترقی کررہے تھے۔ ہندوئوں میں آریہ سماجیوں نے ویدوں کے دور پر اپنی توجہ مرکوز کرکے، اور مسلمانوں میں حالی‘ امیر علی اور شبلی کی تحریروں نے اس نقطۂ نظر کو پیش کیا۔ اپنے ماضی پر فخر کرنا دونوں قوموں کے لیے اس وقت اپنی شناخت کی خاطر انتہائی اہم بن گیا تھا۔
مسجد قرطبہ کی صورت میں اقبال کو ایک ایسی علامت میسر آگئی جو مسلمانوںکے عظیم ماضی کی یاد مؤثر ترین انداز میں تازہ کرتی تھی۔ مسجد قرطبہ نہ صرف یہ کہ مسلمانوں کے عظیم ماضی کی ابتدائی سلطنتوں کی عکاس ہے بلکہ یہ اس دور کی یاددہانی کراتی ہے جب مسلمان سرزمینِ یورپ پر حاکم تھے اور یورپی اقوام سے تہذیب و فن‘ علم و اخلاق میں کہیں آگے تھے۔ اقبال نے ماضی سے اس بندھن کا دعویٰ مذہب کی بنیاد پر کیا۔ درحقیقت اس نظم میں انہوں نے جنوبی ایشیا کے مسلمانوں کی اس موہوم بے چینی کو صراحت سے پیش کیا ہے جس کے تحت مسلمان اسلام کے ماضی سے منسلک ہونے کا دعویٰ نہیں کرسکتے تھے‘ وہ اپنے مذہب یعنی اسلام کے مرکزی مقامات سے جغرافیائی فاصلے پر تھے اور ان کا ملک دارالحرب بن چکا تھا۔ اقبال نے اصرار کیا کہ ان کے دلی جذبات اس بات کا ناقابلِ تردید ثبوت ہیں کہ ]برعظیم پاک و ہند کے[ مسلمانوں کا ذہنی ربط اسلام کے عظیم ماضی سے قائم ہے۔ بجائے اس کے کہ دوسرے انہیں ان کے عقیدے میں کسی آمیزش کے شائبے پر مطعون کریں انہوں نے خود ہی اپنے آپ کو ’’کافر‘‘ قرار دے دیا لیکن ساتھ ہی یہ اصرار بھی کیا کہ ان کا ذوق و شوق انہیں اسلامی عقیدے کے اصل دھارے سے قطعی اور یقینی طور پر جوڑ دیتا ہے۔
ماضی اور مسجدِ قرطبہ کو خیالات و احساسات کا مرکز بنا کر اقبال نے اس نظم کے اس ثانوی مرکزی خیال کو بھی پیش کیا ہے جسے میں سطورِ بالا میں اللہ اور مخلوق کے باہمی رشتے کا نام دے چکی ہوں۔ یہ مسجد اقبال کی نظر میں صناعی‘ تخیل و اختراع ہے‘ یہ انسان کی صلاحیتوں کے نقطۂ عروج کا ٹھوس‘ قابلِ ادراک اظہار ہے۔ انہوں نے مسجد کے تعمیری حسن کی مدح سرائی کی ہے‘ اس جنگجو کو بھی سراہا ہے جس کی وجہ سے اس مسجد کی تعمیر ممکن ہوئی اور ساتھ ہی خود کو یعنی شاعر اقبال کو بھی سراہا ہے جس نے اس نظم کی صورت میں ہماری آنکھوں کے سامنے ایک ایسی مسجد تعمیر کردی ہے جو سلسلۂ روز وشب کی دست برد سے ماورا رہے گی۔
اس طرح اقبال نے اس نظم میں اپنی دیگر نظموں کی طرح انسان کی قوتوں کو خراج تحسین پیش کیا ہے۔ یہ نظم انسان کی غیر معمولی قوتوں اور صلاحیتوں کا ولولہ انگیز بیان ہے اور بلاشبہ یہی اس نظم کی مقبولیت کا بڑا سبب ہے۔
اس نظم کا موضوع یعنی مسجد اور اسلام کے ماضی کی عظمتیں‘ جنوبی ایشیا کے مسلمانوں کے لیے بڑی اہمیت کا حامل ہے، خاص طور پر پاکستانیوں کے لیے اس کی کشش بالکل واضح ہے، کیوں کہ وہ ہمیشہ اپنی مشترک بنیاد کی تلاش میں رہتے ہیں۔ لیکن اس نظم میں موضوع کو کچھ اس انداز سے برتا گیا ہے کہ اس موضوع سے کہیں آگے بڑھ کر یہ کئی آفاقی موضوعات پر محیط ہوگیا ہے۔ اس آفاقی سطح پر اقبال نے صوفیانہ اصطلاحات‘ جیسے عشق اور شوق جیسے عمیق تصورات کو انسان کی تخلیقی صلاحیتوں کی شکل میں ڈھال کر پیش کیا ہے۔ اس طرح انہوں نے ایک جمالیاتی نظریے کو تصوف کے سیاق و سباق سے آمیخت کردیا ہے۔ چنانچہ ایک دن جب انیسویں صدی اور بیسویں صدی کی تاریخی رومانویت ازکارِ رفتہ نظر آنے لگے گی تب بھی اس نظم کی زیریں سطح پر موجود مفہوم کی لہریں باقی رہیں گی اور یہ نظم جیسا کہ اقبال چاہتے بھی تھے‘ ایک مسجد کی طرح قائم رہے گی‘ ایک معجزۂ فن کی طرح جو سلسلۂ روز وشب کو بھی مات دے دے۔
(بشکریہ ماہنامہ قومی زبان‘ کراچی‘ نومبر 2011ء)
ڈاکٹر رؤف پاریکھ
November 4, 2022
باربرا ڈی میٹکاف (Barbara D Metcalf) کا نام برعظیم پاک و ہند کے علمی حلقوں میں معروف ہے۔ یونیورسٹی آف کیلی فورنیا میں تاریخ کی پروفیسر تھیں اور اب وہاں پروفیسر ایمریطس ہیں۔ جنوبی ایشیا کی تاریخ بالخصوص انگریزی دور اور مسلم تاریخ و ثقافت کی ماہر سمجھی جاتی ہیں۔ کئی زبانوں سے واقف ہیں اور برعظیم پاک و ہند کے ادب پر بھی ان کی نظر ہے۔ اسلام اور برعظیم پاک و ہند کی تاریخ کے موضوع پر کئی کتابیں لکھ چکی ہیں۔ ان کی 2009ء میں شائع ہونے والی کتاب مولانا حسین احمد مدنی پر ہے جس کا عنوان ہے:”Hussain Ahmed Madani: Jihad for Islam and India’s freedom”ان کا ایک مضمون Reflections of Iqbal’s mosque کے عنوان سے ہے جس میں ’’بالِ جبریل‘‘ میں شامل اقبال کی نظم ’’مسجدِ قرطبہ‘‘ پر اظہار خیال کیا گیا ہے۔ اس مضمون کا ترجمہ پیش خدمت ہے۔ ترجمے کے متن میں جو عبارت چوکور خطوط ِ وحدانی (یعنی [ ]) میں دی گئی ہے وہ مترجم کی جانب سے کیا گیا اضافہ ہے۔
اقبال 1932ء میں لندن تشریف لے گئے تاکہ تیسری گول میز کانفرنس میں شریک ہوسکیں جو برطانوی حکومت نے اپنے زیرنگیں خطے ہندوستان کے آئین میں اصلاح کی غرض سے تبادلۂ خیال کے لیے منعقد کی۔ اس کانفرنس میں اقبال کا کردار اتنا بڑا نہیں تھا لیکن اس سفر سے واپسی پر وہ اسپین میں ٹھیر گئے اور انہوں نے وہاں ان آثار کو دیکھا جو اندلس کی عظمتِ رفتہ کے شاہد تھے۔ اسپین کے اس دورے سے وہ بے حد متاثر ہوئے، خاص طور پر مسجد قرطبہ نے ان کے قلب و ذہن پر ایسے اثرات چھوڑے کہ ان کے خیالات اور جذبات اسی مسجد پر مرکوز ہوگئے۔ انہوں نے افسرانِ مجاز سے اس مسجد (جو اب گرجا ہے) میں اپنے مذہب کے مطابق عبادت ادا کرنے کی اجازت حاصل کی۔ عبادت کے انہی لمحات سے ان پر وہ تاثرات‘ احساسات اور خیالات مرتسم ہوئے جن کی مدد سے انہوں نے ایک ایسی نظم کہی جو ان کے تمام اردو کلام میں معروف ترین اور مقبول ترین ہے۔
اقبال کی نظم ’’مسجدِ قرطبہ‘‘ میں ان کی شاعری کی وہ خصوصیات موجود ہیں جنہوں نے اقبال کو شہرت و مقبولیت عطا کی۔ اگرچہ اس نظم کی اصل خوبی اکثر اس کے موضوع کو قرار دیا جاتا ہے، لیکن محض موضوع کو اس نظم کی سحر آفرینی کی اصل وجہ قرار دینا صحیح نہیں ہوگا، کیوں کہ یہ مسجد تو اندلس کی تاریخوں میں بھی موضوع بنی ہے اور بائیڈکر (Baedeker) کے ہاں بھی اس سے متعلق مواد موجود ہے۔ اس نظم میں مسجد کا موضوع ہونا بھی صرف اس لیے اہم ہے کہ اقبال نے اس مسجد کو ایک مخصوص زاویۂ نگاہ کے ساتھ اور ایک خاص انداز میں اس نظم میں سمویا ہے۔ پس اس نظم کا فی نفسہٖ جانچنا‘ بندوں کے لحاظ سے اس کی ہیئت کو دیکھنا‘ اس میں موجود قافیہ بندی اور اس کے صوتی آہنگ، نیز اس کے مشمولات و مطالب کا جائزہ لینا بھی ضروری ہے۔ مطالعۂ اقبال کے سلسلے میں جو تحریریں ملتی ہیں ان میں سے بیشتر ایسی ہیں جن میں پہلے سے یہ طے کرلیا گیا ہے کہ اقبال ایک شاعر ہے اور بس۔ ان میں اقبال کی فنکارانہ مہارت اور ان کے شعری ہنر کا جائزہ نہیں لیا گیا ہے۔ اقبال کی شاعری کے جائزوں میں اقبال کے سیاسی‘ مذہبی اور فلسفیانہ افکار کو تو زیربحث لایا گیا ہے لیکن اقبال کی شاعری میں ہیئت اور معنی کے اس سیاق و سباق کو نظرانداز کردیا گیا ہے جو ان فلسفیانہ‘ سیاسی اور مذہبی افکار کو خاص شکل اور مفہوم دیتا ہے۔
اس نظم میں ایک طرف تو مصرعے‘ ان کی ترتیب‘ بحر اور قوافی اور دوسری طرف استعارے اور لفظیات سب مجموعی طور پر نظم کے تاثر میں مرکزی اہمیت کے حامل ہیں۔ مزید برآں یہ کہ میری رائے میں اس نظم کا مفہوم اس کی خوب صورت فنکارانہ ساخت اور ہیئت کے ساتھ اس طرح مربوط ہے کہ دونوں کو الگ کرنا ممکن نہیں۔ یوں کہہ لیجیے کہ اس نظم میں اقبال نے صرف ایک مسجد کی مدح و ثنا ہی نہیں بیان کی بلکہ اس نظم کی متناسب ساخت کی مدد سے ایک طرح سے خود اپنی ایک ’’مسجد‘‘ تعمیر کی ہے۔ میں چاہوں گی کہ پہلے اس نظم کی ساخت اور ہیئت کا جائزہ لیا جائے اور پھر اس کے استعاروں اور لفظیات پر غور کیا جائے، اور آخر میں اس مفہوم کو سمجھا جائے جس کی تجسیم ساخت سے ہوئی ہے۔
اپنے جدید افکار کے باوجود اقبال نے اپنی شاعری کی ہیئت کے معاملے میں کلاسیکی رجحانات سے روگردانی نہیں کی۔ ان کی نظمیں انہی بحروں میں لکھی گئیں جو مروج تھیں اور جنہیں وہ نہایت مہارت سے برتتے تھے۔ ’’مسجدِ قرطبہ‘‘ ایک طویل نظم ہے، اس میں آٹھ بند ہیں‘ ہر بند میں سولہ مصرعے ہیں جن میں سے دو آخری مصرعے بند کا اختتام ایک بھرپور شعر کی صورت میں کرتے ہیں۔ یہاں بحر اور قوافی بنیادیطور پر وہی ہیں جو غزل میں ہوتے ہیں۔ گویا یہ آٹھ بند ایک طرح سے آٹھ غزلیں ہیں۔ البتہ اس نظم میں آٹھوں بندوں کے اپنے اپنے قوافی ہیں اور یہ اپنی ساخت کے اعتبار سے ’’ترکیب بند‘‘ ہیں۔ ہر بند کا اختتام جس شعر پر ہوتا ہے اس کی اہمیت اس طرح واضح ہوتی ہے کہ اس کے قافیے اس بند کے گزشتہ اشعار کے قوافی سے الگ ہوتے ہیں۔ ہر مصرعے میں وقف ِشعری ہے اور یہاں یعنی مصرعے کے وسط میں کبھی کبھی قافیہ بھی آجاتا ہے۔ مثال کے طور پر پہلے بند میں قافیہ صرف پہلے دو مصرعوں اور اس کے بعد ایک مصرع چھوڑ کر ایک مصرعے ہی میں نہیں ہے بلکہ تین مصرعے ایسے ہیں جن کے درمیان میں بھی قافیہ آتا ہے۔ یہاں قافیے کی اہمیت بہت زیادہ ہے، کیوں کہ یہ ہر شعر میں گونجتا ہے اور قافیے کے انتخاب سے قاری یا سامع پر آہنگ کی وجہ سے عجیب اثر ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر پہلے شعر کا اختتام ’’ات‘‘ پر ہوتا ہے۔ یہاں قافیے ہیں: حادثات‘ ممات‘ صفات‘ ممکنات‘ کائنات وغیرہ۔ یہ صوت رکن (syllable) ]یعنی ا ت[ اکثر عربی الفاظ کی جمع کو ظاہر کرتا ہے۔ میری رائے میں یہاں اس کا انتخاب لہجے میں رسمی انداز، تجریدیت اور تمکنت پیدا کرتا ہے۔
اس ہیئت کے اندر رہتے ہوئے اقبال نے بعض تراکیب کی تکرار سے اور مکرر آنے والی تراکیب میں تغیر کرکے نئے نقوش ابھارے ہیں۔ مثلاً پہلے بند کا آغاز انہوں نے ’’سلسلۂ روز و شب‘‘ کی ترکیب سے کیا ہے اور بند کے آٹھ اشعار میں سے پانچ کے پہلے مصرعوں کا آغاز اسی ترکیب سے ہوتا ہے۔ اس طرح اس بند میں بلکہ اس پوری نظم میں وہ متوازی ساخت کے جملوں کے استعمال کے بڑے شائق نظر آتے ہیں۔ یہاں تک کہ ایک بند کے چار چار یا پانچ پانچ مصرعوں میں ملتے جلتے الفاظ یا متوازی ساخت کے مرکبات ملتے ہیں جیسے:
تجھ کو پرکھتا ہے یہ مجھ کو پرکھتا ہے یہ
٭
موت ہے تیری برأت موت ہے میری برأت
٭
وہ بھی جلیل و جمیل تُو بھی جلیل و جمیل
٭
موت ہے تیری برأت موت ہے میری برأت
٭
وہ بھی جلیل و جمیل تُو بھی جلیل و جمیل
ایسی اور بھی کئی مثالیں ہیں۔ ایک مصرعے یا فقرے کی تکرار اس نظم میں بالعموم نئے بند کی ابتداء میں ملتی ہے جس سے نئے بند کی جانب مراجعت پُرتاثیر ہوجاتی ہے۔ نظم کے اس انداز کے سانچے کا نتیجہ یہ ہوا ہے کہ نظم گنگنا اٹھی ہے۔ اس کی سبک رفتاری اور روانی قاری کو ہپناٹائز کردیتی ہے۔ قافیے‘ تکرار اور الفاظ و تراکیب کی متوازیت سے نہ صرف یہ کہ سامع یا قاری کو بہت کچھ یاد رہ جاتا ہے بلکہ وہ تکرار اور قافیے کی پیش بندی کرنے لگتا ہے، اور یہ بات اردو کی ساری کی ساری کامیاب شاعری پر صادق آتی ہے، کیوں کہ یہ بنیادی طور پر وہ شاعری ہے جو خوش خوانی یعنی ترتیل کے خیال سے لکھی گئی۔ اگرچہ اقبال کی شاعری پڑھتے وقت اس میں موجود تصوف یا اشتراکیت کے بارے میں بلند پایہ خیالات کی طرف ذہن مبذول ہوتا ہے، لیکن ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ روایتی بحروں اور شاعری کی روایتی ہیئت کو مہارت سے برتنے کا فن ہی اقبال کی شاعری کو بنیاد فراہم کرتا ہے۔ اگرچہ شاعری محض اس قسم کی صناعی کا نام نہیں ہے لیکن صناعی یقینا شاعری کا اہم جزو ہے۔
اقبال کی مہارت اور ہنرمندی کا ایک اور پہلو اس نظم میں موجود استعاراتی تصویروں اور لفظیات سے عیاں ہے۔ میں چاہوں گی کہ اس نظم کی میں بند بہ بند مختصراً وضاحت کروں تاکہ یہ دیکھا جاسکے کہ اس میں پیش کیے گئے مرکزی خیال کیا ہیں اور شاعر نے زبان کو کس طرح برتا ہے۔
نظم کا آغاز وقت یا زمانے کے بارے میں ایک خیال سے ہوتا ہے کہ کس طرح دن کے بعد رات اور رات کے بعد دن کا تسلسل قائم ہے۔ یہ تسلسل بذات ِ خود تمام واقعات کے وقوع پذیر ہونے کا عکاس ہے۔ اقبال کے الفاظ میں یہ وہ ’’تارِ حریر دو رنگ‘‘ ہے جس سے خدا اپنی ’’قبائے صفات‘‘ بناتا ہے۔ اس ایک جان دار خیال کے توسط سے اقبال ہمارا تعارف اس عمیق اور پیچیدہ مسئلے سے کراتے ہیں جس کا نام خالق اور مخلوق کا باہمی رشتہ ہے۔ اگلے شعر میں وہ لمحے بھر کے لیے انسان کی ناپائیداری پر زور دیتے ہوئے روز و شب کے دائمی تسلسل کے لیے ’’سازِ ازل کی فغاں‘‘ کا استعارہ لاتے ہیں۔ وہ وقت یا سلسلۂ روز و شب کی تمثیل یا تجسیم ایک ایسے صراف یا سنار سے کرتے ہیں جو مخلوق کو پرکھتا اور اسے کم عیار پاکر موت کا حق دار قرار دیتا ہے۔ وقت کو یہاں اقبال نے تکرار کے ساتھ فارسی ترکیب ’’سلسلۂ روز و شب‘‘ کی مدد سے بیان کیا ہے۔ اس کے مقابلے میں جب وہ عام معنوں میں وقت کا لفظ لانا چاہتے ہیں تو اردو زبان میں موجود الفاظ کے انتخاب کے بھرپور مواقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ’’دن‘‘ اور ’’رات‘‘ کے عام الفاظ استعمال کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ تخلیق اور ہنر سے وابستہ ہر شے کی طرح وقت بھی فانی اور بے ثبات ہے۔ اس بند کا آخری شعر بڑا پُرزور ہے اور عدم اور لاشئیت پر اصرار کرتا ہے۔ اس کے الفاظ ’’منزلِ آخر فنا‘‘ اس حتمی منزل کی یاد دلاتے ہیں جس کی تمنا صوفی کو ہوتی ہے۔ لیکن ان الفاظ میں تکمیل کے بجائے خالی پن کی صدائے بازگشت سنائی دیتی ہے۔
دوسرے بند میں پہلے بند کے بعض الفاظ و تراکیب کی بازگشت سنائی دیتی ہے اور وقت کے بہائو کا خیال جاری رہتا ہے، اور اس میں وقت کو پانی یا سیل قرار دیا گیا ہے۔ پروفیسر این میری شمل کے بقول اس بند میں عشق کو ایک ایسا سیل قرار دیا گیا ہے جو باقی ہر شے کو تھام لیتا ہے۔ عشق مردِ خاص یعنی مردِ خدا‘ مومن بندے کی صفت ہے۔ عشق کو یہاں اقبال نے یکے بعد دیگرے مختلف تراکیب اور فقروں سے واضح کیا ہے اور اسے دمِ جبرئیل‘ دلِ مصطفی ]صلی اللہ علیہ وسلم[، خدا کا رسول اور خدا کا کلام قرار دیا ہے‘ اسے فقیہ اور امیر کہا ہے۔ عشق کو ابن السبیل لکھا ہے۔ خدا اور بندے کے تعلق کی طرف لوٹتے ہوئے کہتے ہیں کہ عشق ہی میں حق کا ظہور ہوا ہے۔ اس کے بعد اقبال پھر ساز کی بات کرتے ہیں‘ لیکن اب کے یہ فغاں نہیں ہے بلکہ ’’نغمۂ تارِ حیات‘‘ ہے جو ’’عشق کے مضراب‘‘ سے پھوٹا ہے۔ اس پورے بند میں تابناکی‘ روشنی اور آب و تاب نظر آتی ہے جو ’’عشق‘‘ کی مرہونِ منت ہے۔
تیسرے بند میں اقبال نظم کے بنیادی مفہوم کو اجاگر کرتے ہیں۔ یہاں مسجد کو عشق کی تجسیم کے طور پر پیش کیا گیا ہے کہ یہ خونِ جگر کی جیتی جاگتی نمود ہے۔ اقبال کہتے ہیں کہ ایسا معجزۂ فن جس کی نمود خونِ جگر سے ہوئی ہو‘ چاہے وہ مسجد کی خشت کی صورت میں ہو یا شاعر کے الفاظ کی صورت میں‘ موت اور فنا کے بجائے زندگی اور لافانیت سے ہم کنار ہوجاتا ہے۔ بقول اقبال انسان کے ذوق و شوق کی قدروقیمت فرشتوں کے سجدوں سے بڑھ کر ہے کیوں کہ فرشتوں کو سجدہ تو میسر ہے وہ سوزوگداز میسر نہیں جو انسان کو عطا ہوا ہے، اور انسانوں میں بھی شاعر ہی ہے، اور بالخصوص یہ شاعر‘ جسے یہ سوزوگداز بخشا گیا ہے۔ یہاں اقبال خود کو کافرِ ہندی کہتے ہیں اور اپنے ذوق وشوق کو بیان کرتے ہیں۔ اس ذوق و شوق میں شدت اور تفاخر کا اظہار مطلوب ہے اسی لیے وہ اپنے آپ کو نومسلم (کافر ہندی) قرار دیتے ہیں۔ اس بند کے آخری شعر میں وہ اپنے رگ و پے میں نغمۂ اللہ ہو، یعنی خود کو خدا کے نام کی تجسیم بتاتے ہیں۔
اللہ خالق ہے، وہ صناع ہے اور اس کی یہ صفات اور صفاتِ جلال و جمال مسجدِ قرطبہ کے معمار میں بھی ہیں اور مسجدِ قرطبہ میں بھی۔ یہ خیال چوتھے بند کے آغاز میں پیش کیا گیا ہے۔ اقبال مسجد کے حسن و جمال کو اس بند میں آشکار کرتے ہیں اور اسے عشق کے جذبے سے مربوط کرتے ہیں۔ انہوں نے مسلمانوں کے ماضی پر فخر کیا ہے اور آخری شعر میں اپنے اسلامی عقیدے کا اظہار کرتے ہوئے وہ کلمۂ شہادت کے ابتدائی الفاظ لائے ہیں۔
بالآخر پانچویں بند میں اقبال نے فن کار یا خالق اور خالقِ حقیقی کے باہمی رشتے کا مسئلہ مزید وضاحت کے ساتھ چھیڑا ہے اور کہا ہے کہ
ہاتھ ہے اللہ کا، بندۂ مومن کا ہاتھ
یہاں وہ بندۂ مومن کا کردار دکھاتے ہیں، اسے خالقِ حقیقی کی شاہ کار تخلیق اور ’’مولا صفات‘‘ بتاتے ہیں۔ یہاں بندے میں اپنے مالک کی صفات نظر آتی ہیں۔چھٹے اور ساتویں بند میں اقبال تاریخی تناظر کو مزید آگے بڑھاتے ہیں اور مسلمانوں کے ماضی کے ان عظیم لمحات کو یاد کرتے ہیں جن کی اب صرف یاد ہی مسلمانوں کے دلوں میں ہے۔ بقول اقبال مسلمان حکمران ’’حاملِ خلقِ عظیم‘‘ تھے اور ان اہلِ دل کی سلطنت فقر پر قائم تھی، جب کہ مغربیوں کی سلطنت ’’شاہی‘‘ پر۔ مسلمان حکمرانوں نے باقی دنیا کی تربیت کی۔ اس دور کی گونج شاعر کو بھی سنائی دی، کیوں کہ اس نے جن اندلسیوں کو اس وقت دیکھا وہ اسے مسلمانوں کے اثر سے گرم اختلاط اور روشن جبیں نظر آئے۔ اسے اندلس کی ہوائوں میں بوئے یمن آئی اور اسے وہاں کے نغموں میں رنگ ِ حجاز نظر آیا۔ لیکن شاعر جب اس سہانے سپنے سے جاگتا ہے تو اس حقیقت کا سامنا کرنا پڑتا ہے کہ مسلمانوں کی دنیاوی عظمت اب قصۂ ماضی ہوچکی ہے۔ اب اسے پروٹسٹنٹوں کی اصلاحِ دین کی کوششوں اور انقلابِ فرانس کا خیال آتا ہے، اور یہ کہ اب ’’عشق بلا خیز کے قافلۂ سخت جاں‘‘ نے اسلام کی صورت میں اپنی نئی جائے قیام پالی ہے۔ وہ پوچھتے ہیں کہ اس بحر کی تہہ سے کیا اچھلے گا جو پوری کائنات کا رنگ بدل دے۔
نظم کے آخری بند میں اقبال ان اجزائے ترکیبی کو یکجا کرتے ہیں جن سے ان کا تصورِ وقت اور اس کے بہائو کا خیال اور موسیقی‘ رنگ‘ روشنی اور صناعی کے بارے میں ان کے تصورات عبارت ہیں۔ اس بند کی ابتداء ماضی کی یاد سے معمور اور کسی حد تک خاموش خاموش سی ہے۔ یہاں دن یا رات کے بجائے جھٹپٹے کا سماں ہے۔ اب یہاں نظم کی لَے تجریدی نہیں مادی ہے‘ مثلاً وہ یہاں ’’دختر دہقاں کے گیت‘‘ کا ذکر کرتے ہیں۔ اسی طرح اب پانی کوئی کائناتی سیلِ رواں نہیں بلکہ دریائے وادالکبیر ]جس کے قریب ہی مسجد قرطبہ واقع ہے[ کا پانی ہے جس کے کنارے شاعر کھڑا ہے‘ لیکن نظم جیسے جیسے آگے بڑھتی ہے اس کا یہ آہنگ بدلتا جاتا ہے اور شاعر کہتا ہے کہ ایک نئی سحر اس کی نگاہوں کے سامنے بے حجاب ہورہی ہے اور اس کے اندر ایک ایسا نغمہ خوابیدہ ہے کہ اگر وہ اس سے پردہ اٹھادے تو فرنگ اس کی تاب نہ لاسکے گا۔ اب یہاں ان الفاظ میں جھٹپٹا نہیں بلکہ تابناکی ہے۔ اب وہ کہتے ہیں کہ کسی قوم کو خود اپنے عمل کا حساب کرنا چاہیے نہ کہ سلسلۂ روز و شب کو۔ اور کوئی قوم ہی اپنے اندر وہ جذبہ پیدا کرسکتی ہے جس سے زندگی صحیح معنوں میں زندگی بنتی ہے۔ یہی وہ جذبہ ہے اور یہی وہ خونِ جگر ہے جس کی نمود کسی تخلیقی کام کو، بشمول ایک نظم کے، اکملیت عطا کرتی ہے۔
ایک نظم جس قوت اور تاثیر کی حامل ہوسکتی ہے اقبال کی یہ نظم بیک وقت اس کا اعلان بھی ہے اور عملی اظہار بھی۔ معنی کی ایک سطح پر اقبال قاری کی تربیت کررہے ہیں اور اسے اس کے ماضی کا احتشام اور اس کے مستقبل کی امکانی عظمت یاد دلارہے ہیں، دوسری سطح پر جو کہیں زیادہ عمیق ہے‘ وہ اپنے طرزِ فکر و احساس کو مجسم شکل میں پیش کررہے ہیں اور اسے ابدیت دے رہے ہیں۔ اپنے اس دوسرے مقصد کے حصول کے لیے وہ صناعی کا ایک نمونہ پیش کرتے ہیں یعنی ایک ایسی نظم جو حسن تعمیر اور ترتیب و تناسب کی مثال ہے، بالکل اس مسجد کی طرح جو اس نظم کا موضوع ہے۔ گویا اس نظم کی ہیئت اور اس میں پیش کے گئے تمثالی نقوش نہ صرف اس کی غنائیت اور مسحور کن صدائے بازگشت کی سی کیفیت کی تخلیق کے لحاظ سے بلکہ اس نظم کے فطری خلقی مفہوم کی وضاحت کے لیے بھی اہم ہیں۔
’’مسجد قرطبہ‘‘ ایک نمایاں مقام کی حامل نظم ہے، کیوں کہ اس میں دو ایسے مسائل کو موضوع بنایا گیا ہے جو بیسویں صدی کے فہمیدہ مسلم اذہان کے لیے اہم رہے ہیں۔ اوّل: مسلمانوں کا شان دار ماضی اور ان کی تاریخ‘ دوم: خدا اور بندے کے باہمی تعلق کو سمجھنے کی کوشش۔ یہ دوسرا مسئلہ ایسا ہے جس کی جڑیں مسلمانوں کے فلسفیانہ افکار بالخصوص صوفی افکار و نظریات میں بہت دور تک جاتی ہیں اور اقبال کے ہاں اس نظریے کی ترکیب و تالیف بہت دلچسپ طور پر ہوئی ہے۔ ان دونوں مسائل کو بنیادی حیثیت دینا جدید اردو ادب کی ایسی امتیازی خصوصیت ہے جس سے اردو ادب کے رخ یا مزاج کا تعین ہوتا ہے۔ یہاں ’’خصوصیت‘‘ سے ہماری مراد اردو ادب کی علمی و اخلاقی خصوصیت ہے۔ انیسویں صدی کے اواخر میں مسدس حالی اور ڈپٹی نذیر احمد کے اخلاقی قصوں سے لے کر خود اقبال کے دور میں ترقی پسند تحریک تک اردو ادب نے قوم کو درس و ہدایت دینے کو اپنا مشن بنایا ہے۔ اقبال کی تمام شاعری اگرچہ اس درس و ہدایت کے مقصد کے تابع نہیں ہے لیکن یہ نظم یقینا اس مقصد کو آگے بڑھاتی ہے۔
جو مفکر مسلمانوں کے طرزِعمل اور رویوں میں تبدیلی چاہتے تھے‘ ان میں سے کئی ایک نے ماضی پر توجہ مرکوز کی اور عہدِ رفتہ کی عظمت کو موضوع بنایا، جس نے نہ صرف یہ کہ اس مسلمان قوم کو فخر کرنا سکھایا جو اب محکوم ہوچکی تھی، بلکہ اس نے اس منزل کے لیے مثالی نمونے کا بھی کام کیا جس کا وہ خواب دیکھ اور دکھا رہے تھے۔ ماضی پر اس طرح زور دینا ایک طرح سے اس کشمکش اور اس سوال کا جواب تھا جس سے اس وقت کے برطانوی دور کے تمام ہندوستانی مفکر اور دانش ور دوچار تھے، اور یہ کشمکش اور یہ سوال یہ تھا کہ ہم اتنے کمزور‘ اتنے لاچار کیوں ہیں؟ ہمارے اور ہمارے انگریز حاکموں کے درمیان تفاوت اتنا عظیم کیوں ہے؟
عمومی طور پر اس کا جواب مسلمانوں اور ہندوئوں‘ دونوں کے لیے یہی تھا کہ اس کے ذمے دار ہم خود ہیں، کیوں کہ ہم ایک مناسب طرزعمل‘ نظم و ضبط اور مناسب فکر کی پابندی نہ کرسکے اور ہماری کوتاہیوں کے سبب ہی یہ محکومی ہمارا مقدر بنی ہے اور ہم اس کے مستحق تھے۔ لیکن اس نتیجے پر پہنچنا بہت تکلیف دہ تھا۔ تاہم یہ نتیجہ اس صورت حال سے نکلنے کا راستہ بھی دیتا تھا اور اس میں وجۂ تسلی یہ تھی کہ یہ محض انسانی غلطی تھی کہ ہم زوال کی اس حد تک جا پہنچے، اور یہ ہماری تہذیب و ثقافت کی پیدائشی و فطری خامی نہ تھی۔ نیز یہ کہ مذہبی متون اور ماضی کے صحیح طرزعمل کے احیاء سے اس خطے کے باشندے دوبارہ عظمت کو چھوسکتے ہیں۔ مثال کے طور پر مسلمانوں میں 1830ء کے مجاہدین اور اہل حدیث کے ابتدائی علماء اور ہندوئوں میں رام موہن رائے اور بنگال میں شروع کے دور کے مصلحین سبھی نے مذہبی متون کے احیاء پر زور دیا۔ انہوں نے اصرار کیا کہ اگر اس نئے مواد کو جس کو بعد میں اخذ کرلیا گیا ہے الگ کردیا جائے تو ایسی منور و مجلیٰ حقیقت سامنے آئے گی جو فرد اور معاشرے دونوں کو صحیح راہ پر ڈال دے گی۔ انیسویں صدی میں مزید آگے چل کر بعض دیگر مصلحین نے ماضی کے ان شان دار ادوار پر زور دیا جب ان کی قوم کسی کی محکوم نہ تھی اور ان کے علوم ترقی کررہے تھے۔ ہندوئوں میں آریہ سماجیوں نے ویدوں کے دور پر اپنی توجہ مرکوز کرکے، اور مسلمانوں میں حالی‘ امیر علی اور شبلی کی تحریروں نے اس نقطۂ نظر کو پیش کیا۔ اپنے ماضی پر فخر کرنا دونوں قوموں کے لیے اس وقت اپنی شناخت کی خاطر انتہائی اہم بن گیا تھا۔
مسجد قرطبہ کی صورت میں اقبال کو ایک ایسی علامت میسر آگئی جو مسلمانوںکے عظیم ماضی کی یاد مؤثر ترین انداز میں تازہ کرتی تھی۔ مسجد قرطبہ نہ صرف یہ کہ مسلمانوں کے عظیم ماضی کی ابتدائی سلطنتوں کی عکاس ہے بلکہ یہ اس دور کی یاددہانی کراتی ہے جب مسلمان سرزمینِ یورپ پر حاکم تھے اور یورپی اقوام سے تہذیب و فن‘ علم و اخلاق میں کہیں آگے تھے۔ اقبال نے ماضی سے اس بندھن کا دعویٰ مذہب کی بنیاد پر کیا۔ درحقیقت اس نظم میں انہوں نے جنوبی ایشیا کے مسلمانوں کی اس موہوم بے چینی کو صراحت سے پیش کیا ہے جس کے تحت مسلمان اسلام کے ماضی سے منسلک ہونے کا دعویٰ نہیں کرسکتے تھے‘ وہ اپنے مذہب یعنی اسلام کے مرکزی مقامات سے جغرافیائی فاصلے پر تھے اور ان کا ملک دارالحرب بن چکا تھا۔ اقبال نے اصرار کیا کہ ان کے دلی جذبات اس بات کا ناقابلِ تردید ثبوت ہیں کہ ]برعظیم پاک و ہند کے[ مسلمانوں کا ذہنی ربط اسلام کے عظیم ماضی سے قائم ہے۔ بجائے اس کے کہ دوسرے انہیں ان کے عقیدے میں کسی آمیزش کے شائبے پر مطعون کریں انہوں نے خود ہی اپنے آپ کو ’’کافر‘‘ قرار دے دیا لیکن ساتھ ہی یہ اصرار بھی کیا کہ ان کا ذوق و شوق انہیں اسلامی عقیدے کے اصل دھارے سے قطعی اور یقینی طور پر جوڑ دیتا ہے۔
ماضی اور مسجدِ قرطبہ کو خیالات و احساسات کا مرکز بنا کر اقبال نے اس نظم کے اس ثانوی مرکزی خیال کو بھی پیش کیا ہے جسے میں سطورِ بالا میں اللہ اور مخلوق کے باہمی رشتے کا نام دے چکی ہوں۔ یہ مسجد اقبال کی نظر میں صناعی‘ تخیل و اختراع ہے‘ یہ انسان کی صلاحیتوں کے نقطۂ عروج کا ٹھوس‘ قابلِ ادراک اظہار ہے۔ انہوں نے مسجد کے تعمیری حسن کی مدح سرائی کی ہے‘ اس جنگجو کو بھی سراہا ہے جس کی وجہ سے اس مسجد کی تعمیر ممکن ہوئی اور ساتھ ہی خود کو یعنی شاعر اقبال کو بھی سراہا ہے جس نے اس نظم کی صورت میں ہماری آنکھوں کے سامنے ایک ایسی مسجد تعمیر کردی ہے جو سلسلۂ روز وشب کی دست برد سے ماورا رہے گی۔
اس طرح اقبال نے اس نظم میں اپنی دیگر نظموں کی طرح انسان کی قوتوں کو خراج تحسین پیش کیا ہے۔ یہ نظم انسان کی غیر معمولی قوتوں اور صلاحیتوں کا ولولہ انگیز بیان ہے اور بلاشبہ یہی اس نظم کی مقبولیت کا بڑا سبب ہے۔
اس نظم کا موضوع یعنی مسجد اور اسلام کے ماضی کی عظمتیں‘ جنوبی ایشیا کے مسلمانوں کے لیے بڑی اہمیت کا حامل ہے، خاص طور پر پاکستانیوں کے لیے اس کی کشش بالکل واضح ہے، کیوں کہ وہ ہمیشہ اپنی مشترک بنیاد کی تلاش میں رہتے ہیں۔ لیکن اس نظم میں موضوع کو کچھ اس انداز سے برتا گیا ہے کہ اس موضوع سے کہیں آگے بڑھ کر یہ کئی آفاقی موضوعات پر محیط ہوگیا ہے۔ اس آفاقی سطح پر اقبال نے صوفیانہ اصطلاحات‘ جیسے عشق اور شوق جیسے عمیق تصورات کو انسان کی تخلیقی صلاحیتوں کی شکل میں ڈھال کر پیش کیا ہے۔ اس طرح انہوں نے ایک جمالیاتی نظریے کو تصوف کے سیاق و سباق سے آمیخت کردیا ہے۔ چنانچہ ایک دن جب انیسویں صدی اور بیسویں صدی کی تاریخی رومانویت ازکارِ رفتہ نظر آنے لگے گی تب بھی اس نظم کی زیریں سطح پر موجود مفہوم کی لہریں باقی رہیں گی اور یہ نظم جیسا کہ اقبال چاہتے بھی تھے‘ ایک مسجد کی طرح قائم رہے گی‘ ایک معجزۂ فن کی طرح جو سلسلۂ روز وشب کو بھی مات دے دے۔
(بشکریہ ماہنامہ قومی زبان‘ کراچی‘ نومبر 2011ء)