الف نظامی
لائبریرین
پاکستان کے قیام سے 23سال پہلے کی بات ہے، برعظیم ابھی تقسیم نہیں ہوا تھا ہندوستان کے ضلع ناگپور میں ہندو مسلم فسادات زوروں پر تھے مسلم لیگی زعما اور کانگریسی رہنما بھی کوشش کرچکے تھے یہ 1924کی بات ہے گاندھی جی نے ڈاکٹر سید محمود سے کہا کہ وہ ناگپور جائیں اور ہندو مسلم جھگڑا ختم کرانے کی کوشش کریں
ڈاکٹر سید محمود نئے نئے جرمنی سے پی ایچ ڈی کرکے آئے تھے پٹنہ میں وکالت کرتے تھے بہار کے رہنے والے تھے، تحریک خلافت کے دنوں میں سیاست کے میدان میں اترے کانگریس کے ممتاز رہنما ہوگئے ہندوستان کی تقسیم کے بعد بھارت کی صوبائی اور مرکزی حکومتوں میں کئی بار وزیر رہے مصر میں بھارت کے سفیر بھی رہ چکے بڑے حوصلے والے دور اندیش تھے بلا کے دلیر بھی مگر ناگپور ہندو مسلم فسادات ختم کرانے جانے کیلئے تیار نہ ہورہے تھے انہیں دراصل مولانا شوکت علی کی کاوشوں کا علم تھا جو اس سلسلے میں ناکام ہوچکی تھیں وہ ابھی لیت و لعل سے کام لے ہی رہے تھے کہ زبدۃ الحکماء حکیم اجمل نے ایک علاج دریافت کرتے ہوئے ڈاکٹر سید محمود سے کہا کہ سارے نسخے آزمائے جاچکے ہیں اب روحانی علاج کو دیکھئے بفضل تعالیٰ افاقہ ہوگا حکیم اجمل نے کہا کہ ’’ڈاکٹر صاحب ناگپور جائیں اور وہاں ایک اللہ کے ولی ہیں جنہیں لوگ مجذوب سمجھتے ہیں مگر ایسا نہیں ہے وہ دراصل جذب سے گزر کر استغراق کی منزل کو پہنچے ہوئے ہیں وہ علاقے میں بابا تاج الدین ناگپوری کے نام سے شہرت رکھتے ہیں ان سے ہندو مسلم فسادات کے خاتمے کی دعا کرائیں آپ کامیاب لوٹیں گے۔‘‘
ڈاکٹر سید محمود نے لکھا کہ ’’میں ناگپور پہنچا تو پتہ چلا کہ بابا تاج الدین راجہ بھونسلہ کے قلعہ میں مقیم ہیں راجہ ان کا عقیدت مند ہے بابا جی شام کو گاڑی پر قلعے سے نکلتے ہیں عقیدت مند گاڑی کے ساتھ دو تین میل تک دوڑتے رہتے ہیں بابا جی کچھ بولتے جاتے ہیں اور ہر کوئی اپنے مطلب کے معنی اخذ کرتا جاتا ہے،شام ہوئی بابا جی حسب عادت نکلے تو ہزاروں لوگوں نے قلعے کے باہر ڈیرے ڈالے ہوئے تھے وہ گاڑی کے ساتھ دوڑے تو میں اپنی گاڑی میں بیٹھے بیٹھے ان کے پیچھے ہولیا دور بہت دور جاکر جب ہجوم کم ہوا تو میں اپنی گاڑی سے نکلا اور بابا تاج الدین کی گاڑی کے ساتھ دوسرے عقیدت مندوں کی طرح دوڑنا شروع کردیا۔ بابا تاج الدین نے کہا کیا چاہتا ہے؟ مکہ مدینہ جانا ہے!! میں نے دوڑتے ہوئے کہا انگریزوں کی غلامی اب برداشت نہیں ہوتی وہ مسلسل ہندوئوں اور مسلمانوں کو لڑاتے رہتے ہیں کیا یہ یہاں سے نکل جائیں گے بابا جی نے کہا ہاں چلے جائیں گے!! میں نے عرض کی آپ کی موجودگی میں بابا جی ناگپورمیں ہندو مسلم جھگڑا ہو یہ تعجب کی بات نہیں ہندو بھی آپ سے اتنی ہی عقیدت رکھتے ہیں جتنی مسلمان رکھتے ہیں دعا فرمائیں ناگپور میں امن ہو بابا جی نے کہا ہاں ہاں امن ہوگا بند کرا دیتے ہیں جھگڑے قریب سے کچھ مسلمان قائدین گزر رہے تھے میں نے انہیں مخاطب کرکے کہا دیکھو بابا حکم دے رہے ہیں ہندو مسلم جھگڑا ختم کرو وہ لوگ بابا کے قریب آئے احکامات لئے اور اگلے ہی روز ناگپور میں امن ہوگیا حتیٰ کہ قیام پاکستان کے بعد تک کبھی ناگپور میں ہندو مسلم فسادات نہیں ہوئے۔‘‘
بابا تاج الدین ناگ پوری کی کرامتوں کے حوالے سے بہت سی کتابیں لکھی گئی ہیں ولی کے واسطے کرامت اتنی ہی ضروری ہے جتنا نبی کے واسطے معجزہ، اور پھر جو عرش پر مقبول ہوجائے فرش والے اسے سر آنکھوں پر بٹھا لیتے ہیں، بابا تاج الدین ناگپوری اس وقت بہت بڑے مجمع میں تشریف فرما تھے جب ان کا وصال ہوا اس روز ناگپور میں بے تحاشہ بادل برسے وہ پیر کا روز تھا مغرب کا وقت اگست کی 17سن 1925ء تھا 26 محرم الحرام 1344ھ پورا شہر غم میں ڈوب گیا تھا رنگ و نسل اور مذہب و مسلک کی عامیانہ سوچ سے بلند ہوکر سارے کے سارے ایک سالک کو ولی کو رخصت کرنے آگئے تھے ہندو بھی تھے مسلمان بھی عاشقان رسولﷺ بھی تھے اور اللہ کو نہ ماننے والے لادین بھی اندوہ کی کیفیات میں برابر کے شریک تھے وہ ایک ولی کی موت نہیں وصال تھا جدائی نہیں ملاپ تھا اگلے روز ہجوم کو کنٹرول کرنے کیلئے پولیس کے ساتھ ساتھ فوج کو بھی طلب کرنا پڑا تھا جنازہ شہر سے باہر بیربٹ لے جایا گیا جو آج تاج آباد شریف کے نام سے بھارت میں معروف ہے جنازے کی نماز اس وقت کے ایک جید عالم مولوی محمود علی ندوی لکھنوی نے پڑھائی تھی۔
انیس الرحمن
ڈاکٹر سید محمود نئے نئے جرمنی سے پی ایچ ڈی کرکے آئے تھے پٹنہ میں وکالت کرتے تھے بہار کے رہنے والے تھے، تحریک خلافت کے دنوں میں سیاست کے میدان میں اترے کانگریس کے ممتاز رہنما ہوگئے ہندوستان کی تقسیم کے بعد بھارت کی صوبائی اور مرکزی حکومتوں میں کئی بار وزیر رہے مصر میں بھارت کے سفیر بھی رہ چکے بڑے حوصلے والے دور اندیش تھے بلا کے دلیر بھی مگر ناگپور ہندو مسلم فسادات ختم کرانے جانے کیلئے تیار نہ ہورہے تھے انہیں دراصل مولانا شوکت علی کی کاوشوں کا علم تھا جو اس سلسلے میں ناکام ہوچکی تھیں وہ ابھی لیت و لعل سے کام لے ہی رہے تھے کہ زبدۃ الحکماء حکیم اجمل نے ایک علاج دریافت کرتے ہوئے ڈاکٹر سید محمود سے کہا کہ سارے نسخے آزمائے جاچکے ہیں اب روحانی علاج کو دیکھئے بفضل تعالیٰ افاقہ ہوگا حکیم اجمل نے کہا کہ ’’ڈاکٹر صاحب ناگپور جائیں اور وہاں ایک اللہ کے ولی ہیں جنہیں لوگ مجذوب سمجھتے ہیں مگر ایسا نہیں ہے وہ دراصل جذب سے گزر کر استغراق کی منزل کو پہنچے ہوئے ہیں وہ علاقے میں بابا تاج الدین ناگپوری کے نام سے شہرت رکھتے ہیں ان سے ہندو مسلم فسادات کے خاتمے کی دعا کرائیں آپ کامیاب لوٹیں گے۔‘‘
ڈاکٹر سید محمود نے لکھا کہ ’’میں ناگپور پہنچا تو پتہ چلا کہ بابا تاج الدین راجہ بھونسلہ کے قلعہ میں مقیم ہیں راجہ ان کا عقیدت مند ہے بابا جی شام کو گاڑی پر قلعے سے نکلتے ہیں عقیدت مند گاڑی کے ساتھ دو تین میل تک دوڑتے رہتے ہیں بابا جی کچھ بولتے جاتے ہیں اور ہر کوئی اپنے مطلب کے معنی اخذ کرتا جاتا ہے،شام ہوئی بابا جی حسب عادت نکلے تو ہزاروں لوگوں نے قلعے کے باہر ڈیرے ڈالے ہوئے تھے وہ گاڑی کے ساتھ دوڑے تو میں اپنی گاڑی میں بیٹھے بیٹھے ان کے پیچھے ہولیا دور بہت دور جاکر جب ہجوم کم ہوا تو میں اپنی گاڑی سے نکلا اور بابا تاج الدین کی گاڑی کے ساتھ دوسرے عقیدت مندوں کی طرح دوڑنا شروع کردیا۔ بابا تاج الدین نے کہا کیا چاہتا ہے؟ مکہ مدینہ جانا ہے!! میں نے دوڑتے ہوئے کہا انگریزوں کی غلامی اب برداشت نہیں ہوتی وہ مسلسل ہندوئوں اور مسلمانوں کو لڑاتے رہتے ہیں کیا یہ یہاں سے نکل جائیں گے بابا جی نے کہا ہاں چلے جائیں گے!! میں نے عرض کی آپ کی موجودگی میں بابا جی ناگپورمیں ہندو مسلم جھگڑا ہو یہ تعجب کی بات نہیں ہندو بھی آپ سے اتنی ہی عقیدت رکھتے ہیں جتنی مسلمان رکھتے ہیں دعا فرمائیں ناگپور میں امن ہو بابا جی نے کہا ہاں ہاں امن ہوگا بند کرا دیتے ہیں جھگڑے قریب سے کچھ مسلمان قائدین گزر رہے تھے میں نے انہیں مخاطب کرکے کہا دیکھو بابا حکم دے رہے ہیں ہندو مسلم جھگڑا ختم کرو وہ لوگ بابا کے قریب آئے احکامات لئے اور اگلے ہی روز ناگپور میں امن ہوگیا حتیٰ کہ قیام پاکستان کے بعد تک کبھی ناگپور میں ہندو مسلم فسادات نہیں ہوئے۔‘‘
بابا تاج الدین ناگ پوری کی کرامتوں کے حوالے سے بہت سی کتابیں لکھی گئی ہیں ولی کے واسطے کرامت اتنی ہی ضروری ہے جتنا نبی کے واسطے معجزہ، اور پھر جو عرش پر مقبول ہوجائے فرش والے اسے سر آنکھوں پر بٹھا لیتے ہیں، بابا تاج الدین ناگپوری اس وقت بہت بڑے مجمع میں تشریف فرما تھے جب ان کا وصال ہوا اس روز ناگپور میں بے تحاشہ بادل برسے وہ پیر کا روز تھا مغرب کا وقت اگست کی 17سن 1925ء تھا 26 محرم الحرام 1344ھ پورا شہر غم میں ڈوب گیا تھا رنگ و نسل اور مذہب و مسلک کی عامیانہ سوچ سے بلند ہوکر سارے کے سارے ایک سالک کو ولی کو رخصت کرنے آگئے تھے ہندو بھی تھے مسلمان بھی عاشقان رسولﷺ بھی تھے اور اللہ کو نہ ماننے والے لادین بھی اندوہ کی کیفیات میں برابر کے شریک تھے وہ ایک ولی کی موت نہیں وصال تھا جدائی نہیں ملاپ تھا اگلے روز ہجوم کو کنٹرول کرنے کیلئے پولیس کے ساتھ ساتھ فوج کو بھی طلب کرنا پڑا تھا جنازہ شہر سے باہر بیربٹ لے جایا گیا جو آج تاج آباد شریف کے نام سے بھارت میں معروف ہے جنازے کی نماز اس وقت کے ایک جید عالم مولوی محمود علی ندوی لکھنوی نے پڑھائی تھی۔
انیس الرحمن
آخری تدوین: