محسن وقار علی
محفلین
فوٹو — وکی میڈیا کامنز –.
علامہ اقبال کو اس دنیا سے رخصت ہوئے پچھتر (75) برس ہو گئے۔ ڈاکٹر شیخ محمد اقبال عرف علامہ اقبال سے ہماری جان پہچان کافی پرانی ہے۔ تیسری یا چوتھی جماعت میں ہم نے اقبال پر ایک تقریر کی جس کا آغاز نرگس اور اس کی بے نوری والے شعر سے ہوا تھا۔ بعدازاں اردو کے امتحانات میں مضامین کے لیے اقبال کے درجنوں شعر یاد کیے۔
شکوہ اور جواب شکوہ پڑھ کر ہم ان سے بہت متاثر ہوئے اور ایک وقت ایسا آیا کہ ہم نے بھی شاعری کے میدان میں قدم رکھنے کا فیصلہ کیا۔ اس میدان سے تو ہم کب کے نکالے جا چکے لیکن اقبال کے ساتھ عقیدت کا رشتہ ابھی تک قائم و دائم ہے۔
ایک وقت ایسا بھی آیا کہ ہم نے ایک مسخرہ نما شخص زید حامد کے اقبال کے موضوع پر کیے گئے پروگرام دیکھے اور قسطوں میں اس بلونگڑے کی بددیانتی کو بیان کیا۔ ہمارے ناقص خیال میں اقبال کی ذاتی زندگی اور اوصاف پر جتنی کتابیں لکھی جا چکی ہیں، اس کے باعث ہم اس زمرے میں کچھ بھی کہنے کے اہل نہیں، ہماری اس تحریر کا مقصد اقبال کے تصور عام (Public Image) پر نظر ڈالنا ہے۔
پاکستان کی نصابی کتب اور ذرائع ابلاغ کے ذریعے اقبال کو بطور شاعر اور مفکر پاکستان، ہر کوئی جانتا ہے۔ اقبال کی سیاست اور اس کے بہاؤ کے متعلق البتہ علماء خاموش رہتے ہیں اور اس خاموشی کی دو وجوہات ہیں۔ ایک تو یہ کہ اقبال کی سیاسی زندگی کو اتنا اہم نہیں سمجھا گیا اور دوسری وجہ یہ ہے اس پردے کے پیچھے بہت کچھ چھپا ہوا ہے۔
گفتگو کا آغاز اگر شاعری ہی سے ہو جائے تو کچھ حرج نہیں۔ شکوہ، جواب شکوہ، نیا شوالہ اور نوجوانوں کے نام اقبال کا پیغام تو زبان زد عام ہے لیکن 1901 میں ملکہ وکٹوریہ کے انتقال پر ان کے اشعار پر بھی ایک نظر ڈالنا وقت کا تقاضا ہے؛
اے آہ آج برق سر کوہسار ہو
یا تیر بن کے میرے کلیجے کے پار ہو
میت اٹھی ہے شاہ کی، تعظیم کے لیے
اقبال اڑ کے خاک سر راہ گزار ہو
اسی طرح 1918 میں پنجاب کے گورنر مائیکل او ڈائر کے نام لکھا قصیدہ بھی قابل ذکر ہے
اے تاجدار خطہ ءِ جنت نشان ہند
روشن تجلیوں سے تری خاوران ہند
سطوت تیری سپاہ کا سرمایہ ظفر
آزادہ، پرکشادہ، پری زادہ، یم سپر
چند روز قبل انصار عباسی نے اقبال کے اشعار ایک نصابی کتاب سے نکالنے پر بہت واویلا کیا تھا۔ ہماری مانیں تو کم ازکم یہ قصیدے ہی ان کتابوں میں شامل کر لیں۔ افسوس کی بات ہے کہ فارسی اب نصاب کا حصہ نہیں ورنہ 1927 میں علامہ مرحوم نے سائمن کمیشن کی ہندوستان آمد پر جو قصیدہ لکھا، وہ یقینا نصاب کا حصہ بننے کے قابل تھا۔
اقبال نے پنجاب کی سیاسی روایات کا خیال رکھتے ہوئے برطانیہ کے وفادار جاگیرداروں کی جماعت یونینسٹ پارٹی میں شرکت اختیار کی اور ایک موقع ایسا بھی آیا کہ آل انڈیا مسلم لیگ دو حصوں میں تقسیم ہوئی یعنی جناح لیگ اور شفیع لیگ۔ اس موقع پر اقبال نے شفیع لیگ کا ساتھ دیا بلکہ اس کے سیکرٹری جنرل کے طور پر کام کیا۔ کچھ سال بعد البتہ اقبال کے جناح صاحب سے تعلقات بہتر ہوئے۔
اقبال کو نظریہ پاکستان کا خالق کہا جاتا ہے۔ اس دعوے کی بنیاد الہ آباد کے مقام پر 1930 میں ان کا مسلم لیگ کے اجلاس سے ان کا صدارتی خطبہ بتایا جاتا ہے۔ عام طور پر اس خطبے کا محض ایک فقرہ بیان کیا جاتا ہے لہذا ہمیں اس تقریر کو اس کی مکمل شکل میں دیکھنے کی ضرورت ہے۔ ایک اقتباس ملاحضہ کریں؛
“میری خواہش ہے کہ پنجاب، صوبہ سرحد، سندھ اور بلوچستان کو ملا کر ایک ریاست میں ضم کر دیا جائے۔ اگر شمال مغربی ہندوستان کے مسلمانوں کو یہ بھرپور موقعہ دیا جائے تو وہ ہندوستان کے خلاف تمام حملوں کی صورت میں ہندوستان کے بہترین محافظ ثابت ہوں گے۔
ہندوؤں کے دلوں میں یہ خدشہ نہیں ہونا چاہیے کہ خود مختار مسلم ریاستوں کے قیام سے ان علاقوں میں ایک طرح کی مذہبی حکومتیں قائم ہو جائیں گی۔ اسلام کوئی کلیسائی نظام نہیں ہے بلکہ اس کا انحصار ایک اخلاقی نصب العین پر ہے۔
میں مسلمانان ہند کو ہرگز یہ تلقین نہیں کروں گا کہ وہ کسی ایسے نظام کے لیے رضا مند ہو جائیں جو وفاق کے صحیح اصولوں پر مبنی نہ ہو۔ اگر صوبوں کی تقسیم کسی صحیح اصول کی بنا پر ہو گی تو اس سے مخلوط اور جداگانہ انتخابات کا مسئلہ ہمیشہ کے لیے حل ہو جائے گا۔ یہ صوبوں کا موجودہ ڈھانچہ ہے جس کی وجہ سے یہ جھگڑا قائم ہے۔”
ان الفاظ میں اگر آپ کو مستقبل کے پاکستان کی شبیہہ ملتی ہے تو ہمیں بھی مطلع کریں کیونکہ ہمیں تو ایسی کوئی امید کی کرن نظر نہیں آئی۔
کے کے عزیز کے مطابق اگر یہ تسلیم کر بھی لیا جائے کہ اقبال نے برصغیر کی تقسیم کی تجویز اس خطبے میں پیش کی تھی تو اس سے پہلے تریسٹھ (63) ایسی تجاویز پیش کی جا چکی تھیں جن میں سب سے پہلی تجویز اقبال کی پیدائش سے بھی پہلے ایک برطانوی سیاستدان نے کی تھی۔
تاریخ دان، حسن جعفر زیدی نے اپنے مضمون ’قیام پاکستان: نظریاتی یا جدلیاتی‘ میں لکھا کہ؛
”قائد اعظم محمد علی جناح نے اپنے کسی بیان اور مسلم لیگ نے اپنی کسی سرکاری قرارداد میں کبھی اس بات کا ذکر نہیں کیا کہ علامہ اقبال نے مسلمانوں کے لیے علیحدہ وطن کا تصور پیش کیا۔ 1938 میں علامہ اقبال کا انتقال ہوا۔ اسی سال دسمبر میں مسلم لیگ کا سالانہ اجلاس پٹنہ میں منعقد ہوا۔ قائد اعظم نے اپنے صدارتی خطبے میں اس سال کے دوران وفات پانے والی تین معتبر شخصیات، مولانا شوکت علی، کمال اتا ترک اور علامہ اقبال کے بارے میں تعزیتی الفاظ کہے۔ آپ نے علامہ کے بارے میں فرمایا:
’ان کی وفات مسلم ہند کے لئے ناقابل تلافی ہے۔ وہ میرے ذاتی دوست تھے اور دنیا کی عمدہ ترین شاعری کے مغنی تھے۔ وہ اس وقت تک زندہ رہیں گے جب تک اسلام زندہ ہے۔ آپ کی پرمغز شاعری مسلمانان ہند کی امنگوں کی سچی ترجمانی کرتی ہے۔ یہ شاعری ہمارے لیے اور ہمارے بعد کی نسلوں کے لیے ولولہ مہیا کرتی رہے گی۔‘
آپ نے علامہ کے بارے میں بطور سیاست دان یا فلسفی کے کچھ نہیں کہا اور مسلمانوں کے علیحدہ وطن کے تصور کے خالق کا تو دور دور تک ذکر نہیں ہے۔
مارچ 1940 میں لاہور میں منعقدہ مسلم لیگ کے اجلاس میں قائد اعظم سمیت کسی مقرر نے علامہ اقبال کا ذکر تک نہیں کیا حالانکہ جلسہ گاہ سے نصف کلومیٹر سے بھی کم فاصلے پر اقبال کا مزار زیر تعمیر تھا۔
یہ بات تحقیق طلب ہے کہ اقبال کو تصور پاکستان کے خالق کے طور پر کب اور کہاں شروع کیا گیا۔ اس مشق کا آغاز نوائے وقت نے کیا اور بعد ازاں پاکستانی اسٹیبلشمنٹ نے یہ بیڑا اٹھایا۔ “
اس موضوع پر مزید روشنی ڈالتے ہوئے ڈاکٹر عبد السلام خورشید نے کہا کہ اس اخبار کے ابتدائی دنوں میں دو مقاصد تھے: اردو زبان کی ترویج اور علامہ اقبال کے کام کا فروغ‘۔ (مزید بحث کے لیے ملاحضہ کریں ضمیر نیازی کی پاکستانی اخبارات پر لکھی گئی کتاب)
ہمارے ناقص خیال میں اقبال کا سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ جس کسی نے کلام اقبال سے جو نکالنا چاہا، اسے مل گیا۔ چاہے وہ بائیں بازو والے ہوں، علی شریعتی ہوں، جماعت اسلامی والے ہوں، ڈاکٹر اسرار احمد ہوں یا جاوید غامدی، ہر کسی کو کچھ نہ کچھ مل گیا۔
اقبال ایک غیر معمولی شخصیت کے حامل تھے اور ہر غیر معمولی شخصیت کی طرح تضادات ان کی زندگی کا حصہ تھے۔ ہمیں اقبال کا ہمیشہ ایسا تصور دیا جاتا ہے جس کے مطابق ان پر تنقید کرنا ممکن ہی نہیں ہوتا۔ اقبال کوئی مطلب پرست خوشامدی شاعر نہیں تو تنقید سے بالا دیومالائی کردار بھی نہیں تھے۔ وہ ایک عمدہ شاعر اور فکر سے بھر پور انسان تھے اور سیاست میں بھی انہوں نے اپنے وقت کے مطابق قدم اٹھائے چاہے تاریخی طور پر وہ اقدام غلط ثابت ہوئے۔
آج کے دور کا تقاضا یہ ہے کہ اس امر کا ادراک کیا جائے کہ اقبال اس عہد کے ابھرتے ہوئے پنجابی درمیانے طبقے کے شاعر تھے۔ ان کی شاعری میں پنجابی شاونزم کی گونج بلند ہے اور ان کی وفات کے بعد ان کی ترویج کا ذمہ بھی پنجابی شاونسٹوں نے اٹھایا، تاکہ صوبہ گجرات کے باسی اور مغربی وضع قطع کے حامل محمد علی جناح کے مقابلے میں ایک پنجابی شخصیت کو نمایاں کیا جائے۔
علامہ اقبال کے پوتے ولید اقبال 11 مئی کو ہونے والے انتخابات میں حصہ لیں گے۔ ہم ان کی کامیابی کے لیے دعا گو رہیں گے لیکن انہیں یہ تاریخی حقیقت یاد رکھنی چاہیے کہ ان کے آباو اجداد کے لیے انتخابات کبھی اچھا شگن نہیں ثابت ہوئے۔ ان کے دادا 1937 میں ناکام ٹھہرے تھے اور ان کے والد صاحب کو 70 کے انتخابات میں لاہور سے بھٹو صاحب کے ہاتھوں شکست نصیب ہوئی تھی۔ کیا تاریخ ایک دفعہ پھر اپنے آپ کو دہرائے گی؟
آخر میں علامہ کی ایک مشہور نظم؛
نیا شوالا
سچ کہہ دوں اے برہمن! گر تو برا نہ مانے
تیرے صنم کدوں کے بت ہو گئے پرانے
اپنوں سے بیر رکھنا تو نے بتوں سے سیکھا
جنگ و جدل سکھایا واعظ کو بھی خدا نے
تنگ آ کے میں نے آخر دیر و حرم کو چھوڑا
واعظ کا وعظ چھوڑا، چھوڑے ترے فسانے
پتھر کی مورتوں میں سمجھا ہے تو خدا ہے
خاک وطن کا مجھ کو ہر ذرہ دیوتا ہے
آ ، غیریت کے پردے اک بار پھر اٹھا دیں
بچھڑوں کو پھر ملا دیں نقش دوئی مٹا دیں
سونی پڑی ہوئی ہے مدت سے دل کی بستی
آ ، اک نیا شوالا اس دیس میں بنا دیں
دنیا کے تیرتھوں سے اونچا ہو اپنا تیرتھ
دامان آسماں سے اس کا کلس ملا دیں
ہر صبح اٹھ کے گائیں منتر وہ مٹیھے مٹیھے
سارے پجاریوں کو مے پیت کی پلا دیں
شکتی بھی شانتی بھی بھگتوں کے گیت میں ہے
دھرتی کے باسیوں کی مکتی پریت میں ہے
تحریر: عبدالمجید عابد
بہ شکریہ ڈان اردو