کاشفی
محفلین
اقبال خدا کے حضور میں
(علی سردار جعفری)
"اے انفس و آفاق میںپیدا ترے آیات
حق یہ ہے کہ ہے زندہ و پائندہ تری ذات"
برپا ہے ترے نام پہ دنیا میںقیامت
ژولیدہ ہیں ارباب بصیرت کے خیالات
ہے دھرم سیاست کے مداری کا تماشا
مذہب کو بنا رکھا ہے یاروں نے خرافات
سینوں میں نہیں اسم محمدصلی اللہ علیہ وسلم کا اُجالا
کانوں میں تو آواز اذاں آتی ہے دن رات
جپتے ہیںبڑے دھیان سے جب رام کی مالا
کچھ اور بگڑ جاتے ہیں اس دیس کے حالات
ہیں اور بھی مخصوص امامان سیاست
مردان خودآگاہ نہ رندان خوش اوقات
انساں کو بنا دیتے ہیں انسان کا دشمن
جب ہند کی تاریخ پہ لکھتے ہیں مقالات
خنجر ہے ہر اک حرف تو تلوار ہے ہر لفظ
خونریز ہے ہر غمزہ تو، خونخوار ہے ہر بات
"یہ نقش و نگار درو دیوارِ شکستہ
فرسودہ روایات کی فرسودہ حکایات"
ماضی کے پرستاروں کے ڈنکوں کی صدا میں
گم ہو گئے مستقبل انسان کے نغمات
سٹے کی ہے پوجا تو عبادت ہے جوئے کی
اب قبلہءحاجات ہیں بنکوں کی عمارات
ناداری و رسوائی ہے تقدیر بشر کی
بس ہوتی ہے فاقوں سے غریبوں کی مدارات
دے سکتے نہیںنان کا سوکھا ہوا ٹکڑا
اٹھے ہیں چکانے کو جو صدیوں کے حسابات
غرقاب ہر اک چیز ہے سیلاب بلا میں
تھمنے ہی کو آتی نہیںتقریروں کی برسات
بہتی ہے گلی کوچوں میںاب خون کی گنگا
شمشیر بکف پھرتے ہیں سڑکوں پہ فسادات
فرزیں بھی انہیں کا ہے پیادے بھی انہیں کے
شہ پڑتی ہے لیکن کبھی ہوتی ہی نہیں مات
کب ڈوبے گا یہ ظلم و جہالت کا سفینہ
"دنیا ہے تری منتظر روزِ مکافات"
(علی سردار جعفری)
"اے انفس و آفاق میںپیدا ترے آیات
حق یہ ہے کہ ہے زندہ و پائندہ تری ذات"
برپا ہے ترے نام پہ دنیا میںقیامت
ژولیدہ ہیں ارباب بصیرت کے خیالات
ہے دھرم سیاست کے مداری کا تماشا
مذہب کو بنا رکھا ہے یاروں نے خرافات
سینوں میں نہیں اسم محمدصلی اللہ علیہ وسلم کا اُجالا
کانوں میں تو آواز اذاں آتی ہے دن رات
جپتے ہیںبڑے دھیان سے جب رام کی مالا
کچھ اور بگڑ جاتے ہیں اس دیس کے حالات
ہیں اور بھی مخصوص امامان سیاست
مردان خودآگاہ نہ رندان خوش اوقات
انساں کو بنا دیتے ہیں انسان کا دشمن
جب ہند کی تاریخ پہ لکھتے ہیں مقالات
خنجر ہے ہر اک حرف تو تلوار ہے ہر لفظ
خونریز ہے ہر غمزہ تو، خونخوار ہے ہر بات
"یہ نقش و نگار درو دیوارِ شکستہ
فرسودہ روایات کی فرسودہ حکایات"
ماضی کے پرستاروں کے ڈنکوں کی صدا میں
گم ہو گئے مستقبل انسان کے نغمات
سٹے کی ہے پوجا تو عبادت ہے جوئے کی
اب قبلہءحاجات ہیں بنکوں کی عمارات
ناداری و رسوائی ہے تقدیر بشر کی
بس ہوتی ہے فاقوں سے غریبوں کی مدارات
دے سکتے نہیںنان کا سوکھا ہوا ٹکڑا
اٹھے ہیں چکانے کو جو صدیوں کے حسابات
غرقاب ہر اک چیز ہے سیلاب بلا میں
تھمنے ہی کو آتی نہیںتقریروں کی برسات
بہتی ہے گلی کوچوں میںاب خون کی گنگا
شمشیر بکف پھرتے ہیں سڑکوں پہ فسادات
فرزیں بھی انہیں کا ہے پیادے بھی انہیں کے
شہ پڑتی ہے لیکن کبھی ہوتی ہی نہیں مات
کب ڈوبے گا یہ ظلم و جہالت کا سفینہ
"دنیا ہے تری منتظر روزِ مکافات"