ڈاکٹر چوہدری ابرار ماجد
محفلین
ویسے تو ہم آئے دن ایسی خبریں پڑھتے رہتے ہیں کہ باپ نے بھوک سے تنگ آکر اپنے بچوں کا گلا دبا کر خود کشی کر لی۔ بے روزگاری سے تنگ نوجوان نے خودکشی کر لی وغیرہ وغیرہ۔ مگر کل کا واقعہ درد ، شفقت اور جزبہ کی ایک بے مثال داستاں ہے۔
پانچ بیٹیوں اور تین بیٹوں کا باپ محمداقبال جو وزارت داخلہ میں نائب قاصد تھا ہر وقت بیمار رہتا تھا اور اس کوایک ہی فکر تھی کہ اگر وہ مر گیا تو اسکی اولاد سے سرکاری مکان کی چھت چھن گئی تو اس کی اولاد کہاں جائے گی۔
کل بروز منگل یہی فکر لے کر وہ اپنے افسران کے پاس گیا اوراپنی جگہ پر اپنے بیٹے کی ملازمت کی درخواست کی تاکہ اس طرح وہ اپنا کواٹر بھی اپنے بچے کے نام کروا دے ۔اگر وفات بھی پا جائے تو کم از کم اس کی اولاد کے پاس چھت تو ہوگی۔
مگر اس کے افسران نے اس کو بتایا کہ بچہ باپ کی جگہ ملازمت صرف اس شرط پر حاصل کر سکتا ہے اگر اس کا باپ دوران ملازمت فوت ہوجائے۔
محمد اقبال ہر صورت اپنی اولاد کے چھت کو محفوظ بنانا چاہتا تھا۔ اس نے سوچا کہ اگر اس کے مرنے سے بیٹے کو نوکری مل سکتی ہے تو اس میں دیر کیوں
اس نے بلاک کی چھت سے چھلانگ لگا دی۔
محمد اقبال کے بدن میں جب تک سکت تھی اپنی اولاد کا پیٹ پالتا رہا اور جب بدن میں سکت نہ رہی تو اس نے اپنی جان کی قربانی دے کر بھی اپنی اولاد کے لئے جو کر سکتا تھا کر گزرا۔
یہ تھی وہ شفقت پدری جس نے اپنی جان کی بھی پرواہ نہ کی مگر اس کو اپنی اولاد کی تنگدستی گوارہ نہ ٹھہری۔
زمانے کی ستم ظریفی دیکھو کہا جا رہا ہے اس کا زہنی توازن ٹھیک نہیں تھا۔
روزگار مکان کی چھت اور بچوں کے بہتر مستقبل کی خواہش کس کو نہیں اور اگر یہ خواہش رکھنا پاغل پن ہے تو پھر یقیناؑ یہ دنیا پاغلوں کا مسکن ہے۔
صحیح کہتے ہوں گے اولاد کی فکر زہنی بگاڑ ہی تو ہے۔ وہ تو اپنی زہنی استعداد کے مطابق اپنی جان دے کر اپنی کوشش کر گزرا۔ جان دی بھی تو اپنی ، نقصان کیا تو اپنی اولاد کا کیا مگر میرا ایک سوال ہے ان سے جو سب کچھ ہوتے ہوئے بھی ملک قوم کو دونوں دونوں ہاتھوں سے لوٹنے رہے ہیں۔ کس کی خاطر اور کیوں؟
کیا یہ زہنی توازن ٹھیک ہونے کی علامت ہے؟
محل نما مکانوں میں رہنے والے کیا جانیں !
مفلسی سے بڑی کوئی آزمائش نہیں ۔ مفلسی سے تو پیغمبروں نے بھی پناہ مانگی ہے۔ غربت میں اپنے بھی چھوڑجاتے ہیں۔
غم و فکرانسان کو نفسیاتی مریض اور بیمار بنا دیتا ہے۔ شائد یہ فکر ہی اسکی بیماری کی وجہ بھی ہو۔
اگرہم سمجھیں تو یہ محمد اقبال کی موت نہیں بلکہ ہمارے مسلمانوں کے تصور سخاوت ، جذبہ ایمانی اور حیاء کی موت ہے کہ ہم دعوے تو بڑے بلند و بانگ کرتے ہیں مگر ہم وہ معاشرہ قائم نہ کر سکے جس میں محمد اقبال جیسے محنتی اور سادے شہری اپنے آپ کو محفوظ سمجھتے۔
پانچ بیٹیوں اور تین بیٹوں کا باپ محمداقبال جو وزارت داخلہ میں نائب قاصد تھا ہر وقت بیمار رہتا تھا اور اس کوایک ہی فکر تھی کہ اگر وہ مر گیا تو اسکی اولاد سے سرکاری مکان کی چھت چھن گئی تو اس کی اولاد کہاں جائے گی۔
کل بروز منگل یہی فکر لے کر وہ اپنے افسران کے پاس گیا اوراپنی جگہ پر اپنے بیٹے کی ملازمت کی درخواست کی تاکہ اس طرح وہ اپنا کواٹر بھی اپنے بچے کے نام کروا دے ۔اگر وفات بھی پا جائے تو کم از کم اس کی اولاد کے پاس چھت تو ہوگی۔
مگر اس کے افسران نے اس کو بتایا کہ بچہ باپ کی جگہ ملازمت صرف اس شرط پر حاصل کر سکتا ہے اگر اس کا باپ دوران ملازمت فوت ہوجائے۔
محمد اقبال ہر صورت اپنی اولاد کے چھت کو محفوظ بنانا چاہتا تھا۔ اس نے سوچا کہ اگر اس کے مرنے سے بیٹے کو نوکری مل سکتی ہے تو اس میں دیر کیوں
اس نے بلاک کی چھت سے چھلانگ لگا دی۔
محمد اقبال کے بدن میں جب تک سکت تھی اپنی اولاد کا پیٹ پالتا رہا اور جب بدن میں سکت نہ رہی تو اس نے اپنی جان کی قربانی دے کر بھی اپنی اولاد کے لئے جو کر سکتا تھا کر گزرا۔
یہ تھی وہ شفقت پدری جس نے اپنی جان کی بھی پرواہ نہ کی مگر اس کو اپنی اولاد کی تنگدستی گوارہ نہ ٹھہری۔
زمانے کی ستم ظریفی دیکھو کہا جا رہا ہے اس کا زہنی توازن ٹھیک نہیں تھا۔
روزگار مکان کی چھت اور بچوں کے بہتر مستقبل کی خواہش کس کو نہیں اور اگر یہ خواہش رکھنا پاغل پن ہے تو پھر یقیناؑ یہ دنیا پاغلوں کا مسکن ہے۔
صحیح کہتے ہوں گے اولاد کی فکر زہنی بگاڑ ہی تو ہے۔ وہ تو اپنی زہنی استعداد کے مطابق اپنی جان دے کر اپنی کوشش کر گزرا۔ جان دی بھی تو اپنی ، نقصان کیا تو اپنی اولاد کا کیا مگر میرا ایک سوال ہے ان سے جو سب کچھ ہوتے ہوئے بھی ملک قوم کو دونوں دونوں ہاتھوں سے لوٹنے رہے ہیں۔ کس کی خاطر اور کیوں؟
کیا یہ زہنی توازن ٹھیک ہونے کی علامت ہے؟
محل نما مکانوں میں رہنے والے کیا جانیں !
مفلسی سے بڑی کوئی آزمائش نہیں ۔ مفلسی سے تو پیغمبروں نے بھی پناہ مانگی ہے۔ غربت میں اپنے بھی چھوڑجاتے ہیں۔
غم و فکرانسان کو نفسیاتی مریض اور بیمار بنا دیتا ہے۔ شائد یہ فکر ہی اسکی بیماری کی وجہ بھی ہو۔
اگرہم سمجھیں تو یہ محمد اقبال کی موت نہیں بلکہ ہمارے مسلمانوں کے تصور سخاوت ، جذبہ ایمانی اور حیاء کی موت ہے کہ ہم دعوے تو بڑے بلند و بانگ کرتے ہیں مگر ہم وہ معاشرہ قائم نہ کر سکے جس میں محمد اقبال جیسے محنتی اور سادے شہری اپنے آپ کو محفوظ سمجھتے۔