اقبال کی فکر اور غلطی ہائے مضامیں تحریر: ڈاکٹر ساجد علی
ناصر کاظمی کا ایک شعر یاد آ رہا ہے:
ہجوم نشہ فکر سخن میں
بدل جاتے ہیں لفظوں کے معانی
فکر سخن ہی میں نہیں بلکہ بعض اوقات گروہی، سیاسی مذہبی مفادات کے لیے بھی الفاظ کے معنی تبدیل کر لیے جاتے ہیں۔ عظیم فلسفی کارل پوپر نے سائنس کے مورخین کے بارے میں گلہ کیا تھا کہ وہ بالعموم بہت خراب قاری ہوتے ہیں۔ مجھے اس بات سے صرف اتنا اختلاف ہے کہ بری خواندگی کو سائنس کے مورخین تک محدود کر دینا شاید درست نہ ہو کیونکہ یہ بیماری کافی ہمہ گیر ہے۔تاریخی متون کو درست پڑھنا شاید اس لیے ممکن نہیں رہتا کہ ہم نے پہلے سے بہت سے تصورات وضع کر رکھے ہوتے ہیں اور جب ان کی روشنی میں متن کا مطالعہ کرتے ہیں تو اس کا درست مفہوم سمجھنے سے قاصر رہتے ہیں۔ کبھی اندھی عقیدت اور کبھی بے جا تعصب اور عداوت رکاوٹ بن جاتے ہیں۔
افلاطون کے بہت سےمترجمین اور شارحین ہیں جو ایک طرف تو جمہوریت اور لبرل ازم کے حامی ہیں، اور ساتھ ہی افلاطون سے بھی عقیدت رکھتے ہیں۔ ان کے بارے میں کارل پوپر اپنی شہرہ آفاق کتاب The Open Society and its Enemies میں شکوہ کناں ہے کہ وہ افلاطون کی ان عبارتوں کا جو ان کے جمہوری تصورات سے مطابقت نہیں رکھتیں ترجمے میں ان کا ڈنک نکال کر انہیں بے ضرر بنا دیتے ہیں۔ افلاطون کی عظمت اپنی جگہ مگر یہ حقیقت ہے کہ اس کا سیاسی اور سماجی فلسفہ بہت سے پہلوؤ ں سے ناقابل قبول ہے۔
مجھے ذاتی طور پر شیخ اکبر محی الدین ابن عربی کی عبارتوں کو پڑھتے ہوئے اسی قسم کی صورت حال کا سامنا کرنا پڑا۔ شیخ کی فصوص الحکم میں متعدد عبارتیں ایسی ہیں کہ مقبول عام مذہبی تصورات کی رو سے ان کی تاویل کرنا تقریباً ناممکن ہو جاتا ہے۔ مگر عبد الوہاب شعرانی نے جو شیخ اکبر کے بہت مداح تھے مگر ساتھ ہی وحدت الوجود کو کفر گردانتے تھے۔ چنانچہ انہوں نے شیخ اکبر کی عبارتوں کی ایسی دور از کار تاویلیں کیں جو انہیں وحدت الوجود کے بجائے وحدت الشہود سے سازگار کر دیتی تھیں۔ بعد میں شاہ ولی اللہ اور اشرف علی تھانوی صاحب نے شعرانی کو ہی بنیاد بنا کر شیخ اکبر کا دفاع کیا۔
فصوص الحکم میں ایک مقام ہے جہاں شیخ اکبر نے خاتم الانبیاء اور خاتم الاولیاء کا فرق واضح کیا ہے اور بین الفاظ میں بیان کیا ہے کہ خاتم الاولیاء کا مرتبہ خاتم الانبیاء سے بڑا ہے۔ انہوں نے قصر نبوت میں خاتم الانبیاء کو چاندی کی اینٹ اور خاتم الولیاء کو سونے کی اینٹ قرار دیا ہے ۔ اب عبد الرزاق کاشانی سمیت اکثر شارحین نے یہ موقف اختیار کیا ہے کہ یہاں خاتم الانبیاء اور خاتم الولیاء سے ایک ہی شخصیت مراد ہے۔ اگر آنکھوں سے عقیدت کی پٹی اتار کر اس عبارت کو پڑھا جائے تو اس تاویل کا کوئی قرینہ تلاش کرنا ممکن نہیں رہتا۔
خیر یہ تو تصوف اور مابعد الطبیعیات کی باتیں ہیں جن سے ہم عامیوں کو کوئی سروکار نہیں۔ میرا آج کا سروکار علامہ اقبال کی چند نثری تحریروں سے ہے۔علامہ اقبال کے ساتھ المیہ یہ ہوا کہ قیام پاکستان کے بعد ان کی تشریح و تفسیر کا کام ان لوگوں نے سنبھال لیا جو قیام پاکستان سے قبل کانگرس اور احرار سے وابستہ تھے۔ انہوں نے اقبال کے چند مخصوص اشعار کا انتخاب کرکے ان کی نثری تحریروں کو یک سر نظر انداز کر دیا یا ان کی من مانی تاویلیں شروع کر دیں۔ بہت چالاکی سے کام لیتے ہوئے اقبال کی نثر کو اس کے شعر کے تابع کردیا۔ حالانکہ یہ ایک مسلمہ اصول ہے کہ شعر کو علمی اور منطقی دلیل کی جگہ استعمال نہیں کیا جا سکتا۔ رشید احمد صدیقی صاحب نے ایک مرتبہ قوم کی بدمذاقی کا ذکر کرتے ہوئے لکھا تھا کہ دلیل کی جگہ شعر پڑھ کر ایسا سمجھتے ہیں کہ بڑا علمی کارنامہ سرانجام دے دیا ہے۔اگر علم اور خبر کی بات ہو گی تو نثر میں کہی ہوئی بات کو شعر پر ترجیح حاصل ہو گی۔
لفظوں کی معنوی تراش خراش کا ایک عبرت ناک مظہر اقبال کے خطبہ الہ آباد میں استعمال ہونے والی ایک ترکیب ہے۔ اقبال نے جہاں شمال مغربی ہندوستان کو ایک مربوط صوبہ بنانے کے لیے بہت سے سیاسی دلائل دیے ہیں اور کہا ہے کہ ہندوؤں کو اس سے خوف زدہ نہیں ہونا چاہیے وہاں اس صوبے کے قیام کے حق میں ایک اور دلیل بھی دی ہے۔ فرماتے ہیں:
”میں صرف ہندوستان اور اسلام کے فلاح و بہبود کے خیال سے ایک منظم اسلامی ریاست کے قیام کا مطالبہ کر رہا ہوں۔ اس سے ہندوستان کے اندر توازن قوت کی بدولت امن و امان قائم ہو جائے گا۔ اور اسلام کو اس امر کا موقع ملے گا کہ وہ ان اثرات سے آزاد ہو کر جو عربی شہنشاہیت کی وجہ سے اب تک اس پر قائم ہیں، اس جمود کو توڑ ڈالے جو اس کی تہذیب و تمدن، شریعت اور تعلیم پر صدیوں سے طاری ہے۔ اس سے نہ صرف ان کے صحیح معانی کی تجدید ہو سکے گی بلکہ وہ زمانہ حال کی روح سے بھی قریب تر ہو جائیں گے۔( خطبہ الہ آباد۔ اردو ترجمہ از سید نذیر نیازی)
اس میں سید نذیر نیازی صاحب نے ”عربی شہنشاہیت“ کی ترکیب اقبال کے الفاظ ”عرب امپیریل ازم“ کے ترجمے کے طور پر استعمال کی ہے۔ ڈاکٹر ندیم شفیق ملک صاحب نے بھی یہی ترکیب استعمال کی ہے مگر جب اقبال ”برٹش امپیریل ازم“ کے الفاظ استعمال کرتے ہیں تو ندیم شفیق ملک صاحب اس کا ترجمہ برطانوی سامراج کرتے ہیں۔ اب سوچنے کی بات یہ ہے کہ ایک ہی لفظ کے یہ دو متفاوت معنی کس طرح مراد لیے جا سکتے ہیں۔ اقبال نے جب ”عرب امپیریل ازم“ کے الفاظ استعمال کیے تو یقینا وہ ان کے مضمرات سے بھی واقف ہوں گے۔ اقبال نثر لکھ رہے تھے اس لیے شعر کی طرح وزن کی کوئی مجبوری حائل نہ ہو سکتی تھی۔ایسا بھی نہیں ہے کہ اقبال نے بے دھیانی میں یہ الفاظ استعمال کر لیے ہوں۔ اس خطبے سے کوئی ایک دہائی پیشتر وہ نکلسن کے نام اپنے خط میں مسلم تاریخ کے متعلق اپنے نقطہءنظر کو واشگاف انداز میں بیان کر چکے تھے:
”مجھے اس حقیقت سے انکار نہیں کہ مسلمان بھی دوسری قوموں کی طرح جنگ کرتے رہے ہیں۔ انہوں نے فتوحات بھی کی ہیں۔ مجھے اس امر کابھی اعتراف ہے کہ ان کے بعض قافلہ سالار ذاتی خواہشات کو دین و مذہب کے لباس میں جلوہ گر کرتے رہے ہیں لیکن مجھے پوری طرح یقین ہے کہ کشور کشائی اور ملک گیری ابتداً اسلام کے مقاصد میں داخل نہیں تھی۔
’اسلام کو جہاںستانی اور کشورکشائی میں جو کامیابی حاصل ہوئی ہے میرے نزدیک وہ اس کے مقاصد کے حق میں بے حد مضر تھی۔ اس طرح وہ اقتصادی اور جمہوری اصول نشو و نما نہ پا سکے جن کا ذکر قرآن کریم اور احادیث نبوی میں جا بجا آیا ہے۔ یہ صحیح ہے کہ مسلمانوں نے عظیم الشان سلطنت قائم کر لی لیکن اس کے ساتھ ہی ان کے سیاسی نصب العین پر غیر اسلامی رنگ چڑھ گیا اور انہوں نے اس حقیقت کی طرف سے آنکھیں بند کر لیں کہ اسلامی اصولوں کی گیرائی کا دائرہ کس قدر وسیع ہے۔“ (اردو ترجمہ از چراغ حسن حسرت)
مندرجہ بالا اقتباس یہ بات واضح کر دیتا ہے کہ اقبال نے وہ لفظ خوب سوچ سمجھ کر استعمال کیا تھا مگر ہماری حساسیت اس لفظ اور اس کے مضمرات کو قبول کرنے سے انکاری ہے اور ترجمے میں اس کا دف مار دیا جاتا ہے۔ خود حسرت صاحب نے جن الفاظ کا یہ ترجمہ ”ان کے سیاسی نصب العین پرغیر اسلامی رنگ چڑھ گیا“ کیا ہے اصل میں یہ ہیں: they largely repaganized their political ideals
گویا اقبال یہ کہہ رہے ہیں کہ ملوکیت دور جاہلیت کی طرف رجعت کا نام ہے۔ چنانچہ مسلمانوں میں خلافت کے نام پر جس ملوکیت نے رواج پایا تھا اقبال اس کے سخت خلاف تھے۔ خطبہ الہ آباد کے تقریبا سات برس بعد پنڈت نہرو کے جواب میں اقبال نے اتا ترک کے تنسیخ خلافت کے فیصلے کی ان الفاظ میں تائید کی تھی:
”کیا تنسیخ خلافت یا مذہب و سلطنت کی علیحدگی منافی اسلام ہے؟ اسلام اپنی اصلی روح کے لحاظ سے شہنشاہیت نہیں ہے۔ اس خلافت کی تنسیخ میں جو بنو امیہ کے زمانہ سے عملًا ایک سلطنت بن گئی تھی اسلام کی روح اتا ترک کے ذریعے کارفرما ہو رہی ہے۔ “ (ترجمہ میر حسن الدین)
خطبہ الہ آباد میں ایک اور لفظ کی تبدیلی بہت دوررس اثرات کی حامل ہے۔ اس خطبہ میں انہوں نے صرف دو جگہ اسلامک کا لفظ استعمال کیا ہے [[ Islamic principle of solidarity,Islamic solidarity
لیکن انہوں نے کسی جگہ سٹیٹ یا ریاست کے لیے یہ لفظ استعمال نہیں کیا۔ مگر سید نذیر نیازی صاحب نے ترجمے میں جہاں بھی مسلم کا لفظ استعمال ہوا ہے اسے اسلامی سے ترجمہ کیا ہے۔ خطبہ میں ایک ذیلی عنوان ہے: [Muslim India within India ] نیازی صاحب نے اور ندیم ملک صاحب نے بھی اس کا ترجمہ کیا ہے ”ہندوستان کے اندر ایک اسلامی ہندوستان“۔ جہاں جہاں اقبال نے مسلم سٹیٹ یا سٹیٹس کا لفظ استعمال کیا ہے اسے نیازی صاحب نے اسلامی ریاست یا ریاستوں سے ہی ادا کیا ہے۔ یہی وہ مغالطہ آفرینی ہے جس نے تحریک پاکستان میں راہ پائی اور مسلمانوں کے سیاسی اور دستوری مطالبات کو اسلامی مطالبات بنا دیا۔ تحریک پاکستان کے دنوں میں مذہبی مخالفین بالخصوص جماعت اسلامی کا یہی موقف تھا کہ مسلم لیگ کے مطالبات قومی مطالبات ہیں جن کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں مگر پاکستان کے وجود میں آنے بعد یہی لوگ تھے جنہوں نے یہ راگ الاپنا شروع کر دیا کہ پاکستان اسلام کے نام پر بنایا گیا ہے اس لیے اسے اسلامی ریاست بنایا جائے۔ اب سوچنے کی بات ہے کہ مسلم ریاست سے اسلامی ریاست کی طرف سفر خبط معنی کا نتیجہ ہے یا اس میں کچھ نیتوں کے فتور کو بھی دخل ہے؟
اقبال نے اگر چہ کہا تھا:
الفاظ کے پیچوں میں الجھتے نہیں دانا
غواص کو مطلب ہے صدف سے کہ گہر سے
تاہم کبھی الفاظ بھی اہمیت اختیار کر لیتے ہیں کیونکہ مفہوم و مطلب ادا کرنے کا ہمارے پاس یہی وسیلہ ہے۔ الفاظ کے درست مفہوم کا تعین نہ کرنے کا نتیجہ یہ مقبول عام تصور ہے کہ علامہ اقبال نے خطبہ الہ آباد میں پاکستان کا تصور پیش کیا تھا۔ اس کو ہم اس مضمون کی آئندہ قسط پر اٹھا رکھتے ہیں۔
جاری ہے۔ ۔۔۔۔۔
گزشتہ قسط میں ہمارا موضوع بحث یہ تھاکہ ایک متن کو درست طور پر کیسے پڑھا جائے تاکہ مصنف کے اصل مدعا کی بازیافت کی جا سکے۔ اس کے ساتھ اختلاف و اتفاق بعد کی بات ہے۔ زیر نظر قسط میں خطبہ الہ آباد کے استدلال کو سمجھنے کی کوشش کی گئی ہے اور متن کی نادرست خواندگی اور استدلال کو نظر انداز کرنے کے نتیجے میں پیدا ہونے والی غلط فہمیوں کا ازالہ کرنے کی سعی (نامشکور) ہے۔
پاکستان میں یہ بات ایک سرکاری عقیدے کا درجہ حاصل کر چکی ہے کہ علامہ اقبال نے خطبہ الہ آباد میں پاکستان کا تصور پیش کیا تھا۔ ایک بار نظریہ پاکستان کے علم بردار اخبار کے ایڈیٹوریل میں یہ جملہ پڑھنے کا اتفاق ہوا کہ ”پاکستان علامہ اقبال کے تصور اور قائد اعظم کی جدوجہد کے نتیجے میں قائم ہوا“۔ ایک بزرگ کالم نویس نے تو یہ لکھ کر حد ہی کر دی کہ قائد اعظم نے علامہ اقبال کے حکم پر پاکستان بنانے کی تحریک کا آغاز کیا تھا۔ تاریخ میں ایسا شاید کوئی اور واقعہ نہ ہوا ہو جب ایک جماعت کا ایک صوبائی صدر مرکزی صدر کو حکم دے رہا ہو۔ خامہ بگوش کے الفاظ میں یہ تاریخ نویسی نہیں بلکہ ٹلہ نویسی ہے۔
علامہ اقبال کا خطبہ مطبوعہ صورت میں موجود ہے اس لیے بہتر یہی ہو گا کہ اسی سے رجوع کیا جائے اور یہ سمجھنےکی کوشش کی جائے کہ وہ اس میں کیا ارشاد فرما رہے ہیں۔ مولوی حضرات ایک بات کا بہت کا ذکرکیا کرتے ہیں کہ کچھ لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں جو لا تقربوا الصلوٰة پڑھ کر ہی رک جاتے ہیں اور اس کو مفید مطلب حکم سمجھ لیتے ہیں۔ مولوی صاحبان کی بات کو تو شاید ایک لطیفہ سمجھا جائے مگر اقبال کے ساتھ تو واقعی یہ سلوک کیا گیا ہے کہ یار لوگ ایک جملہ پڑھ کر ہی فرط جذبات میں دھمال ڈالنا شروع کر دیتے ہیں۔پورے خطبے میں انہیں صرف یہ جملہ پسند آیا ہے:
میری خواہش ہے کہ پنجاب، شمال مغربی سرحدی صوبہ ، سندھ اور بلوچستان کوملا کر ایک ریاست بنادیا جائے۔ مجھے تو ایسا نظر آتا ہے کہ کم از کم ہندوستان کے شمال مغرب میں ایک مربوط ہندوستانی مسلم ریاست ، خواہ یہ ریاست سلطنت برطانیہ کے اندر حکومت خود اختیاری حاصل کرے، یا اس کے باہر،ہندوستان کے شمال مغربی مسلمانوں کا آخر کار مقدر ہے۔ (اردو ترجمہ از ڈاکٹر ندیم شفیق ملک۔ علامہ اقبال کا خطبہء الہٰ آباد 1930ئ۔ ص 111)
اس جملے سے دو اہم نتائج اخذ کیے گئے ہیں۔ پہلا یہ کہ اس میں اقبال نے ایک آزاد اور خود مختار مملکت کے قیام کا مطالبہ کیا ہے جسے بعد میں پاکستان کا نام دیا گیا۔ دوسرا نتیجہ یہ نکالا گیا کہ اقبال نے خطبہ الہ آباد میں بنگال کا کوئی ذکر نہیں کیا تھا۔ چنانچہ سانحہ مشرقی پاکستان کے بعد مغربی حصے کے دانشوروں نے دھڑا دھڑ اخباری مضامین لکھے تھے جن کا لب لباب یہ تھا کہ چونکہ اقبال نے بنگال کا کوئی ذکر نہیں کیا تھا اور قرارداد لاہور میں بھی ریاستوں کا ذکر تھا اس لیے مشرقی پاکستان کو الگ کرکے اس تاریخی غلطی کو درست کر دیا گیا ہے۔
کیا اقبال کے اس خطبے سے یہ نتیجہ برآمد ہوتا ہے کہ وہ ہندوستان کو تقسیم کرکے ایک آزاد اور خود مختار مملکت کے قیام کا مطالبہ کر رہے تھے؟ اس سوال کا جواب دینے سے پیش تر یہ ضروری معلوم ہوتا ہے کہ اس کے مندرجات کا سرسری سا جائزہ لے لیا جائے اور اس پس منظر پر بھی غور کر لیا جائے جو اس خطبے کا محرک بنا۔
یہ خطبہ تعارفی کلمات کے بعد ان ذیلی عنوانات پر مشتمل ہے:
اسلام اور قومیت
ہندوستانی قوم کا اتحاد
ہندوستان کے اندر ایک مسلم ہندوستان
فیڈرل ریاستیں
سائمن رپورٹ اور فیڈریشن
فیڈرل اسکیم اور راؤنڈ ٹیبل کانفرنس
مسئلہ دفاع
متبادل تجویز
راؤنڈ ٹیبل کانفرنس
[یہاں ضمناً اس بات کی وضاحت کرنا ضروری ہے کہ شریف الدین پیرزادہ کی مرتب کردہ کتاب Foundations of Pakistan اور ڈاکٹر ندیم شفیق ملک صاحب نے اولین اشاعت کا جو عکس دیا ہے، اس میں بعض ذیلی عنوانات میں فرق ہے۔ تاہم یہ کوئی قابل لحاظ فرق نہیں ہے۔]
اس خطبے کا پس منظر یہ ہے کہ اس زمانے میں کانگرس اس بات کی کوشش کر رہی تھی کہ ہندوستان کے لیے متفقہ دستوری سفارشات مرتب کی جائیں اور اس کے لیے پنڈت موتی لال نہرو کی سربراہی میں ایک کمیٹی تشکیل دی گئی جو نہرو کمیٹی کے نام سے مشہور ہوئی۔ اس کمیٹی نے جو رپورٹ مرتب کی اسے نہرو رپورٹ کہا گیا۔ اس رپورٹ میں سوائے ایک بات کے مسلمانوں کے سبھی مطالبات کو رد کر دیا گیا۔ جو مطالبہ تسلیم کیا گیا وہ صوبوں کی از سر نو تشکیل کا تھا۔ لیکن جب 1930ءمیں لاہور میں کانگرس کا سیشن ہوا اور پنڈت جواہر لال نہرو کو صدر منتخب کیا گیا تو کانگرس نے خود ہی اس رپورٹ کو دریا برد کر دیا۔ اس کے جواب میں نومبر سنہ 1930ء میں اپر انڈیا مسلم کانفرنس ہوئی اور 19 دسمبر کو اس کانفرنس کی جانب سے اہل فکر مسلمانوں کے نام ایک اپیل شائع کی گئی۔ گول میز کانفرنس سے قبل مسلمان چاہتے تھے:
ا۔ ہندوستان کا نظام حکومت فیڈرل ہو۔
۲۔ بلوچستان، سرحد اور سندھ کے مسلم اکثریتی صوبوں کو مکمل اصلاحات ملیں۔
۳۔ وزارتوں اور ملازمتوں میں مسلمانوں کا حصہ بروئے دستور اساسی محفوظ کر دیا جائے۔
۴۔ شریعت حقہ، تمدن اسلام، تعلیم اسلام اور مسلمانوں کا انفرادی قانون غیر مسلم دسترس سے بروئے دستور اساسی محفوظ کر دیا جائے۔
۵۔ غیر مصرحہ اختیارات residuary)) صوبجات کے قبضہ میں رہیں اور
۶۔ مرکز کی مجالس آئین ساز اور وزارت میں ہمارا حصہ ایک تہائی ہو۔ [میں اس کا حوالہ کھو چکا ہوں۔ ]
اس میں یہ بات لائق توجہ ہے کہ ان میں جداگانہ انتخاب کا مطالبہ شامل نہیں ہے حالانکہ مسلمان کی ایک بڑی تعداد اس معاملے پر بہت زیادہ حساس تھی مگر کانگرس کسی صورت بھی اس مطالبے کو تسلیم کرنے پر تیار نہ تھی۔ پنڈت نہرو اپنی اقتصادی قومیت کے نشے میں فرقہ وارانہ مسئلے کا وجود ہی تسلیم کرنے سے انکاری تھے۔ پنڈت جی کے بارے سبھی لوگوں کی تقریباً ایک ہی رائے ہے کہ وہ آدرش وادی تھے اور زمینی حقائق سے کم ہی سروکار رکھتے تھے۔ اب اگر ایک مسئلہ موجود ہے تو آپ کے آنکھیں بند کر لینے سے وہ معدوم نہیں ہو جائے گا۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ ہندوستان ایک متنوع سماج تھا جس میں نسلوں، زبانوں اور مذاہب کا بہت زیادہ اختلاف تھا چنانچہ ایسے سماج کا یک رنگ قومیت کو قبول کرنے کا کوئی امکان ہی نہ تھا۔
علامہ اقبال نے ہندو مسلم اتحاد کی راہ میں حائل رکاوٹ کی جانب توجہ دلاتے ہوئے کہا تھا:
”یہ امر کس قدر افسوسناک ہے کہ اب تک ہم نے باہمی تعاون و اشتراک کی جس قدر کوششیں کی ہیں سب ناکام ثابت ہوئی ہیں۔ سوال یہ ہے کہ ہماری ناکامی کا باعث کیا ہے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ شاید ہمیں ایک دوسرے کی نیتوں پر اعتماد نہیں اور باطناً ہم تغلب و اقتدار کے خواہش مند ہیں…. لیکن ہماری ناکامی کے اسباب کچھ بھی ہوں میرا دل اب بھی امید سے لبریز ہے۔ واقعات کا رجحان بہرکیف ہمارے داخلی اتحاد اور اندرونی آہنگی ہی کی جانب نظر آتا ہے اور جہاں تک مسلمانوں کا تعلق ہے مجھے یہ اعلان کرنے میں مطلق تامل نہیں اگر فرقہ وارانہ امور کے ایک مستقل اور پائدار تصفیے کے اس بنیادی اصول کو تسلیم کر لیا جائے کہ مسلمانان ہندوستان کو اپنی روایات و تمدن کے ماتحت اس ملک میں آزادانہ نشو و نما کا حق حاصل ہے تو وہ اپنے وطن کی آزادی کے لیے بڑی سے بڑی قربانی بھی دریغ نہیں کریں گے“۔ (اردو ترجمہ سید نذیر نیازی۔ میں نیازی صاحب کے ترجمے کے نوٹس پہلے بنا چکا تھا اور ڈاکٹر ندیم شفیق ملک صاحب کا ترجمہ بعد میں میرے علم میں آیا۔ اس لیے حوالے ملے جلے ہی ہوں گے۔)
اقبال کا نقطہ نظر یہ تھا کہ ہندوستان میں پائیدار وحدت اسی صورت جنم لے سکتی ہے جب اختلاف اور تنوع کو تسلیم کیا جائے ”ہندوستان ایک براعظم ہے جس میں مختلف نسلوں، مختلف زبانیں بولنے والے اور مختلف مذاہب کے پیروکار آباد ہیں…. [اس لیے] ہندوستان میں یورپی جمہوریت کے اصول کا اطلاق مذہبی فرقوں کے وجود کو تسلیم کیے بغیر ممکن نہیںہے۔ لہٰذا مسلمانوں کا یہ مطالبہ کہ ہندوستان کے اندر ایک مسلم ہندوستان قائم کیا جائے، بالکل حق بجانب ہے “۔
چنانچہ ان کے مندرجہ بالا جملے میں ہندوستان کے اندر ایک مسلم اکثریتی صوبے کے قیام کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ صوبے کے لیے ریاست کے لفظ کا استعمال کوئی انہونی بات نہیں۔ فیڈریشن کی اکائیوں کو بالعموم ریاست ہی کہا جاتا ہے۔ اس جملے کے فوراً بعد یہ جملہ آتا ہے :
”اس تجویز کو نہرو کمیٹی میں بھی پیش کیا گیا تھا لیکن اراکین مجلس نے اسے اس بنا پر رد کر دیا کہ اگر اس قسم کی کوئی ریاست قائم ہوئی تو اس کا رقبہ اس قدر وسیع ہو گا کہ اس کا انتظام کرنا مشکل ہو جائے گا۔ بے شک اگر رقبے کا لحاظ کیا جائے تو اراکین مجلس کا یہ خیال صحیح ہے۔ لیکن اگر آبادی پر نظر کی جائے تو اس ریاست کے باشندوں کی تعداد اس وقت کے بعض ہندوستانی صوبوں سے بھی کم ہو گی۔“
اب یہ بات ظاہر ہے کہ نہرو کمیٹی کے سامنے ہندوستان کو تقسیم کرنے کی تجویز پیش نہیں کی گئی تھی۔ اس صوبے کے قیام کا مقصد اقبال کے نزدیک یہ ہے کہ اس طرح اس دستوری ڈیڈ لاک سے نکلنے کا راستہ نکل آئے گا۔ چنانچہ کہتے ہیں: ”صوبوں کی مناسب تقسیم سے مخلوط اور جداگانہ انتخاب کا مسئلہ ہندوستان کے آئین کے بارے میں نزاع کو خود بخود ختم کر دے گا۔ اس نزاع کا باعث بڑی حد تک صوبوں کی موجودہ تقسیم ہے…. اگر صوبوں کی تقسیم اس طور پرہو جائے کہ ہر صوبے میں کم و بیش ایسے گروہ بستے ہوں جن میں لسانی، نسلی، تمدنی، اور مذہبی اتحاد پایا جاتا ہو تو مسلمانوں کو علاقہ وارانہ انتخاب پر کوئی اعتراض نہیںہو گا“۔
اس بات سے اقبالیات کے بڑے بڑے ماہرین کے اس دعوی کی تردید ہو جاتی ہے کہ اقبال زندگی کے کسی بھی مرحلے پر جداگانہ انتخاب سے دست برداری پر آمادہ نہیں ہوئے تھے۔ اقبال کی اس بات سے یہ نتیجہ اخذ کرنے میں کوئی چیز مانع نہیں کہ جداگانہ انتخاب مذہبی نہیں سیاسی مسئلہ تھا۔
ہندوستان میں کانگرس اور مسلم لیگ میں اصل اختلاف اورنزاع حکومت کی دستوری ہیئت کا تھا۔ مسلم لیگ کا مطالبہ تھا کہ ہندوستان کا دستور وفاقی ہو جس میں وفاقی اکائیوں کو زیادہ سے زیادہ خود مختاری حاصل ہو۔ کانگرس مضبوط مرکز کے ساتھ وحدانی طرز حکومت کے حق میں تھی۔ چنانچہ اقبال بھی مسلمانوں کے اسی نقطہ نظر کے حامی ہیں: ”میں خود مختارہندوستان میں وحدانی حکومت کا تصور بھی نہیں کر سکتا۔ جنہیں ’باقی ماندہ اختیارات‘ کہا جاتا ہے وہ خود مختار ریاستوں کو ملنے چاہییں۔ مرکزی وفاقی ریاست کے پاس صرف ایسے اختیارات ہونے چاہییں جو وفاق تشکیل کرنے والی ریاستیں اپنی رضامندی سے واضح طور پر اس کے سپرد کریں۔ میں ہندوستان کے مسلمانوں کو کبھی یہ مشورہ نہیںدوں گا کہ کسی ایسے نظام حکومت پر خواہ وہ برطانوی ہو یا ہندوستان میں وضع کیا گیا ہو، اظہار رضامندی کریں جو حقیقی وفاق کے اصول کی نفی کرے یا ان کے جداگانہ سیاسی وجود کو تسلیم نہ کرے۔“
اس لیے اس خطبے میں بہت قابل غور وہ سیکشن ہے جس میں ہندوستان کے دفاع کے مسئلے کو زیر بحث لایا گیا ہے۔ اس مسئلے کو زیر بحث لانے کا سبب یہ ہے کہ اس زمانے میں پان اسلام ازم کی تحریک کا بھی چرچا تھا اور ہندوؤں کو خدشہ تھا کہ مسلمان افغانستان اور وسطی ایشیا سے اپنا تعلق قائم کرنا چاہتے ہیں اور ہندوستان پر کہیں ایک بار پھر ادھر سے حملوں کا سلسلہ نہ شروع ہو جائے۔ اقبال نے خطبے میں مسٹر سری نواس شاستری کے حوالے سے بیان کیا ہے” کہ ’[ان] کا خیال ہے کہ مسلمانوں کا مطالبہ کہ شمال مغربی سرحد کے ساتھ خود مختار اسلامی ریاستیں قائم کی جائیں، ان کی اس خواہش کا اظہار کرتا ہے کہ اگر ضرورت پیش آئے تو تو حکومت ہند پر زور ڈالا جا سکے۔‘ میں یہ عرض کروں گا کہ مسلمانان ہندوستان کے دل میں اس قسم کا کوئی جذبہ موجود نہیں۔ ان کا مدعا صرف اس قدر ہے کہ وہ اپنی ترقی کی راہ میں آزادی کے ساتھ قدم بڑھائیں لیکن یہ اس مرکزی حکومت کے تحت ممکن نہ ہوگا جسے قوم پسند ہندو ارباب سیاست محض اس لیے قائم کرنا چاہتے ہیں کہ ان کو دوسری ملتوں پر ہمیشہ کے لیے غلبہ ہو جائے“۔
اس کے ساتھ ہی لالہ لاجپت رائے کے سی آر داس کے نام اس خط کو بھی سامنے رکھا جائے جو شاید 1925 ء میں لکھا گیا تھا اور1940 ء میں منظر عام پر آیا تھا جس کاقائد اعظم نے اس برس (1940) کے سالانہ اجلاس کے صدارتی خطاب میں حوالہ بھی دیا تھا۔ لالہ لاجپت رائے کے خط کا ایک جملہ قابل غور ہے جس میں وہ کہتے ہیں:
”میں سات کروڑ مسلمانوں سے نہیں ڈرتا بلکہ یہ سوچتا ہوں کہ ہندوستان کے سات کروڑ مسلمانوں کے ساتھ افغانستان، وسط ایشیا، عرب، عراق اور ترکی کے مسلح غول ایسے ہوں گے جن کا مقابلہ نہیں کیا جا سکتا“۔ یہ درست ہے کہ یہ خط اقبال کی وفات کے بعد منظر عام پر آیا مگر اس سے اتنا پتہ ضرور چل جاتا ہے کہ اس زمانے میں یہ ہندوؤں کا عام احساس تھا۔ اس لیے اس خطبے میں اقبال بار بار مسلمانوں کی حب الوطنی کا تذکرہ کرتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ ان کے اس جذبے پر شک نہ کیا جائے تاہم حب الوطنی کا یہ جذبہ برابری کے سلوک کے ساتھ مشروط ہے۔ اس لیے کہتے ہیں:
: ” مجھے یقین ہے کہ اگر فیڈرل ریاست قائم ہو گئی تو مسلم فیڈرل ریاستیں ہندوستان کے تحفظ کی خاطر ایک غیر جانب دار ہندوستانی فوج کے قیا م کے لیے جو خشکی اور سمندر دونوں پر متعین ہو، ہر قسم کی مدد دینے پر آمادہ ہوں گی۔ مغلوں کے زمانے میں اس قسم کے غیر جانب دار عساکر واقعتا موجود تھے بلکہ اکبر کے زمانے میں تو ان تمام سرحدی افواج کے افسر ہندو ہی تھے۔ میں وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ اگر فیڈرل نظام حکومت میں ایک غیر جانب دار ہندوستانی لشکر قائم ہوا تو اس سے مسلمانوں کے جذبات حب الوطنی اور زیادہ قوی ہو جائیں گے۔ اور اس بدگمانی کا بھی ازالہ ہو جائے گا کہ اگر باہر سے حملہ ہوا تو مسلمانان ہندوستان اپنے ہم مذہبوں کے ساتھ مل جائیں گے۔“
اس خطبے میں اقبال نے دو حل تجویز کیے ہیں۔ پہلا حل یہ ہے کہ” فرقہ وارانہ مسئلے کے مستقل تصفیے کے لیے برطانوی ہندوستان کی از سرنو تقسیم کی جائے“۔ اور اگریہ قبول نہیں تو پھر میں نہایت شدومد سے مسلمانوں کے ان مطالبات کی تائید کروں گا جس پر آل انڈیا مسلم لیگ اور آل انڈیا مسلم کانفرنس نے بار بار زور دیا ہے۔ ہندوستان کے مسلمان کبھی ایسی دستوری تبدیلی پر رضامند نہیں ہوں گے جس سے پنجاب اور بنگال میں ان کے اکثریتی حقوق پر اثر پڑے جو جداگانہ انتخاب کے ذریعے حاصل کیے جائیں گے یا مرکزی اسمبلی میں ان کی 33 فی صد نمائندگی کی ضمانت نہ دی جائے…. اور ہندوستان کے مسلمان کسی ایسی تبدیلی پر رضامند نہیں ہوں گے جس کے تحت سندھ کو علیحدہ صوبہ نہ بنا یا جائے اور شمال مغربی سرحدی صوبہ کو سیاسی حیثیت سے کم تر درجہ دیا جائے۔ میرے خیال میں کوئی وجہ نہیں کہ سندھ کو بلوچستان سے ملا کر کیوں نہ ایک صوبہ بنا دیا جائے۔“
اب یہاں ایک بات تو واضح ہو جاتی ہے کہ اقبال بنگال کا بھی ذکر کر رہے ہیں۔ اس وقت بنگال اور پنجاب کے مسلمانوں کی تمائندگی کی شرح کم کر کے اقلیتی صوبوں کی نمائندگی میں اضافہ کیا گیا تھا۔ اس کی تفصیل ڈاکٹر ندیم شفیق ملک صاحب کی کتاب میں دیکھی جا سکتی ہے۔ یعنی بنگال اور پنجاب میں مسلمانوں کو ان کی آبادی کے حساب سے نمائندگی دی جائے جس کے نتیجے میں وہ واضح مسلم اکثریت والے صوبے بن جائیں گے اورحکومت سازی میں غیر مسلموں کے محتاج نہیں رہیں گے۔
اس تمام گفتگو کا خلاصہ یہی ہے کہ اقبال نے خطبہ الہ آباد میں نہ تقسیم ہند کا کوئی تصور دیا اور نہ کسی آزاد خود مختار مملکت کے قیام کا مطالبہ کیا۔ اس پر قول فیصل خود علامہ اقبال کا خطبہ الہ آباد کے دس ماہ بعد 10 اکتوبر 1931ءکو لنڈن ٹائمز کے ایڈیٹر کے نام خط ہے جس میں ٹامسن کا جواب دیتے ہوئے لکھتے ہیں: کیا میں ڈاکٹر ٹامسن سے یہ کہہ سکتا ہوں کہ میں نے برطانوی سلطنت سے باہر ایک مسلم مملکت کا مطالبہ پیش نہیں کیا ہے بلکہ دھندلے مستقبل میں ان زبردست قوتوں کی امکانی کارفرمائی کے متعلق یہ ایک تخمینہ ہے، جو برصغیر ہند کے مقدر کی اس وقت صورت گری کر رہی ہیں۔ کوئی ہندوستانی مسلمان جو عقل کا ادنیٰ سا شائبہ رکھتا ہے، عملی سیاست کے ایک منصوبہ سازکی حیثیت سے برطانوی دولت عامہ سے باہر شمال مغربی ہند میں ایک مسلم مملکت یا مملکتوں کے سلسلہ کو قائم کرنے کا خیال نہیں کر رہا ہے…. میں ہندوستان کی ایسے صوبہ جات میں ازسرنو تقسیم کا قائل ہوں، جس میں کسی ایک فرقہ کی اکثریت ہو، جس کی وکالت نہرو رپورٹ اور سائمن رپورٹ نے بھی کی ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ مسلم صوبوں کے متعلق میری تجویز اسی تخیل کو آگے بڑھاتی ہے، ہندوستان کی شمال مغربی سرحد پر مطمئن اور منظم صوبوں کا ایک سلسلہ، سطح مرتفع ایشیا کی بھوکی نسلوں کے خلاف ہندوستان کے لیے، اوربرطانوی سلطنت کے لیے ایک فصیل ثابت ہو گا۔ (زندہ رود، جلد سوم، ص 415)
اگلی قسط میں اقبال کے جناح کے نام خطوط کا جائزہ لیا جائے گا اور اس سوال سے بحث کی جائے گی کہ مسلم لیگ کے لیڈروں کو کب یہ پتہ چلا کہ علامہ اقبال نے پاکستان کا تصور پیش کیا تھا۔ اس کے بعد اس مسئلے سے تعرض کیا جائے گا کہ کیا اقبال ”بے وطن قومیت “ کے قائل تھے۔
یہاں یار عزیز باصر سلطان کاظمی کا ایک شعر درج کرنے کو جی چاہتا ہے:
آیتیں تو ٹھیک ہی پڑھنی تھیں واعظ نے مگر
مدعا اپنا بھی شامل کر دیا تفسیر میں
خیر غنیمت ہے کہ واعظ آیتیں تو ٹھیک پڑھتا ہے یہاں تو متن کی درست خواندگی مسئلہ بنی ہوئی ہے۔ (جاری ہے)
اس مضمون کی گزشتہ قسط میں ہم اس نتیجے تک پہنچے تھے کہ علامہ اقبال نے خطبہ الہ آباد میں تقسیم ہند کا کوئی نظریہ پیش نہیں کیا تھا۔ ان کے جس جملے سے یہ مطلب نکالا جا رہا ہے وہ صرف سٹیٹ کے لفظ کے معنی کو درست طور پر نہ سمجھنے کا نتیجہ ہے۔ اس جملے میں اقبال نے سٹیٹ کا لفظ صوبے کے مفہوم میں استعمال کیا ہے۔ یہ رائے محض میری نہیں بلکہ بہت سے لوگ اس کا اظہار کر چکے ہیں تاہم ان میں سے بھی بعض لوگ یہ یقین رکھتے ہیں کہ دراصل اقبال نے جناح کے نام خطوط میں الگ آزاد اور خود مختار مملکت کا تصور پیش کیا تھا۔ اس لیے لازم ہو جاتا ہے کہ ان خطوط کا بھی جائزہ لے کر جانا جائے کہ یہ موقف کہاں تک درست ہے۔
اقبال کے جناح کے نام کل تیرہ خطوط ہیں جن میں زیادہ تر مسلم لیگ کے داخلی معاملات، پنجاب میں یونیینسٹ پارٹی کے ساتھ معاملات اور سکندر جناح پیکٹ کے حوالے سے ہیں۔ ان خطوط سے واضح ہو جاتا ہے کہ اقبال اتحاد پارٹی کی سیاست کو سخت ناپسند کرتے تھے اور سکندر جناح پیکٹ کے متعلق ان کے شدید تحفظات تھے۔ ان تیرہ خطوط کی داخلی شہادت سے پتہ چلتا ہے کہ پہلا خط جناح کے خط کے جواب میں لکھا گیا ہے اور اس کے بعد جناح نے صرف دو خطوط کا جواب دیا ہے، لیکن سکندر جناح پیکٹ کے بارے میں لکھے گئے کسی خط کا جواب نہیں دیا گیا۔اس مضمون میں زیر بحث مسئلے کے بارے میں تین خطوط بہت اہم ہیں۔ لیکن ان خطوط کا جائزہ لینے سے پیشتر یہ مناسب ہو گا کہ ان کے پس منظر کا ایک طائرانہ جائزہ لے لیا جائے۔
اقبال کے خطبہ الہ آباد کے بعد ہندوستان کی سیاست میں جوہری تبدیلیاں رونما ہو چکی تھیں۔ 1935 کے ایکٹ کا نفاذ ہو چکا تھا جو مسلمانوں کے نقطہءنظر سے مایوس کن تھا۔ اس ایکٹ کے تحت صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات بھی منعقد ہو چکے تھے جن میں کانگرس نے شاندار کامیابی حاصل کی تھی۔ مسلم لیگ کی کارکردگی اقلیتی صوبوں میں تو بری نہ تھی مگر اکثریتی صوبوں میں بہت خراب رہی تھی۔ صوبوں میں کانگرسی حکومتوں کے قیام کے بعد ہندووں کا رویہ بہت جارحانہ ہو چکا تھا۔ حتی کہ مسلم اکثریتی صوبوں میں مسلمانوں کے خلاف ان کی سرگرمیاں شدت اختیار کرتی جا رہی تھیں۔ اقبال کے خیال میں وہ مسلمانوں کو دہشت زدہ کر دینا چاہتے تھے۔ مسلمانوں کے بارے میں کانگرس کا رویہ منیر نیازی کے الفاظ میں یہ تھا کہ
لوگوں کو ان کے گھر میں ڈرا دینا چاہیے۔
کانگرس نے 19 مارچ 1937ء کو دہلی میں ایک کل ہند قومی کنونشن کا انعقاد کیا جس میں صوبائی اسمبلیوں کے آٹھ سو کانگرسی ارکان نے شرکت کی تھی۔ پنڈت نہرو نے اس کنونشن سے خطاب کرتے ہوئے مسلم عوام سے رابطہ کرنے کی مہم چلانے کا اعلان کیا۔ پنڈت جی کو اعتراف تھا کہ اس وقت تک کانگرس مسلم عوام کا اعتماد حاصل کرنے میں ناکام رہی تھی۔ ان کے نزدیک اس ناکامی کی وجہ یہ تھی کہ کانگرس اب تک فرقہ پرست رہنماو ¿ں سے بات چیت کرتی رہی ہے۔ اب وقت آ گیا تھا کہ مسلمانوں سے براہ راست رابطہ کرے انہیں کانگرس میں شامل ہونے پر آمادہ کیا جائے۔ اس تقریر میں انہوں نے فرمایا:
” تعجب ہے کہ ابھی تک ایسے لوگ موجود ہیں جو مسلمانوں کو ایک الگ گروہ تصور کرکے ہندوؤں سے سمجھوتہ کرنے کا خواب دیکھ رہے ہیں۔ یہ انداز فکر قرون وسطیٰ میں رائج ہو تو ہو، موجودہ زمانے میں اسے کوئی نہیں پوچھتا۔ آج کل ہر چیز پر اقتصادی نقطہ نظر سے غور کیا جاتا ہے۔ جہاں تک افلاس، بے کاری اور قومی آزادی کا سوال ہے، ہندوؤں، مسلمانوں، سکھوں اور مسیحیوں میں کوئی فرق نہیں ہے۔ چوٹی کے فرقہ پرست لیڈر ہر وقت حصے بخرے کرنے اور بٹوارے کی باتیں کرتے رہتے ہیں کہ ان کی قوم کو ملازمتوں میں کتنا حصہ ملے گااور اسمبلی میں کتنی نشستیں حاصل ہوںگی۔ ان لیڈروں کو چھوڑ کر جب ہم عوام سے براہ راست ملتے ہیں تو ہمیں وہی مشترکہ مسائل کارفرما نظر آتے ہیں، جن کا ذکر میں نے ابھی کیا ہے، یعنی افلاس، بے کاری اور قومی آزادی کی لگن۔“ (بحوالہ اقبال کا سیاسی کارنامہ از محمد احمد خان ، ص 456۔ خطوط کے ترجمے کے لیے میں نے اسی کتاب پر انحصار کیا ہے البتہ چند مقامات پر الفاظ کو تبدیل کیا ہے۔)
پنڈت نہرو کے اس اعلان کے اگلے ہی دن(20 مارچ 1937) اقبال نے جناح کو یہ خط تحریر کیا:
”مائی ڈیر مسٹر جناح! آپ نے پنڈت جواہر لال نہرو کے اس خطبہ کو پڑھا ہو گا، جو انہوں نے آل انڈیا نیشنل کنونشن میں دیا تھا اور یہ کہ آپ نے اس پالیسی کا پوری طرح اندازہ کر لیا ہوگا، جو مسلمانوں کے متعلق اس خطبے میں بیان کی گئی ہے۔ مجھے یقین ہے کہ آپ اس امر سے پوری طرح باخبر ہیں کہ نئے دستور نے کم از کم مسلمانان ہند کو ان سیاسی تغیرات کے پیش نظر، جو مستقبل میں ہندوستان اور مسلم ایشیا میں رونما ہونے والے ہیں، اپنے آپ کو منظم کرنے کا ایک انوکھا موقع فراہم کیا ہے۔ ہم ملک کی دوسری ترقی پسند جماعتوں سے بے شک تعاون کرنے کے لیے تیار ہیں، تاہم ہمیں یہ حقیقت نظر انداز نہیں کرنی چاہیے کہ ایک اخلاقی اور سیاسی طاقت کی حیثیت سے اسلام کے پورے مستقبل کا انحصار بڑی حد تک مسلمانان ہند کی مکمل تنظیم پر ہے۔ لہٰذا میں تجویزپیش کرتا ہوں کہ آل انڈیا نیشنل کنونشن کا ایک موثر جواب دیا جائے۔ آپ کو چاہیے کہ دہلی میں جلد از جلد ایک آل انڈیا مسلم کنونشن منعقد کریں، جس میں نئی صوبائی اسمبلیوں کے ارکان کے علاوہ دوسرے ممتاز مسلم رہنماؤں کو بھی شرکت کی دعوت دی جائے۔ آپ کو چاہیے کہ اس کنونشن کی طرف سے پوری قوت اور قطعی وضاحت کے ساتھ ہندوستان میں مسلمانوں کی ایک ممیز، جداگانہ سیاسی وحدت کا بطور نصب العین اعلان کر دیں۔ یہ امر قطعاً ناگزیر ہے کہ ہندوستان اور بیرون ہندوستان کی دنیا کو صاف صاف بتا دیا جائے کہ ہندوستان کا حل طلب مسئلہ صرف معاشی مسئلہ ہی نہیں ہے بلکہ مسلم نقطہءنظر سے ثقافت اور تہذیب کا مسئلہ نسبتاً زیادہ دور رس نتائج کا حامل اور بہر نوع کسی طرح معاشی مسئلہ سے کم اہم نہیں ہے۔ اگر آپ ایسا کنونشن منعقد کر سکیں تو ان مسلم ارکان مجالس قانون ساز کی حیثیت کا پول کھل جائے گا، جنہوں نے مسلمانان ہند کی خواہشوں اور تمناؤں کے خلاف اپنی جداگانہ جماعتیں قائم کر لی ہیں۔ مزید برآں اس کنونشن سے ہندووں پر بھی عیاں ہو جائے گا کہ کوئی سیاسی چال، خواہ وہ کتنی ہی گہری کیوں نہ ہو، ہندی مسلمانوں کو اپنی ثقافتی وحدت سے غافل نہیں کر سکتی۔“
اقبال نے 28 مئی کو جناح کے نام ایک اور طویل خط بصیغہ راز تحریر کیا جس میں ہمارے زیر بحث موضوع کے متعلق اقبال نے دو اہم باتیں کی ہیں۔ ان کے نزدیک مسلمانوں کو درپیش مسائل کا حل ”ایک یا ایک سے زاید آزاد مسلم ریاستوں کے بغیر ممکن نہیں۔ کئی سال سے یہ میرا ایماندارانہ ایقان رہا ہے اور میں اب بھی مسلمانوں کی روٹی کا مسئلہ حل کرنے کا اور ایک پرامن ہندوستان حاصل کرنے کا اسی کو واحد طریقہ سمجھتا ہوں۔۔۔ان مسائل [اقتصادی اور معاشرتی جمہوریت] کو مسلم ہندوستان میں حل کرنے کے لیے یہ ضروری ہے کہ ملک کو از سر نو تقسیم کیا جائے اور ایک یا ایک سے زاید ایسی مسلم ریاستیں قائم کی جائیں، جہاں (مسلمانوں کی ) اکثریت قطعی ہو، کیا آپ کی رائے میں اس مطالبہ کا وقت نہیں آن پہنچا ہے؟“ ( ایضاً۔ ص 474-5)
اس خط میں ملک کی از سر نو تقسیم کی جو تجویز پیش کی گئی ہے اس کا مطلب صوبوں کی نئی حد بندی ہے تاکہ مسلم اکثریتی صوبوں میں مسلمانوں کو واضح اکثریت حاصل ہو اور وہ موثر حکومت تشکیل دے سکیں جو اپنے وجود کے لیے غیر مسلموں کی حمایت کی محتاج نہ ہو۔ کیونکہ اقبال کے خیال میں”ایک پرامن ہندوستان حاصل کرنے کا“ یہی واحد راستہ ہے۔ وہ تقسیم ہند کا کوئی فارمولا پیش نہیںکر رہے۔
اس خط کا جواب موصول ہونے پر اقبال نے 21جون کو ایک اور طویل خط بصیغہ راز لکھا جو اس سلسلے کا شاید اہم ترین خط ہے جس میں اقبال نے ایک قدم اور آگے بڑھایا ہے۔
” مجھے تو ایسا نظر آتا ہے کہ دستور جدید ہندووں کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے وضع کیا گیا ہے۔ ہندو اکثریت کے صوبوں میں ہندووں کو قطعی اکثریت حاصل ہے اور وہ وہاں مسلمانوں کو بالکلیہ نظر انداز کر سکتے ہیں۔ برخلاف اس کے مسلم اکثریت کے صوبوں میں مسلمانوں کو ہندووں کا دست نگر رکھا گیا ہے۔ مجھے اس امر میں شک و شبہ کی گنجائش نظر نہیں آتی کہ موجودہ دستور ہندی مسلمانوں کے لیے زہر قاتل کا حکم رکھتا ہے۔ مزید براں یہ دستور تو اس معاشی تنگ دستی کا جو مسلمانوں میں شدید تر ہوتی جا رہی ہے، کوئی علاج ہی نہیں ہے۔ فرقہ وارانہ فیصلہ (communal award)ہندوستان میں مسلمانوں کی سیاسی ہستی کو تسلیم تو کرتا ہے لیکن کسی قوم کی ایسی سیاسی ہستی کا اعتراف، جو اس کی معاشی پس ماندگی کا کوئی حل تجویز نہ کرتا ہو اور نہ کر سکے، اس کے لیے بے سود ہے۔
کانگرس کے صدر نے تو غیر مبہم الفاظ میں مسلمانوں کی جداگانہ سیاسی حیثیت ہی سے انکار کر دیا ہے۔ ہندووں کی دوسری سیاسی جماعت ہندو مہاسبھا نے، جسے میں ہندو عوام کی حقیقی نمائندہ جماعت سمجھتا ہوں، بارہا اعلان کیا ہے کہ ہندو اور مسلمان کی متحدہ قومیت کا وجود ہندوستان میں ناممکن ہے۔ ان حالات میں ظاہر ہے کہ ایک پرامن ہندوستان حاصل کرنے کا واحد طریقہ یہ ہے کہ لسانی، مذہبی اور نسلی میلانات کی بنا پر ملک کو ا ز سر نو تقسیم کر دیا جائے۔
اکثر برطانوی مدبرین اس حقیقت کو محسوس کرتے ہیں اور ہندو مسلم فسادات جو اس دستور کے جلو میں پوری تیزی سے رونماہو رہے ہیں، یقین ہے کہ ملک کی صحیح صورت حال کوان پر واضح کر دیں گے۔ مجھے یاد ہے کہ انگلستان سے میری روانگی سے قبل لارڈ لوتھیان نے مجھ سے کہا تھا کہ تمہاری اسکیم ہی ہندوستان کی مشکلات کی واحد ممکنہ حل ہے، لیکن اس کے بارآور ہونے کے لیے پچیس سال درکار ہوں گے….
میرے خیال میں تو جدید دستور سارے ہندوستان کو ایک ہی وفاق میں مربوط کر لینے کی تجویز کی بنا پر بالکلیہ یاس انگیز ہے۔ ان خطوط پر جن کا ذکر میں نے اوپر کیا ہے مسلم صوبوں کے ایک علیحدہ وفاق (separate federation ) کی تشکیل ہی وہ واحد طریقہ عمل ہے، جس کے ذریعے ہم ایک پرامن ہندوستان حاصل کر سکتے ہیںاور مسلمانوں کو غیر مسلموں کے تسلط سے بچا سکتے ہیں۔
شمال مغربی ہندوستان اور بنگال کے مسلمانوں کو کیوں نہ ایسی قوم قرار دیا جائے، جنہیں ہندوستان کے اندر اور ہندوستان سے باہر رہنے والی دوسری قوموں کے مانند خود اختیاری کا استحقاق ( right to self-determination) ہے؟
ذاتی طور پر میں یہ رائے رکھتا ہوں کہ شمال مغربی ہندوستان اور بنگال کے مسلمانوں کو فی الحال مسلم اقلیتی صوبوں کو نظر انداز کر دینا پڑے گا۔ مسلم اکثریت اور مسلم اقلیت کے صوبوں کا مفاد اسی طریقہ کار کے اختیار کرنے میں مضمر ہے۔ “ (ایضاً۔ ص 471-73)
اس خط میں اقبال نے دو بہت اہم باتیں کی ہیں جو بہت دوررس نتائج کی حامل ہیں۔ اولاً مسلم صوبوں کے علیحدہ فیڈریشن کی تجویز پیش کی ہے جس میں وہ ایک آزاد ملک کے مطالبے کے بہت قریب آ گئے ہیں لیکن اقبال اس تجویز کو ایک پرامن ہندوستان کے حصول کی شرط قرار دے رہے ہیں۔ بعد کے حالات اور ہندووں کے رویے نے حالات کو اس ڈگر پر ڈال دیا جہاں تقسیم کے سواکوئی اور چارہ نہ تھا۔
ان کی دوسری تجویز اقلیتی صوبوں کے مسلمانوں کے بارے میں ہے کہ فی الحال اکثریتی صوبوں کو انہیں نظر انداز کرنا پڑے گا۔ اقبال نے خطبہ الہ آباد میں بھی پاسنگ کے تصور کو رد کرکے پنجاب اور بنگال میں ان کی اکثریت کی بحالی کا مطالبہ کیا تھا۔ میثاق لکھنﺅ میں بنگال اور پنجاب کے مسلمانوں کی اکثریت کم کرکے یو پی، بہار اور دیگر صوبوں کے مسلمانوں کی نشستوں میں اضافہ کیا گیا تھا جس کا اقلیتی صوبوں کو تو کوئی فائدہ نہ ہوا اور اکثریتی صوبوں کو بہت نقصان اٹھانا پڑا۔ چنانچہ اقبال اس پاسنگ کو رد کرکے یہ مطالبہ کر رہے ہیں کہ اکثریتی صوبوں میں مسلمانوں کو آبادی کے تناسب سے نمائندگی دی جائے۔
اب اگلی قسط میں اس بات پر بحث کریں گے کہ آخر پاکستان کے تصور کو مکمل طور پر اقبال سے منسوب کرنے کی وجوہ کیا ہیں۔