اقبال کے ایک شعر کا مفہوم؟

عرفان سعید

محفلین
پچھلے آٹھ سال سے یورپ میں مقیم ہوں۔ لیکن اقبال کے درج ذیل شعر کا مفہوم کبھی سمجھ نہیں آیا۔ اگر کوئی صاحب رہنمائی فرما دیں تو بڑی عنائیت ہو گی۔

میخانۂ یورپ کے دستور نرالے ہیں
لاتے ہیں سرور اول، دیتے ہیں شراب آخر
 
مولانا مہر اس کی تشریح کچھ یوں کرتے ہیں کہ یورپی ممالک اول تو کسی ملک کی امداد کر کے انھیں اپنا گرویدہ بنا لیتے ہیں پھر اس کے بعد اپنی تہذیب متعارف کروا کے انھیں تباہ کرتے ہیں۔
(میرا اس رائے سے متفق ہونا قطعاً ضروری نہیں)
 

عرفان سعید

محفلین
مولانا مہر اس کی تشریح کچھ یوں کرتے ہیں کہ یورپی ممالک اول تو کسی ملک کی امداد کر کے انھیں اپنا گرویدہ بنا لیتے ہیں پھر اس کے بعد اپنی تہذیب متعارف کروا کے انھیں تباہ کرتے ہیں۔

تاریخی عوامل نگاہ میں رکھتے ہوئے اگر اس رائے سے اتفاق کر لیا جائے تو تشریح درست بیٹھتی ہے۔ بہت نوازش ریحان صاحب!
 
تاریخی عوامل نگاہ میں رکھتے ہوئے اگر اس رائے سے اتفاق کر لیا جائے
اس سے اتفاق کرنے کے لیے آپ کو عقیدت کی ضرورت ہے تاریخ پڑھنے کی نہیں، سیاہ و سفید کچھ نہیں ہوتا۔ مغربی تہذیب اپنی تمام برائیوں کے باوجود انسانی تمدن اور ترقی کا عروج ہے جس نے تمام عالم کو بہت فیض پہنچایا ہے۔ اور انھیں برا بھلا کہنے والوں کی لمبی قطاریں، جو وہاں جانے کے لیے بیتاب ہیں، اس بات کی واضح دلیل ہیں۔
 

محمد وارث

لائبریرین
مولانا مہر اس کی تشریح کچھ یوں کرتے ہیں کہ یورپی ممالک اول تو کسی ملک کی امداد کر کے انھیں اپنا گرویدہ بنا لیتے ہیں پھر اس کے بعد اپنی تہذیب متعارف کروا کے انھیں تباہ کرتے ہیں۔
(میرا اس رائے سے متفق ہونا قطعاً ضروری نہیں)
میرے خیال میں یہ تشریح کافی بعد کی ہے یعنی کم از کم اقبال کی وفات اور جنگِ عظیم دوم کے بعد کی جب "امداد" وغیرہ کا چکر شروع ہوا تھا اور یہ تشریح بعد کے حالات کو مدِ نظر رکھ کر کی گئی ہے۔

جس زمانے میں اقبال نے یہ شعر کہا ہوگا یعنی پچھلی صدی کے اوائل میں یا اس کے لگ بھگ، تب تک یورپ یا اگر اس تعریف میں امریکہ کو بھی شامل کر لیا جائے تو امداد وغیرہ کا کوئی چکر ہی نہیں تھا۔ ہر طرف 'ایمپریل ازم' کا دور دورہ تھا اور بجائے امداد کر کے گرویدہ بنانے کے سیدھے سیدھے فوجی قبضہ کر کے کالونیاں بنائی جاتی تھیں۔ ایشیا اور افریقہ کے زیادہ تر ممالک یورپی قوتوں کے براہِ راست قبضے میں تھے، ہاں جنگِ عظیم دوم کے بعد حالات یکسر بدلے اور پرانی کالونیوں کو آزادی ملی اور پھر امداد اور اس کے واسطے سے اثرات کا دور شروع ہوا۔
 

محمد وارث

لائبریرین
پچھلے آٹھ سال سے یورپ میں مقیم ہوں۔ لیکن اقبال کے درج ذیل شعر کا مفہوم کبھی سمجھ نہیں آیا۔ اگر کوئی صاحب رہنمائی فرما دیں تو بڑی عنائیت ہو گی۔

میخانۂ یورپ کے دستور نرالے ہیں
لاتے ہیں سرور اول، دیتے ہیں شراب آخر
اگر آپ کو برا نہ لگے تو کہوں کہ ہمارے کالج کے زمانے کے ایک دوست (کم و بیش ربع صدی پہلے) اس شعر کی وہی تشریح کرتے تھے جو پہلی بار پڑھنے میں سمجھ میں آتی ہے۔ یعنی ایک میخانے کا ماحول ہے وہاں کی دلکش ویٹریس آ رہی ہیں جا رہی ہیں، پینے والوں کو شراب بعد میں ملتی ہے، سرور پہلے آ جاتا ہے، اللہ اللہ :)
 

عرفان سعید

محفلین
اس سے اتفاق کرنے کے لیے آپ کو عقیدت کی ضرورت ہے تاریخ پڑھنے کی نہیں، سیاہ و سفید کچھ نہیں ہوتا۔ مغربی تہذیب اپنی تمام برائیوں کے باوجود انسانی تمدن اور ترقی کا عروج ہے جس نے تمام عالم کو بہت فیض پہنچایا ہے۔ اور انھیں برا بھلا کہنے والوں کی لمبی قطاریں، جو وہاں جانے کے لیے بیتاب ہیں، اس بات کی واضح دلیل ہیں۔
میری کوتاہیٔ سخن کہ اپنی بات کا صحیح طور پر ابلاغ نہیں کر پایا۔ آپ کی بات سے صد فیصد متفق ہوں۔ کسی منطقی طریقے سے شعر کو سمجھنے کے لیے وقتی طور پر مولانا مہر کی تشریح سے اتفاق کر لیا تھا۔
 

عرفان سعید

محفلین
اگر آپ کو برا نہ لگے تو کہوں کہ ہمارے کالج کے زمانے کے ایک دوست (کم و بیش ربع صدی پہلے) اس شعر کی وہی تشریح کرتے تھے جو پہلی بار پڑھنے میں سمجھ میں آتی ہے۔ یعنی ایک میخانے کا ماحول ہے وہاں کی دلکش ویٹریس آ رہی ہیں جا رہی ہیں، پینے والوں کو شراب بعد میں ملتی ہے، سرور پہلے آ جاتا ہے، اللہ اللہ :)
آپ کی بات دل کو لگتی ہے اور دماغ کی الجھنیں بھی کھولتی ہے۔
وارث بھائی! آپ نے جو خوبصورت منظر کشی کی ہے ایسا نہ ہو آج شام کہیں ہم میخانے جا گھسیں۔
 
اگر آپ کو برا نہ لگے تو کہوں کہ ہمارے کالج کے زمانے کے ایک دوست (کم و بیش ربع صدی پہلے) اس شعر کی وہی تشریح کرتے تھے جو پہلی بار پڑھنے میں سمجھ میں آتی ہے۔ یعنی ایک میخانے کا ماحول ہے وہاں کی دلکش ویٹریس آ رہی ہیں جا رہی ہیں، پینے والوں کو شراب بعد میں ملتی ہے، سرور پہلے آ جاتا ہے، اللہ اللہ :)
پہلے آئیے پہلے پایئے کی بنیاد پر پہلے ورغلاتی ہیں پھر پلاتی ہیں:p:p
 

محمد وارث

لائبریرین
آپ کی بات دل کو لگتی ہے اور دماغ کی الجھنیں بھی کھولتی ہے۔
وارث بھائی! آپ نے جو خوبصورت منظر کشی کی ہے ایسا نہ ہو آج شام کہیں ہم میخانے جا گھسیں۔
مجھے آپ کے پہلے مراسلے ہی سے لگا تھا اور اسی لیے میں نے کہا تھا کہ آپ یورپ میں ضرور ہیں لیکن ان کے میخانوں میں نہیں۔ :)
ع- بازار سے گزرا ہوں خریدار نہیں ہوں
 

عرفان سعید

محفلین
مجھے آپ کے پہلے مراسلے ہی سے لگا تھا اور اسی لیے میں نے کہا تھا کہ آپ یورپ میں ضرور ہیں لیکن ان کے میخانوں میں نہیں۔ :)
ع- بازار سے گزرا ہوں خریدار نہیں ہوں
قبلہ! اب اتنا اکسائیے تو مت، شدتِ احساسِ محرومی سے مغلوب ہو کر قسم توڑ ہی نہ ڈالوں!
 

محمد وارث

لائبریرین
قبلہ! اب اتنا اکسائیے تو مت، شدتِ احساسِ محرومی سے مغلوب ہو کر قسم توڑ ہی نہ ڈالوں!
آپ قسم مت توڑئیے، بس شعر کا مطلب سمجھنے کے لیے ہلکا پھلکا سے چکر لگا آئیے، آخر کلامِ اقبال کی تہہ تک پہنچنا اتنا آسان تو نہیں۔ :)
 
صحیح ہے لیکن یہ بھی تو دیکھیے کہ اقبال جیسے شخص کو ورغلانے کے لیے کس طرح کی "صلاحیتوں" کی ضرورت پڑی ہوگی۔ :LOL:
میرا خیال ہے عطیہ فیضی ان صلاحیتوں سے مالا مال تھیں
مولانا حسرت موہانی کی غزل تو ضرور پڑھی ہو گی
"رعنائی میں حصہ ہے جو قبرص کی پری کا"
 

محمد وارث

لائبریرین
میرا خیال ہے عطیہ فیضی ان صلاحیتوں سے مالا مال تھیں
مولانا حسرت موہانی کی غزل تو ضرور پڑھی ہو گی
"رعنائی میں حصہ ہے جو قبرص کی پری کا"
عطیہ تو خیر خانہ زاد یعنی یہیں کی تھیں، علامہ تو عالمِ افرنگ کے سرور کی بات کر رہے ہیں۔ :)
 
Top