سید شہزاد ناصر
محفلین
یعنیعطیہ تو خیر خانہ زاد یعنی یہیں کی تھیں، علامہ تو عالمِ افرنگ کے سرور کی بات کر رہے ہیں۔
خانہ زاد زلف ہیں زنجیر سے بھاگیں گے کیوں
گرفتار وفا ہیں زنداں سے گھبرائیں گے کیا
یعنیعطیہ تو خیر خانہ زاد یعنی یہیں کی تھیں، علامہ تو عالمِ افرنگ کے سرور کی بات کر رہے ہیں۔
آپ 'روایات' میں کھو گئے قبلہ، سیدھا شعر سے سرور کشید کیجیے۔لڑی میں قبلہ کے مراسلے پڑھ پڑھ کر تو اب ہماری نگاہ میں بھی سرور کی پرچھائیان لہرانے لگی ہیں۔
ہیں گرفتارِ وفاگرفتار وفا ہیں
تصحیح کا شکریہہیں گرفتارِ وفا
قبلہ اکثر کشید کی گئی چیز سے سرور آہ ہی جاتا ہے۔آپ 'روایات' میں کھو گئے قبلہ، سیدھا شعر سے سرور کشید کیجیے۔
وارث بھائی! آپ کے بے ساختہ تبصرے سے یہ تو اب طے ہے کہ جب کبھی اب ریسٹورنٹ جانا ہوا، دہن ناآشنائے مئے تو رہے گا، لیکن نظارۂ سرور کا موقع اس وقت تک ہاتھ سے جانے نہیں دیا جائے گا جب تک زوجہ کی عقابی نگاہوں سے بچت رہے گی۔ اور اب اس شعر کا مفہوم لوحِ یاداشت سے محو ہونے کا نہیں۔اگر آپ کو برا نہ لگے تو کہوں کہ ہمارے کالج کے زمانے کے ایک دوست (کم و بیش ربع صدی پہلے) اس شعر کی وہی تشریح کرتے تھے جو پہلی بار پڑھنے میں سمجھ میں آتی ہے۔ یعنی ایک میخانے کا ماحول ہے وہاں کی دلکش ویٹریس آ رہی ہیں جا رہی ہیں، پینے والوں کو شراب بعد میں ملتی ہے، سرور پہلے آ جاتا ہے، اللہ اللہ
آپ نے شرط ہی ایسی کڑی لگا دی ہے کہ بس "انکار" ہی سمجھیں۔ زوجہ کی عقابی نگاہوں سے بچت۔۔۔۔۔۔اللہ اللہوارث بھائی! آپ کے بے ساختہ تبصرے سے یہ تو اب طے ہے کہ جب کبھی اب ریسٹورنٹ جانا ہوا، دہن ناآشنائے مئے تو رہے گا، لیکن نظارۂ سرور کا موقع اس وقت تک ہاتھ سے جانے نہیں دیا جائے گا جب تک زوجہ کی عقابی نگاہوں سے بچت رہے گی۔ اور اب اس شعر کا مفہوم لوحِ یاداشت سے محو ہونے کا نہیں۔
محمد وارث کی نظر
رعنائی میں حصہ ہے جو قبرص کی پری کا
نظارہ ہے مسحور اسی جلوہ گری کا
رفتار قیامت یوں نہیں کیا کم تھی پھر اس پر
اک طُرہ ہے فتنہ تری نازک کمری کا
پوشاک میں کیا کیا شجری نقش ہیں دلکش
باعث نہ یہی شوق کی ہوں جامہ دری کا
لاریب کہ اس حسن ستم گار کی سرخی
موجب ہے مرے زہد کی عیصاں نظری کا
باوصف تلاش اُن کی خبر کچھ بھی نہ پا کر
کیا کہئے جو ہے حال مری بے خبری کا
جب سے یہ سنا ہے کہ وہ ساکن ہیں یہیں کے
عالم ہے عجب شوق کی آشفتہ سری کا
ساتھ اُن کے جو ہم آئے تھے بیروت سے حسرت
یہ روگ نتیجہ ہے اُسی ہم سفری کا
حسرت موہانی
وارث بھائی! آپ کا تبصرہ پڑھ کر ایک فی البدیہہ شعر ہو گیا۔ عرض کیا ہے:آپ نے شرط ہی ایسی کڑی لگا دی ہے کہ بس "انکار" ہی سمجھیں۔ زوجہ کی عقابی نگاہوں سے بچت۔۔۔۔۔۔اللہ اللہ
ایک تیر سے دو شکار، ہم خرما و ہم ثواب، وغیرہ وغیرہوارث بھائی! آپ کا تبصرہ پڑھ کر ایک فی البدیہہ شعر ہو گیا۔ عرض کیا ہے:
کچھ زوجہ کی نظریں کچھ ایماں میرا
بچتا ہوں خطاؤں سے میں احساں تیرا
اس شعر کی تشریح چاہیے ...
ساکن دیر ہوں اک بت کا ہوں بندہ بخدا
خود وہ کافر ہیں جو کہتے ہیں مسلماں مجھ کو
وزیر علی صبا لکھنؤی
اس سے اتفاق کرنے کے لیے آپ کو عقیدت کی ضرورت ہے تاریخ پڑھنے کی نہیں، سیاہ و سفید کچھ نہیں ہوتا۔ مغربی تہذیب اپنی تمام برائیوں کے باوجود انسانی تمدن اور ترقی کا عروج ہے جس نے تمام عالم کو بہت فیض پہنچایا ہے۔ اور انھیں برا بھلا کہنے والوں کی لمبی قطاریں، جو وہاں جانے کے لیے بیتاب ہیں، اس بات کی واضح دلیل ہیں۔