ش
شہزاد احمد
مہمان
صوفیاء کے نزدیک عشق شکستِ نفس کا نام ہے۔ تصوف و حقیقت کے اس رجحان کی بدولت دبستانِ دہلی کی غزلیہ عشقیہ شاعری میں عشقِ حقیقی کی جھلک بھی ہے اور ہر مجاز کے رنگ میں حقیقت پردہ نشین ہے۔ ایسی صورتِ حال میں مجاز اور حقیقت میں فرق مشکل ہو جاتا ہے۔
خدا کی بندگی کہیے اسے یا عشقِ معشوقی
یہ نسبت ایک ہے سو سو طرح تعبیر کرتے ہیں (یقین)
تصوف کی گہری چھاپ کی وجہ سے لوگ ہر ذرے میں حسنِ مطلق کی تلاش کرتے ہیں۔ میر تقی میر کی مثنوی "شعلہء عشق" کے شروع میں ہے کہ اگر محبت نہ ہوتی تو کائنات کا ظہور نہ ہوتا۔ اس کارخانے میں محبت کے سوا اور کچھ نہیں ہے۔ مثنوی "دریائے عشق" کے شروع میں بھی کچھ اسی قسم کے خیالات کے شعر ملتے ہیں۔ جس طرح مولانا روم نے مثنوی کے آغاز میں عشق کے حکیمانہ پہلو پر روشنی ڈالی ہے، میر نے بھی اپنی مثنویوں میں اس قسم کا انداز اختیار کیا ہے۔
محبت نے ظلمت سے کاڑھا ہے نور
نہ ہوتی محبت، نہ ہوتا ظہور
میر اثر مثنوی "خواب و خیال" میں وجودی تصور پر یوں تبصرہ کرتے ہیں۔
کس کو دیکھوں کروں میں کس پہ نگاہ
سب طرف جلوہ گر ہے وجہ اللہ
تصوف و معرفت کی عوامی گرفت کا اندازہ اس بات سے بھی ہوتا ہے کہ میر جعفر زٹلی کے کلام میں تمام تر خرافات کے باوجود پند و نصائح اور اخلاق کی باتیں نظر آتی ہیں۔
کائنات اور حیات پر غور و خوض کی مثالیں یوں تو اس دور کے تقریباََ سبھی صوفی شاعروں کے کلام میں کم و بیش موجود ہیں لیکن اس لحاظ سے خواجہ میر درد کو بنیادی حیثیت حاصل ہے۔ اصل میں تصوف اور فلسفہ کے کئی ایک مباحث مشترکہ ہیں۔ فلسفیانہ مباحث میں کائنات اور حیات دو اہم موضوعات ہیں۔ ایک صوفی بھی اپنی ساری جدوجہد کائنات اور حیات کے اسرارِ سر بستہ کو سمجھنے میں صرف کرتا ہے۔ فلسفہ جن مسائل کو عقل کے ذریعے حل کرتا ہے، صوفی ان کی حد تک وجدان کے سہارے پہنچنا چاہتا ہے۔ اپنی آخری منزل پر پہنچ کر دونوں ایک معلوم ہوتے ہیں اور جس نے کہنہ حقیقت کو مکاشفات و مجاہدات اور جذبہ و وجدان کے ذریعہ پا کر اپنے احساسات کو شعر بنایا ہو گا وہ صوفی شاعر کہلائے گا۔
دہلوی شاعروں کے کلام میں کائنات، حیات اور انسان سے متعلق فکر کی جتنی مثالیں نظر آتی ہیں، اُن پر تصوف کا پرتو پڑا ہوا ہے۔ اس کے لیے عارفانہ کلام کی اصطلاح زیادہ موزوں ہے۔ خدا کے وجودی تصور، کائنات کی موہومی، خیر و شر میں تمیز، جبر و قدر کے مسئلے، قدر و قسمت، بندہ و خدا کے تعلق جیسے موضوعات پر اس دور کے چھوٹے بڑے تقریباََ سبھی شاعروں نے توجہ کی ہے۔ لیکن خواجہ میر درد، شاہ حاتم اور میر محمدی بیدار کے کلام میں ان کی کثرت ہے اور ان میں بھی خواجہ میر درد کو اہم حیثیت حاصل ہے۔ خواجہ میر درد محض نظریاتی نہیں بلکہ عملی صوفی بھی تھے اور انہوں نے جن مسائل کی معرفت حاصل کی ہے، اُن پر اپنی مشہور کتاب 'علم الکتاب' میں روشنی بھی ڈالی ہے۔ فلسفی پہلے اشیاء کی حقیقت کا ادراک عقل سے کرتا ہے اور پھر اپنے نتائج کو ہمارے سامنے لاتا ہے، صوفی اس کے برعکس پہلے چیزوں کو وجدان اور کشف کے ذریعے پاتا یا دیکھتا ہےاور پھر دوسروں کو سمجھانے کے لیے دلیل اور عقل کا سہارا ڈھونڈتا ہے۔ درد کی شاعری انہی دیکھی ہوئی چیزوں کے شاعرانہ ابلاغ کا مجموعہ ہے۔ وہ خود کہتے ہیں،
پھولے گا اس زبان میں بھی گلزارِ معرفت
یاں میں زمینِ شعر میں یہ تخم بو گیا
تصوف سے متاثر ہو کر اس زمانے کے شعراء کے ہاں مابعدالطبیعیاتی مسائل کی طرف رجحان پایا جاتا ہے۔ خدا کے وجودی تصور کے تذکرے سے اس دور کی شاعری بھری پڑی ہے۔ دنیا کی ہر شے جمالِ دوست کا آئینہ ہے۔
خدا کی بندگی کہیے اسے یا عشقِ معشوقی
یہ نسبت ایک ہے سو سو طرح تعبیر کرتے ہیں (یقین)
تصوف کی گہری چھاپ کی وجہ سے لوگ ہر ذرے میں حسنِ مطلق کی تلاش کرتے ہیں۔ میر تقی میر کی مثنوی "شعلہء عشق" کے شروع میں ہے کہ اگر محبت نہ ہوتی تو کائنات کا ظہور نہ ہوتا۔ اس کارخانے میں محبت کے سوا اور کچھ نہیں ہے۔ مثنوی "دریائے عشق" کے شروع میں بھی کچھ اسی قسم کے خیالات کے شعر ملتے ہیں۔ جس طرح مولانا روم نے مثنوی کے آغاز میں عشق کے حکیمانہ پہلو پر روشنی ڈالی ہے، میر نے بھی اپنی مثنویوں میں اس قسم کا انداز اختیار کیا ہے۔
محبت نے ظلمت سے کاڑھا ہے نور
نہ ہوتی محبت، نہ ہوتا ظہور
میر اثر مثنوی "خواب و خیال" میں وجودی تصور پر یوں تبصرہ کرتے ہیں۔
کس کو دیکھوں کروں میں کس پہ نگاہ
سب طرف جلوہ گر ہے وجہ اللہ
تصوف و معرفت کی عوامی گرفت کا اندازہ اس بات سے بھی ہوتا ہے کہ میر جعفر زٹلی کے کلام میں تمام تر خرافات کے باوجود پند و نصائح اور اخلاق کی باتیں نظر آتی ہیں۔
کائنات اور حیات پر غور و خوض کی مثالیں یوں تو اس دور کے تقریباََ سبھی صوفی شاعروں کے کلام میں کم و بیش موجود ہیں لیکن اس لحاظ سے خواجہ میر درد کو بنیادی حیثیت حاصل ہے۔ اصل میں تصوف اور فلسفہ کے کئی ایک مباحث مشترکہ ہیں۔ فلسفیانہ مباحث میں کائنات اور حیات دو اہم موضوعات ہیں۔ ایک صوفی بھی اپنی ساری جدوجہد کائنات اور حیات کے اسرارِ سر بستہ کو سمجھنے میں صرف کرتا ہے۔ فلسفہ جن مسائل کو عقل کے ذریعے حل کرتا ہے، صوفی ان کی حد تک وجدان کے سہارے پہنچنا چاہتا ہے۔ اپنی آخری منزل پر پہنچ کر دونوں ایک معلوم ہوتے ہیں اور جس نے کہنہ حقیقت کو مکاشفات و مجاہدات اور جذبہ و وجدان کے ذریعہ پا کر اپنے احساسات کو شعر بنایا ہو گا وہ صوفی شاعر کہلائے گا۔
دہلوی شاعروں کے کلام میں کائنات، حیات اور انسان سے متعلق فکر کی جتنی مثالیں نظر آتی ہیں، اُن پر تصوف کا پرتو پڑا ہوا ہے۔ اس کے لیے عارفانہ کلام کی اصطلاح زیادہ موزوں ہے۔ خدا کے وجودی تصور، کائنات کی موہومی، خیر و شر میں تمیز، جبر و قدر کے مسئلے، قدر و قسمت، بندہ و خدا کے تعلق جیسے موضوعات پر اس دور کے چھوٹے بڑے تقریباََ سبھی شاعروں نے توجہ کی ہے۔ لیکن خواجہ میر درد، شاہ حاتم اور میر محمدی بیدار کے کلام میں ان کی کثرت ہے اور ان میں بھی خواجہ میر درد کو اہم حیثیت حاصل ہے۔ خواجہ میر درد محض نظریاتی نہیں بلکہ عملی صوفی بھی تھے اور انہوں نے جن مسائل کی معرفت حاصل کی ہے، اُن پر اپنی مشہور کتاب 'علم الکتاب' میں روشنی بھی ڈالی ہے۔ فلسفی پہلے اشیاء کی حقیقت کا ادراک عقل سے کرتا ہے اور پھر اپنے نتائج کو ہمارے سامنے لاتا ہے، صوفی اس کے برعکس پہلے چیزوں کو وجدان اور کشف کے ذریعے پاتا یا دیکھتا ہےاور پھر دوسروں کو سمجھانے کے لیے دلیل اور عقل کا سہارا ڈھونڈتا ہے۔ درد کی شاعری انہی دیکھی ہوئی چیزوں کے شاعرانہ ابلاغ کا مجموعہ ہے۔ وہ خود کہتے ہیں،
پھولے گا اس زبان میں بھی گلزارِ معرفت
یاں میں زمینِ شعر میں یہ تخم بو گیا
تصوف سے متاثر ہو کر اس زمانے کے شعراء کے ہاں مابعدالطبیعیاتی مسائل کی طرف رجحان پایا جاتا ہے۔ خدا کے وجودی تصور کے تذکرے سے اس دور کی شاعری بھری پڑی ہے۔ دنیا کی ہر شے جمالِ دوست کا آئینہ ہے۔