ظہور احمد سولنگی
محفلین
اعجاز مہر
بی بی سی اردو ڈاٹ کام، اسلام آباد
پاکستان پیپلز پارٹی کے شریک چئرمین اور صدرِ پاکستان آصف علی زرداری کی جانب سے صوبہ پنجاب میں گورنر راج نافذ کرنے کی ایک بہت بڑی وجہ مسلم لیگ (ن) کی متحدہ قومی موومنٹ اور مسلم لیگ (ق) سے اچانک پیدا ہونے والی قربت بتائی جاتی ہے۔
متحدہ قومی موومنٹ سے ایک دہائی تک سیاسی دشمنی کے بعد میاں شہباز شریف کی ایک ہفتے سے بھی کم عرصہ میں دو بار گورنر سندھ ڈاکٹر عشرت العباد سے ملاقاتیں اور مسلم لیگ (ن) کے سخت ترین سیاسی مخالف چوہدری شجاعت حسین اور پرویز الہیٰ سے ان کی ملاقاتوں نے پیپلز پارٹی کی قیادت کو خوفزدہ کر دیا اور اسے اپنی سیاسی بقا کے لیے یہ انتہائی قدم اٹھانے پر مجبور کیا۔
پیپلز پارٹی کے اعلیٰ ذرائع کا کہنا ہے کہ صدر آصف علی زرداری کو دورۂ چین کے دوران اپنے ایک با اعتماد انٹیلی جنس افسر سے یہ معلومات ملیں کہ میاں نواز شریف نے جہاں مسلم لیگ (ق) سے مل کر پنجاب میں اپنی حکومت مستحکم کرنے کا منصوبہ بنایا ہے وہاں اس نے ایم کیو ایم کے ساتھ مل کر مرکز میں بھی اپنی حکومت قائم کرنے کی خفیہ کوششیں بھی شروع کر دی ہیں۔
قومی اسمبلی میں مسلم لیگ (ن)، مسلم لیگ (ق) اور ایم کیو ایم کے اراکین کی مجموعی تعداد ایک سو ستر کے قریب بنتی ہے۔ جبکہ مرکز میں حکومت بنانے کے لیے ایک سو بہتر اراکین کی ضرورت ہے اور تینوں جماعتوں کے اکٹھے ہونے کے بعد فاٹا کے بارہ اراکین اور بعض دیگر آزاد اراکین کی ان کے لیے حمایت حاصل کرنا اور حکومت بنانا کوئی مشکل کام نہیں ہے۔
ایم کیو ایم کو مسلم لیگ نواز ایک فاشسٹ تنظیم اور فوجی آمر کی ہمنوا جماعت قرار دیتی رہی ہے لیکن میاں شہباز شریف نے سترہ فروری کو اچانک کراچی میں ایم کیو ایم کے گورنر ڈاکٹر عشرت العباد سے ملاقات کرکے سیاسی حلقوں میں ایک نئی بحث چھیڑ دی کہ آخر اچانک مسلم لیگ (ن) کی قیادت کو ایسی کیا مجبوری پیش آئی کہ وہ خود چل کر ایم کیو ایم کے پاس گئی؟
جب چوبیس فروری کی شام کو گورنر عشرت العباد نے لاہور آ کر میاں شہباز شریف سے ملاقات کی تو اس بارے میں مزید چہ مگوئیاں ہونا شروع ہوئیں کہ یہ کسی طوفان کا پیش خیمہ ثابت ہوسکتیں ہیں۔
ایسے میں بیس فروری کو چوہدری شجاعت حسین کی والدہ اور پرویز الہیٰ کی خوش دامن کے انتقال پر میاں نواز شریف اور میاں شہباز شریف کا چوہدری برادران سے تعزیت کے لیے جانا بھی پیپلز پارٹی کے قائدین کے لیے خطرے کی گھنٹی سے کم نہ تھا۔
پیپلز پارٹی کے ایک سرکردہ رہنما کا دعویٰ ہے کہ صدر آصف علی زرداری نے میاں شہباز شریف سے جب ڈیڑھ ماہ قبل ملاقات کی تھی تو انہیں مشورہ دیا تھا کہ وہ وکلا تحریک سے خود کو علیحدہ کرلیں۔ ان کے مطابق صدرِ پاکستان نے اس کے بدلے میں جذبہ خیر سگالی کے تحت پنجاب کا گورنر تبدیل کرنے اور حکومت کی جانب سے سپریم کورٹ میں میاں برادران کی نااہلی رکوانے کی کوشش کرنے کی یقین دہانی کروائی تھی۔
لیکن ان کے بقول جب مسلم لیگ (ن) کی قیادت نے پنجاب حکومت میں رہتے ہوئے وکلا کے لانگ مارچ کو سرکاری سرپرستی میں اسلام آباد بھیجنے کی تیاری شروع کردی اور اس کے ساتھ ساتھ مرکز میں بھی حکومت سازی کے لیے خفیہ کوششیں شروع کیں تو پھر پیپلز پارٹی کے پاس میاں برادران کی سپریم کورٹ میں حمایت نہ کرنے اور گورنر راج نافذ کرنے کے علاوہ کوئی فوری حل نہیں تھا۔
اطلاعات کے مطابق مسلم لیگ (ق) کے سربراہ چوہدری شجاعت حسین مسلم لیگ (ن) سے تعاون کے خواہاں ہیں جبکہ پرویز الہیٰ پیپلز پارٹی کے ساتھ اتحاد کو ترجیح دیتے ہیں۔ پرویز الہیٰ کا خیال ہے کہ وہ اگر مسلم لیگ (ن) کے ساتھ تعاون کرتے ہیں تو بطور ایک سیاسی جماعت کے صدر کی ان کی حیثیت آہستہ آہستہ ختم ہوجائے گی۔
شاید یہی وجہ ہے کہ چوہدری شجاعت کو پیشگی اطلاع دیے بنا پرویز الہیٰ اپنے صاحبزادے مونس الہیٰ کے ہمراہ صدر آصف علی زرداری سے خفیہ طور پر رابطے میں رہے اور جب میاں نواز شریف چوہدری شجاعت حسین سے ملے تو ان پر دباؤ میں اضافہ ہوا اور انہوں نے صدرِ مملکت کو آخری موقع دیا کہ اگر ان سے اتحاد کرنا ہے تو ’ابھی ورنہ کبھی نہیں‘۔
پیپلز پارٹی کے ذرائع کا کہنا ہے کہ ایم کیو ایم حکومت کا حصہ ہوتے ہوئے بھی ان سے اس لیے دلی طور پر خوش نہیں ہے کہ جس طرح وہ اپنی سیاسی حریف ایم کیو ایم حقیقی کی قیادت کے خلاف مزید مقدمات بنانے کی خواہاں ہے، پیپلز پارٹی اس میں ان کی مدد نہیں کر رہی اور صوبہ سندھ میں ایم کیو ایم کو مرضی کے مطابق تاحال وزارتیں بھی نہیں مل پائیں۔
واضح رہے کہ گزشتہ کئی برسوں سے ایم کیو ایم حقیقی کے جیل میں بند بیشتر سیاسی رہنماؤں کی اکثر مقدمات میں ضمانتیں ہوچکی ہیں اور اِکا دُکا مقدمات میں ضمانتوں کی درخواستیں مختلف عدالتوں میں زیر سماعت ہیں۔
بعض مبصرین کی رائے ہے کہ آصف علی زرداری نے بظاہر میاں نواز شریف کو اپنا بڑا بھائی تو قرار دیا لیکن ان کے قائم کردہ مقدمات میں نو سالہ قید، کراچی جیل میں انہیں مبینہ طور پر قتل کرانے کی کوشش اور زبان کاٹنے کی کوشش سمیت جو تشدد کیا تھا وہ اب تک اُسے بھلا نہیں پائے۔
پیپلز پارٹی کے پاس اب ایک ہی راستہ ہے کہ وہ مسلم لیگ (ق) کے ساتھ مل کر پنجاب میں حکومت بنائے اور مرکز میں بھی تعاون کرے۔ ایسے میں ان کی مانگ پنجاب کی وزارت اعلیٰ مونس الہیٰ کو دینا یا سینیٹ کا چئرمین چوہدری شجاعت حسین کو بنانے کی ہوگی۔
دونوں صورتوں میں پیپلز پارٹی کی مشکل یہ ہے کہ وہ پنجاب میں اپنا وزیر اعلیٰ بنا کر ایک ہی وقت میں چاروں صوبوں میں اپنی جماعت کی گرفت قائم کرنا چاہتی ہے۔ لیکن ایسے میں اگر وہ سینیٹ کی چیئرمین شپ چوہدری شجاعت حسین کو دیتی ہے تو آئین کے مطابق قائم مقام صدر سینیٹ کا چیئرمین بنتا ہے اور جب اسمبلی توڑنے کا اختیار صدر کے پاس ہو تو ایسے میں وہ چوہدری شجاعت پر کیسے اعتبار کر سکتی ہے؟ بہرحال اس بارے میں بارگین کے لیے دونوں کے آپشن کھلے ہیں اور کسی بھی بات پر مُک مُکا ہوسکتا ہے۔
مسلم لیگ (ق) کے پیپلز پارٹی سے اتحاد کی صورت میں ان کے کچھ لوگ انہیں چھوڑ کر مسلم لیگ (ن) میں شامل ہوسکتے ہیں لیکن پرویز الہیٰ کو ایک فائدہ یہ ہوگا کہ ان کی علیحدہ سیاسی شناخت برقرار رہے گی۔
جبکہ مسلم لیگ (ن) کے لیے انگریزی مقولے کے مطابق ’کرو یا مرو‘ والی صورتحال ہے اور وہ کسی بھی قیمت پر زرداری کے کھیل کی بازی پلٹنے کی کوشش کرے گی۔ اس صورت میں اس کے لیے وکلا کے نو مارچ کے مجوزہ لانگ مارچ اور سولہ مارچ کے دھرنے کو کامیاب بنانا ان کے لیے ایک بہت بڑا امتحان ہوگا۔ بظاہر لگتا ہے کہ ملک کے مستقبل کا سیاسی منظر مارچ کے وسط میں ہی واضح ہوگا اور یہ اندازہ لگانا اس وقت آسان ہوگا کہ اونٹ کس کروٹ بیٹھ رہا ہے۔
اصل ربط
بی بی سی اردو ڈاٹ کام، اسلام آباد
پاکستان پیپلز پارٹی کے شریک چئرمین اور صدرِ پاکستان آصف علی زرداری کی جانب سے صوبہ پنجاب میں گورنر راج نافذ کرنے کی ایک بہت بڑی وجہ مسلم لیگ (ن) کی متحدہ قومی موومنٹ اور مسلم لیگ (ق) سے اچانک پیدا ہونے والی قربت بتائی جاتی ہے۔
متحدہ قومی موومنٹ سے ایک دہائی تک سیاسی دشمنی کے بعد میاں شہباز شریف کی ایک ہفتے سے بھی کم عرصہ میں دو بار گورنر سندھ ڈاکٹر عشرت العباد سے ملاقاتیں اور مسلم لیگ (ن) کے سخت ترین سیاسی مخالف چوہدری شجاعت حسین اور پرویز الہیٰ سے ان کی ملاقاتوں نے پیپلز پارٹی کی قیادت کو خوفزدہ کر دیا اور اسے اپنی سیاسی بقا کے لیے یہ انتہائی قدم اٹھانے پر مجبور کیا۔
پیپلز پارٹی کے اعلیٰ ذرائع کا کہنا ہے کہ صدر آصف علی زرداری کو دورۂ چین کے دوران اپنے ایک با اعتماد انٹیلی جنس افسر سے یہ معلومات ملیں کہ میاں نواز شریف نے جہاں مسلم لیگ (ق) سے مل کر پنجاب میں اپنی حکومت مستحکم کرنے کا منصوبہ بنایا ہے وہاں اس نے ایم کیو ایم کے ساتھ مل کر مرکز میں بھی اپنی حکومت قائم کرنے کی خفیہ کوششیں بھی شروع کر دی ہیں۔
قومی اسمبلی میں مسلم لیگ (ن)، مسلم لیگ (ق) اور ایم کیو ایم کے اراکین کی مجموعی تعداد ایک سو ستر کے قریب بنتی ہے۔ جبکہ مرکز میں حکومت بنانے کے لیے ایک سو بہتر اراکین کی ضرورت ہے اور تینوں جماعتوں کے اکٹھے ہونے کے بعد فاٹا کے بارہ اراکین اور بعض دیگر آزاد اراکین کی ان کے لیے حمایت حاصل کرنا اور حکومت بنانا کوئی مشکل کام نہیں ہے۔
ایم کیو ایم کو مسلم لیگ نواز ایک فاشسٹ تنظیم اور فوجی آمر کی ہمنوا جماعت قرار دیتی رہی ہے لیکن میاں شہباز شریف نے سترہ فروری کو اچانک کراچی میں ایم کیو ایم کے گورنر ڈاکٹر عشرت العباد سے ملاقات کرکے سیاسی حلقوں میں ایک نئی بحث چھیڑ دی کہ آخر اچانک مسلم لیگ (ن) کی قیادت کو ایسی کیا مجبوری پیش آئی کہ وہ خود چل کر ایم کیو ایم کے پاس گئی؟
جب چوبیس فروری کی شام کو گورنر عشرت العباد نے لاہور آ کر میاں شہباز شریف سے ملاقات کی تو اس بارے میں مزید چہ مگوئیاں ہونا شروع ہوئیں کہ یہ کسی طوفان کا پیش خیمہ ثابت ہوسکتیں ہیں۔
ایسے میں بیس فروری کو چوہدری شجاعت حسین کی والدہ اور پرویز الہیٰ کی خوش دامن کے انتقال پر میاں نواز شریف اور میاں شہباز شریف کا چوہدری برادران سے تعزیت کے لیے جانا بھی پیپلز پارٹی کے قائدین کے لیے خطرے کی گھنٹی سے کم نہ تھا۔
پیپلز پارٹی کے ایک سرکردہ رہنما کا دعویٰ ہے کہ صدر آصف علی زرداری نے میاں شہباز شریف سے جب ڈیڑھ ماہ قبل ملاقات کی تھی تو انہیں مشورہ دیا تھا کہ وہ وکلا تحریک سے خود کو علیحدہ کرلیں۔ ان کے مطابق صدرِ پاکستان نے اس کے بدلے میں جذبہ خیر سگالی کے تحت پنجاب کا گورنر تبدیل کرنے اور حکومت کی جانب سے سپریم کورٹ میں میاں برادران کی نااہلی رکوانے کی کوشش کرنے کی یقین دہانی کروائی تھی۔
لیکن ان کے بقول جب مسلم لیگ (ن) کی قیادت نے پنجاب حکومت میں رہتے ہوئے وکلا کے لانگ مارچ کو سرکاری سرپرستی میں اسلام آباد بھیجنے کی تیاری شروع کردی اور اس کے ساتھ ساتھ مرکز میں بھی حکومت سازی کے لیے خفیہ کوششیں شروع کیں تو پھر پیپلز پارٹی کے پاس میاں برادران کی سپریم کورٹ میں حمایت نہ کرنے اور گورنر راج نافذ کرنے کے علاوہ کوئی فوری حل نہیں تھا۔
اطلاعات کے مطابق مسلم لیگ (ق) کے سربراہ چوہدری شجاعت حسین مسلم لیگ (ن) سے تعاون کے خواہاں ہیں جبکہ پرویز الہیٰ پیپلز پارٹی کے ساتھ اتحاد کو ترجیح دیتے ہیں۔ پرویز الہیٰ کا خیال ہے کہ وہ اگر مسلم لیگ (ن) کے ساتھ تعاون کرتے ہیں تو بطور ایک سیاسی جماعت کے صدر کی ان کی حیثیت آہستہ آہستہ ختم ہوجائے گی۔
شاید یہی وجہ ہے کہ چوہدری شجاعت کو پیشگی اطلاع دیے بنا پرویز الہیٰ اپنے صاحبزادے مونس الہیٰ کے ہمراہ صدر آصف علی زرداری سے خفیہ طور پر رابطے میں رہے اور جب میاں نواز شریف چوہدری شجاعت حسین سے ملے تو ان پر دباؤ میں اضافہ ہوا اور انہوں نے صدرِ مملکت کو آخری موقع دیا کہ اگر ان سے اتحاد کرنا ہے تو ’ابھی ورنہ کبھی نہیں‘۔
پیپلز پارٹی کے ذرائع کا کہنا ہے کہ ایم کیو ایم حکومت کا حصہ ہوتے ہوئے بھی ان سے اس لیے دلی طور پر خوش نہیں ہے کہ جس طرح وہ اپنی سیاسی حریف ایم کیو ایم حقیقی کی قیادت کے خلاف مزید مقدمات بنانے کی خواہاں ہے، پیپلز پارٹی اس میں ان کی مدد نہیں کر رہی اور صوبہ سندھ میں ایم کیو ایم کو مرضی کے مطابق تاحال وزارتیں بھی نہیں مل پائیں۔
واضح رہے کہ گزشتہ کئی برسوں سے ایم کیو ایم حقیقی کے جیل میں بند بیشتر سیاسی رہنماؤں کی اکثر مقدمات میں ضمانتیں ہوچکی ہیں اور اِکا دُکا مقدمات میں ضمانتوں کی درخواستیں مختلف عدالتوں میں زیر سماعت ہیں۔
بعض مبصرین کی رائے ہے کہ آصف علی زرداری نے بظاہر میاں نواز شریف کو اپنا بڑا بھائی تو قرار دیا لیکن ان کے قائم کردہ مقدمات میں نو سالہ قید، کراچی جیل میں انہیں مبینہ طور پر قتل کرانے کی کوشش اور زبان کاٹنے کی کوشش سمیت جو تشدد کیا تھا وہ اب تک اُسے بھلا نہیں پائے۔
پیپلز پارٹی کے پاس اب ایک ہی راستہ ہے کہ وہ مسلم لیگ (ق) کے ساتھ مل کر پنجاب میں حکومت بنائے اور مرکز میں بھی تعاون کرے۔ ایسے میں ان کی مانگ پنجاب کی وزارت اعلیٰ مونس الہیٰ کو دینا یا سینیٹ کا چئرمین چوہدری شجاعت حسین کو بنانے کی ہوگی۔
دونوں صورتوں میں پیپلز پارٹی کی مشکل یہ ہے کہ وہ پنجاب میں اپنا وزیر اعلیٰ بنا کر ایک ہی وقت میں چاروں صوبوں میں اپنی جماعت کی گرفت قائم کرنا چاہتی ہے۔ لیکن ایسے میں اگر وہ سینیٹ کی چیئرمین شپ چوہدری شجاعت حسین کو دیتی ہے تو آئین کے مطابق قائم مقام صدر سینیٹ کا چیئرمین بنتا ہے اور جب اسمبلی توڑنے کا اختیار صدر کے پاس ہو تو ایسے میں وہ چوہدری شجاعت پر کیسے اعتبار کر سکتی ہے؟ بہرحال اس بارے میں بارگین کے لیے دونوں کے آپشن کھلے ہیں اور کسی بھی بات پر مُک مُکا ہوسکتا ہے۔
مسلم لیگ (ق) کے پیپلز پارٹی سے اتحاد کی صورت میں ان کے کچھ لوگ انہیں چھوڑ کر مسلم لیگ (ن) میں شامل ہوسکتے ہیں لیکن پرویز الہیٰ کو ایک فائدہ یہ ہوگا کہ ان کی علیحدہ سیاسی شناخت برقرار رہے گی۔
جبکہ مسلم لیگ (ن) کے لیے انگریزی مقولے کے مطابق ’کرو یا مرو‘ والی صورتحال ہے اور وہ کسی بھی قیمت پر زرداری کے کھیل کی بازی پلٹنے کی کوشش کرے گی۔ اس صورت میں اس کے لیے وکلا کے نو مارچ کے مجوزہ لانگ مارچ اور سولہ مارچ کے دھرنے کو کامیاب بنانا ان کے لیے ایک بہت بڑا امتحان ہوگا۔ بظاہر لگتا ہے کہ ملک کے مستقبل کا سیاسی منظر مارچ کے وسط میں ہی واضح ہوگا اور یہ اندازہ لگانا اس وقت آسان ہوگا کہ اونٹ کس کروٹ بیٹھ رہا ہے۔
اصل ربط