سید زبیر
محفلین
ماں
ہم جگنو تھے ہم تتلی تھے
ہم رنگ برنگے پنچھی تھے
کچھ ماہ و سال کی جنت میں
ماں ہم دونوں ہی ساتھی تھے
میں چھوٹی سی اک بچی تھی
تیری انگلی تھام کے چلتی تھی
تو دور نظر سے ہوتی تھی
میں آنسو آنسو روتی تھی
اک خوابوں کا روشن بستہ
تو روز مجھے پہناتی تھی
جب ڈرتی تھی میں راتوں کو
تو اپنے ساتھ سلاتی تھی
"ماں " تو نے کتنے برسوں تک
اس پھول کو سینچا ہاتھوں سے
جیون کے گہرے بھیدوںکو
میں سمجھی تیری باتوں سے
میں تیرے ہاتھ کے تکیے پر
اب بھی رات کو سوتی ہوں
ماں ! میں چھوٹی سی اک بچی ہوں
تیری یاد میں اب بھی روتی ہوں
اقرا فرید