فرحان محمد خان
محفلین
1:وہ باتیں کب تک ُسنے جاؤ گے جو آج تمہیں فقط پسند ہیں وہ باتیں کب کہنے دو گے جو کل تمہارے کام بھی آئیں گی
2: دنیا میں صرف دو عقیدے پائے جاتے ہیں انسانیت اور انسانیت دشمن اور صرف دو قومیں رہتی ہیں انسان اور انسان دشمن
3:انسانیت ایک خاندان ہے نہ اس میں کوئی امتیاز ہے اور نہ تفریق جو تفریق پیدا کرتے ہیں وہ اس مقدس خاندان میں شامل نہیں
4:یقین جانو تمہارے حق میں سب سے مفید بات وہ ہے جس سے تمہاری سماعت میں زہر گُھل جائے
5:گزشتہ زمانہ لکھنے والوں کے ابہام کا زمانہ تھا اور یہ زمانہ پڑھنے والوں کے الہام کا زمانہ ہے
6 :لوگوں کا احتساب حکومتوں کے احتساب سے زیادہ درشت اور سخت گیر ہے اس احتساب کا ماحصل یہ ہے کہ خبر دار ہمارے حق میں زبان نہ کھولنا جو ہمیں گڑھے میں گرنے سے باز رکھے گا ہم اسے زمین میں گاڑ دیں گے
7:یہ اُکتائے ہوئے دلوں کے ترسائے ہوئے ولولوں کی زندگی ہے
8:انسانیت دشمن چاہے پاکستان کے رہنے والوں یا امریکا اور انگلستان کے وہ ہماری نفرت کے یکساں طور پر مستحق ہیں۔
9:برائی کو اس کے بہاؤ پہ روکنا بیکار ہے
10:لوگ تین قسم کے ہوتے ہیں کچھ ایسے جن سے محبت کی جاتی ہے کچھ وہ جنہیں برداشت کر لیا جاتا ہے اور باقی وہ ہیں جو یکسر ناقابلِ برداشت ہیں
11:برائی بےوقوفی سے پیدا ہوتی ہے
12:یہ لوگ بے وقوف ہیں وگرنہ بُرے ہی نہ ہوتے اور ہر بے وقوف آدمی اپنے آپ کو عقل مند اور ہوشیار سمجھتا ہے نہیں تو پھر اسے بے وقوف کون کہتا
13:آج ایک خاص بات جو بُری طرح کھٹکتی ہے وہ یہ ہے کہ بدی پہلے سے زیادہ منہ پھٹ ہو گئی ہے اور نیکی نے ہکلانا شروع کر دیا ہے
14:مقاماتِ ہدایت و ارشاد سے یہ فرمایا جاتا ہے کہ لوگوں کو اپنے دور میں نہیں بلکہ اپنے دور سے پہلے کے دور میں رہنا چاہیے
15:پورا سچ تو خیر بولا ہی کہاں گیا ہے یہ لوگ تو آدھے سچ کی بھی تاب نہیں رکھتے
16:کامل صداقت انسانوں کی دسترس سے ہمیشہ دور رہی ہے
17:بعض لوگوں کو اپنے مخالفوں کو کافر اور مرتد قرار دینے کی ایک عجیب شہوت پیدا ہو گئی ہے
18:عزیزو! اسلام ایک دین ہے اور اس کے کچھ بنیادی اُصول ہیں جو ان اُصول کو مانتا ہے وہ مسلمان ہے اور جو منکر ہے وہ یقیناََ غیر مسلم وہ اصول اصلاََ تین ہیں عقیدہِ توحید عقیدہِ رسالت اور عقیدہِ قیامت
19:ایک انسان دوسرے انسان سے مایوس ہو سکتا ہے لیکن انسانیت سے مایوس نہیں ہونا چاہیئے اس لیے کے انسان صرف زمانے میں سانس لیتے ہیں اور انسانیت زمانوں میں زندہ ہے
20:ہم جس سماج میں رہتے ہیں خود غرضی اور خود مرادی اس کا دستور اور حق تلفی اس کا رواج ہے
21 : اس سماج میں جو بُرا آدمی نہیں وہ بےوقوف ہے
2: دنیا میں صرف دو عقیدے پائے جاتے ہیں انسانیت اور انسانیت دشمن اور صرف دو قومیں رہتی ہیں انسان اور انسان دشمن
3:انسانیت ایک خاندان ہے نہ اس میں کوئی امتیاز ہے اور نہ تفریق جو تفریق پیدا کرتے ہیں وہ اس مقدس خاندان میں شامل نہیں
4:یقین جانو تمہارے حق میں سب سے مفید بات وہ ہے جس سے تمہاری سماعت میں زہر گُھل جائے
5:گزشتہ زمانہ لکھنے والوں کے ابہام کا زمانہ تھا اور یہ زمانہ پڑھنے والوں کے الہام کا زمانہ ہے
6 :لوگوں کا احتساب حکومتوں کے احتساب سے زیادہ درشت اور سخت گیر ہے اس احتساب کا ماحصل یہ ہے کہ خبر دار ہمارے حق میں زبان نہ کھولنا جو ہمیں گڑھے میں گرنے سے باز رکھے گا ہم اسے زمین میں گاڑ دیں گے
7:یہ اُکتائے ہوئے دلوں کے ترسائے ہوئے ولولوں کی زندگی ہے
8:انسانیت دشمن چاہے پاکستان کے رہنے والوں یا امریکا اور انگلستان کے وہ ہماری نفرت کے یکساں طور پر مستحق ہیں۔
9:برائی کو اس کے بہاؤ پہ روکنا بیکار ہے
10:لوگ تین قسم کے ہوتے ہیں کچھ ایسے جن سے محبت کی جاتی ہے کچھ وہ جنہیں برداشت کر لیا جاتا ہے اور باقی وہ ہیں جو یکسر ناقابلِ برداشت ہیں
11:برائی بےوقوفی سے پیدا ہوتی ہے
12:یہ لوگ بے وقوف ہیں وگرنہ بُرے ہی نہ ہوتے اور ہر بے وقوف آدمی اپنے آپ کو عقل مند اور ہوشیار سمجھتا ہے نہیں تو پھر اسے بے وقوف کون کہتا
13:آج ایک خاص بات جو بُری طرح کھٹکتی ہے وہ یہ ہے کہ بدی پہلے سے زیادہ منہ پھٹ ہو گئی ہے اور نیکی نے ہکلانا شروع کر دیا ہے
14:مقاماتِ ہدایت و ارشاد سے یہ فرمایا جاتا ہے کہ لوگوں کو اپنے دور میں نہیں بلکہ اپنے دور سے پہلے کے دور میں رہنا چاہیے
15:پورا سچ تو خیر بولا ہی کہاں گیا ہے یہ لوگ تو آدھے سچ کی بھی تاب نہیں رکھتے
16:کامل صداقت انسانوں کی دسترس سے ہمیشہ دور رہی ہے
17:بعض لوگوں کو اپنے مخالفوں کو کافر اور مرتد قرار دینے کی ایک عجیب شہوت پیدا ہو گئی ہے
18:عزیزو! اسلام ایک دین ہے اور اس کے کچھ بنیادی اُصول ہیں جو ان اُصول کو مانتا ہے وہ مسلمان ہے اور جو منکر ہے وہ یقیناََ غیر مسلم وہ اصول اصلاََ تین ہیں عقیدہِ توحید عقیدہِ رسالت اور عقیدہِ قیامت
19:ایک انسان دوسرے انسان سے مایوس ہو سکتا ہے لیکن انسانیت سے مایوس نہیں ہونا چاہیئے اس لیے کے انسان صرف زمانے میں سانس لیتے ہیں اور انسانیت زمانوں میں زندہ ہے
20:ہم جس سماج میں رہتے ہیں خود غرضی اور خود مرادی اس کا دستور اور حق تلفی اس کا رواج ہے
21 : اس سماج میں جو بُرا آدمی نہیں وہ بےوقوف ہے
آخری تدوین: