ظہیراحمدظہیر
لائبریرین
نہایت افسوس کے ساتھ اطلاع دی جاتی ہے کہ طویل عرصے تک ایک دنیا کو اپنی حکمت و دانائی سے مستفید کرنے کے بعد کل رات مِس زرّیں مقتضائے عمری سے ریٹائر ہوگئیں۔ وہ پسماندگان میں ساڑھے تین ہزار اقوال کو در بدر چھوڑ کر راہیِ ملکِ حشم ہوئیں یعنی امریکا انتقال کر گئی ہیں۔ پچھلے کئی برسوں سے قریبی حلقوں میں ان کی ذہنی صحت کے بارے میں مختلف قسم کی افواہیں گردش میں تھیں۔ لیکن انتقال سے پہلے انہوں نے ان خبروں کی کئی بار پُرزور تردید فرمائی اور بڑبڑاتے ہوئے کہا کہ انہیں فاتر العقل کہنے والے پہلے خود اپنے گردے کا علاج کروائیں۔ نیز یہ بھی فرمایا کہ اگر وہ سٹھیا گئی ہوتیں تو ہفتے کے آٹھوں دن محکمۂ تعلیم میں بلاناغہ اتنا عرصہ کس طرح کام کر سکتی تھیں۔
مس زرّیں نے عام دستور کے عین مطابق اپنے طویل دورِ حکمت میں اپنے جانشین کے انتخاب اور تربیت کی ذرہ بھر بھی کوشش نہیں کی کہ وہ تختِ حکمت کو اپنی ابدی جاگیر سمجھتی تھیں۔ لیکن عین ریٹائرمنٹ کے وقت جب انہیں اپنی کرسی کے خالی ہو جانے کا احساس ہوا تو انہوں نے دائیں بائیں نظر دوڑائی۔ ان کی خوش قسمتی اور ہم سب کی بدقسمتی کہ اُن کی اکلوتی صاحبزادی مِس سیمیں اُس وقت قریب ہی بیٹھی نازنین ڈائجسٹ میں شکیلہ کا غرارہ نامی دردناک افسانہ پڑھ رہی تھیں۔ مِس سیمیں کی چندھیائی ہوئی آنکھوں سے ٹپاٹپ آنسو گرتے دیکھ کر مِس زرّیں سے نہ رہا گیا۔ انہوں نے مِس سیمیں کو ناصحانہ نظروں سے دیکھا اور فوراً ہی ان کی طرف ایک قولِ زرّیں لڑھکاتے ہوئے فرمایا۔ "پیاز کاٹتے وقت آنکھ سے گرنے والے آنسو کا ایک قطرہ ٹائی ٹینِک فلم دیکھ کر دو گھنٹے لگاتار رونے سے ہزار گنا بہتر ہے۔" لیکن مِس سیمیں پر اس ترچھے وار کا ذرا بھی اثر نہ ہوا اور یہ قولِ زرّیں بھی آنسوؤں کی طرح پھسلتا ہوا ان کی گود میں رکھے ٹشو پیپر کے ڈبے پر جاگرا۔ اپنے تین ہزار چار سو پچانویں قول کا یہ حشر دیکھ کر مس زرّیں فوراً اقوال کی زبان سے افعال کی زبان پر اتر آئیں۔ مس سیمیں کے ہاتھوں سے ڈائجسٹ چھین کر ان کی ناک کے آگے انگلی نچاتے ہوئے ایک مختصر سا تیز دھار قول داغا اور فرمایا ۔ "بیکار مباش کچھ کیا کر!" اور پھر مزید فرمایا ۔"تم آخر کب تک ربیہ جٹ کے افسانے اور ناول پڑھ پڑھ کر روتی رہو گی؟ کب سے کہہ رہی ہوں کہ اب شادی کرلو۔ خود رونے سے کسی کو رُلانا بہتر!" یہ سن کر مس سیمیں سراسیمہ ہوگئیں۔ انہیں ڈائجسٹ کا اس وقت ہاتھوں سے نکل جانا اچھا نہیں لگا۔ افسانے میں اس وقت انتہائی رنج و غم کا منظر چل رہا تھا۔شکیلہ کا شوہر اپنی اکلوتی اور چہیتی بیگم کی بے وقت جدائی کے غم میں دیوانہ ہو گیا تھا اور مرحومہ کا ریشمی غرارہ پہن کر من تو شدم ، تو من شدی والی قوالی پر جگہ جگہ بھنگڑا نما دھمال کرتا پھر رہا تھا۔ ریشمی غرارہ مستانہ وار رقص کی شدت سے تار تار ہوا جاتا تھا۔ تماشائی اس کے حال پر ٹھٹھے لگارہے تھے لیکن مس سیمیں کا نازک سا دل وفا اور محبت کے اس بے مثال مظاہرے پر اندر ہی اندر کسی میٹھی آگ میں جل رہا تھا۔ شادی کے بارے میں امّاں کا قول اس وقت انہیں کسی پتھر کی طرح لگا اور وہ بے ساختہ کہہ اٹھیں۔ " امّاں ، میں نہیں چاہتی کہ میرے بعد کوئی محبت کرنے والا میرے غرارے میں دھمال ڈالتا پھرے۔" مس سیمیں کے دہنِ صدف مثال سے اس آبدار موتی کا نکلنا تھا کہ مِس زرّیں وہیں کی وہیں ساکت ہوگئیں۔ اس قدر تہہ دار عمیق خیال اور اس کے حقیقت کشا بلیغ اظہار نے انہیں بہت کچھ سوچنے پر مجبور کردیا۔ وہیں کھڑے کھڑے انہوں نے فیصلہ کرلیا کہ ان کے منصب کا حقیقی جانشیں اگر کوئی ہوسکتا ہے تو وہ مس سیمیں ہی ہیں۔ چنانچہ انہوں نے مس سیمیں کو گلے لگاتے ہوئے نہ صرف نازنین ڈائجسٹ واپس کردیا بلکہ انہیں اقوال سازی کے منصب پر فائز کرنے کی خوشخبری بھی سنائی۔
اپنا تختِ حکمت مس سیمیں کو سونپنے کے بعد مس زرّیں کو خیال آیا کہ لگے ہاتھوں مخالفوں اور معترضوں کا منہ بند کرنے کے لیے مس سیمیں کی قابلیت اور اہلیت کا امتحان بھی لے لیا جائے تاکہ سند رہے اور بوقتِ ضرورت معاملات کو پیچیدہ بنانے کے کام آئے۔ چنانچہ انہوں نے مس سیمیں سے پوچھا۔ " ذرا یہ تو بتاؤ کہ آخر کس بات پر تمہیں اتنا رونا آرہا تھا؟" جواب میں مس سیمیں نے چند جملوں میں افسانے کا لبِ لباب بشمول شکیلہ کی مرگِ ناگہاں اور غرارہ پوش شوہر کا رقصِ گاہ بہ گاہ بیان کیا۔ یہ سن کر مس زرّیں نے اپنے ہونٹوں پر آتے ہوئے ایک بے ساختہ قول کا گلا بالجبر گھونٹ کر صبر کا ایک گھونٹ پیا اور کہا۔ " اس واقعے سے تم نے جو سبق سیکھا اسے مختصر الفاظ میں بصورتِ قول بیان کرو"۔ مس سیمیں کہ ماں کی طرف سے ملنے والی بینائی اور دانائی کے تحت بچپن ہی سے ہر چھوٹے بڑے واقعے سے سبق نکالتی آئی تھیں فوراً گویا ہوئیں۔" سوتی شلوار کی لچک ریشمی غرارے کی چمک سے لاکھ درجہ دیرپا ہوتی ہے۔" یہ سن کر مس زرّیں سناٹے میں آگئیں لیکن اس سے پہلے کہ وہ کوئی جوابی قول داغتیں مس سیمیں نے ربیہ جٹ کے اس دردناک افسانے سے ایک اور سبق بونس کے طور پر نکالا اور اسے قول میں ڈھالتے ہوئے امّاں کی طرف روانہ کیا۔ "سچی محبت کرنے والے بھنگڑے اور دھمال میں فرق نہیں کرتے۔" بس یہ سننا تھا کہ مس زرّیں اُسی لمحے وہیں کھڑے کھڑے ریٹائر ہوگئیں۔ اپنی ڈائری اور قلم مس سیمیں کے حوالے کرتے ہوئے انہوں نے اطمینان کا ایک گہرا سانس لیا اور اپنا آخری قولِ زرّیں جاری کیا ۔" قابلیت اور اہلیت موروثی ہوتی ہیں۔ حاکم کی اولاد حاکم اور عوام کی اولاد مزید عوام!"
تختِ حکمت سنبھالنے کے فوراً بعد مس سیمیں نے دفتر میں موجود امّاں کی بوستان و گلستانِ سعدی قسم کی فرسودہ کتب کو ربیہ جٹ کے ناولوں اور ابنِ خفی کی کہانیوں سے تبدیل کرنے کا حکم دیا اور اس کے بعد چائے کے کپ میں مسلسل چمچہ ہلاتے ہوئے اقوالِ سیمیں کے سلسلے کا پہلا قول اپنے چپراسی کے سامنے یوں جاری کیا۔ "چائے کے کپ میں خواہ کتنا ہی چمچہ ہلایا جائے ، چائے اس وقت تک میٹھی نہیں ہوتی جب تک کہ اُس میں شکر نہ ڈالی جائے۔" تجربہ کار چپراسی کی طرف سے اس قول کی پُرزور تصدیق کے بعد مس سیمیں نے اپنے اس پہلے سرکاری قول کی باقاعدہ اشاعت کی منظوری دی اور پھر آشوبِ نکاح نامی ناول کے مطالعے میں مصروف ہوگئیں۔ آخری خبریں آنے تک وہ اس ناول سے ایک درجن سبق نکال چکی ہیں لیکن مزید سبق ہیں کہ نکلتے ہی چلے جارہے ہیں۔ چنانچہ انہوں نے حکم دیا ہے کہ اس سبق آموز مطالعہ کے دوران بالکل مخل نہ ہوا جائے۔ نیز یہ کہ آئندہ احکامات تک اقوال سازی کا کام قارئین کے سپرد کیا جاتا ہے تاکہ وہ دیکھ سکیں آیا امّی حضور کے اتنے سارے اقوال پڑھنے کے بعد قارئین کسی قابل بھی ہوئے ہیں یا ابھی تک نرے قارئین ہی ہیں۔
مس زرّیں نے عام دستور کے عین مطابق اپنے طویل دورِ حکمت میں اپنے جانشین کے انتخاب اور تربیت کی ذرہ بھر بھی کوشش نہیں کی کہ وہ تختِ حکمت کو اپنی ابدی جاگیر سمجھتی تھیں۔ لیکن عین ریٹائرمنٹ کے وقت جب انہیں اپنی کرسی کے خالی ہو جانے کا احساس ہوا تو انہوں نے دائیں بائیں نظر دوڑائی۔ ان کی خوش قسمتی اور ہم سب کی بدقسمتی کہ اُن کی اکلوتی صاحبزادی مِس سیمیں اُس وقت قریب ہی بیٹھی نازنین ڈائجسٹ میں شکیلہ کا غرارہ نامی دردناک افسانہ پڑھ رہی تھیں۔ مِس سیمیں کی چندھیائی ہوئی آنکھوں سے ٹپاٹپ آنسو گرتے دیکھ کر مِس زرّیں سے نہ رہا گیا۔ انہوں نے مِس سیمیں کو ناصحانہ نظروں سے دیکھا اور فوراً ہی ان کی طرف ایک قولِ زرّیں لڑھکاتے ہوئے فرمایا۔ "پیاز کاٹتے وقت آنکھ سے گرنے والے آنسو کا ایک قطرہ ٹائی ٹینِک فلم دیکھ کر دو گھنٹے لگاتار رونے سے ہزار گنا بہتر ہے۔" لیکن مِس سیمیں پر اس ترچھے وار کا ذرا بھی اثر نہ ہوا اور یہ قولِ زرّیں بھی آنسوؤں کی طرح پھسلتا ہوا ان کی گود میں رکھے ٹشو پیپر کے ڈبے پر جاگرا۔ اپنے تین ہزار چار سو پچانویں قول کا یہ حشر دیکھ کر مس زرّیں فوراً اقوال کی زبان سے افعال کی زبان پر اتر آئیں۔ مس سیمیں کے ہاتھوں سے ڈائجسٹ چھین کر ان کی ناک کے آگے انگلی نچاتے ہوئے ایک مختصر سا تیز دھار قول داغا اور فرمایا ۔ "بیکار مباش کچھ کیا کر!" اور پھر مزید فرمایا ۔"تم آخر کب تک ربیہ جٹ کے افسانے اور ناول پڑھ پڑھ کر روتی رہو گی؟ کب سے کہہ رہی ہوں کہ اب شادی کرلو۔ خود رونے سے کسی کو رُلانا بہتر!" یہ سن کر مس سیمیں سراسیمہ ہوگئیں۔ انہیں ڈائجسٹ کا اس وقت ہاتھوں سے نکل جانا اچھا نہیں لگا۔ افسانے میں اس وقت انتہائی رنج و غم کا منظر چل رہا تھا۔شکیلہ کا شوہر اپنی اکلوتی اور چہیتی بیگم کی بے وقت جدائی کے غم میں دیوانہ ہو گیا تھا اور مرحومہ کا ریشمی غرارہ پہن کر من تو شدم ، تو من شدی والی قوالی پر جگہ جگہ بھنگڑا نما دھمال کرتا پھر رہا تھا۔ ریشمی غرارہ مستانہ وار رقص کی شدت سے تار تار ہوا جاتا تھا۔ تماشائی اس کے حال پر ٹھٹھے لگارہے تھے لیکن مس سیمیں کا نازک سا دل وفا اور محبت کے اس بے مثال مظاہرے پر اندر ہی اندر کسی میٹھی آگ میں جل رہا تھا۔ شادی کے بارے میں امّاں کا قول اس وقت انہیں کسی پتھر کی طرح لگا اور وہ بے ساختہ کہہ اٹھیں۔ " امّاں ، میں نہیں چاہتی کہ میرے بعد کوئی محبت کرنے والا میرے غرارے میں دھمال ڈالتا پھرے۔" مس سیمیں کے دہنِ صدف مثال سے اس آبدار موتی کا نکلنا تھا کہ مِس زرّیں وہیں کی وہیں ساکت ہوگئیں۔ اس قدر تہہ دار عمیق خیال اور اس کے حقیقت کشا بلیغ اظہار نے انہیں بہت کچھ سوچنے پر مجبور کردیا۔ وہیں کھڑے کھڑے انہوں نے فیصلہ کرلیا کہ ان کے منصب کا حقیقی جانشیں اگر کوئی ہوسکتا ہے تو وہ مس سیمیں ہی ہیں۔ چنانچہ انہوں نے مس سیمیں کو گلے لگاتے ہوئے نہ صرف نازنین ڈائجسٹ واپس کردیا بلکہ انہیں اقوال سازی کے منصب پر فائز کرنے کی خوشخبری بھی سنائی۔
اپنا تختِ حکمت مس سیمیں کو سونپنے کے بعد مس زرّیں کو خیال آیا کہ لگے ہاتھوں مخالفوں اور معترضوں کا منہ بند کرنے کے لیے مس سیمیں کی قابلیت اور اہلیت کا امتحان بھی لے لیا جائے تاکہ سند رہے اور بوقتِ ضرورت معاملات کو پیچیدہ بنانے کے کام آئے۔ چنانچہ انہوں نے مس سیمیں سے پوچھا۔ " ذرا یہ تو بتاؤ کہ آخر کس بات پر تمہیں اتنا رونا آرہا تھا؟" جواب میں مس سیمیں نے چند جملوں میں افسانے کا لبِ لباب بشمول شکیلہ کی مرگِ ناگہاں اور غرارہ پوش شوہر کا رقصِ گاہ بہ گاہ بیان کیا۔ یہ سن کر مس زرّیں نے اپنے ہونٹوں پر آتے ہوئے ایک بے ساختہ قول کا گلا بالجبر گھونٹ کر صبر کا ایک گھونٹ پیا اور کہا۔ " اس واقعے سے تم نے جو سبق سیکھا اسے مختصر الفاظ میں بصورتِ قول بیان کرو"۔ مس سیمیں کہ ماں کی طرف سے ملنے والی بینائی اور دانائی کے تحت بچپن ہی سے ہر چھوٹے بڑے واقعے سے سبق نکالتی آئی تھیں فوراً گویا ہوئیں۔" سوتی شلوار کی لچک ریشمی غرارے کی چمک سے لاکھ درجہ دیرپا ہوتی ہے۔" یہ سن کر مس زرّیں سناٹے میں آگئیں لیکن اس سے پہلے کہ وہ کوئی جوابی قول داغتیں مس سیمیں نے ربیہ جٹ کے اس دردناک افسانے سے ایک اور سبق بونس کے طور پر نکالا اور اسے قول میں ڈھالتے ہوئے امّاں کی طرف روانہ کیا۔ "سچی محبت کرنے والے بھنگڑے اور دھمال میں فرق نہیں کرتے۔" بس یہ سننا تھا کہ مس زرّیں اُسی لمحے وہیں کھڑے کھڑے ریٹائر ہوگئیں۔ اپنی ڈائری اور قلم مس سیمیں کے حوالے کرتے ہوئے انہوں نے اطمینان کا ایک گہرا سانس لیا اور اپنا آخری قولِ زرّیں جاری کیا ۔" قابلیت اور اہلیت موروثی ہوتی ہیں۔ حاکم کی اولاد حاکم اور عوام کی اولاد مزید عوام!"
تختِ حکمت سنبھالنے کے فوراً بعد مس سیمیں نے دفتر میں موجود امّاں کی بوستان و گلستانِ سعدی قسم کی فرسودہ کتب کو ربیہ جٹ کے ناولوں اور ابنِ خفی کی کہانیوں سے تبدیل کرنے کا حکم دیا اور اس کے بعد چائے کے کپ میں مسلسل چمچہ ہلاتے ہوئے اقوالِ سیمیں کے سلسلے کا پہلا قول اپنے چپراسی کے سامنے یوں جاری کیا۔ "چائے کے کپ میں خواہ کتنا ہی چمچہ ہلایا جائے ، چائے اس وقت تک میٹھی نہیں ہوتی جب تک کہ اُس میں شکر نہ ڈالی جائے۔" تجربہ کار چپراسی کی طرف سے اس قول کی پُرزور تصدیق کے بعد مس سیمیں نے اپنے اس پہلے سرکاری قول کی باقاعدہ اشاعت کی منظوری دی اور پھر آشوبِ نکاح نامی ناول کے مطالعے میں مصروف ہوگئیں۔ آخری خبریں آنے تک وہ اس ناول سے ایک درجن سبق نکال چکی ہیں لیکن مزید سبق ہیں کہ نکلتے ہی چلے جارہے ہیں۔ چنانچہ انہوں نے حکم دیا ہے کہ اس سبق آموز مطالعہ کے دوران بالکل مخل نہ ہوا جائے۔ نیز یہ کہ آئندہ احکامات تک اقوال سازی کا کام قارئین کے سپرد کیا جاتا ہے تاکہ وہ دیکھ سکیں آیا امّی حضور کے اتنے سارے اقوال پڑھنے کے بعد قارئین کسی قابل بھی ہوئے ہیں یا ابھی تک نرے قارئین ہی ہیں۔
آخری تدوین: