طالوت
محفلین
اقوام متحدہ:فلسطین کیلیے غیر رکن مبصر ریاست کا درجہ
اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کی جانب سے فلسطین کو غیر رکن مبصر ریاست کا درجہ دینے کے بعد فلسطین میں اور فلسطین سے باہر آباد فلسطینیوں نے بھر پور جوش و خروش سے جشن منایا ہے۔
جمعرات کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے فلسطین کو غیر رکن مبصر ریاست کا درجہ دے دیا تھا جس کی امریکہ اور اسرائیل نے مخالفت کی ہے۔
اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں ہونے والی ووٹنگ اور اس کے بعد فلسطینی انتظامیہ کے صدر محمود عباس کا خطاب نیویارک سے براہ راست نشر کیا گیا جسے فلسطینی شہروں رملہ، بیت اللحم، غزہ اور دوسری کئی شہروں میں بڑی سکرینز پر فلسھینیوں نے دیکھا۔
ووٹنگ کے نتائج کے اعلان کے ساتھ ہی بڑی تعداد میں فلسطینی اپنا قومی پرچم اٹھائےسڑکوں پر نکل آئے۔
غزہ اور رملہ میں فلسطھینیوں نے گاڑیوں کے ہارن بجا کر خوشی کا اظہار کیا اور کئی جگہوں پر گاڑیوں کی چھتوں اور سڑکوں پر نوجوانوں نے رقص کیے اور اپنی خوشی کا اظہار کیا۔
جمعرات کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں فلسطینی اتھارٹی کا درجہ بڑھائے جانے کی تجویز پر ہونی والی ووٹنگ میں ایک سو ترانوے ممالک میں سے ایک سو اڑتیس ممالک نے قرارداد کی حمایت میں ووٹ دیا۔
اسرائيل، امریکہ اور کینیڈا سمیت نو ممالک نے اس تجویز کے خلاف ووٹ ڈالا جبکہ اکتالیس ممالک نے اپنے ووٹ کا استعمال نہیں کیا۔
ووٹنگ سے پہلے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں خطاب میں فلسطینی رہنما محمود عباس نے کہا، ’آج اقوام متحدہ جنرل اسمبلی سے اپیل کی جا رہی ہے کہ وہ فلسطین کی پیدائش کا سرٹیفکیٹ جاری کرے۔‘
انہوں نے مزید کہا ’پیسنٹھ سال پہلے آج ہی کے دن اقوامِ متحدہ جنرل اسمبلی نے قرارداد 181 کو منظوری دے کر فلسطین کو دو حصوں میں تقسیم کیا تھا اور اسرائيل کو پیدائش کا سرٹیفکیٹ دے دیا تھا۔‘
اقوام متحدہ میں قرارداد منظور ہونے کے بعد غزہ اور مغربی کنارے پر جشن کا ماحول تھا۔ لوگوں نے سڑکوں پر نکل کر نغمے گائے، آتش بازی کی اور گاڑیوں کے ہارن بجاكر اپنی خوشی کا اظہار کیا۔
تجویز کی مخالفت کرتے ہوئے اسرائيل کے سفیر نے ووٹنگ سے پہلے خطاب کرتے ہوئے کہا، ’اس تجویز سے امن کو کوئی فروغ نہیں ملے گا بلکہ اس سے امن کو دھچكا ہی لگے گا۔ اسرائيلي لوگوں کا اسرائيل سے چار ہزار سال پرانا تعلق اقوام متحدہ کے کسی فیصلے سے ٹوٹنے والا نہیں ہے۔‘
امریکہ کا کہنا ہے کہ فلسطینیوں کو اسرائيل کے ساتھ براہ راست بات چیت کرنی چاہیے اور اس طرح اقوام متحدہ میں یکطرفہ اقدامات کے ذریعے ریاست کا درجہ حاصل نہیں کرنا چاہیے۔
برطانیہ اور جرمنی نے اس تجویز کے لیے ووٹنگ میں حصہ نہیں لیا، لیکن دونوں ملک فلسطینیوں کی اس تجویز کے لائے جانے سے خوش نہیں تھے لیکن اقوام متحدہ میں اس تجویز کو بھارت سمیت فرانس، روس، چین اور جنوبی افریقہ جیسے کئی ممالک کی حمایت حاصل تھی۔
گزشتہ سال فلسطینی اتھارٹی نے مکمل رکنیت حاصل کرنے کے لئے اقوام متحدہ میں درخواست دی تھی لیکن سلامتی کونسل میں امریکہ نے اس تجویز کو ویٹو کر دیا تھا اور فلسطینیوں کی کوشش ناکام ہو گئی تھی۔
اس سے پہلے اقوامِ متحدہ کے سیکرٹری جنرل بان گی مون نے رکن ممالک سے کہا کہ وہ فلسطینی انتظامیہ کی کامیابیوں کو تسلیم کریں۔
غیر رکن مبصر کی حیثیت حاصل کرنے کے بعد اب فلسطین کو اقوامِ متحدہ کے اداروں میں شمولیت حاصل ہو جائے گی جن میں بین الاقوامی عدالتِ انصاف بھی شامل ہے۔
فلسطینی چاہتے ہیں کہ مغربی کنارے، غزہ اور مشرقی بیت المقدس کے علاقوں کو فلسطینی ریاست کے طور پر تسلیم کیا جائے جن علاقوں پر اسرائیل نے سنہ انیس سو سڑسٹھ میں قبضہ کر لیا تھا۔ اس رائے شماری کے مخالفین کا موقف رہا ہے کہ فلسطینی ریاست کا فیصلہ صرف مذاکرات کے ذریعے ہونا چاہیے۔
اس سے قبل اسرائیلی وزیرِ اعظم بنیامن نتین یاہو نے کہا تھا کہ ’اقوامِ متحدہ میں ہونے والا فیصلہ، زمینی حقائق نہیں بدلے گا۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’اس سے فلسطینی ریاست کی انتظامیہ ترقی نہیں کرے گی بلکہ یہ معاملات کو مزید تاخیر کا شکار کرے گا۔‘
جبکہ فلسطینی حکام کا موقف تھا کہ اس اقدام کا مقصد امن بات چیت کو ختم کرنا نہیں بلکہ فلسطینی اختیار میں اضافہ کرنا اور اس خطے کی وضاحت کرنا ہے جسے وہ فلسطینی ریاست کے طور پر چاہتے ہیں۔ اس میں وہ علاقہ بھی شامل ہے جو اسرائیلی آبادکاری کے باعث متاثر ہوا ہے۔
بشکریہ بی بی سی اردو۔
--------------
اس کامیابی کے دور رس اثرات پر بات کی جا سکتی ہے۔
اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کی جانب سے فلسطین کو غیر رکن مبصر ریاست کا درجہ دینے کے بعد فلسطین میں اور فلسطین سے باہر آباد فلسطینیوں نے بھر پور جوش و خروش سے جشن منایا ہے۔
جمعرات کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے فلسطین کو غیر رکن مبصر ریاست کا درجہ دے دیا تھا جس کی امریکہ اور اسرائیل نے مخالفت کی ہے۔
اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں ہونے والی ووٹنگ اور اس کے بعد فلسطینی انتظامیہ کے صدر محمود عباس کا خطاب نیویارک سے براہ راست نشر کیا گیا جسے فلسطینی شہروں رملہ، بیت اللحم، غزہ اور دوسری کئی شہروں میں بڑی سکرینز پر فلسھینیوں نے دیکھا۔
ووٹنگ کے نتائج کے اعلان کے ساتھ ہی بڑی تعداد میں فلسطینی اپنا قومی پرچم اٹھائےسڑکوں پر نکل آئے۔
غزہ اور رملہ میں فلسطھینیوں نے گاڑیوں کے ہارن بجا کر خوشی کا اظہار کیا اور کئی جگہوں پر گاڑیوں کی چھتوں اور سڑکوں پر نوجوانوں نے رقص کیے اور اپنی خوشی کا اظہار کیا۔
جمعرات کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں فلسطینی اتھارٹی کا درجہ بڑھائے جانے کی تجویز پر ہونی والی ووٹنگ میں ایک سو ترانوے ممالک میں سے ایک سو اڑتیس ممالک نے قرارداد کی حمایت میں ووٹ دیا۔
اسرائيل، امریکہ اور کینیڈا سمیت نو ممالک نے اس تجویز کے خلاف ووٹ ڈالا جبکہ اکتالیس ممالک نے اپنے ووٹ کا استعمال نہیں کیا۔
ووٹنگ سے پہلے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں خطاب میں فلسطینی رہنما محمود عباس نے کہا، ’آج اقوام متحدہ جنرل اسمبلی سے اپیل کی جا رہی ہے کہ وہ فلسطین کی پیدائش کا سرٹیفکیٹ جاری کرے۔‘
انہوں نے مزید کہا ’پیسنٹھ سال پہلے آج ہی کے دن اقوامِ متحدہ جنرل اسمبلی نے قرارداد 181 کو منظوری دے کر فلسطین کو دو حصوں میں تقسیم کیا تھا اور اسرائيل کو پیدائش کا سرٹیفکیٹ دے دیا تھا۔‘
اقوام متحدہ میں قرارداد منظور ہونے کے بعد غزہ اور مغربی کنارے پر جشن کا ماحول تھا۔ لوگوں نے سڑکوں پر نکل کر نغمے گائے، آتش بازی کی اور گاڑیوں کے ہارن بجاكر اپنی خوشی کا اظہار کیا۔
تجویز کی مخالفت کرتے ہوئے اسرائيل کے سفیر نے ووٹنگ سے پہلے خطاب کرتے ہوئے کہا، ’اس تجویز سے امن کو کوئی فروغ نہیں ملے گا بلکہ اس سے امن کو دھچكا ہی لگے گا۔ اسرائيلي لوگوں کا اسرائيل سے چار ہزار سال پرانا تعلق اقوام متحدہ کے کسی فیصلے سے ٹوٹنے والا نہیں ہے۔‘
امریکہ کا کہنا ہے کہ فلسطینیوں کو اسرائيل کے ساتھ براہ راست بات چیت کرنی چاہیے اور اس طرح اقوام متحدہ میں یکطرفہ اقدامات کے ذریعے ریاست کا درجہ حاصل نہیں کرنا چاہیے۔
برطانیہ اور جرمنی نے اس تجویز کے لیے ووٹنگ میں حصہ نہیں لیا، لیکن دونوں ملک فلسطینیوں کی اس تجویز کے لائے جانے سے خوش نہیں تھے لیکن اقوام متحدہ میں اس تجویز کو بھارت سمیت فرانس، روس، چین اور جنوبی افریقہ جیسے کئی ممالک کی حمایت حاصل تھی۔
گزشتہ سال فلسطینی اتھارٹی نے مکمل رکنیت حاصل کرنے کے لئے اقوام متحدہ میں درخواست دی تھی لیکن سلامتی کونسل میں امریکہ نے اس تجویز کو ویٹو کر دیا تھا اور فلسطینیوں کی کوشش ناکام ہو گئی تھی۔
اس سے پہلے اقوامِ متحدہ کے سیکرٹری جنرل بان گی مون نے رکن ممالک سے کہا کہ وہ فلسطینی انتظامیہ کی کامیابیوں کو تسلیم کریں۔
غیر رکن مبصر کی حیثیت حاصل کرنے کے بعد اب فلسطین کو اقوامِ متحدہ کے اداروں میں شمولیت حاصل ہو جائے گی جن میں بین الاقوامی عدالتِ انصاف بھی شامل ہے۔
فلسطینی چاہتے ہیں کہ مغربی کنارے، غزہ اور مشرقی بیت المقدس کے علاقوں کو فلسطینی ریاست کے طور پر تسلیم کیا جائے جن علاقوں پر اسرائیل نے سنہ انیس سو سڑسٹھ میں قبضہ کر لیا تھا۔ اس رائے شماری کے مخالفین کا موقف رہا ہے کہ فلسطینی ریاست کا فیصلہ صرف مذاکرات کے ذریعے ہونا چاہیے۔
اس سے قبل اسرائیلی وزیرِ اعظم بنیامن نتین یاہو نے کہا تھا کہ ’اقوامِ متحدہ میں ہونے والا فیصلہ، زمینی حقائق نہیں بدلے گا۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’اس سے فلسطینی ریاست کی انتظامیہ ترقی نہیں کرے گی بلکہ یہ معاملات کو مزید تاخیر کا شکار کرے گا۔‘
جبکہ فلسطینی حکام کا موقف تھا کہ اس اقدام کا مقصد امن بات چیت کو ختم کرنا نہیں بلکہ فلسطینی اختیار میں اضافہ کرنا اور اس خطے کی وضاحت کرنا ہے جسے وہ فلسطینی ریاست کے طور پر چاہتے ہیں۔ اس میں وہ علاقہ بھی شامل ہے جو اسرائیلی آبادکاری کے باعث متاثر ہوا ہے۔
بشکریہ بی بی سی اردو۔
--------------
اس کامیابی کے دور رس اثرات پر بات کی جا سکتی ہے۔