الف عین
لائبریرین
کبھی کبھی صبح کی پہلی کرن اپنے ساتھ منحوس واقعات کی منادی لے کر آتی ہیں۔ اس دن وہ جلدی جاگا لیکن اسے ماحول کچھ بوجھل بوجھل سا لگ رہا تھا۔ اسے چاوں طرف وحشت سی چھاتی محسوس ہورہی تھی۔ معمول کے مطابق مدھو آئی۔ اس سے کچھ دیر اس نے باتیں کیں ۔اور بس میں بیٹھ کر چلی گئی ۔ لیکن اسے مدھو کے ملنے سے کوئی مسرت نہیں ہوئی۔ ایک عجیب سی اداسی میں اس نے خود کو لپٹا ہوا محسوس کیا۔ ذہن پر ایک بوجھ سا تھا۔ بوجھ تو دودنوں سے اس کے ذہن پر تھا۔ اس نے دو ٹوک مہندر سے کہہ دیا تھا وہ مدھو سے پیار کرتا ہے اور کرتا رہے گا۔ وہ اسے دھمکی دے کر گیا تھا اس سے پہلے مدھو مہندر کو دوٹوک کہہ چکی تھی ۔
دو دنوں تک مہندر نے کچھ نہیں کیاتھا۔ دل میں ایک دہشت سی لگی تھی۔ ہر لمحہ ڈر لگا رہتا تھا کہ مہندر کوئی انتقا کاروائی کرے گا۔ لیکن مہندر کی طرف سے کوئی کاروائی نہیں ہوئی تھی۔ لیکن اس بات پروہ خوش فہمی میں مبتلا نہیں ہوسکتے تھے کہ مہندر نے شکست تسلیم کرلی ہے ۔اب وہ ان کے راستے میں نہیں آئے گا۔
خدشہ تو دونوں کو لگا ہوا تھا کہ مہندر اتنی جلدی اپنی شکست تسلیم نہیں کرے گا۔ ان پر کوئی وار کرنے کے لیے اپنی ساری طاقت کو یکجا کر رہا ہوگا۔ نہ تو مہندر اس کے بعد اس کے پاس آیا تھا نہ اس نے مدھو کو دھمکانے کی کوشش کی تھی۔ اس کے خاموشی نے انھیں ایک عجیب سے الجھن میں مبتلا کر دیا تھا ۔ یہ خاموشی کسی طوفان کا پیش خیمہ محسوس ہورہی تھی۔ ایسے میں صبح تو اُداس ،وحشت ناک محسوس کرکے وہ ڈرگیا۔ اس کا دل باربار کہنے لگا آج تو کوئی بہت ہی عجیب بات ہونے والی ہے۔ اس کے لیے کوئی عجیب وحشت ناک اور کوئی بات کیا ہوسکتی تھی۔ یہی کہ مہندر انتقامی کاروائی کے تحت ان پر حملہ کرے گا۔یہ حملہ کس روپ میں ہوسکتا ہے انھیں اس بات کا اندازہ نہیں تھا اور نہ وہ اس سلسلے میں کوئی اندازہ لگا پارہے تھے۔
وہ دوکان میں بیٹھا اس کے بارے میں سوچ رہا تھا کہ فون کی گھنٹی بجی۔’’جمی ٹی وی پر نیوز دیکھی ۔‘‘ دوسری طرف جاوید تھا۔
’’میرے گھر یا دوکان میں ٹی وی نہیں ہے۔ ‘‘ اس نے جواب دیا۔
’’اوہو ‘‘جاوید کی تشویش آمیز آواز سنائی دی ۔’’دہشت بھری خبر ہے۔‘‘
’’کیسی بری خبر ‘‘ جاوید کی بات سن کر اس کابھی دل دھڑک اٹھا ۔
’’کار سیوک ایودھیا سے واپس آرہے ۷۰ کے قریب کارسیوکوں کو زندہ جلا دیا گیا ہے۔ جس ٹرین سابرمتی ایکسپریس سے وہ واپس آرہے تھے۔ ان کے ڈبہ پر گودھرا کے قریب حملہ کرکے ان کے ڈبوں میں آگ لگادی گئی۔ جس کی وجہ سے وہ ڈبہ میں ہی جل کر مرگئے۔ ‘‘
’’اوہو‘‘یہ سن کر اس کا بھی دل دھڑک اٹھا ۔
’’یہ واقعہ گجرات میں ہوا ہے۔ گجرات جہاں فرقہ پرستی عروج پر ہے۔ گودھرا یہاں سے قریب ہے۔ ٹرین احمدآباد آنے والی تھی۔ اب شام کو وہ لاشوں کو لے کر احمد آباد پہنچے گی۔ ٹی وی چینل کھلے الفاظ میں کہہ رہے ہیں کہ ٹرین پر حملہ کرنے والے اور ہمارے سیوکوں کو زندہ جلانے والے مسلمان تھے۔ ‘‘
’’یہ تو بہت بری بات ہے جاوید بھائی۔‘‘
’’اتنی بری کہ اس کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا ۔ٹی وی چینل پر باربار جلی ہوئی ٹرین کا ڈبہ بتایا جارہا ہے۔ جلی ہوئی لاشیں دکھائی جارہی ہیں۔ لیڈروں کے بھڑکانے والے بیانات آرہے ہیں۔ اس کا اثر صرف گجرات بلکہ سارے ہندوستان پر پڑے گا ۔ آج یا کل کیا ہوگا خدا ہی خیر کرے ‘‘جاوید نے کہا۔
’’آپ کیا کریں گے؟‘‘
’’کیا کروں کچھ سمجھ میں نہیں آرہا ہے۔ میں بعد میں فون کرتا ہوں ۔‘‘کہہ کر جاوید نے فون رکھ دیا۔
تھوڑی دیر میں جنگل کی آگ کی طرح یہ خبر سارے گاؤں میں پھیل گئی تھی کہ گودھرا میں کارسیوکوں کو مسلمانوں نے زندہ جلادیا۔ رام بھکتوں پردلانہ حملہ کرکے انھیں زندہ جلادیا گیا۔ مرنے والوں میں بچے بھی تھے اور عورتیں بھی۔ پر کوئی اس بات کی مزمت کررہا تھا۔تو یہ کچھ لوگ اس خبر کو سن کر غصے میں اول فول بک رہے تھے۔
’’کارسیوکوں پر حملہ کرنے والے فرار ہیں‘‘
’’کارسیوکوں کا قاتلوں کو بخشانہ جائے‘‘
’’خون کا بدلہ ۔ ۔ ۔ خون‘‘
’’کارسیوک امر ہے‘‘
’’بدلہ لیا جائے‘‘
’’گودھرا کا بدلہ لیا جائے ‘‘
’’پورے گاؤں کو گودھرا بنا دیا جائے‘‘
’’ان کے گھروں اور محلوں کو سابرمتی ایک پریس کی بوگیاں بنادی جائے‘‘
’’جئے شری رام ‘‘
’’جئے بجرنگ بلی‘‘
’’قبرستان پہنچادو‘‘
’’پاکستان پہنچادو‘‘
’’زندہ جلادو۔ ۔ ۔ چھوڑو نہیں۔ ۔ ۔ ‘‘
’’خون کا بدلہ ۔ ۔ ۔ خون۔ ۔ ۔ آگ کا بدلہ ۔ ۔ ۔ آگ ‘‘
ہر کسی کے منہ بس یہی باتیں تھیں۔ دل کو دہلادینے والے۔ ۔ ۔ نفرت بھرے نعرے گاؤں کی فضا میں گونج رہے تھے۔ نوجوان لڑکے ہاتھوں میں ننگی تلواریں لیے ،ترشول لیے، ماتھے پر بھگواپٹیاں باندھے اشتعال انگیز نعرے لگاتے پھر رہے تھے۔
’’تمہارے قاتلوں کو نہیں چھوڑیں گے ‘‘
’’ایک بدلے میں دس کو ختم کریں گے‘‘
’’قبرستان بنادیں گے‘‘
’’جلا کر راکھ کردیں گے‘‘
دو دنوں تک مہندر نے کچھ نہیں کیاتھا۔ دل میں ایک دہشت سی لگی تھی۔ ہر لمحہ ڈر لگا رہتا تھا کہ مہندر کوئی انتقا کاروائی کرے گا۔ لیکن مہندر کی طرف سے کوئی کاروائی نہیں ہوئی تھی۔ لیکن اس بات پروہ خوش فہمی میں مبتلا نہیں ہوسکتے تھے کہ مہندر نے شکست تسلیم کرلی ہے ۔اب وہ ان کے راستے میں نہیں آئے گا۔
خدشہ تو دونوں کو لگا ہوا تھا کہ مہندر اتنی جلدی اپنی شکست تسلیم نہیں کرے گا۔ ان پر کوئی وار کرنے کے لیے اپنی ساری طاقت کو یکجا کر رہا ہوگا۔ نہ تو مہندر اس کے بعد اس کے پاس آیا تھا نہ اس نے مدھو کو دھمکانے کی کوشش کی تھی۔ اس کے خاموشی نے انھیں ایک عجیب سے الجھن میں مبتلا کر دیا تھا ۔ یہ خاموشی کسی طوفان کا پیش خیمہ محسوس ہورہی تھی۔ ایسے میں صبح تو اُداس ،وحشت ناک محسوس کرکے وہ ڈرگیا۔ اس کا دل باربار کہنے لگا آج تو کوئی بہت ہی عجیب بات ہونے والی ہے۔ اس کے لیے کوئی عجیب وحشت ناک اور کوئی بات کیا ہوسکتی تھی۔ یہی کہ مہندر انتقامی کاروائی کے تحت ان پر حملہ کرے گا۔یہ حملہ کس روپ میں ہوسکتا ہے انھیں اس بات کا اندازہ نہیں تھا اور نہ وہ اس سلسلے میں کوئی اندازہ لگا پارہے تھے۔
وہ دوکان میں بیٹھا اس کے بارے میں سوچ رہا تھا کہ فون کی گھنٹی بجی۔’’جمی ٹی وی پر نیوز دیکھی ۔‘‘ دوسری طرف جاوید تھا۔
’’میرے گھر یا دوکان میں ٹی وی نہیں ہے۔ ‘‘ اس نے جواب دیا۔
’’اوہو ‘‘جاوید کی تشویش آمیز آواز سنائی دی ۔’’دہشت بھری خبر ہے۔‘‘
’’کیسی بری خبر ‘‘ جاوید کی بات سن کر اس کابھی دل دھڑک اٹھا ۔
’’کار سیوک ایودھیا سے واپس آرہے ۷۰ کے قریب کارسیوکوں کو زندہ جلا دیا گیا ہے۔ جس ٹرین سابرمتی ایکسپریس سے وہ واپس آرہے تھے۔ ان کے ڈبہ پر گودھرا کے قریب حملہ کرکے ان کے ڈبوں میں آگ لگادی گئی۔ جس کی وجہ سے وہ ڈبہ میں ہی جل کر مرگئے۔ ‘‘
’’اوہو‘‘یہ سن کر اس کا بھی دل دھڑک اٹھا ۔
’’یہ واقعہ گجرات میں ہوا ہے۔ گجرات جہاں فرقہ پرستی عروج پر ہے۔ گودھرا یہاں سے قریب ہے۔ ٹرین احمدآباد آنے والی تھی۔ اب شام کو وہ لاشوں کو لے کر احمد آباد پہنچے گی۔ ٹی وی چینل کھلے الفاظ میں کہہ رہے ہیں کہ ٹرین پر حملہ کرنے والے اور ہمارے سیوکوں کو زندہ جلانے والے مسلمان تھے۔ ‘‘
’’یہ تو بہت بری بات ہے جاوید بھائی۔‘‘
’’اتنی بری کہ اس کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا ۔ٹی وی چینل پر باربار جلی ہوئی ٹرین کا ڈبہ بتایا جارہا ہے۔ جلی ہوئی لاشیں دکھائی جارہی ہیں۔ لیڈروں کے بھڑکانے والے بیانات آرہے ہیں۔ اس کا اثر صرف گجرات بلکہ سارے ہندوستان پر پڑے گا ۔ آج یا کل کیا ہوگا خدا ہی خیر کرے ‘‘جاوید نے کہا۔
’’آپ کیا کریں گے؟‘‘
’’کیا کروں کچھ سمجھ میں نہیں آرہا ہے۔ میں بعد میں فون کرتا ہوں ۔‘‘کہہ کر جاوید نے فون رکھ دیا۔
تھوڑی دیر میں جنگل کی آگ کی طرح یہ خبر سارے گاؤں میں پھیل گئی تھی کہ گودھرا میں کارسیوکوں کو مسلمانوں نے زندہ جلادیا۔ رام بھکتوں پردلانہ حملہ کرکے انھیں زندہ جلادیا گیا۔ مرنے والوں میں بچے بھی تھے اور عورتیں بھی۔ پر کوئی اس بات کی مزمت کررہا تھا۔تو یہ کچھ لوگ اس خبر کو سن کر غصے میں اول فول بک رہے تھے۔
’’کارسیوکوں پر حملہ کرنے والے فرار ہیں‘‘
’’کارسیوکوں کا قاتلوں کو بخشانہ جائے‘‘
’’خون کا بدلہ ۔ ۔ ۔ خون‘‘
’’کارسیوک امر ہے‘‘
’’بدلہ لیا جائے‘‘
’’گودھرا کا بدلہ لیا جائے ‘‘
’’پورے گاؤں کو گودھرا بنا دیا جائے‘‘
’’ان کے گھروں اور محلوں کو سابرمتی ایک پریس کی بوگیاں بنادی جائے‘‘
’’جئے شری رام ‘‘
’’جئے بجرنگ بلی‘‘
’’قبرستان پہنچادو‘‘
’’پاکستان پہنچادو‘‘
’’زندہ جلادو۔ ۔ ۔ چھوڑو نہیں۔ ۔ ۔ ‘‘
’’خون کا بدلہ ۔ ۔ ۔ خون۔ ۔ ۔ آگ کا بدلہ ۔ ۔ ۔ آگ ‘‘
ہر کسی کے منہ بس یہی باتیں تھیں۔ دل کو دہلادینے والے۔ ۔ ۔ نفرت بھرے نعرے گاؤں کی فضا میں گونج رہے تھے۔ نوجوان لڑکے ہاتھوں میں ننگی تلواریں لیے ،ترشول لیے، ماتھے پر بھگواپٹیاں باندھے اشتعال انگیز نعرے لگاتے پھر رہے تھے۔
’’تمہارے قاتلوں کو نہیں چھوڑیں گے ‘‘
’’ایک بدلے میں دس کو ختم کریں گے‘‘
’’قبرستان بنادیں گے‘‘
’’جلا کر راکھ کردیں گے‘‘