عاطف بٹ
محفلین
التماسِ شکر میں دل رہ گیا
سر پہ کچھ احسانِ قاتل رہ گیا
رحم آیا ناتوانی پر مری
ذبح کرتے کرتے قاتل رہ گیا
تم نے اک بوسہ دیا احساں کیا
بات میری رہ گئی، دل رہ گیا
صلح کی امید پھر کل پر گئی
سہل ہو کر کارِ مشکل رہ گیا
تیری جلدی سے نہ بر آئی مراد
اے اجل دیدارِ قاتل رہ گیا
کاوشِ صیاد نے فرصت نہ دی
دل میں ارمانِ عنادل رہ گیا
جلوہء رخسار نے ساکت کیا
آئنہ ہو کر مقابل رہ گیا
غیر ممکن ہے کہ آساں ہوسکے
رہ گیا جو امر مشکل رہ گیا
پھر طبیعت اپنی گھبرائی نسیم
امتحانِ فکرِ کامل رہ گیا
(اصغر علی خاں نسیم دہلوی)