ام اویس
محفلین
والدین کی ذمہ داری ہے کہ وہ بچے کے اخلاق کی درستگی اور اس کی اصلاح اور شخصیت کے نکھار کے لیے سخت نگرانی اور ذمہ داری کے فریضہ سے قطعا غافل نہ ہوں ۔
اگر ہم ان اسباب کی وجہ معلوم کرنا چاہیں جو بچے میں اخلاقی بے راہ روی اور کردار میں تنزل و سرکشی پیدا کر دیتے ہیں تو ہمیں یہ معلوم ہوگا کہ اصل سبب والدین کا بچوں کی نگرانی میں غفلت برتنا اور ان کی رہنمائی سے دور رہنا اور اس میں کوتاہی برتنا ہے ۔
بچوں میں اخلاقی طور پر کمی اور کردار میں آزادی و بے راہ روی کی وجوہات کے پیچھے عموما والدین کی تربیت اور نگرانی میں کوتاہی ہے
جو والدین اپنے بچوں کے عقائد درست کرنے اور ان میں اچھے اعمال کرنے کا شوق پیدا نہ کریں بچپن سے ہی ان کی اسلامی بنیاد پختہ نہ کریں تو بڑے ہونے پر کبھی ان کو حق وباطل میں فرق کرنا نہیں سکھا سکتے ۔
جو والدین اپنے بچوں کو برے ساتھیوں اور بدکردار دوستوں سے ملنے کی کھلی چُھٹی دے دے دیں کہ وہ جب چاہیں اور جہاں چاہیں ان سے ملیں ۔ نہ ان سے باز پرس کریں اور نہ کوئی نگرانی تو اس کا لازمی اثر یہ ہوگا کہ بچے ان کی صحبت سے متاثر ہوں گے اور ان کی کجی اور انحراف اور برے اخلاق بچوں میں بھی پیدا ہوں گے ۔
جو والدین اپنے بچوں کو ایسے غیر اخلاقی کارٹون اور عشقیہ فلمویں دیکھنے کی اجازت دے دیں جو آوارگی و بے حیائی و آزادی کی طرف لے جاتی ہیں اور ان کا ذریعہ بنتی ہیں یا ماردھاڑ پر مشتمل ایسی فلمیں اور کارٹون جو جرم اور انحراف پر ابھارتے ہیں اور بچوں کو تو کیا بڑوں تک کو خراب کر دیتے ہیں تو اس میں کوئی شک نہیں کہ ایسے والدین چاہے محسوس کریں یا نہ کریں لیکن وہ اپنی اولاد کو ایک گہرے گڑھے میں دھکیل رہے ہیں ۔ جو لازمی طور سے ان بچوں کو یقینی ہلاکت اور لازمی تباہی تک پہنچا دے گا
جو والدین اپنی اولاد کو یہ موقع فراہم کریں کہ وہ ٹیلی ویژن کی سکرین پر اور موبائل و لیپ ٹاپ پر بھڑکانے والے مناظر اور گندے ڈرامے اور بے ہودہ و عریاں اشتہارات دیکھیں تو بلا شبہ ایسی صورت میں بچے آوارگی اور بے حیائی میں نشو و نما پائیں گے اور آہستہ آہستہ آوارہ و آزاد بنیں گے اور مردانگی اور عظمت اور بہترین اسلامی آداب ان میں ختم ہوتے چلے جائیں گے ۔
جو والدین اپنے بچوں کو فحش رسالوں کے خریدنے اور عشقیہ کہانیوں کے پڑھنے اور ننگی تصاویر کے جمع کرنے کی اجازت دے دیں تو لازمی طور سے اولاد بے حیائی اور گناہ کے راستے پر چلے گی اور گندی و آزاد زندگی اور فحش و ناجائز جنسی تعلقات کا سبق حاصل کرے گی
اس لیے بچوں کی زندگی کے ہر پہلو کو سنوارنے کے لیے ان کی ہر وقت نگرانی اور تربیت نہایت ضروری ہے ۔ اور یہ اسی صورت میں ممکن ہے جب والدین خود ان چیزوں کو قابل نفرت اور برا سمجھیں اور ان سے دور رہیں ۔ لیکن اگر ماں باپ خود ایسی چیزوں کے رسیا ہیں اور ان چیزوں کو آزادی و ترقی خیال کرتے ہیں تو پھر بچوں کو کسی صورت ان خرابیوں سے محفوظ نہیں رکھ سکتے ۔
ہمیشہ یہ بات ذہن میں رہنی چاہیے کہ اولاد کی اچھی اور اسلامی و اخلاقی خطوط پر تربیت ماں باپ کی سب سے اہم ذمہ داری ہے ۔ اور قیامت کے روز الله سبحانہ و تعالی کے ہاں اس کی جوابدہی ہو گی ۔ اپنے بچوں کے عقائد و اعمال اور ان کی عادت اسلامی سانچے میں ڈھالنے والے کامیاب اور سرخرو ہوں گے ۔ اور اولاد کی تربیت سے لاپرواہی کرنے والے ، اپنے بچوں کو صحیح اور غلط کا شعور نہ دینے والے اور ان کو الله کی حرام اور حلال کردہ حدود سے آگاہی نہ دینے والے اس دن پشیمان ہوں گے ۔
حاصل کلام یہ ہے کہ بچپن سے لے کر شعور کے پختہ ہونے تک بچوں کی ہمہ وقت نگرانی کی جائے ہر وقت ان کی اسلامی اور مضبوط اخلاقی بنیاد پر تربیت کی جائے اور اس کے لیے ان کے سامنے اپنے عمل و کردار کا اچھا نمونہ پیش کیا جائے ۔ کیونکہ بچے سب کچھ اپنے گھر کے ماحول اور والدین کے طور طریقے اور عادات سے سیکھتے ہیں ۔
ان کے دوستوں اور ملنے جلنے والوں پر نظر رکھی جائے ۔ ان کے اعمال و عادات کی نگرانی کی جائے ۔ انہیں ٹیلی ویژن ، موبائل وغیرہ پر چھپ کر کوئی بھی چیز دیکھنے نہ دی جائے ۔ وہ جو بھی دیکھیں ماں باپ ان کے ساتھ بیٹھیں ۔
لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ ان کے ساتھ قیدیوں جیسا سلوک کیا جائے بلکہ تعلیم ، صحت سیر وتفریح میں ان کی پسند کا خیال رکھا جائے اور ان کے ساتھ حاکمانہ سلوک کی بجائے محبت اور دوستی کا رویہ رکھا جائے ۔
کہاوت مشہور ہے
کھلاؤ سونے کا نوالہ اور دیکھو شیر کی آنکھ سے
اگر ہم ان اسباب کی وجہ معلوم کرنا چاہیں جو بچے میں اخلاقی بے راہ روی اور کردار میں تنزل و سرکشی پیدا کر دیتے ہیں تو ہمیں یہ معلوم ہوگا کہ اصل سبب والدین کا بچوں کی نگرانی میں غفلت برتنا اور ان کی رہنمائی سے دور رہنا اور اس میں کوتاہی برتنا ہے ۔
بچوں میں اخلاقی طور پر کمی اور کردار میں آزادی و بے راہ روی کی وجوہات کے پیچھے عموما والدین کی تربیت اور نگرانی میں کوتاہی ہے
جو والدین اپنے بچوں کے عقائد درست کرنے اور ان میں اچھے اعمال کرنے کا شوق پیدا نہ کریں بچپن سے ہی ان کی اسلامی بنیاد پختہ نہ کریں تو بڑے ہونے پر کبھی ان کو حق وباطل میں فرق کرنا نہیں سکھا سکتے ۔
جو والدین اپنے بچوں کو برے ساتھیوں اور بدکردار دوستوں سے ملنے کی کھلی چُھٹی دے دے دیں کہ وہ جب چاہیں اور جہاں چاہیں ان سے ملیں ۔ نہ ان سے باز پرس کریں اور نہ کوئی نگرانی تو اس کا لازمی اثر یہ ہوگا کہ بچے ان کی صحبت سے متاثر ہوں گے اور ان کی کجی اور انحراف اور برے اخلاق بچوں میں بھی پیدا ہوں گے ۔
جو والدین اپنے بچوں کو ایسے غیر اخلاقی کارٹون اور عشقیہ فلمویں دیکھنے کی اجازت دے دیں جو آوارگی و بے حیائی و آزادی کی طرف لے جاتی ہیں اور ان کا ذریعہ بنتی ہیں یا ماردھاڑ پر مشتمل ایسی فلمیں اور کارٹون جو جرم اور انحراف پر ابھارتے ہیں اور بچوں کو تو کیا بڑوں تک کو خراب کر دیتے ہیں تو اس میں کوئی شک نہیں کہ ایسے والدین چاہے محسوس کریں یا نہ کریں لیکن وہ اپنی اولاد کو ایک گہرے گڑھے میں دھکیل رہے ہیں ۔ جو لازمی طور سے ان بچوں کو یقینی ہلاکت اور لازمی تباہی تک پہنچا دے گا
جو والدین اپنی اولاد کو یہ موقع فراہم کریں کہ وہ ٹیلی ویژن کی سکرین پر اور موبائل و لیپ ٹاپ پر بھڑکانے والے مناظر اور گندے ڈرامے اور بے ہودہ و عریاں اشتہارات دیکھیں تو بلا شبہ ایسی صورت میں بچے آوارگی اور بے حیائی میں نشو و نما پائیں گے اور آہستہ آہستہ آوارہ و آزاد بنیں گے اور مردانگی اور عظمت اور بہترین اسلامی آداب ان میں ختم ہوتے چلے جائیں گے ۔
جو والدین اپنے بچوں کو فحش رسالوں کے خریدنے اور عشقیہ کہانیوں کے پڑھنے اور ننگی تصاویر کے جمع کرنے کی اجازت دے دیں تو لازمی طور سے اولاد بے حیائی اور گناہ کے راستے پر چلے گی اور گندی و آزاد زندگی اور فحش و ناجائز جنسی تعلقات کا سبق حاصل کرے گی
اس لیے بچوں کی زندگی کے ہر پہلو کو سنوارنے کے لیے ان کی ہر وقت نگرانی اور تربیت نہایت ضروری ہے ۔ اور یہ اسی صورت میں ممکن ہے جب والدین خود ان چیزوں کو قابل نفرت اور برا سمجھیں اور ان سے دور رہیں ۔ لیکن اگر ماں باپ خود ایسی چیزوں کے رسیا ہیں اور ان چیزوں کو آزادی و ترقی خیال کرتے ہیں تو پھر بچوں کو کسی صورت ان خرابیوں سے محفوظ نہیں رکھ سکتے ۔
ہمیشہ یہ بات ذہن میں رہنی چاہیے کہ اولاد کی اچھی اور اسلامی و اخلاقی خطوط پر تربیت ماں باپ کی سب سے اہم ذمہ داری ہے ۔ اور قیامت کے روز الله سبحانہ و تعالی کے ہاں اس کی جوابدہی ہو گی ۔ اپنے بچوں کے عقائد و اعمال اور ان کی عادت اسلامی سانچے میں ڈھالنے والے کامیاب اور سرخرو ہوں گے ۔ اور اولاد کی تربیت سے لاپرواہی کرنے والے ، اپنے بچوں کو صحیح اور غلط کا شعور نہ دینے والے اور ان کو الله کی حرام اور حلال کردہ حدود سے آگاہی نہ دینے والے اس دن پشیمان ہوں گے ۔
حاصل کلام یہ ہے کہ بچپن سے لے کر شعور کے پختہ ہونے تک بچوں کی ہمہ وقت نگرانی کی جائے ہر وقت ان کی اسلامی اور مضبوط اخلاقی بنیاد پر تربیت کی جائے اور اس کے لیے ان کے سامنے اپنے عمل و کردار کا اچھا نمونہ پیش کیا جائے ۔ کیونکہ بچے سب کچھ اپنے گھر کے ماحول اور والدین کے طور طریقے اور عادات سے سیکھتے ہیں ۔
ان کے دوستوں اور ملنے جلنے والوں پر نظر رکھی جائے ۔ ان کے اعمال و عادات کی نگرانی کی جائے ۔ انہیں ٹیلی ویژن ، موبائل وغیرہ پر چھپ کر کوئی بھی چیز دیکھنے نہ دی جائے ۔ وہ جو بھی دیکھیں ماں باپ ان کے ساتھ بیٹھیں ۔
لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ ان کے ساتھ قیدیوں جیسا سلوک کیا جائے بلکہ تعلیم ، صحت سیر وتفریح میں ان کی پسند کا خیال رکھا جائے اور ان کے ساتھ حاکمانہ سلوک کی بجائے محبت اور دوستی کا رویہ رکھا جائے ۔
کہاوت مشہور ہے
کھلاؤ سونے کا نوالہ اور دیکھو شیر کی آنکھ سے