باب پنجم: الحاد کی سائنسی اساسات کا انہدام
انیسویں صدی اور بیسویں صدی کے نصف اول کا زمانہ الحاد کے عروج کا دورہے۔ اسی دور میں وہ سائنسی تحقیقات ہوئیں جنہوں نے الحاد ی نظریات کی توجیہ پیش کی۔ اسی دور میں الحادی نظریات اور نظام ہائے حیات کو دنیا بھر میں فروغ ملا، اسی عرصے کے دوران دنیا بھر کے انسانوں نے اپنی زندگیوں میں مختلف درجوں پر الحاد کو قبول کیا۔ کوئی الحاد کو نظریاتی طور پر بھی مان کر خالص ملحد اور دہریہ بنا اور کسی نے صرف اس کے عملی اثرات کو قبول کرنے پر اکتفا کیا۔ بیسویں صدی کے نصف آخر سے الحاد کا زوال شروع ہوا۔
دور قدیم کے ملحدین کے پاس الحادکی کوئی ٹھوس منطقی دلیل نہیں ہوا کرتی تھی۔ انیسویں صدی میں کچھ ایسے سائنسی نظریات وجودمیں آئے جنہوں نے الحاد کو کسی حد تک سپورٹ کیا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ان میں کسی کی حیثیت بھی سائنسی قانون (Law) یا مسلمہ کی نہیں تھی۔ یہ سب کے سب ابھی نظریے (Theory) کے درجے پر تھے۔ ان نظریات کا ایک مختصر جائزہ ہم پیش کرچکے ہیں، یہاں ہم ہارون یحییٰ کے مضمون The Fall of Atheism سے ان سائنسی تحقیقات کا اجمالاً ذکر کریں گے جنہوں نے الحاد کی ان سائنسی بنیادوں کو منہدم کیا۔ ان نظریات میں ڈارون کا نظریہ ارتقاء، فرائڈ کا نظریہ جنس، مارکس اور اینجلز کے معاشی نظریات اور ڈرخم کے عمرانی نظریات شامل ہیں۔جو صاحب ان کی تفصیل جاننا چاہیں، وہ اس آرٹیکل کا مطالعہ کرسکتے ہیں۔ یہ آرٹیکل ان کی ویب سائٹ
www.harunyayha.org پر بھی میسر ہے۔ ان سائنسی اساسات کے انہدام پر جارج واشنگٹن یونیورسٹی کے پروفیسر پیٹرک گلائن کا تبصرہ بڑا معنی خیز ہے:
پچھلے دو عشروں کی ریسرچ نے جدید سیکولر اور ملحد مفکرین کی پچھلی نسل کے تمام مفروضات اور پیش گوئیوں کو گرا کر رکھ دیا ہے جو انہوں نے خدا کے وجود کے بارے میں قائم کئے تھے۔ جدید (ملحد) مفکرین نے یہ فرض کر رکھا تھا کہ سائنس پر مزید تحقیقات اس کائنات کو بے ترتیب (Random) اور میکانکی ثابت کردیں گی؛ لیکن اس کے برعکس جدید سائنسی تحقیقات نے کائنات کو غیر متوقع طور پر ایسا منظم نظام ثابت کیا ہے جو کہ ایک ماسٹر ڈیزائن کی بنیاد پر تیار کیا گیا ہو۔ ماڈرن (ملحد) ماہرین نفسیات یہ پیش گوئی کر رہے تھے کہ مذہب محض ایک دماغی خلل یا نفسیاتی بیماری ثابت ہو جائے گا لیکن انسان کا مذہب کے ساتھ تعلق مشاہدے اور تجربے کی روشنی میں دماغی صحت کا اعلیٰ ترین نمونہ ثابت ہوا ہے۔ اس حقیقت کو ابھی صرف چند لوگ ہی تسلیم کر رہے ہیں لیکن یہ بات اب واضح ہو جانی چاہئے کہ مذہب اور سائنس میں ایک صدی کی بحث کے بعد اب پانسہ مذہب کے حق میں پلٹ چکا ہے۔ ڈارون کے نظریے کے فروغ کے دور میں ، ملحدین اور متشککین جیسے ہکسلے اور رسل یہ کہہ سکتے تھے کہ زندگی اتفاقی طور پر وجود میں آئی اور کائنات محض ایک اتفاق ہی سے بنی۔ اب بھی بہت سے سائنس دان اور دانشور اسی نقطہ نظر کو مانتے ہیں لیکن وہ اس کے دفاع میں اب بے تکی باتیں کرنے پر ہی مجبور ہیں۔ آج حقائق کے مضبوط اعداد وشمار یہی ثابت کرتے ہیں کہ خدا کے موجود ہونے کا نظریہ ہی درست ہے۔
(Patrick Glynn, God: The Evidence, The Reconciliation of Faith and Reason in a Postsecular World , Prima Publishing, California, 1997, pp.19-20, 53)
بگ بینگ کا نظریہ
اب تک دنیا میں یہ مانا جارہا تھا کہ یہ کائنات ہمیشہ سے موجود ہے اور ہمیشہ رہے گی۔ اس نظریے کو جدید دنیا میں جرمن فلسفی عمانویل کانٹ نے پیش کیا۔ یہ سمجھا جانے لگا کہ اس کائنات کو کسی نے تخلیق نہیں کیا بلکہ یہ ہمیشہ سے ایسے ہی ہے۔
بیسویں صدی میں فلکیات (Astronomy) کے میدان میں جدید علمی تحقیقات نے اس نظریے کو غلط ثابت کر دیا۔ 1929 میں امریکی ماہر فلکیات ایڈون ہبل نے دریافت کیا کہ کہکشائیں مسلسل ایک دوسرے سے دور ہو رہی ہیں۔ اس سے سائنس دانوں نے یہ اخذ کیا کہ ماضی میں کسی وقت یہ کہکشائیں اکٹھی تھیں۔ اس وقت یہ کائنات توانائی کے ایک بہت بڑے گولے کی شکل میں موجود تھیں جو ایک بہت عظیم دھماکے (Big Bang) کے نتیجے میں مادے کی صور ت اختیار کرگیا۔ملحد مفکرین نے اس نظریے کو ماننے سے انکار کردیا لیکن مزید سائنسی تحقیقات نے اس نظریے کو تقویت دی۔ 1960 کے عشرے میں دو سائنس دانوں ارنو پینزیاز اور رابرٹ ولسن نے دھماکے کے نتیجے میں بننے والی Cosmic Background Radiation کو دریافت کیا۔ اس مشاہدے کی تصدیق 1990 میں Cosmic Background Explorer Satellite کی ذریعے کی گئی۔ اس صورتحال میں انتھونی فلیو جو کہ یونیورسٹی آف ریڈنگ میں فلسفے کے ایک ملحد پروفیسر ہیں، کہتے ہیں:
اعتراف روح کے لئے اچھی چیز ہے۔ میں اس اعتراف سے آغاز کرتا ہوں کہ علم فلکیات میں اس اتفاق رائے سے ایک ملحد کے نظریات پر زد پڑتی ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ فلکیات دان اس بات کو سائنسی طور پر ثابت کرنا چاہتے ہیں جو سینٹ تھامس فلسفیانہ طور پر ثابت نہ کرسکے یعنی یہ کہ اس کائنات کی کوئی ابتدا ہے۔ اس سے پہلے ہم یہ اطمینان رکھتے تھے کہ اس کائنات کی نہ تو کوئی ابتدا ہے اور نہ کوئی اختتام------ اب یہ کہنا بگ بینگ تھیوری کے سامنے آسان نہیں ۔
(Henry Margenau, Roy Abraham Vargesse, Cosmos, Bios, Theos, La Salle IL: Open Court Publishing, 1992, p.241 )
جان میڈکس جو کہ ایک ملحد ہیں اور Nature کے نام سے رسالہ نکالتے ہیں نے اس نظریے کو اس بنیاد پر رد کر دیا کہ اس سے خدا کو ماننے والوں کو حجت مل جائے گی۔ انہوں نے امید ظاہر کی کہ یہ نظریہ دس سال سے زیادہ نہیں چل سکے گا لیکن مزید تحقیقات نے اس نظریے کو اور تقویت دی۔ برطانوی ملحد اور ماہر طبیعات ایچ پی لیپسن لکھتے ہیں:
میں سمجھتا ہوں کہ ہمیں اس بات کا اعتراف کر لینا چاہئے کہ قابل قبول تشریح یہی ہے کہ اس کائنات کو تخلیق کیا گیا ہے۔ میں جانتا ہوں کہ یہ ملحدین کی زبان بند کردے گی جیسا کہ میرے ساتھ ہوا لیکن ہمیں کسی چیز کو صرف اس بنیاد پر رد نہیں کردینا چاہئے کہ ہم اسے پسند نہیں کرتے اگرچہ تجربہ اور مشاہدہ اسے ثابت کررہاہو۔
(H. P. Lipson, "A Physicist Looks at Evolution", Physics Bulletin, vol. 138, 1980, p. 13
کائنات کا انٹیلی جنٹ ڈیزائن
کائنات کے متعلق اہل الحاد کا ایک اور نظریہ بھی تھا اور وہ یہ تھا کہ یہ کائنات بے ترتیب (Random) ہے۔ اس میں موجود مادے، اجرام فلکی اور جن قوانین کے تحت یہ چل رہے ہیں کا کوئی مقصد نہیںبلکہ یہ محض اتفاق ہی ہے۔ 1970 کے عشرے میں سائنس دانوں نے یہ دریافت کیا کہ کائنات میں ایسا توازن (Balance) پایا جاتا ہے جس میں اگر ذرا سا بھی ہیر پھیر ہو تو اس میں انسانی زندگی ممکن ہی نہ ہوسکے۔ تمام طبیعی، کیمیائی اور حیاتیاتی قوانین، کشش ثقل اور مقناطیسی قوتیں، ایٹمز اور مالیکیولز کی ساخت، عناصر اور مرکبات کی موجودگی یہ سب کا سب بالکل اسی طرح اس کائنات میں موجود ہے جیسا کہ انسانی زندگی کی ضرورت ہے۔ سائنس دانوں نے اس غیر معمولی ڈیزائن کو Anthropic Principle کا نام دیا۔ ان کے مطابق اگر بگ بینگ کے وقت دھماکے کی شدت، مادے کے پھیلنے کی رفتا رمیں ذرا سا بھی فرق پڑ جاتا تو یا تو مادہ دوبارہ جڑ جاتا یا پھر اتنا زیادہ پھیل جاتا کہ موجودہ حالت میں کسی طور پر آہی نہ سکتا ، اس طرح انسانی زندگی کبھی ممکن نہ ہوتی۔
زمین کاسائز، سورج کا سائز، سورج اور زمین کا فاصلہ، پانی کی طبعی اور کیمیائی خصوصیات، سورج کی شعاعوں کی ویو لینتھ، زمین کی فضا میں موجود گیسیں اور کشش ثقل سب کی سب اسی تناسب میں موجود ہیں جو انسانی زندگی کے لئے ہونا چاہئے تھا۔ اگر اسن میں سے کسی میں 1/1039 کے برابر بھی فرق پڑ جاتا تو انسانی زندگی ممکن نہ ہوتی۔ کیا ایسا کسی مافوق الفطرت ہستی کی مداخلت کے بغیر ممکن تھا۔ کیا دنیا میں کبھی ایسا ہوا کہ ہوا میں ریت ، بجری اور سیمنٹ کو یونہی اچھا ل دیا جائے اور وہ جب زمین پر بیٹھے تو ایک خوبصورت بنگلے کی صورت اختیار کرجائے جو انسانی رہائش کے لئے موزوں ترین ہو یا پھر روشنائی کے قطروں کو اچھال دیا جائے اور جب وہ نیچے گریں تو غالب کی غزل لکھی ہوئی ہو۔ شاید ایسا صرف کارٹون فلموں ہی میں ممکن ہے لیکن حقیقی دنیا میں اس کا امکان نہ ہونے کے برابر ہے۔ ایک منظم نتیجہ حاصل کرنے کے لئے کسی برتر ہستی کی موجودگی ضروری ہوا کرتی ہے۔ ان حقائق نے بہت سے سائنس دانوں جیسے پال ڈیوس، ڈبلیو پریس، جارج گرین اسٹائن اور مالیکیولر بائیولوجسٹ مائیکل ڈینٹن کو کسی برتر ہستی کا اعتراف کرنے پر مجبور کردیا ہے۔
ڈارون کے نظریے کی تردید
جیسا کہ پہلے بیان کیا جاچکا ہے کہ الحاد کو سب سے زیادہ سپورٹ ڈارون کے نظریہ ارتقا سے ملی ہے۔ ڈارون کے مطابق تمام جاندار اشیا بے جان مادے سے ایک ارتقائی عمل کے تحت بنی ہیں۔ سب سے پہلے ایک خلیے پر مشتمل سادہ جاندار وجود میں آئے اور پھر یہ لاکھوں سال میں نسل در نسل ارتقا پذیر ہو کر اعلیٰ جانوروں کی شکل اختیار کرتے گئے۔بیسویں صدی میں پیلی انٹالوجی کے میدان میں قدیم ترین فوسلز پر ریسرچ سے نظریہ ارتقا کسی طرح بھی ثابت نہ ہوسکا۔یہ ریسرچ محض دو جانوروں کے درمیان ارتقا کڑیوں کو جوڑنے میں ناکام رہی۔
اسی طرح جانوروں کی نسلوں میں کئی عشروں تک تبدیلیوں کے مطالعے سے سائنس دان اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ کسی بھی نوع (Specie) میں تبدیلیاں مخصوص جینیاتی حدود (Genetic Boundries) سے باہر نہیں جاتیں۔ انسانی آنکھ سے لیکر پرندوںکے پروں تک کسی بھی جاندار کے جسم کا ہر حصہ اتنی sophisticated technology سے بنا ہوتا ہے کہ اس کا تقابل کسی بھی جدید مشینری سے کیا جاسکتا ہے۔ اس لئے یہ ماننا بہت مشکل ہے کہ یہ سب کچھ محض اتفاق ہی سے اندھے قوانین کے تحت بن گیا۔ ان تمام تحقیقات کے نتیجے میں اب مغربی سائنس دانوں میں Intelligent Design کا نظریہ فروغ پا رہا ہے۔
سگمنڈ فرائڈ کے نظریات کی تردید
نفسیات کے میدان میں الحاد کی اساسات سگمنڈ فرائڈ کے نظریات پر قائم تھیں جو کہ آسٹریا کے ماہر نفسیات تھے۔ فرائڈ مذہب کو محض ایک نفسیاتی بیماری قرار دیتے تھے او ران کا خیال یہ تھا کہ وقت کے ساتھ ساتھ انسان جیسے جیسے ترقی کرے گا، یہ مرض دور ہوجائے گا۔ ماہرین نفسیات میں الحاد بہت تیزی سے پھیلا۔ 1972 میں امریکن سائکالوجی ایسوسی ایشن کے ممبرز کے مابین ایک سروے کے مطابق ماہرین نفسیات میں صرف 1.1% ایسے تھے جو کسی مذہب پر یقین رکھتے ہوں۔ انہی ماہرین نفسیات نے طویل عرصے تک لوگوں کی نفسیات کا مطالعہ کرنے کے بعد جو رائے قائم کی، وہ پیٹرک گلائن کے الفاظ میں کچھ یوں تھی:
نفسیات کے میدان میں پچیس سالہ ریسرچ نے یہ ظاہر کیا ہے کہ فرائڈ اور ان کے پیروکاروں کے خیال کے برعکس ، مذہب پر ایمان ذہنی صحت اور خوشی کے اہم ترین اسباب میں سے ایک ہے۔ ریسرچ پر ریسرچ یہ ثابت کرتی ہے کہ مذہب پر ایمان اور اس پر عمل انسان کو بہت سے غیر صحت مندانہ رویوں جیسے خودکشی، منشیات کے استعمال، طلاق، ڈپریشن اور شادی کے بعد جنسی عدم تسکین سے بچاتا ہے۔ مختصراً، مشاہداتی ڈیٹا پہلے سے فرض کردہ سائیکو تھیراپک اجماع سے بالکل مختلف نتائج پیش کرتا ہے۔
Patrick Glynn, God: The Evidence, The Reconciliation of Faith and Reason in a Postsecular World , Prima Publishing, California, 1997, pp.60-61)
کمیونزم کا زوال
معاشیات کے میدان میں الحاد کی سب سے بڑی شکست کمیونز م کا زوال ہے۔ کمیونزم جو دنیا میں الحاد کا سب سے بڑا داعی تھا، بالآخر اپنے دو بنیادی مراکز روس اور چین میں دم توڑ گیا۔ لینن نے اپنے تئیں خدا کو سوویت یونین سے نکا ل دیا تھا لیکن خدا نے اس کے غرور کا خاتمہ کر ہی دیا۔ کمیونزم کے آخری دور میں روسی عوام اور آخری صدر گوربا چوف کو خدا کی ضرورت بری طرح محسوس ہوئی۔ سیاسیات کے باب میں الحاد کی بنیاد پر بننے والے نظریات فاشزم وغیرہ بھی دم توڑ گئے۔
معاشریات یا عمرانیات (Sociology) کے اعتبار سے الحاد اہل مغرب کو سکون فراہم کرنے میں ناکام رہا۔ یہ بے سکونی اس قدر بڑھی کہ وہاں ہیپی تحریک نے فروغ پایا جو دنیا کی ذمہ داریوں سے جان چھڑا کر منشیات کے نشے میں مست پڑے رہتے اور سکون کی تلاش میں سرگرداں رہتے حتیٰ کہ بعض تو اسی حالت میں اپنی جان سے بھی ہاتھ دھو بیٹھتے۔
یہ چند مثالیں ہیں جو بیسویں صدی کی جدید سائنسی تحقیقات کی نتیجے میں الحادی نظریات کی تردید میں آپ کے سامنے پیش کی گئیں۔ ان میں سے اگر صرف کائنات کے توازن اور اس کے عین انسانی ضروریات کے مطابق ہونے ہی کو لیا جائے تو خدا کے وجود کا معاملہ صاف ہو جاتا ہے۔ اس میں بعض چیزیں تو اتنی بدیہی ہیں کہ ان کوجاننے کے لئے کسی سائنسی تحقیق کی ضرورت نہیں بلکہ دیہات میں رہنے والے عام انسان بھی ان کو سوچ اور سمجھ سکتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن مجید میں تفصیلی سائنسی دلائل کی بجائے بالعموم ایسی چیزوں سے استدلال کیا گیا ہے جو ہر دور اور ہر ذہنی سطح کے لوگوں کی سمجھ میں آ جائیں۔
دور جدید میں کائنا ت کا علم یعنی فلکیات ہو یا انسان کی اپنی ذات کا علم یعنی حیاتیات و نفسیات، جیسے جیسے انسان پر حقائق منکشف ہو رہے ہیں ، وہ جانتا جارہا ہے کہ واقعی اس کائنات کا خدا اور اس کا کلام حق ہے۔ سَنُرِیہِم اٰیٰتِنَا فِی الاٰفَاقِ وَ فِی اَنفُسِہِم، حَتّٰی یَتَبَیَّنَ لَہُم اَنَّہُ الحَقُّ (حم سجدہ 41:53) ’’ہم عنقریب انہیں(انسانوں کو) اس کائنات اور اور خود ان کی ذات (جسم وروح) میں اپنی نشانیاں دکھائیں گے یہاں تک کہ ان پر واضح ہو جائے کہ (قرآن) حق ہے۔‘‘
اس موقع پر ہم یہ عرض کرنا مناسب سمجھتے ہیں کہ اثبات خدا سے متعلق سائنسی دلائل دیتے ہوئے ہمیں صرف ان چیزوں سے استدلال کرنا چاہئے جن کی حیثیت سائنس میں حتمی قانون (Law) یا مسلمات کی ہو۔ اگر ہم بھی ملحدین کی طرح محض سائنسی نظریات (Theories) سے استدلال کرنے لگیں گے تو عین ممکن ہے کہ کل وہ نظریات بھی غلط ثابت ہو جائیں اور ہمارا استدلال غلط قرار پائے۔