Rashid Ashraf
محفلین
مکرمی، تسلیمات
الحمرا کا مئی 2012 کا شمارہ موصول ہوا۔گزشتہ شمارے کی رسید نہ دے سکاتھا۔خاکسار کے مکتوب کو پروفیسر جمیل آذر نے خلوص و پسندیدگی کی سند بخشی، ان کا شکر گزار ہوں۔ تازہ شمارے میں پروفیسر صاحب کا مضمون ’غالب۔پہلا علامتی شاعر‘ خاصے کی چیز رہی۔امید ہے کہ پروفیسر صاحب’ غالب بطور امیجسٹ ‘ سے بھی جلد نوازیں گے۔ڈاکٹر خورشید رضوی کا مضمون ’حکیم نیر واسطی‘ ایک نابغہ روزگار شخصیت کی یادوں کو سموئے ہوئے ہے۔ حال ہی میں ڈاکٹر مظہر محمود شیرانی نے اپنے خاکوں کے مجموعے ’کہاں سے لاؤں انہیں‘ میں حکیم صاحب کا عمدہ خاکہ تحریر کیا ہے۔مظہر شیرانی صاحب نے حکیم نیر واسطی کو نباض المک بجا طور پر کہا ہے۔ ڈاکٹر خورشید رضوی کا مضمون پڑھ کر ذہن و قلب میں ’جہان دانش‘ کی یاد تازہ ہوگئی۔ احسان دانش کو حکیم صاحب کے پاس پہلی مرتبہ اختر شیرانی لے کر گئے تھے۔ حکیم صاحب کا لاہور میں نام تھا، مقام تھا، بڑے بڑے رئیس ان کے یہاں آتے تھے۔ جہان دانش میں ایک واقعہ تو ایسا پڑھا تھا کہ جس نے خون رلا دیا، اور جو آج تک ذہن پر نقش ہے احسان دانش بیان کرتے ہیں کہ: " ایک دن حکیم صاحب کے مطب میں ایک مفلوک الحال اور نادار قسم کا انسان آیا اور نہایت عاجزی سے کہنے لگا حکیم صاحب! میری لڑکی بیمار ہے آپ اللہ کے لیے اسے چل کر دیکھ لیں۔ اس فقرے کے ادا کرتے کرتے اس کی پتلیاں آنسؤوں میں ڈوب گئیں۔ وہ بیکو کمپنی کا ایک مزدور تھا جو حکیم صاحب کے مطب سے چار فرلانگ کے فاصلے پر رہتا تھا۔حکیم نیر واسطی نے ایک نظر اس کی طرف دیکھا اور خاموشی سے اٹھ کر اس کے ساتھ ہولیے۔ میں (احسان دانش) حیران تھا کہ یہ تو بڑے بڑے امرا کے یہاں اس طرح نہیں جاتے اور پھر اس وقت جب مطب مریضوں سے بھرا ہوا ہے۔حکیم صاحب اس کے کوارٹر میں گئے، میں ان کے ساتھ تھا، دیکھا کہ ایک کمزور مگر جوان لڑکی ایک جھلنگے کے چوکھٹے میں ڈوبی ہوئی لیٹی ہے اور ٹانگوں پر پرانے اخباری کاغذ ڈھکے ہوئے ہیں۔حکیم صاحب نے پوچھا یہ اس کی ٹانگوں پر اخبار کیوں ڈالے ہوئے ہیں، پھر خفگی سے کہا ہٹاؤ انہیں۔لڑکی کے باپ نے جھکی ہوئی آنکھوں سے جواب دیا حکیم جی! بے پردگی کے خیال سے کاغذ ڈھک دیے ہیں، بچی کا پاجامہ کئی جگہ سے پھٹا ہوا ہے۔
حکیم صاحب تو یہ سن کر سناٹے میں آگئے، کھڑے کھڑے آنسؤوں سے گلا بھر گیا اور ہونٹ کانپنے لگے۔ بمشکل ضبط کیا اور نبض دیکھ کر کچھ اور سوالات کیے جو لڑکی کی بیماری سے متعلق تھے۔ اس کے فورا" بعد لڑکی کے باپ کو ساتھ لے کر مطب گئے اور اپنے دوا ساز سے جلد دوا تیار کرنے کے لیے تاکید کرکے اپنے زنان خانے میں گئے اور دوا کے تیار ہونے تک اپنی بیگم کے دو نئے جوڑے، ایک چادر اور بیس روپے دیتے ہوئے مزدور سے کہا دیکھو یہ کپڑے اس بچی کو پہناؤ، چادر اڑھاؤ اور اس معمولی سی رقم سے کھانے پینے کا سامان لا کر گھر میں رکھو، بلاناغہ دوا خانے سے آکر دوا لے جانا، اور بھی کسی چیز کی ضرورت ہو تو بتانا۔
پھر نہ جانے کب تک دوا جاتی رہی۔" (جہان دانش)
لیجیے ڈاکٹر خورشید صاحب! یہ واقعہ لکھتے لکھتے آنکھوں کی خوب صفائی ہوگئی۔
ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی نے جناب مشفق خواجہ کو یاد کیا ہے۔ عرض کرتا چلوں کہ حیدرآباد (دکن) یونیورسٹی میں ایک صاحب مشفق خواجہ پر پی ایچ ڈی کررہے ہیں، انہوںنے خاکسار سے رابطہ کیا تھا۔ان کی بہتیری مدد تو لاہور میں مقیم ’کتاب گھر ‘کے حسن علی کرہی چکے تھے، مشفق خواجہ کی تصاویر و دیگر مواد کی فراہمی کی ذمہ داری راقم کے ذمے آئی ہے۔
الحمراء میں قسط وار شائع ہونے والی آپ بیتیاں سہج سہج آگے بڑھ رہی ہیں، قارئین کو انتظار رہتا ہے۔محمودہ احمد بشیر صاحبہ اپنے شوہر کی یاداشتوںکو سمیٹ رہی ہیں ، یہ مستحسن کام ہے، یوں تو ’ دل بھٹکے گا‘ اور ’جو ملے تھے راستے میں‘ کے مطالعے کے بعد احمد بشیر صاحب کی زندگی ایک کھلی کتاب کی مانند قاری کے سامنے آجاتی ہے لیکن ان کی اہلیہ کے لکھے واقعات کی اہمیت اپنی جگہ ہے۔
الحمراء میں خطوط کا گوشہ بھی کچھ ا لگ ہی مزہ دیتا ہے۔ مضمون لکھنے کے بجائے مکتوب لکھ بھیجئے، کچھ خاص فرق تو نہیں۔ گھر بیٹھے ادبی دنیا کی معلومات آپ کے دروازے پر پہنچ جاتی ہیں۔ اس مرتبہ محفل احباب کے سرخیل جناب ڈاکٹر انور سدید کے خطوط سے آغاز ہوا ہے۔ آپ لکھتے ہیں:’’ میں نے پچھلے دنوں آپ سے حیدرآباد دکن کے ڈاکٹر ’’جاوید مقدر‘‘کا ذکر کیا تھا جنہوں نے راجہ مہدی علی خاں پر مقالہ لکھ کر عثمانیہ یونیورسٹی دکن سے پی ایچ ڈی کی ڈگری لی ہے۔ یہ مقالہ چھپ گیا ہے لیکن پاکستان میں کسی کے پاس نہیں پہنچا۔‘‘
ڈاکٹر صاحب! ادب کا یہ طالب علم اس لحاظ سے خود کو خوش قسمت تصور کرتا ہے کہ ماہ اپریل میں مذکورہ مقالہ ایک کرم فرما کے توسط سے اس کی دسترس میں آگیا تھا۔ بلاشبہ یہ راجہ مہدی علی خاں صاحب پر اپنی نوعیت کا پہلا کام ہوا ہے۔ مقالہ نگار کا درست نام ’’ ڈاکٹر عبدالقدیر مقدر‘‘ ہے۔اب اس کی کچھ تفصیل عرض کرتا ہوں۔اپریل کی ۱۵ تاریخ کو میرے ایک کرم فرما کی رہائش گاہ پر موجود ’خاتون‘ و حضرات نے نظام آباد دکن سے آئے ہوئے بزرگ صحافی جناب فرید تبسم خاں کو خوش آمدید کہا۔ فرید صاحب روزنامہ مارننگ ٹائمز سے وابستہ ہیں۔شرکاء کی موجودگی ایک ادبی نشست میں تبدیل ہوجائے گی، اس بات کا علم مجھے پہلے سے نہ تھا۔ دکنی شیروانی میں ملبوس حیدرآبادی نستعلیق لب و لہجے کے مالک فرید تبسم خاں اپنے ہمراہ ایک قیمتی کتاب لیتے آئے تھے۔ قیمتی اس لیے کہ یہ بمبئی فلمی صنعت سے وابستہ گیت کار و شاعر راجہ مہدی علی خاں پر پی ایچ ڈی کا پہلا تحقیقی مقالہ تھا ۔ راجہ صاحب پر اس سے قبل تحقیق نہیں کی گئی تھی اور مصنف نے ہندوستان و پاکستان میں اس بات کی تصدیق کے بعد ہی اس موضوع پر اپنے کام کا آغاز کیا۔ پاکستان میں ان کا رابطہ ڈاکٹر جمیل جالبی سے تھا۔ ’راجہ مہدی علی خاں کی ادبی خدمات‘ کے عنوان سے زیر تحت لکھی یہ کتاب سن 2006 میں دکن سے شائع ہوئی تھی۔میں سمجھتا تھا کہ شاید یہ کام حال ہی کیا گیا ہوگا۔ ڈاکٹر مقدر نے اس کے ساتھ ہی راجہ صاحب کے خطوط کو بھی یکجا کرکے کتابی شکل میں شائع کردیا ہے۔
متذکرہ مقالہ 540 صفحات پر مشتمل ہے اور اس میں راجہ صاحب کی نادر تصاویر بھی شامل کی گئی ہیں۔راجہ مہدی علی خاں کا غیر مطبوعہ کلام بھی اس ضخیم کتاب میں شامل ہے۔ اللہ بخشے راجہ صاحب کو، کیا باغ و بہار انسان تھے ۔پژمردہ لوگوں کو پل میں جی اٹھنے پر مجبور کر د ینے والے۔ افسوس کہ ان کی عمر اور ایک عاقبت نااندیش رشتہ دار نے ان سے وفا نہ کی۔راجہ صاحب کو ذیا بطیس کا مرض لاحق ہوگیا تھا،اس رشتہ دار نے انہیں چونا ملا ہوا پانی پینے کا مشورہ دیا، وہ اس پر باقاعدگی سے عمل کرنے لگے تھے۔اس کے نتیجے میں ان کے گردے خراب ہوگئے ، ان دنوں گردوں کا عصری علاج نہ تھا ، سو 23 ستمبر 1915 کو وزیر آباد میں پیدا ہونے والا ہنس مکھ انسان، افسانہ نگاررام لعل اور کنہیا لال کپور کا بے تکلف دوست،48 جولائی 1966 کو محض اکیاون برس کی عمر میں انتقال کرگیا۔ یہاں مجھے ممتاز مفتی یاد آرہے ہیں جن کو کسی معمولی بیماری کی شکایت ہونے پر ایسے ہی کسی عقل مند نے چونا ملا پانی پینے کا مشورہ دیا تھا۔ممتاز مفتی پرانی دیواریں تاکتے تھے،ان سے چونا اتار ، پانی میں گھول، غٹ غٹ پی جاتے تھے، دن میں کئی کئی گلاس ٹھکانے لگا دیا کرتے تھے۔نتیجہ یہ ہوا کہ وہ تکلیف تو ویسے کی ویسی ہی رہی، ساتھ کوئی اور بیماری چمٹ گئی۔
یوں تو راجہ صاحب نے بمبئی کی فلم نگری کے لیے ایک سے ایک گیت لکھے لیکن جب جب بھی راجہ صاحب کا لکھا،لتا منگیشکر کا گایا ، مدن موہن کا کمپوز کیا ہوا ’’ آپ کی نظروں نے سمجھا پیار کے قابل مجھے‘‘ سنتا ہوں، بے اختیار بیس برس کی عمر میں لاہور میں ’پھول ‘ اور ’تہذیب نسواں‘ کو ایڈٹ کرنے والے ،انسان دوست، راجہ مہدی علی خاں کی یاد آجاتی ہے۔ راقم 2008 میں جناب اے حمید سے ملاقات کی غرض سے لاہور گیا تھا اور اس درویش صفت انسان کی ہم نشینی میں کافی وقت گزارا اور جہاں ان سے اور کئی موضوعات پر بات ہوئی، وہاں راجہ مہدی علی خان کا احوال بھی ان کی زبانی سنا۔گرچہ یہ ہم بہت عرصہ قبل ان کے ایک مضمون میں پڑھ چکے تھے۔یاد کیجیے اے حمید صاحب کا بیان کردہ دہلی کے تیس ہزاری کوارٹرز کا دلچسپ احوال جہاں کرشن چندر، راجہ مہدی علی خاں،اوپند ناتھ اشک، منٹو، ن م راشد جیسی شخصیات مقیم تھیں۔
بمبئے ٹاکیز کے تحت بننے والی فلم ’آٹھ دن‘ میں منٹو ،میرا جی اور اشک کے ساتھ ساتھ راجہ صاحب نے بھی ایک مختصر سا کردار ادا کیا تھا۔
الحمرا کا مئی 2012 کا شمارہ موصول ہوا۔گزشتہ شمارے کی رسید نہ دے سکاتھا۔خاکسار کے مکتوب کو پروفیسر جمیل آذر نے خلوص و پسندیدگی کی سند بخشی، ان کا شکر گزار ہوں۔ تازہ شمارے میں پروفیسر صاحب کا مضمون ’غالب۔پہلا علامتی شاعر‘ خاصے کی چیز رہی۔امید ہے کہ پروفیسر صاحب’ غالب بطور امیجسٹ ‘ سے بھی جلد نوازیں گے۔ڈاکٹر خورشید رضوی کا مضمون ’حکیم نیر واسطی‘ ایک نابغہ روزگار شخصیت کی یادوں کو سموئے ہوئے ہے۔ حال ہی میں ڈاکٹر مظہر محمود شیرانی نے اپنے خاکوں کے مجموعے ’کہاں سے لاؤں انہیں‘ میں حکیم صاحب کا عمدہ خاکہ تحریر کیا ہے۔مظہر شیرانی صاحب نے حکیم نیر واسطی کو نباض المک بجا طور پر کہا ہے۔ ڈاکٹر خورشید رضوی کا مضمون پڑھ کر ذہن و قلب میں ’جہان دانش‘ کی یاد تازہ ہوگئی۔ احسان دانش کو حکیم صاحب کے پاس پہلی مرتبہ اختر شیرانی لے کر گئے تھے۔ حکیم صاحب کا لاہور میں نام تھا، مقام تھا، بڑے بڑے رئیس ان کے یہاں آتے تھے۔ جہان دانش میں ایک واقعہ تو ایسا پڑھا تھا کہ جس نے خون رلا دیا، اور جو آج تک ذہن پر نقش ہے احسان دانش بیان کرتے ہیں کہ: " ایک دن حکیم صاحب کے مطب میں ایک مفلوک الحال اور نادار قسم کا انسان آیا اور نہایت عاجزی سے کہنے لگا حکیم صاحب! میری لڑکی بیمار ہے آپ اللہ کے لیے اسے چل کر دیکھ لیں۔ اس فقرے کے ادا کرتے کرتے اس کی پتلیاں آنسؤوں میں ڈوب گئیں۔ وہ بیکو کمپنی کا ایک مزدور تھا جو حکیم صاحب کے مطب سے چار فرلانگ کے فاصلے پر رہتا تھا۔حکیم نیر واسطی نے ایک نظر اس کی طرف دیکھا اور خاموشی سے اٹھ کر اس کے ساتھ ہولیے۔ میں (احسان دانش) حیران تھا کہ یہ تو بڑے بڑے امرا کے یہاں اس طرح نہیں جاتے اور پھر اس وقت جب مطب مریضوں سے بھرا ہوا ہے۔حکیم صاحب اس کے کوارٹر میں گئے، میں ان کے ساتھ تھا، دیکھا کہ ایک کمزور مگر جوان لڑکی ایک جھلنگے کے چوکھٹے میں ڈوبی ہوئی لیٹی ہے اور ٹانگوں پر پرانے اخباری کاغذ ڈھکے ہوئے ہیں۔حکیم صاحب نے پوچھا یہ اس کی ٹانگوں پر اخبار کیوں ڈالے ہوئے ہیں، پھر خفگی سے کہا ہٹاؤ انہیں۔لڑکی کے باپ نے جھکی ہوئی آنکھوں سے جواب دیا حکیم جی! بے پردگی کے خیال سے کاغذ ڈھک دیے ہیں، بچی کا پاجامہ کئی جگہ سے پھٹا ہوا ہے۔
حکیم صاحب تو یہ سن کر سناٹے میں آگئے، کھڑے کھڑے آنسؤوں سے گلا بھر گیا اور ہونٹ کانپنے لگے۔ بمشکل ضبط کیا اور نبض دیکھ کر کچھ اور سوالات کیے جو لڑکی کی بیماری سے متعلق تھے۔ اس کے فورا" بعد لڑکی کے باپ کو ساتھ لے کر مطب گئے اور اپنے دوا ساز سے جلد دوا تیار کرنے کے لیے تاکید کرکے اپنے زنان خانے میں گئے اور دوا کے تیار ہونے تک اپنی بیگم کے دو نئے جوڑے، ایک چادر اور بیس روپے دیتے ہوئے مزدور سے کہا دیکھو یہ کپڑے اس بچی کو پہناؤ، چادر اڑھاؤ اور اس معمولی سی رقم سے کھانے پینے کا سامان لا کر گھر میں رکھو، بلاناغہ دوا خانے سے آکر دوا لے جانا، اور بھی کسی چیز کی ضرورت ہو تو بتانا۔
پھر نہ جانے کب تک دوا جاتی رہی۔" (جہان دانش)
لیجیے ڈاکٹر خورشید صاحب! یہ واقعہ لکھتے لکھتے آنکھوں کی خوب صفائی ہوگئی۔
ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی نے جناب مشفق خواجہ کو یاد کیا ہے۔ عرض کرتا چلوں کہ حیدرآباد (دکن) یونیورسٹی میں ایک صاحب مشفق خواجہ پر پی ایچ ڈی کررہے ہیں، انہوںنے خاکسار سے رابطہ کیا تھا۔ان کی بہتیری مدد تو لاہور میں مقیم ’کتاب گھر ‘کے حسن علی کرہی چکے تھے، مشفق خواجہ کی تصاویر و دیگر مواد کی فراہمی کی ذمہ داری راقم کے ذمے آئی ہے۔
الحمراء میں قسط وار شائع ہونے والی آپ بیتیاں سہج سہج آگے بڑھ رہی ہیں، قارئین کو انتظار رہتا ہے۔محمودہ احمد بشیر صاحبہ اپنے شوہر کی یاداشتوںکو سمیٹ رہی ہیں ، یہ مستحسن کام ہے، یوں تو ’ دل بھٹکے گا‘ اور ’جو ملے تھے راستے میں‘ کے مطالعے کے بعد احمد بشیر صاحب کی زندگی ایک کھلی کتاب کی مانند قاری کے سامنے آجاتی ہے لیکن ان کی اہلیہ کے لکھے واقعات کی اہمیت اپنی جگہ ہے۔
الحمراء میں خطوط کا گوشہ بھی کچھ ا لگ ہی مزہ دیتا ہے۔ مضمون لکھنے کے بجائے مکتوب لکھ بھیجئے، کچھ خاص فرق تو نہیں۔ گھر بیٹھے ادبی دنیا کی معلومات آپ کے دروازے پر پہنچ جاتی ہیں۔ اس مرتبہ محفل احباب کے سرخیل جناب ڈاکٹر انور سدید کے خطوط سے آغاز ہوا ہے۔ آپ لکھتے ہیں:’’ میں نے پچھلے دنوں آپ سے حیدرآباد دکن کے ڈاکٹر ’’جاوید مقدر‘‘کا ذکر کیا تھا جنہوں نے راجہ مہدی علی خاں پر مقالہ لکھ کر عثمانیہ یونیورسٹی دکن سے پی ایچ ڈی کی ڈگری لی ہے۔ یہ مقالہ چھپ گیا ہے لیکن پاکستان میں کسی کے پاس نہیں پہنچا۔‘‘
ڈاکٹر صاحب! ادب کا یہ طالب علم اس لحاظ سے خود کو خوش قسمت تصور کرتا ہے کہ ماہ اپریل میں مذکورہ مقالہ ایک کرم فرما کے توسط سے اس کی دسترس میں آگیا تھا۔ بلاشبہ یہ راجہ مہدی علی خاں صاحب پر اپنی نوعیت کا پہلا کام ہوا ہے۔ مقالہ نگار کا درست نام ’’ ڈاکٹر عبدالقدیر مقدر‘‘ ہے۔اب اس کی کچھ تفصیل عرض کرتا ہوں۔اپریل کی ۱۵ تاریخ کو میرے ایک کرم فرما کی رہائش گاہ پر موجود ’خاتون‘ و حضرات نے نظام آباد دکن سے آئے ہوئے بزرگ صحافی جناب فرید تبسم خاں کو خوش آمدید کہا۔ فرید صاحب روزنامہ مارننگ ٹائمز سے وابستہ ہیں۔شرکاء کی موجودگی ایک ادبی نشست میں تبدیل ہوجائے گی، اس بات کا علم مجھے پہلے سے نہ تھا۔ دکنی شیروانی میں ملبوس حیدرآبادی نستعلیق لب و لہجے کے مالک فرید تبسم خاں اپنے ہمراہ ایک قیمتی کتاب لیتے آئے تھے۔ قیمتی اس لیے کہ یہ بمبئی فلمی صنعت سے وابستہ گیت کار و شاعر راجہ مہدی علی خاں پر پی ایچ ڈی کا پہلا تحقیقی مقالہ تھا ۔ راجہ صاحب پر اس سے قبل تحقیق نہیں کی گئی تھی اور مصنف نے ہندوستان و پاکستان میں اس بات کی تصدیق کے بعد ہی اس موضوع پر اپنے کام کا آغاز کیا۔ پاکستان میں ان کا رابطہ ڈاکٹر جمیل جالبی سے تھا۔ ’راجہ مہدی علی خاں کی ادبی خدمات‘ کے عنوان سے زیر تحت لکھی یہ کتاب سن 2006 میں دکن سے شائع ہوئی تھی۔میں سمجھتا تھا کہ شاید یہ کام حال ہی کیا گیا ہوگا۔ ڈاکٹر مقدر نے اس کے ساتھ ہی راجہ صاحب کے خطوط کو بھی یکجا کرکے کتابی شکل میں شائع کردیا ہے۔
متذکرہ مقالہ 540 صفحات پر مشتمل ہے اور اس میں راجہ صاحب کی نادر تصاویر بھی شامل کی گئی ہیں۔راجہ مہدی علی خاں کا غیر مطبوعہ کلام بھی اس ضخیم کتاب میں شامل ہے۔ اللہ بخشے راجہ صاحب کو، کیا باغ و بہار انسان تھے ۔پژمردہ لوگوں کو پل میں جی اٹھنے پر مجبور کر د ینے والے۔ افسوس کہ ان کی عمر اور ایک عاقبت نااندیش رشتہ دار نے ان سے وفا نہ کی۔راجہ صاحب کو ذیا بطیس کا مرض لاحق ہوگیا تھا،اس رشتہ دار نے انہیں چونا ملا ہوا پانی پینے کا مشورہ دیا، وہ اس پر باقاعدگی سے عمل کرنے لگے تھے۔اس کے نتیجے میں ان کے گردے خراب ہوگئے ، ان دنوں گردوں کا عصری علاج نہ تھا ، سو 23 ستمبر 1915 کو وزیر آباد میں پیدا ہونے والا ہنس مکھ انسان، افسانہ نگاررام لعل اور کنہیا لال کپور کا بے تکلف دوست،48 جولائی 1966 کو محض اکیاون برس کی عمر میں انتقال کرگیا۔ یہاں مجھے ممتاز مفتی یاد آرہے ہیں جن کو کسی معمولی بیماری کی شکایت ہونے پر ایسے ہی کسی عقل مند نے چونا ملا پانی پینے کا مشورہ دیا تھا۔ممتاز مفتی پرانی دیواریں تاکتے تھے،ان سے چونا اتار ، پانی میں گھول، غٹ غٹ پی جاتے تھے، دن میں کئی کئی گلاس ٹھکانے لگا دیا کرتے تھے۔نتیجہ یہ ہوا کہ وہ تکلیف تو ویسے کی ویسی ہی رہی، ساتھ کوئی اور بیماری چمٹ گئی۔
یوں تو راجہ صاحب نے بمبئی کی فلم نگری کے لیے ایک سے ایک گیت لکھے لیکن جب جب بھی راجہ صاحب کا لکھا،لتا منگیشکر کا گایا ، مدن موہن کا کمپوز کیا ہوا ’’ آپ کی نظروں نے سمجھا پیار کے قابل مجھے‘‘ سنتا ہوں، بے اختیار بیس برس کی عمر میں لاہور میں ’پھول ‘ اور ’تہذیب نسواں‘ کو ایڈٹ کرنے والے ،انسان دوست، راجہ مہدی علی خاں کی یاد آجاتی ہے۔ راقم 2008 میں جناب اے حمید سے ملاقات کی غرض سے لاہور گیا تھا اور اس درویش صفت انسان کی ہم نشینی میں کافی وقت گزارا اور جہاں ان سے اور کئی موضوعات پر بات ہوئی، وہاں راجہ مہدی علی خان کا احوال بھی ان کی زبانی سنا۔گرچہ یہ ہم بہت عرصہ قبل ان کے ایک مضمون میں پڑھ چکے تھے۔یاد کیجیے اے حمید صاحب کا بیان کردہ دہلی کے تیس ہزاری کوارٹرز کا دلچسپ احوال جہاں کرشن چندر، راجہ مہدی علی خاں،اوپند ناتھ اشک، منٹو، ن م راشد جیسی شخصیات مقیم تھیں۔
بمبئے ٹاکیز کے تحت بننے والی فلم ’آٹھ دن‘ میں منٹو ،میرا جی اور اشک کے ساتھ ساتھ راجہ صاحب نے بھی ایک مختصر سا کردار ادا کیا تھا۔