الحکم بغیرما انزل اﷲ

جاویداقبال

محفلین
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔
الحکم بغیرما انزل اﷲ
اللہ تعالی کے نازل کردہ فیصلے کے خلاف فیصلہ کرنا۔

الحمداللہ الحکم العدل الفرداالصمدالذی اذا حکم فہواحکم الحاکمین واذارحم فہوارحم الراحمین واذااخذ فہوالقوی العزیزالمتین، و الصلوۃ والسلام علی النبی الکریم الصادق الوعدالامین،الداعی الی توحیدراب العالمین ،المبعوث رحمۃ للعالمین ، وعلی آلہ وصحبہ اجمین۔ امابعد:۔
اللہ تعالی کے نازل کردہ حکم کے مطابق فیصلہ کرنادین ،ایمان اورتوحید ہے دین اس لئے ہے کہ سارا دین اسلام اللہ تعالی کے نازل کردہ فیصلے ہی توہیں اورایمان اس لئے ہے کہ اس کے بغیرایمان نامکمل ہے کیونکہ ایمان صرف زبان کا قول نہیں ہے کہ میں مومن ہوںبلکہ زبان کے قول اور عمل اوردل اوربدن کے عمل کا مجموعہ ہے اوراللہ تعالی کے نازل کردہ فیصلہ کے مطابق زندگی گزارناہی ایمان کامل کی علامت ہے ۔اورتوحید اس لئے ہے کہ توحیدکی تینوں قسموں میں اس کا شمار ہوتاہے توحیدربوبیت کیونکہ اللہ تعالی حاکم ہے اوراپنے فیصلوں سے پوری کائنات کی تدبیرکرتاہے توحیدالوہیت کیونکہ جوشخص اللہ تعالی کے فیصلوں کے مطابق زندگی گزارتاہے وہ اللہ تعالی کی بندگی میں رواں دواں ہوتاہے اللہ تعالی سے ڈرتے ہوئے محبت اور امید کے ساتھ تویہ عین عبادت ہے اورتوحید اسماء اور صفات کیونکہ اللہ تعالی حکم ہے اور حکمت والاہے ۔
یہ جانناضروری ہے کہ ہرمسلمان پر فرض ہے کہ وہ اپنی زندگی اللہ تعالی کے نازل کردہ فیصلوں کے مطابق گزارے چاہے وہ حاکم ہو یا محکوم مردہو یا عورت ،چھوٹا ہویابڑا ،امیر ہو یا غریب ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اورصرف ایک گروہ پر اس مسئلے کو فرض کردینا اورہمیشہ صرف اسی کا ذکر کرنا اور ردکرنا درست نہیں ہے بلکہ اس مسئلے میں سب شامل ہیں جوبھی اللہ تعالی کے نازل کردہ فیصلے کے خلاف فیصلہ کرے سب کی تردیدکرنی چاہیے اور سب کوراہ حق کی طرف بلانا چاہیے اس میں کوئی شک نہیں کہ حکمران پر زیادہ ذمہ داری ہوتی ہے لیکن انصاف کے نقطہ نظر سے سب کو آگاہ کرنا چاہیے ۔
حکمران کے معاملے میں جب وہ اللہ تعالی کے نازل کردہ فیصلے کے خلاف فیصلہ کرے اہل قبلہ تین گرہوں میں بٹ گئے ،
1۔ خوارج:۔
یہ وہ گروہ ہے جوکبیرہ گناہوں کی وجہ سے مسلمانوں پرکفراکبرکافتوی لگاتے ہیں۔ان کے نزدیک کبیرہ گناہ کامرتکب کافرہے ۔اوریہ باطل ہے ۔ انکاعقیدہ ہے کہ ایساحکمران کافرہے کفراکبریعنی وہ دائرہ اسلام سے خارج اورایسا حکمران کا ایمان ہے ہی نہیں۔
2۔مرجیہ:۔
یہ وہ گروہ ہے جواعمال کو ایمان سے خارج کردیتے ہیں اورایمان زیادہ یاکم نہیں ہوتاان کے نزدیک کبیرہ گناہ کامرتکب پکامومن ہے ان کے ایمان میں کوئی کمی نہیں ہوتی ۔اوریہ بھی باطل ہے ۔انکا عقیدہ ہے کہ ایسا حکمران مومن ہے اوراس کا ایمان کامل ہے اس کے ایمان میں کوئی فرق نہیں پڑتا۔
3۔اہلسنت والجماعت:۔
یہ وہ گروہ ہے جونبی اکرم(صلی اللہ علیہ والہ وسلم ) کی سنت پر (یعنی طریقے پر)جمع ہوئے اوران کے نزدیک ایمان زبان کاقول اوردل اوربدن
کے عمل کامجموعہ ہے جواللہ تعالی کی فرمابردای سے بڑھتاہے اورنافرمانی سے کم ہوتاہے ۔اوریہی حق ہے۔ انکاعقیدہ ہے کہ ایسے حکمران پر حکم نافذ کرنے سے
پہلے تفیصل بیان کرناضروری ہے اور پھر اس تفیصل کے مطابق اس پر حکم نافذکیاجاتاہے۔تفیصل ملاحظہ فرمائیں:۔
جب بھی کوئی حکمران فیصلہ کرتاہے یا قانون پاس کرتاہے تو اس کی دو صورتیں ہیں۔
1۔ اللہ تعالی کے فیصلے کے مطابق ہوتاہے یہی حق ہے اور یہی مقصود ہے اورایسا حکمران اجر وثواب کامستحق ہوتاہے۔
2۔ اللہ تعالی کے نازل کردہ فیصلے کے خلاف ہو۔ اس کی دو مختلف صورتیں ہیں۔
i۔ اس فیصلے کو جواس نے نافذکیا اور اللہ تعالی کے فیصلے کے خلاف ثابت ہوا لیکن اسے یقین ہے کہ یہ فیصلہ جائز ہے یا اللہ تعالی کے فیصلے سے بہتر وافضل ہے یا اس کے برابر ہے یااسے جاننے کے بعد یایقین کرنے کے بعد جھٹلادے (جحود)یااس پر بغیریقین کے جھٹلادے(تکذیب)یااللہ تعالی کے نازل کردہ فیصلے کوہٹا کر اپنا فیصلہ اس کی جگہ پر ثابت کردے اوراسے شریعت کی طرف منسوب کردے (تبدیل)یہ سب صورتیں کفر اکبر کی صورتیں ہیں اس کی وجہ سے فیصلہ کرنے والا دائرہ اسلام سے خارج ہوجاتاہے اسکی تفیصل ملاحظہ فرمائیں:۔
کفر اکبر کی چھ صورتیں ہیں جو بیان ہوچکی ہیں ان کی تفصیل یہ ہے ۔
1۔ اگراپنے فیصلے کو جو اللہ تعالی کے فیصلے کے خلاف ہے جائز سمجھے( اسے استحلال کہتے ہیں )اوراس کے کفر اکبر ہونے پر اجماع ہے ۔شیخ الاسلام ابن تیمیہ (رحمۃ اللہ علیہ ) فرماتے ہیں (اورانسان جب کسی حرام چیز کو حلال کردے جس کے حرام ہونے پر اجماع ہو یاکسی حلال چیز کو حرام کردے جس کے حلال ہونے پر اجماع ہو یااس شرع کو تبدیل کردے جس پر اجماع ہوتو وہ کافر ومرتد ہوگااورا س پر فقہا کا اتفاق ہے ۔اورایسے شخص پر اللہ تعالی کا یہ فرمان نازل ہوا(ایک قول کے مطابق)(ومن لم یحکم بماانزل اللہ فاولیئک ہم الکافرون)(سورۃ المائدہ :آیت 44)یعنی یہ وہ شخص ہے جو اللہ تعالی کے فیصلے کو جائز سمجھتاہے (فتاوی ابن تیمیمہ جلد نمبر3صفحہ نمبر267)شیخ بن باز (رحمۃ اللہ علیہ) نے فرمایا (علماء کا اجماع ہے اس شخص کے کافر ہونے پر جس نے کسی حرام چیز کو حلال سمجھاجسے اللہ تعالی نے حرام کر دیا ہے یا حلال کو حرام سمجھا جسے اللہ تعالی نے حرام کردیا ہے )(فتاوی بن بازجلد نمبر 2صفحہ 330)
2۔ اگراپنے فیصلے کو جواللہ تعالی کے فیصلے کے خلاف ہے اسے اللہ تعالی کے فیصلے سے بہتر اور افضل سمجھے (اسے تفضیل کہتے ہیں) اس کی دلیل ارشادباری تعالی ہے ۔(ومن احسن من اللہ حکماً لقومٍ یوقنون)(سورۃ المائدہ :آیت نمبر50)شیخ بن باز (رحمۃ اللہ علیہ ) فرماتے ہیں (جس نے اللہ تعالی کے فیصلے کے خلاف فیصلہ کیایہ سمجھتے ہوئے کہ اس کا فیصلہ اللہ تعالی کے فیصلے سے بہترہے تو وہ کافرہے سب مسلمانوں کے ہاں )(فتاوی بن بازجلد نمبر4صفحہ نمبر416)۔اورکفراکبراس لئے ہے کہ اس نے قرآن مجیدکی اس آیت کو جھٹلایا۔
3۔ اگراپنے فیصلے کو جواللہ تعالی کے فیصلے کے خلاف ہے اسے اللہ تعالی کے فیصلے کے برابر سمجھے (اسے مساوات کہتے ہیں) دلیل۔i۔کیونکہ اس نے قرآن مجید کی اس آیت کو جھٹلایاجو اوپر بیان ہوچکی ہے ۔ii۔ شیخ بن باز (رحمۃ اللہ علیہ ) فرماتے ہیں (جس نے یہ یقین کیا کہ وہ قوانین او رفیصلے جنہیں لوگ بناتے ہیں شریعت اسلام سے بہتر ہیں یا اس کے برابر ہیں یاان کی طرف لوٹ کر فیصلہ کرنا جائز ہے ۔۔۔۔۔تووہ کافرہے۔)فتاوی بن بازجلدنمبر1صفحہ نمبر132)
4۔ اگراللہ تعالی کے فیصلے کو جاننے اور یقین کرنے کے بعد جھٹلا دے (اسے جحودکہتے ہیں)دلیل اجماع ہے شیخ بن باز(رحمۃ اللہ علیہ ) فرماتے ہیں اور اسی طرح اس کے حق میں جس نے کسی چیز کو جھٹلادیا جسے اللہ تعالی نے واجب کردیا ۔۔۔۔۔۔تو بیشک وہ کافر اور مرتد ہے اگرچہ وہ اسلا م کا دعویٰ کرے اس پر اہل علم کا اجما ع ہے فتاوی بن باز جلد نمبر7صفحہ نمبر78)
5۔ اگر اللہ تعالی کے فیصلے کو جھٹلا دے (اسے تکذیب کہتے ہیں) یہ بھی کفر اکبر ہے ۔شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں (ہر جھٹلانے والا جس نے
اس چیز کو جھٹلایا جو پیغمبر علیہ الاسلام لیکر آئے تووہ کافر ہے۔فتاوی ابن تیمیمہ جلد نمبر2صفحہ نمبر79) اورعلامہ ابن قیم (رحمۃ اللہ علیہ ) فرماتے ہیں کفر تکذیب یہ ہے کہ یہ یقین کرنا کہ پیغمبر جھوٹے ہیں (نعوذباللہ)(مدارج السالکین جلد نمبر1صفحہ نمبر346)
6۔اگر اللہ تعالی کے فیصلے کے خلاف فیصلہ کرے اور یہ دعویٰ کرے کہ یہی اللہ تعالی کا فیصلہ ہے یعنی اسے شریعت کی طرف منسوب کرے(اسے تبدیل کہتے ہیں)اوریہ بھی کفر اکبر ہے اگرچہ صرف ایک ہی مسئلہ میں تبدیلی کیوں نہ ہو۔دلیل اجما ع ہے شیخ الاسلام ابن تیمیہ(رحمۃ اللہ علیہ)فرماتے ہیں(اورانسان جب کسی حرام چیزکوحلال کردے جس کے حرام ہونے پر اجماع اورحلال چیز کوحرام کردے جس کے حلال ہونے پر اجماع ہویااس شریح کو تبدیل کردے جس پر اجما ع ہوتو وہ کافر و مرتدہوگاجس پر فقہا اسلام کا اتفاق ہے)(فتاوی بن ابن تیمیہ جلد نمبر3صفحہ نمبر 267)
ان سب صورتوں میں دوچیزوں کاخاص خیال رکھا جائے۔
1۔ یہ سب امور اعتقادی امورہیں جن کا تعلق دل سے ہے یعنی اگراس نے صرف یہ عقیدہ رکھا اورفیصلہ اللہ تعالی کے حکم کے مطابق ہی کرتاہے تو وہ کافر ہے کافر اکبردائرہ اسلام سے خارج ہے ۔
2۔ کیونکہ ان امور کا تعلق دل سے ہے اور دل کاحال تو صرف اللہ تعالی ہی جانتاہے تو کسی کے لئے جائزنہیں ہے کہ ان امورسے کسی پر کفراکبر کا فتوویٰ لگائے جب تک کہ وہ اپنی زبان سے اس کا اقرار نہ کرے یااس کی تصریح نہ کردے۔
ؒؒii۔ اللہ تعالی کے نازل کردہ فیصلے کے خلاف فیصلہ کرنے کی دوسری صورت یہ ہے کہ اس فیصلے کو جو اس نے نافذ کیا اوراللہ تعالی کے فیصلے کے خلاف ہے اوراسے یقین ہے کہ یہ فیصلہ جائزنہیں ہے اوراللہ تعالی کے فیصلے سے بہتر اور افضل نہیں ہے اوراس کے برابربھی نہیں ہے اوراسے جھٹلایا بھی نہیں ہے اورنہ ہی اس فیصلے کو دین کیطرف منسوب کرتاہے لیکن اس نے یہ غلط فیصلہ صرف دنیا وی شہوت کے لئے کیاہے تویہ کفراصغرہے کفراکبرنہیں اس کی تین صورتیں ہیں۔
1۔ اللہ تعالی کے نازل کردہ فیصلے کے خلاف فیصلہ کرے لیکن اس نئے فیصلے کو شریعت کی طرف منسوب نہ کرے اور اسے یقین ہے کہ یہ فیصلہ جائزنہیں اورنہ ہی شریعت کے فیصلے سے بہتر ہے اورنہ ہی اس کے برابر ہے اورنہ ہی اسے جھٹلاتاہے ۔(اسے استبدال کہتے ہیں)اوریہ کفراصغر ہے ۔دلیل۔اجماع ہے۔علامہ ابن عبدالبرفرماتے ہیں (اوراس پر علماء کا اجماع ہے جس نے بھی فیصلہ کرتے وقت ظلم اورناانصافی کی تویہ کبیراگناہوں سے ہے جس نے جان بوجھ کر جانتے ہوئے ایسا کیا)(التمہیدجلد نمبر16صفحہ نمبر358)
2۔ اللہ تعالی کے نازل کردہ فیصلے کے خلاف فیصلہ کرے اپنے قانون سے جو اس نے خود بنایا ہے اوراسے یقین ہے کہ اس کا نیا فیصلہ اور قانون جائزنہیں ہے اور نہ ہی شریعت کے فیصلے سے بہتر ہے اور نہ ہی اسکے برابر ہے اور نہ ہی اسے جھٹلاتاہے اورنہ ہی اسے شریعت کی طرف منسوب کرتاہے(اسے تقنین کہتے ہیں)اور یہ کفر اصغر ہے ۔کیونکہ اس کے کفر اکبر ہونے کی کوئی دلیل ہی نہیں۔
3۔ اللہ تعالی کے نازل کردہ فیصلے کے خلاف فیصلہ کرے اپنے قانون سے جو اسے پسند ہے اوراس قانون اور فیصلے کو اپنے ماتحت سب پر عام کردے اورلوگوں پر لازم کردے لیکن اس کایقین ہے کہ اس کا قانون جائزنہیں ہے اور نہ ہی شریعت کے فیصلے سے بہتر ہے اور نہ ہی اسکے برابر ہے اور نہ ہی اسے جھٹلاتاہے اورنہ ہی اسے شریعت کی طرف منسوب کرتاہے(اسے تشریع عام کہتے ہیں)اور یہ صورت محققین علماء کے نزدیک کفراصغرہے اکبر نہیں۔کیونکہ اس کے کفراکبرہونے کی صراحۃً کوئی دلیل نہیں ہے اور بغیر دلیل کے کوئی حکم نافذ نہیں کیا جاتاہے اورخاص طور پر کفر اکبر کے مسئلہ میں۔اوراسی صورت میں اہلسنت والجماعت کے علماء کا اختلاف ہوا ہے}نوٹ{:۔ یہ اس لئے کہتے ہیں کہ اس کا یہ یقین ہے جوقانون اس نے نافذکیاوہ جائزنہیںہے اور نہ ہی شریعت کے فیصلے سے بہتر ہے۔۔۔۔۔۔۔۔ کیونکہ ہر مسلمان بنیادی طور پر کفر سے پاک ہے اور اس کاعقیدہ درست ہے جب تک کہ اس سے کوئی ایسا قول یاعمل نہ ہوجائے جواسے یقینی طورپردائرہ اسلام سے خارج کردے۔ شیخ الاسلام ابن تیمیہ (رحمۃ اللہ علیہ ) فرماتے ہیں (جس شخص کااسلام یقین سے ثابت ہوجائے تو محض شک کی بنیادپراسے دائرہ اسلام سے خارج نہیں کیاجاسکتا(فتاوی ابن تیمیہ جلد نمبر12صفحہ نمبر466)
اب دونوں فریقین کی تفصیل اور دلیل ملاحظہ فرمائیں۔
پہلا گروہ :۔
1۔ تشریع عام کفراکبرہے اس قول کی طرف شیح محمدابراہیم ال شیخ رحمہ اللہ اور شیخ صالح الفوزان حفظہ اللہ گئے ہیں۔انکی دلیل 1۔ قرآن وسنت میں ایسے حکمران کے کافرکفراکبرہونے کی کوئی خاص دلیل نہیں ہے اور ان علماء نے بھی صرف تعلیل بیان کی ہے دلیل نہیں ۔ اسے لئے جب شیخ صالح الفوزان نے کتاب التوحید میں شیخ محمد بن ابراہیم کاقول نقل کیا اس کے ساتھ دلیل نہیں بیان کی ۔ نہ تو شیخ محمدابراہیم نے دلیل بیان کی اورنہ شیخ صالح الفوزان نے دلیل بیان کی ۔(اورجن عام آیات کاآپ نے استدلال کیاہے ان کاجواب اس کے بعدملاحظہ فرمائیں)
شیخ محمدابراہیم اورشیخ صالح الفوزان کی تعلیل یہ ہے کہ ایساحکمران جوپوری شریعت کے قوانین کوچھوڑکراپنے یاکسی اورکے قوانین کونافذکرتاہے اوراپنے ماتحت سب پرعام کردیتاہے تواس سے لازم ہوتاہے۔کہ اس نے ان قوانین کواللہ تعالی کے فیصلے سے افضل اور بہترسمجھاہے یااس کایہ عقیدہ ہے کہ یہ قوانین اللہ تعالی کے نازل کردہ فیصلے سے اچھے ہیں ۔
جواب:۔ دلیل نمبر1:۔
ان جلیل القدر واجب احترام فاضل علماء کی یہ تعلیل درست نہیں ہے مندرجہ ذیل وجوہات ملاحظہ فرمائیں۔
1۔تکفیر کے اہم ضوابط میں سے ایک ضابطہ یہ ہے کہ کافرصرف وہ ہے جس کے کفر پر کوئی دلیل موجودہو قرآن سے یاسنت سے یااجماع سے ۔ اوراس مسئلے میں کوئی دلیل نہیں ہے۔
2۔ لازم سے کسی کے کافرہونے کااستدلال کرنابھی درست نہیںکیونکہ لازم کابھی بعض اوقات ثبوت نہیں ہوتایعنی یہ بھی ہوسکتاہے کہ یہ حکمران ایساکرنے کے باوجودبھی ان قوانین کو شریعت کے قوانین سے افضل نہ سمجھتاہو۔شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں(یہ لازم نہیں ہے کہ اگرکوئی کہنے والا کچھ ایسا کہے جس سے اللہ تعالی کی اسماء و صفات کی تعطیل مقصودہوکہ اس کے عقیدہ میں تعطیل ہے بلکہ ایسا شخص اسماء وصفات کوثابت کرنے کاعقیدہ رکھتاہے لیکن اسے اس لازم کاعلم ہی نہیں(فتاوی ا بن تیمیہ جلد نمبر16صفحہ نمبر461)
3۔ اس لازم کے مسئلہ میں شک ہے کہ اس کاایساعقیدہ ہے کہ نہیں اورجب شک ہوتاہے توشک کی بنیادپردلیل قائم نہیں ہوسکتی اورشریعت کی حدیں بھی ساقط ہوجاتی ہیں اوریہ توتکفیرکامسئلہ ہے جوحدودوتعیزرات سے زیادہ سنگین ہے۔اوراس مشہورقاعدہ کے بھی خلاف ہے ۔جب احتمال واردہوتاہے تواستدلال باطل ہوجاتاہے۔
4۔یہ لازم مشہورشرعی قاعدہ کے خلاف ہے( جس کااسلام یقین سے ثابت ہوجائے وہ محض شک کی بنیاد پر دائرہ اسلام سے خارج نہیں کیاجاسکتا)۔(فتاوی ابن تیمیہ جلدنمبر12صفحہ نمبر466)
5۔ عقیدہ کاتعلق دل سے ہوتاہے یعنی کسی شخص کایہ عقیدہ ہے کہ اس نے فلاں چیز کوفلاں سے بہترسمجھاہے اسکاتودل سے تعلق ہے اوردل کے احوال توصرف اللہ تعالی ہی جانتاہے جب تک کہ وہ شخص اپنی زبان سے اقرار نہیں کرتاکہ اس نے غیراللہ کے فیصلہ کواللہ تعالی کے نازل کردہ فیصلے سے افضل سمجھاہے اس پر
کفراکبرکافتوی لگانادرست نہیں۔اوراس مسئلہ کی دلیل حضرت اسامہ بن زید(رضی اللہ عنہ)کامشہورقصہ صحیح بخاری اورمسلم میں جب انہوںنے
ایک کافر کوکلمہ طیبہ پڑھنے کے بعدقتل کردیانبی اکرم (صلی اللہ علیہ والہ وسلم) نے اسامہ بن زید (رضی اللہ عنہ) پرشدید غصہ کااظہارکیااورفرمایاکیاتونے اس کاسینہ کھول کے دیکھاتھاکہ اس نے صرف زبان سے کلمہ پڑھاتھا۔۔۔۔۔۔(الحدیث)(بخاری،ح6872، 4269،مسلم،273)
6۔اس لازم کے طریقے سے ایسے حکمران پر کفر اکبر کافتوی لگانے سے دوسری لازم بات نکلتی ہے جس کے کفراکبر نہ ہونے کا اہلسنت والجماعت کااجماع ہے مثلاً اگرکوئی شخص جوگھر کاسربراہ ہے اپنے گھر میں شراب خانہ کھول لیتا ہے اور اپنے ماتحت گھر والوں کو اس کاروبارکرنے پر مجبور کردیتاہے ۔اور یہ شخص کسی کی نصحیت سننے کے لیئے تیاربھی نہیں ہے توایساشخص کافر کفراکبر نہیں ہے بلکہ کافرکفراصغراورکبیرہ گناہ کامرتکب ہے ۔علامہ ابن عبدالبر(رحمۃ اللہ علیہ) فرماتے ہیں اہلسنت والجماعت ،(اہل فقہ اوراہل اثردونوں کا)اتفاق ہے کسی شخص کو اس کاگناہ اسلام سے خارج نہیں کرتاہے چاہیے کتنا بڑا کیوں نہ ہو(التمہید جلد نمبر16صفحہ نمبر315)(نوٹ:۔ظاہر ہے کفر اورشرک اکبر کے علاوہ گناہ مقصودہیں )
7۔ یہ لازم بات درست نہیں ہے اسی لیے علامہ محمد بن صالح العثیمین (رحمۃ اللہ علیہ) نے اپنے اس قول سے رجوع کرلیا۔ ملاحظہ فرمائیں۔
1۔ ان کا پہلا قول وہ فرماتے ہیں (کیونکہ جس نے ایسا قانون نافذ کیاجواسلامی شریعیت کے خلاف ہے تو اس شخص نے صرف اس لیئے ایسا کیاکہ اس کایہ عقیدہ ہے کہ یہ قانون جو اس نے نافذ کیااسلام سے بہتر ہے اورلوگوں کے لیئے زیادہ فائدہ مند ہے (فتاوی ابن العثیمین جلد نمبر2صفحہ نمبر143)
2۔ ان کادوسرا قول جن میں انہوںنے اپنے پہلے قول سے رجوع کیاوہ فرماتے ہیں(اگرکوئی حکمران قانون نافذ کرے اوراسے دستور بنادے جس پر لوگ چلتے رہیں اوراس کایہ عقیدہ ہے کہ وہ اس میں ظالم ہے اورحق اس میں ہے جوقرآن وسنت میں ہے تو ہم ایسے شخص کو کافر نہیں کہہ سکتے کافر تو صرف وہ ہے جو غیراللہ کے فیصلے کو بہتر سمجھے یااللہ تعالی کے فیصلے کے برابر سمجھے۔یہ فتوی( التحریرفی مسالہ التکفیر)کیسٹ میں موجود ہے اور اس فتوی کی تاریخ 22/03/1420ھ ہے جیسا کہ اس کیسٹ کے شروع میں بیان کیا گیاہے اورکتابی شکل میں بھی مارکیٹ میں موجود ہے۔
دلیل نمبر2: ۔
بعض علماء نے اس آیت کو بطوردلیل پیش کیا۔ارشاد باری تعالی ہے (ومن لم یحکم بماانزل اللہ فاولیئک ہم الکافرون)(سورۃ مائدہ آیت نمبر44)
جواب:۔
یہ بات درست ہے کہ اس آیت کریمہ کے ظاہر سے یہ معلوم ہوتاہے کہ جس نے اللہ تعالی کے فیصلے کو چھوڑا وہ کافر ہے لیکن یہ ظاہرمندرجہ ذیل وجوہات کی وجہ سے درست نہیں۔
پہلی وجہ:۔
اہلسنت والجماعت کے علماء کااجماع ہے کہ اس آیت سے ظاہرمراد نہیں ہے اوراس آیت کے ظاہر سے خوارج اورمعتزلہ کفراکبرکااستدلال کرتے ہیں۔
مندرجہ ذیل علماء کے اقوال ملاحظہ فرمائیں۔
1۔ علامہ قرطبی (رحمۃ اللہ علیہ) فرماتے ہیں(اس آیت کے ظاہر سے وہ لوگ کفر اکبر کی حجت بیان کرتے ہیں جوگناہوں کی وجہ سے کفراکبر کافتوی لگاتے ہیں اوروہ خوارج ہیں۔اور اس آیت میں انکی کوئی حجت نہیں)(المفہم جلد نمبر5صفحہ نمبر117)
2۔ حافظ ابن عبدالبر(رحمۃ اللہ علیہ) فرماتے ہیں (اوراہل بدع کی ایک جماعت گمراہ ہوئی خوارج اورمعتزلہ میں سے اس باب میں پس انہوں نے ان
آثار سے حجت بیان کی کہ کبیرہ گناہوں کے معترکب کافرہیں اور اللہ تعالی کی کتاب میں سے ایسی آیات کو حجت بنایاجن سے ظاہر مراد نہیں ہے جیسا
کہ اللہ تعالی نے فرمایا(ومن لم یحکم بماانزل اللہ فاولیئک ھم الکافرون)(سورۃ مائدہ آیت نمبر44)(التمہیدجلد نمبر16صفحہ نمبر312)
3۔ امام اجری(رحمۃ اللہ علیہ ) فرماتے ہیں (اورحروری (خوارج)جن متشابہ آیات کی پیروی کرتے ہیں ان میں سے یہ آیت بھی ہے (ومن لم یحکم بماانزل اللہ فاولیئک ہم الکافرون)(سورۃ مائدہ آیت نمبر44)اور اس آیت کے ساتھ یہ آیت بھی بیان کرتے ہیں(ثم الذین کفروابربہم یعدلون )(سورۃ انعام آیت نمبر1)پس جب وہ کسی حکمران کودیکھتے ہیں کہ وہ بغیرحق کے فیصلہ کرتاہے کہتے ہیں یہ کافر ہے اورجس نے کفر کیااس نے اپنے رب کے ساتھ شریک بنالیاپس یہ حکمران مشرک ہیں پھر نکلتے ہیں اوروہ
کرتے ہیں جوآپ دیکھتے ہیں کیونکہ اس آیت کی تاویل کرتے ہیں ۔(الشریعہ صفحہ نمبر44)
دوسری وجہ:۔
کہ اس آیت سے ظاہرمراد نہیں ہے۔جس نے بھی گناہ کیایانافرمانی کی تواس نے بھی اللہ تعالی کے نازل کردہ فیصلے کو چھوڑدیا۔ا مام ابن حزم (رحمۃ اللہ علیہ ) (سورۃ مائدہ کی تینوں آیات 44،45،47)کاذکرکرنے کے بعدفرماتے ہیں تولازم ہے معتزلہ پرکہ وہ ہرگناہ گارظالم اورفاسق شخص کے کفرکی تصریح کریں کیونکہ جس نے نافرمانی کی اورمعصیت کی تو اس نے اللہ تعالی کے نازل کردہ فیصلے کے مطابق فیصلہ نہیں کیا۔
تیسری وجہ:۔
اس آیت کریمہ سے ظاہر مرادنہیں ہے کہ اگرکوئی حکمران یاکوئی اورشخص صرف ایک یادوشریعت کے مسائل کے خلاف فیصلہ کرے یااپنے ماتحت عوام پر صرف دویاتین مسائل میں شریعت کے قوانین کے خلاف فیصلہ کرے تو بھی کافر کفراکبرہوگا۔کیونکہ اس آیت کے ظاہر سے یہی مرادہے۔کہ جس نے بھی اللہ تعالی کے نازل کردہ فیصلے کو چھوڑدیااس کی مقدارمعین نہیں کی کہ ایک فیصلہ ہے یا دوہیں یاسارے کے سارے شریعت کے فیصلے مرادہیں اورایسے حکمران کے کفرکی نفی توآپ بھی کرتے ہیں جیسے کہِشیخ محمدابراہیم اورشیخ صالح الفوزان نے بیان کیا۔
چوتھی وجہ:۔
کہ اس آیت کریمہ سے ظاہر مرادنہیں ہے یہ آیت ایسے حکمران کے کفرکی دلیل نہیں بن سکتی کیونکہ اس آیت کریمہ میں کفراکبر کی دلالت پرعلماء
کا اختلاف ہے جیساکہ حضرت عبداللہ بن عباس(رضی اللہ تعالی عنہ) اورحضرت عطاء اورحضرت طاؤس سے ثابت ہے۔کہ وہ اس آیت کریمہ سے کفردون کفریعنی کفراصغرہی مرادلیاہے اوریہ اختلاف ہردورمیں موجودتھااورآج بھی موجودہے۔اورقاعدہ کے مطابق (الذا اوجدالاحتمال بطل الاستدلال )
دلیل نمبر3:۔
بعض علماء نے اس آیت کریمہ کوبطوردلیل پیش کیاارشادباری تعالی ہے (افحکم الجاہلیہ یبغون ومن احسن من اللہ حکماً لقومٍ یوقنون)(سورۃ مائدہ آیت نمبر50)
جواب:۔
اس آیت کریمہ میں واضح دلیل ہے اس حکمران کے کافرہونے کی جواللہ تعالی کے فیصلوں سے دوسرے قوانین کو احسن اور افضل سمجھتاہے اور اس
مسئلے کو تفضیل کہتے ہیں ۔اورایسے حکمران کے کافرہونے پر ہماراکوئی اختلاف نہیں۔لیکن یہ آیت کریمہ ایسے حکمران کے کفرکی دلیل نہیں بن سکتی جو اللہ تعالی
کے شریعت کو چھوڑکردوسرے قوانین نافذکرے جب تک وہ ان قوانین کے بہتراورافضل تصریح نہ کردے۔
دلیل نمبر4:۔
بعض علماء نے اس آیت کریمہ کو بطوردلیل پیش کیا۔ارشادباری تعالیٰ ہے(فلاوربک لایؤمنون حتی یحکموک فیما شجر بینھم ثم لایجدوایجدوافی انفسھم حرجاًمما قضیت و یسلموا تسلیماً)(سورۃ نساء آیت نمبر65)
جواب:۔
اس آیت کریمہ سے کفراکبر کبھی مرادنہیں ہے بلکہ ایمان کامل کی نفی مقصودہے یعنی ایمان ناقص ہے وجوہات ملاحظہ فرمائیں۔
پہلی وجہ:۔
یہ آیت انصاری بدری صحابی پرنازل ہوئی جسکاحضرت زبیربن عوام (رضی اللہ تعالی عنہ) سے جھگڑاہوااورنبی اکرم(صلی اللہ علیہ والہ وسلم) نے حضرت زبیر(رضی اللہ عنہ) کے حق میں فیصلہ سنادیاتو اس انصاری صحابی نے کہا یارسول اللہ (صلی اللہ علیہ والہ وسلم) آپ نے اس لئے حضرت زبیر(رضی اللہ عنہ) کے حق میں فیصلہ کیاکیونکہ وہ آپ کی پھوپھی کابیٹاہے تواللہ تعالی نے یہ آیت نازل فرمائی۔(بخاری حدیث نمبر 2059اورحدیث نمبر2362 اورمسلم حدیث نمبر6065)توکیایہ نعوذباللہ یہ بدری صحابی کافر ہے۔
دوسری وجہ:۔
شیخ الاسلام ابن تیمیہ(رحمۃ اللہ علیہ) فرماتے ہیں (اوریہ وہ آیت ہے جسے خوارج بطورحجت پیش کرتے ہیں حکمرانوں کی تکفیرکے لئے جواللہ تعالی کے نازل کردہ فیصلوں کے خلاف فیصلہ کرتے ہیں۔(منہاج السنہ جلد نمبر5صفحہ نمبر131)
اوراس آیت کریمہ پرشیخ بن باز(رحمۃ اللہ علیہ)کی تعلیق ملاحظہ فرمائیں۔(فتاوی ابن بازجلد نمبر6،صفحہ نمبر249)
دلیل نمبر5:۔
بعض علماء نے اس آیت کریمہ کو بطوردلیل پیش کیا۔ارشادباری تعالی ہے
(الم ترالی الذین یزعمون انھم آمنوابماانزل الیک وماانزل من قبلک یریدون ان یتحاکموا الی الطاغوت وقدامروا ان یکفروابہ ویریدالشیطان ان یضلھم ضلالابعیداً)(سورۃ نساء آیت نمبر60)
جواب:۔
یہ آیت کریمہ کفراکبرکی دلیل نہیں بن سکتی وجوہات ملاحظہ فرمائیں۔
پہلی وجہ:۔
اس آیت کریمہ سے منافقین مراد ہیں اوران کے نفاق کی دووجوہات ہوسکتی ہیں۔
1۔ ان کاشروع سے ایمان ہی نہیں بلکہ محض دعوی ہے ۔
2۔ وہ اس لئے منافق ہیں کہ وہ طاغوت کے فیصلوں پر راضی ہوئے۔اورجب کسی چیزمیں احتمال ہوتاہے تواستدلال درست نہیں ہوتا۔
اس آیت کریمہ میں انہوںنے طاغوت کے فیصلے کوبہترسمجھاہے اوراسے پرراضی ہوئے اسی لئے وہ کافرہیں۔علامہ ابن جریرطبری (رحمۃ اللہ علیہ) فرماتے ہیں (یریدون ان یتحاکموا)یعنی اپنے جھگڑوں میں (الی الطاغوت)یعنی جن کی وہ تعظیم کرتے ہیںاوران کے اقوال کو صادرکرتے ہیں اوران کے
فیصلوں پر راضی ہوتے ہیں اللہ تعالی کے فیصلوں کوچھوڑکر۔(وقدامروا ان یکفروا بہ)یعنی اللہ تعالی نے انہیں حکم دیاکہ وہ ہراس چیزکوجھٹلادیں جو طاغوت لے کرآتاہے۔اورجس کیطرف وہ فیصلے کرتے ہیں۔پس انہوںنے اللہ تعالی کے حکم کوچھوڑدیااورشیطان کی پیروی کی ۔(تفسیرطبری جلد نمبر5صفحہ نمبر96)
دلیل نمبر6:۔
صحیح مسلم کی حدیث نمبر4415جسمیں یہودیوں کاتورات کے فیصلہ کے خلاف فیصلہ کرنے اورزانی کورجم کی سزاکوچھوڑکراس کامنہ کالاکرنے

اورکوڑے مارنے کی سزادینا۔اوراس قانون کواپنے ماتحت سب یہودیوں کے لئے لازم کردینے کاقصہ بیان کیاہے۔بعض علماء نے اس حدیث کو بطوردلیل پیش کیاہے۔
جواب:۔
یہ حدیث صحیح ہے اوریہودی بھی کافرکفراکبر ہیں اس میں کوئی شک وشبہ نہیں۔لیکن جس مسئلے میں ہمارااختلاف ہے یہ حدیث اس مسئلے کی دلیل نہیں بن سکتی اورایساحکمران یہودیوں کی طرح کافرنہیںہے۔جواپنی طرف سے قانون بناتاہے اوراپنے ماتحت لوگوں پر لازم کردیتاہے ۔
مندرجہ ذیل وجوہات ملاحظہ فرمائیں۔
1۔ یہودیوں نے اللہ تعالی کے فیصلے کاانکارکیاجوزانی محصن کے لئے تھا۔جیساکہ صحیح بخاری میں حدیث نمبر4556جب نبی کریم(صلی اللہ علیہ والہ وسلم) نے ان سے سوال کیاکیارجم تورات میں موجودنہیں ہے؟انہوںنے جواب دیاتورات میں ایسی کوئی چیزنہیں ہے۔تواس طریقے سے انہوںنے انکارکیااورانکارکرنے والاتوکافرہی ہے اس میں کوئی اختلاف نہیں۔
2۔ یہودیوں نے اللہ تعالی کے فیصلے کاانکارکرنے کے ساتھ ساتھ اللہ تعالی کے فیصلے توتبدیل بھی کیاجیساکہ صحیح بخاری 3635میں واضح ہے جب نبی اکرم(صلی اللہ علیہ والہ وسلم) نے ان سے سوال کیاتم لوگ تورات میں رجم میں کیاجانتے ہو؟انہوںنے کہاہم ان کو بدنام کرتے ہیں اور کوڑے مارتے ہیں ۔اسے تبدیل کہتے ہیں۔کیونکہ انہوںنے اللہ تعالی کے فیصلے کے خلاف فیصلہ کیااوراس نئے فیصلے کواللہ تعالی کی طرف منسوب کردیا۔اورایساکرناکفراکبرہے اسمیں بھی کوئی اختلاف نہیں۔لیکن کیااس حکمران نے ایساکیاجواپنی طرف قوانین نافذکرتاہے اور لوگوں پر لازم کرتاہے ۔
جواب واضح ہے اس نے ایسا نہیں کیاکیونکہ اس نے ناں تواللہ تعالی کے فیصلے کاانکارکیااورنہ ہی اسے شریعت کی طرف منسوب کیااوراس صورت کواستبدال کہتے ہیں اس کی تفصیل پہلے گزرچکی ہے اورکفراصغرثابت ہوا۔اورتبدیل اوراستبدال میں فرق واضح ہے کہ تبدیل کرنے والانیاقانون شریعت کی طرف منسوب کرتاہے اوراستبدال کرنے والاایسا نہیں کرتا۔یہ عمل ظلم فسق اورمعصیت ضرورہے لیکن کفراکبرنہیں۔حافظ ابن بر(رحمۃ اللہ علیہ ) فرماتے ہیں(اوراس حدیث میں بھی دلیل ہے کہ یہوداپنی تورات پرجھوث باندھتے تھے اور اپنے جھوٹ کو اپنے رب کی طرف منسوب کرتے اوراپنی کتاب کی طرف بھی منسوب کرتے تھے)(التہمیدجلد نمبر14صفحہ نمبر9)اس سے ثابت ہواکہ دونوں مسائل ایک جیسے نہیں ہیں اوردونوں پر ایک ہی حکم کفراکبرکانافذکرنابھی درست نہیں۔
دلیل نمبر7:۔
بعض علماء حافظ ابن کثیر(رحمۃ اللہ علیہ) کاقول بطوردلیل پیش کرتے ہیں۔حافظ ابن کثیر(رحمۃ اللہ علیہ )نے جب تاتاریوں کے قوانین کی
کتاب الیاسق پر تبصرہ کیاتوان کے کافرہوناکااجماع نقل کیا(البدیہ والنھایہ جلدنمبر13صفحہ نمبر128)توآج کے حکمرانوں نے تووہی راستہ اختیارکیاہے
یہ بھی تاتاریوں کی طرح قوانین نافذکرتے ہیں جن کاشریعت سے کوئی تعلق نہیں۔تواگرتاتاریوں کے کفراکبرپراجماع ہے توآج کے حکمران کیسے مسلمان ہوسکتے ہیں۔
جواب:۔
حافظ ابن کثیر(رحمۃ اللہ علیہ) نے تاتاریوں کے کفرپرجواجماع بیان کیاوہ درست ہے اورتاتاری کافرتھے۔کیونکہ وہ اپنے ایجادکردہ قوانین کو حلال سمجھتے اورشریعت کے قوانین سے افضل سمجھتے تھے اورحلال سمجھنااستحلال ہے اوربہتر سمجھناتفضیل ہے یہ دونوں صورتیں کفراکبر کی ہیں جیساکہ پہلے بیان
کرچکے ہیں۔وہ حلال سمجھتے تھے اسکی دلیل شیخ ابن الاسلام ابن تیمیہ (رحمۃ اللہ علیہ) جوتاتاریوں اورحافظ ابن کثیرکے ہم سفرتھے فرماتے ہیں (تاتاری دین اسلام کویہودونصاری کے دین کیطرح سمجھتے تھے کہ یہ سب دین اللہ تعالی کی طرف راستے ہیں جیسے امت میں چارمذاہب ہیںیہ ادیان بھی ایسے ہی ہیںپھر ان میں سے کوئی یہودیوں کے دین کو ترجیح دیتاہے اورکوئی نصاری کے دین کو ترجیح دیتاہے اورکوئی دین اسلام کو)(فتاوی ابن تیمیہ جلدنمبر28صفحہ نمبر523)اورتاتاری اپنے قوانین کو(الیاسق کوشریعت کے قوانین سے بہتر اورافضل سمجھتے تھے اس کی دلیل حافظ ابن کثیر(رحمۃ اللہ علیہ) نے خودبیان کی فرماتے ہیں(الیاسق ایک کتاب ہے جسمیں میں احکام کامجموعہ ہے جواس نے مختلف شرائع لیاہے ۔یہودیت ،نصرانیت، اوراسلام سے اوراس میں اکثراحکام چنگیزخان نے صرف اپنے ہوانفس کی بنیادپررکھے ہیں جواس کے بعدمیں آنے والوں کے لیے متبع شریعت بن گئی جسے وہ آگے کرتے تھے اللہ تعالی کی کتاب اورنبی کریم(صلی اللہ علیہ والہ وسلم) کی سنت کے فیصلوں سے جس نے ان میں سے ایساکیاوہ کافر ہے اس کے خلاف جنگ کرناواجب ہے حتی کہ وہ اللہ تعالی کے حکم اوررسول (صلی اللہ علیہ والہ وسلم) کے حکم کی طرف واپس نہ آئے اورہرچھوٹے اوربڑے مسئلے میں )(تفسیرابن کثیرجلدنمبر2صفحہ نمبر88سورۃ مائدہ آیت نمبر 50کی تفیسر)انہوں نے یقدمونہاکالفظ استعمال کیایعنی اسے آگے کرتے ہیں اورآگے کرناتفضیل ہوتاہے اورایساکرنے والاتوکافرہی ہوتاہے لیکن سوال یہ پیداہوتاہے کہ کیاآج حکمران بھی تاتاریوں کی طرح اپنے قوانین کو شریعت کے قوانین پر افضلیت دیتے ہیں یاانہیں جائزسمجھتے ہیں یقینی طورپرکوئی بھی نہیں کہہ سکتاکہ وہ ایساکرتے ہیں کیونکہ یہ باطنی امرہے اوردل سے اس کاتعلق ہے جب تک وہ صراحہً یہ جوازیاافضلیت بیان نہ کریں جیساکہ تاتاریوں نے کیاتھاان پر کفراکبرکافتوی لگانادرست نہیں۔
دلیل نمبر8:۔
بعض علماء نے شیخ الاسلام ابن تیمیہ (رحمۃ اللہ علیہ )کاقول بطوردلیل پیش کرتے ہیں۔شیح الاسلام ابن تیمیہ (رحمۃ اللہ علیہ )فرماتے ہیں(ایسے حکمران کی مثال ایسی ہے جوشخص اللہ تعالی یانبی کریم(صلی اللہ علیہ والہ وسلم) یاقرآن کی تعظیم تودل سے کرتاہے لیکن اللہ تعالی کویانبی کریم(صلی اللہ علیہ والہ وسلم) کوگالی دیتاہے یاقرآن مجیدکی بے حرمتی کرتاہے(نعوذباللہ)توایسے شخص کیلئے ضروری نہیں کہ وہ زبان سے تصریح کرے بلکہ اس کایہ عمل ہی کافی ہے کہ وہ دائرہ اسلام سے خارج ہوجاتاہے۔
جواب:۔
اس میں کوئی شک نہیں جوشخص اللہ تعالی کویارسول اللہ (صلی اللہ علیہ والہ وسلم)کوگالی دیتاہے یاقرآن مجیدکی بے حرمتی کرتاہے وہ کافرہی ہے اس پراجماع ہے لیکن کیاشیخ الاسلام ابن تیمیہ (رحمۃ اللہ علیہ)ہرحکمران پر کفرکافتوی لگاتے ہیں جس نے تشریع عام کونافذ کیا نہیں۔
مندرجہ ذیل وجوہات ملاحظہ فرمائیں۔
1۔خودشیخ الاسلام ابن تیمیہ(رحمۃ اللہ علیہ) فرماتے ہیں (اورانسان جب بھی حرام چیزکوجس کے حرام ہونے پر اجماع ہواسے حلال کردے یاحلال چیزجس
کے حلال ہونے پر اجماع ہواسے حرام کردے یااس شریعت کوتبدیل کردے جس پر اجماع ہوتووہ کافراورمرتد ہے اوراس پر فقاء کااتفاق ہے (فتاوی ابن
تیمیہ جلدنمبر3صفحہ نمبر267)آگے فرماتے ہیں اورشریع مبدل (یعنی تبدیل شدہ شریعت)وہ ہے جس میں اللہ تعالی پراوررسول اللہ(صلی اللہ علیہ والہ وسلم) پر جھوٹ باندھاجائے یالوگو ں پرجھوٹی شہادتوں کے ذریعہ سے جھوٹ باندھاجائے اوریہ کھولاظلم ہے بس جس نے یہ کہاکہ یہ اللہ تعالی کی شریعت میں
سے ہے تووہ کافرہے بلانزاع کے )(فتاوی ابن تیمیہ جلدنمبر3صفحہ نمبر268)تواس سے ثابت ہواکہ شیخ الاسلام ابن تیمیہ (رحمۃ اللہ علیہ)اس حکمران کے کافرہونے کے قائل ہیں جوتشریع عام کواللہ تعالی کے دین کی طرف منسوب کرتے ہیں۔اوراسے تبدیل کہتے ہیں جیسے کہ پہلے بیان ہوچکاہے اوریہ کفراکبرہے اوراس پر اجماع ہے۔
2۔ جن چیزوں سے شیخ الاسلام ابن تیمیہ(رحمۃ اللہ علیہ) نے استدلال کیاہے یعنی اللہ تعالی یارسول اللہ (صلی اللہ علیہ والہ وسلم) کویادین اسلام کوگالی دینا کہ یہ کفراکبرہے ایسے شخص کے کافرہونے پر اجماع ہے تواس صورت سے ایسے حکمران کے کافر ہونے پرکیسے مشابہت ہوسکتی ہے جس کے کفرپراجماع ہی نہیں ہے بلکہ قوی اختلاف ہے۔اسی لئے قرآن مجید میں بھی آپ ذراغورکریںجب اللہ تعالی نے اس مسئلہ کو بیان کیاتوتین مختلف احکام کے ساتھ بیان کیا۔
i۔فااولیک ھم لکفرون۔ یہ کفر ہے۔ ii۔ فااولیک ھم الفاسقون۔یہ کفرنہیں بلکہ فسق ہے۔ iii۔ فااولیک ھم الظلمون ۔یہ بھی کفرنہیں بلکہ ظلم ہے۔
اوراگران آیات کریمہ سے ظاہربھی لیاجائے توپہلا کفراکبرہوگیااورباقی دوکفراصغرہیں۔
توجب یہ دونوں چیزیں مختلف ہیں توان کاحکم بھی مختلف ہے۔تواس سے ثابت ہوا شیخ الاسلام ابن تیمیہ(رحمۃ اللہ علیہ ) کااشارہ اس حکمران کی طرف ہے جس کے کفرپرعلماء کااجماع ہے اور ان چھ صورتوں میں تشریع عام شامل نہیں ہے۔پہلے گروہ کے یہ آٹھ دلائل سب سے زیادہ قوی تھے جن کی تفیصل اورجواب بیان کیاگیاہے ان کے علاوہ اوربھی دلائل ہیں جوان سے زیادہ کمزورہیں ۔
دوسراگروہ:۔
تشریع عام کفراصغرہے کفراکبرنہیں اس قول کی طرف شیخ بن باز، شیخ بن عثمین اورعلامہ البانی (رحمۃاللہ علیہم اجمعین)گئے ہیں۔
ان کی دلیل اس صورت میں حکمران کے کافرکفراکبرہونے کی دلیل ہے ہی نہیںبلکہ ایساحکمران ظالم ،فاسق اور گناہ گارضرورہے اورکفراصغرکامرتکب ہے اوربغیردلیل کے کسی مسلمان پر کفراکبرکافتوی لگاناجائزنہیںاوربنیادی طورپرہرمسلمان غلط عقیدہ اورکفرسے پاک ہے جب تک کہ اس سے کوئی ایساقول یاعمل نہ ہوجائے جس سے یقینی طورپروہ دائرہ اسلام سے خارج نہ ہوجائے۔اوران علماء کی باقی دلائل بیان کرچکے ہیں جودوبارہ دہرانے کی ضرورت نہیں۔
اللہ تعالی سے دعاہے کہ ہمیں علم نافع اورعمل صالح کی توفیق عطافرمائے اورہمیں اورہماری امت کو ہر فتنے کے شرسے محفوظ فرمائے اورشرک ،بدعات اورخرفات سے ہماری امت کوپاک کردے اورہمیں اورہمارے حکمرانوں کو شریعت کے احکام نافذکرنے کی توفیق عطافرمائے اورہم سب کو حق کی سمجھ عطافرمائے اوراس پر چلنے کی آسانی پیداکردے(آمین )

اللہم ارناالحق حقاً وارزقنااتباعہ وارناالباطل ًباطلاً وارزقناً اجتنابہ وآخردعواناان الحمداللہ رب العالمین وصلی اللہ علی سیدنا محمد والہ واصحابہ اجمعین۔

ڈاکٹرمرتضی بخش
تاریخ:۔ 04/01/2007
 

جاویداقبال

محفلین
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ،

اللہ بارک فی۔

امریکن اور شمشادبھائی، مضمون کی پسندیدگی کاشکریہ


والسلام
جاویداقبال
 
Top