زبیر احمد
محفلین
اپنا خاکہ لگتا ہوں
ایک تماشا لگتا ہوں
آئینوں کو زنگ لگا
اب میں کیسا لگتا ہوں
اب میں کوئی شخص نہیں
اُس کا سایہ لگتا ہوں
سارے رشتے تشنہ ہیں
کیا میں دریا لگتا ہوں
اُس سے گلے مل کر خود کو
تنہا تنہا لگتا ہوں
خود کو میں سب آنکھوں میں
دُھندلا دُھندلا لگتا ہوں
میں ہر لمحہ اس گھر سے
جانے والا لگتا ہوں
کیا ہوئے وہ سب لوگ کہ میں
سُونا سُونا لگتا ہوں
مصحلت اس میں کیا ہے میری
ٹوٹا . پھوٹا . لگتا . ہوں
کیا تم کو اس حال میں بھی
میں دنیا کا لگتا ہوں
کب کا روگی ہوں ویسے
شہرِ مسیحا لگتا ہوں
میرا تالُو تر کر دو
سچ مُچ پیاسا لگتا ہوں
مجھ سے کمالو کچھ پیسے
زندہ مُردہ لگتا ہوں
میں نے سہے ہیں مَکر اپنے
اب بے چارہ لگتا ہوں
جونؔ ایلیاء
ایک تماشا لگتا ہوں
آئینوں کو زنگ لگا
اب میں کیسا لگتا ہوں
اب میں کوئی شخص نہیں
اُس کا سایہ لگتا ہوں
سارے رشتے تشنہ ہیں
کیا میں دریا لگتا ہوں
اُس سے گلے مل کر خود کو
تنہا تنہا لگتا ہوں
خود کو میں سب آنکھوں میں
دُھندلا دُھندلا لگتا ہوں
میں ہر لمحہ اس گھر سے
جانے والا لگتا ہوں
کیا ہوئے وہ سب لوگ کہ میں
سُونا سُونا لگتا ہوں
مصحلت اس میں کیا ہے میری
ٹوٹا . پھوٹا . لگتا . ہوں
کیا تم کو اس حال میں بھی
میں دنیا کا لگتا ہوں
کب کا روگی ہوں ویسے
شہرِ مسیحا لگتا ہوں
میرا تالُو تر کر دو
سچ مُچ پیاسا لگتا ہوں
مجھ سے کمالو کچھ پیسے
زندہ مُردہ لگتا ہوں
میں نے سہے ہیں مَکر اپنے
اب بے چارہ لگتا ہوں
جونؔ ایلیاء