الشذری-عظیم بیگ چغتائی

مسٹر گرزلی

محفلین
(1)

الشذری
عظیم بیگ چغتائی

چوہدری صاحب سے میری پہلی ملاقات تو جب ہوئی جب میں دوسری جماعت میں داخل ہوا ۔ جس وقت میں درجہ اول میں آیا تو دیکھا کہ چوہدری صاحب مرغا بنے ہوئے ہیں ۔ اس مبارک پرند کی وضع قطع چوہدری صاحب کو مجبوراً تھوڑی دیر کے لیے اختیار کرنر پڑی تھی ۔ وہ میرے پاس آکر بیٹھے اور سبق یاد کرنے کے وجود اور اس کے خطرناک نتائج پر گفتگو رہی کہ ماسٹر صاحب کے ڈنڈے نے یہ عارضی صحبت درہم برہم کر دی ، میں تو گرفتار تھا اس لیے بچ گیا ۔ اور چوہدری صاحب الگ بٹھائے گئے یہ تو گویا پہلی ملاقات تھی اس کے بعد کالج تک ساتھ رہا ۔ بی اے میں چوہدری صاحب عازم بیت اللہ ہوئے ۔ حج کرنے میں سب سے زیادہ خطرہ اس بات کا تھا کہ حاضریاں کم ہو جائیں گی اور امتحان میں شرکت کی اجازت نہ ملے گی ۔ چنانچہ یہی ہوا کہ حج سے جو واپس ہوئے تو اپنا نام کالج کے نوٹس بورڈ پر آویزاں پایا ۔ ان لڑکوں کی فہرست میں جو کالج سے غیر حاضر رہنے کی پاداش میں امتحان سے روکے جانے والے تھے ۔ ” ذرا غور تو کیجئے “ چوہدری صاحب بولے ” یہ ستم نہیں تو اور کیا ہے ۔ اگر کرکٹ کی ٹیم مہینے بھر کے لیے باہر جائے تو سب کو حاضریاں ملیں۔ اگر لڑکے چتوڑ کا قلعہ اور دہلی کے کھنڈر دیکھنے جائیں تو شعبہ تاریخ کے پروفیسر صاحب اس سیر سپاٹے کو حصہ تعلیمی سمجھ کر حاضریاں پوری کروائیں ۔ آخر تکمیل دینیات کے سلسلے میں اگر کوئی حرمین شریف جائے تو اس کو کس بناء پر پوری حاضریاں نہ ملیں ؟ جیسے اور مضامین مثلاً اقتصادیات و تواریخ ہیں ویسے دینیات بھی لازمی مضمون ہے “ ۔ ان کی کوششیں رئیگاں نہ گئیں اور محکمہ دینیات کے پروفیسروں نے چوہدری صاحب کی پوری حاضریاں دلوائیں اور امتحان میں شرکت کی اجازت مل گئی۔ (1) حج سے پہلے وہ چوہدری صاحب تھے اور حج کے بعد ” الحاج الشذری الہندی “ بہت غور و خوض کے بعد تمام عربی قوائد کو ملحوظ رکھتے ہوئے حجاز میں پہنچ کر لفظ ” چوہدری “ معرب ہو کر ” الشذری “ ہو گیا تھا اور یہ ارتقائی نشو ونما چوہدری صاحب کی ذات شریف میں اس قدر حلول کر گئی تھی کہ خالص عرب کا باشندہ تو کوٹ پتلون بھی پہن سکتا ہے مگر ” الشذری “ اس سے مجبور تھے ۔ اور عربی جبہ و قبہ پسند کرنے لگے تھے لیکن باوجود مختصر داڑھی اور عربی لبادہ اور انتہائی کوشش کے وہ کسی طرف سے عرب معلوم نہ ہوتے تھے ۔ ان کی تمام کوششیں اپنے کو عرب بنانے میں بالکل اسی طرح ضائع جاتی تھیں جس طرح بعض دیسی عیسائی کوٹ پتلون پہن کر غلط اردو دیدہ و دانستہ بولتے ہیں اور غلط انگریزی مجبوراً ۔ اور تہ پہ تہ سفید پاؤڈر کی لگاتے ہیں مگر حقیقت نہیں چھپتی اور بعینہ یہ معلوم ہوتا ہے کہ جس کمرہ میں قلعی ہوئی ہے اس میں کسی زمانہ میں ضرور باورچی خانہ تھا ۔ نہ یورپین انٹر میں بیٹھنے سے کام چلتا ہے اور نہ یورپین نرخ پر چائے خریدنے سے ۔ غرض یہی حالت چوہدری صاحب کی تھی کہ عرب بننے کی تمام کوششیں رائیگاں جاتی تھیں ۔ میں نے اور انہوں نے تعلیم ساتھ پائی تھیں ۔ دونوں کی عربی دانی کی قابلیت بھی برابر تھی اگر وہ روانی کے ساتھ قر آن مجید پڑھ سکتے تھے تو اٹک اٹک کر میں بھی پڑھ سکتا تھا ۔ رہ گیا سوال معنی کا تو یہ کبھی طے نہ ہو سکا کہ میں اس میں ان پر فوقیت رکھتا ہوں یاوہ مجھ پر ۔ لیکن حج سے واپس آنے کے بعد ان کو بہت سی چیزوں کی عربی معلوم ہو گئی تھی اور اس کا میرے پاس کوئی علاج نہ تھا ۔ چوہدری صاحب کا اتنا پرانا ساتھ ، پھر اتفاق کی بات کہ ساتھ ہی عراق کا سفر در پیش ہوا ۔ … بغداد کی گلیوں میں دو آدمی … میں اور شذری … مارے مارے پھر رہے ہیں دونوں میں سے واقعہ دراصل یوں ہے کہ ایک بھی عربی نہیں جانتا شہر کی چیخ و پکار کیا ہے ؟یقین مانیے کہ گویا چاروں طرف قل ہو اللہ پڑھی جا رہی ہے ۔ میں اور چوہدری صاحب دونوں عربی نہیں جانتے لیکن پھر بھی مجھ میں اور چوہدری صاحب میں زمین آسمان کا فرق ہے ۔ ” تم احمق ہو “ بھائی شذری نے کہا ’ ارے میاں عربی بولنا اور سمجھنا اس قدر آسان ہے کہ وہ ہر شخص جو ہماری اور تمہاری طرح اردو جانتا ہے اور فارسی میں بھی قدرے دخل رکھتا ہے بڑی آسانی سے عربی بول اور سمجھ سکتا ہے ‘۔ میں نے تنگ آکر کہا ” خدا گواہ ہے ، آج تیسرا دن ہے کہ بغداد آئے ہیں مگر میری سمجھ میں یہاں کا ایک حرف نہیں آتا ۔ طبیعت ہے کہ الٹی ہوتی ہے ۔ خدا کی پناہ تربوز مانگو تو چھوارے دے رہے ہیں اور روٹی مانگو تو پانی یہاں سے جلدی بھاگنا چاہیے ۔ میری عمر تو گذر جائے گی اور یہ عربی سمجھ میں نہ آئے گی ۔“ ادھر تو میرا یہ حال اور ادھر بھائی شذری کا یہ خیال کہ کچھ نہیں صرف معمولی اردو میں ۔ منل ، دل ، ال کم وغیرہ لگاؤ بس عربی ہوگئی اسی بنا پر چوہدری صاحب بقول خود عربی دانی کا قائل ہی نہ ہوتا تھا ۔ اگر سڑک پر دو آدمیوں میں حجت یا لڑائی ہو رہی ہو تو چوہدری صاحب کا فرض ہوتا کہ لڑائی کی وجہ سے مجھے آگاہ کر یں اور یہ ظاہر کریں کہ عربی سمجھتے ہیں ۔ یا پھر کہیں سائن بورڈ پر نظر جائے تو ناممکن کہ اس کی تفسیر میرے سامنے نہ پیش ہو ۔ مجھ کو یہ باتیں ان کی کہاں تک تکلیف نہ دیتیں جبکہ میں خوب اچھی طرح جانتا تھا کہ یہ حضرت کسی طرح بھی مجھ سے زیادہ عربی سمجھنے کے اہل نہیں ۔ … ایک روز کاذکر ہے کہ ہم دونوں مدینہ کے قاضی صاحب سے ملنے جا رہے تھے ۔ راستہ میں چوہدری صاحب میرا ہاتھ پکڑ کر ایک چائے کی دکان پر چڑھ گئے ۔ آٹھ درجن فنجان کا آرڈر دیا گیا ۔ میں تعجب سے چوہدری صاحب کی طرف دیکھا ۔ اول تو مجھ کو اس قسم کی چائے سے کوئی دلچسپی نہیں کہ پھیکی سیٹھی بغیر دودھ کی چائے شیشے کے فنجانوں میں پی رہے ہیں اور پھر یہاں ایک نہ دو بلکہ آٹھ درجن فنجان چائے جو میں کسی طرح بھی نہ پی سکتا تھا ۔ میں نے چوہدری صاحب سے کہا ۔ ” آخر یہ کیا حماقت ہے ‘ ؟ چوہدری صاحب تنک کر بولے ” دام ہم دیں گے تم کیا جانو عربی سمجھتے نہیں نہ یہاں کے نرخ کا پتہ دیکھو آج ہم تم کو دکھاتے ہیں کہ کسی ملک میں جانا اور وہاں کی زبان سمجھنا کتنا مفید ہوتا ہے “ غرض چائے آئی اور خوب پی اور لنڈھائی ۔ پھر بھی بچ رہی ۔ آخر کہاں تک پیتے مگر چوہدری صاحب نے ” زرمی خورم “ کر ڈالا ۔ جب چائے کا بل پیش ہوا تو چوہدری صاحب نے سٹپٹا ئے قریب قریب دو ڈیڑھ پیسہ فی فنجان طلب کر رہا تھا اور چوہدری صاحب ایک درجن فنجان کے دام ایک یا ڈیڑھ پیسہ کے حساب سے دے رہے تھے ۔ کہاں ایک پیسہ فی فنجان اور کہا ایک پسیہ فی درجن جب غلط سلط عربی سے معاملہ نہ سلجھا تو حضرت شذری نے دکاندار کا ہاتھ پکر کر سڑک پر لاکھڑا کیا دکاندار کے کھمبے پر جو نرخ لکھا ہوا تھا ۔ اس کی طرف دکاندار کی توجہ مبذول کرائی کہ جب کھلم کھلا نرخ لکھ رہا ہے تب آخر کیوں دام زیادہ مانگتے ہو ؟ دکاندار نے اس عبارت کو پڑھا کچھ چکرایا ۔ ادھر ادھر دیکھا سارے میں اس سرے سے اس سرے تک تمام دکانوں پر خواہ وہ چائے کی ہوں یا کھجوروں کی اور یا گوشت کی ، بڑے بڑے سیاہ حروف میں یہ عبارت لکھی ہوئی تھی جس کا اردو میں ترجمہ ہوتا تھا ۔ ایک پیسہ میں ایک درجن فنجان چائے ۔ دکاندار نے کہا ’ میں نے یہ نہیں لکھا ‘ کوئی مردود سارے بازار میں یہی لکھتا چلا گیا ۔ اور میں اس کا ذمہ دار نہیں ‘ ۔ مجھے ایک دام سے خیال آیا اور میں نے چوہدری صاحب کو ہندوستان کے اسی قسم کے اشتہار یاد دلائے ۔ ایک پیسہ ایک درجن چائے کی پیالیاں یا پھر گرمیوں میں گرم چائے ٹھنڈک پہنچاتی ہے ۔ یہ مرض عراق میں بھی پھیلا ہوا ہے اس بدعت کی ذمہ دار چائے کی کمپنیاں تھیں نہ کہ کوئی چائے والا۔ میں نے چوہدری صاحب کی عربی دانی کو اس کا ذمہ دارٹھہرایا ۔ چوہدری صاحب کا یہ کہنا کہ ’ آپ کون ہوتے ہیں ۔ دام میرے گئے یا آپ کے مجھ کو خاموش کر دینے کے لیے کافی تھا ۔ چائے پی کر ہم حضرت قاضی صاحب کے یہاں گئے بدقسمتی سے وہ نہ ملے اور اپنا ملا قاتی کارڈ چھوڑ کر دریا کے کنارے پہنچے۔ عراق میں ایک ناؤ ایسی بھی ہوتی ہے جیسے گول پیالہ خوش قسمتی سے ایسی ہی ناؤ ملی میں تو چپ کھڑا رہا اور چوہدری صاحب نے ہندوستانی عربی یا باالفاظ دیگر عراقی اردو میں بات چیت شروع کی خدا معلوم انہوں نے کیا کہا اور ملاح نے کیا سمجھا مگر نتیجہ اس گفت و شنید کا یہ ہوا کہ ہم دونوں ناؤ میں بیٹھ گئے اور دریا کی سیر ہونے لگی اس ناؤ کی تعریف کے چوہدری صاحب نے پل باندھ دیئے کہنے لگے کہ ” اس ناؤ میں خاص بات یہ ہے کہ بھنور یعنی گرداب میں پڑ کر بھی نہیں ڈوبتی “ میں نے تعجب ظاہر کیا تو انہوں نے کہا کہ ” دیکھو ابھی سے گرداب میں لے چلیں گے ، تا کہ تم خود دیکھ لو“ میں نے کہا ” خدا کے واسطے رحم کیجئے مجھ کو ذرہ بھر بھی شک نہیں آپ سچ کہتے ہیں اور مجھ کو تسلیم ہے کہ کم بخت ناؤ حضرت نوح کی کشتی کا مقابلہ کر لے گی “ مگر وہ نہ مانے پر نہ مانے بیچ دریا کے بہاؤ سے ذراہٹ کر بڑے زور و شور سے بھنور پڑ رہا تھا جس کو دیکھنے سے ڈر لگتا تھا ۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ (جاری ہے)
 

فرخ منظور

لائبریرین
بہت شکریہ مسٹر گرزلی! آپ بہت اچھی تحاریر پوسٹ کر رہے ہیں - عظیم بیگ چغتائی، مشہور افسانہ نگار عصمت چغتائی کے بڑے بھائی تھے - جب عظیم بیگ کا انتقال ہوا تو عصمت نے ان پر ایک مضمون لکھا تھا "دوزخی" جس میں مرحوم کی خاصی برائیاں کی گئی تھیں لیکن سعادت حسن منٹو کو وہ مضمون اتنا پسند آیا تھا کہ جب منٹو کی بہن نے پڑھا تو کہا "توبہ توبہ! مرنے والے کی کیسی برائیاں کی ہے عصمت نے" تو منٹو نے کہا کہ اگر میرے مرنے پر بھی تم ایسا ہی مضمون لکھ سکو تو میں ابھی مرنے کی تیار ہوں -
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
شاندار۔ الشذری ، مجھے بہت پسند ہے میری پسندیدہ تحریروں میں سے ایک ۔

اور دوزخی بلا شبہ بہت بہترین لکھا تھا عصمت نے اپنے بھائی کے بارے میں ، بہت شاندار ۔
 

مسٹر گرزلی

محفلین
(2)

چوہدری صاحب ملاح سے غلط سلط عراقی اردو بول رہے تھے ۔ چونکہ لفظ عمیق جانتے تھے لہذا تمام تر دریا کی گہرائی پر گفتگو ہو رہی تھی اب ملاح سے انہوں نے اس خوفناک بھنور کی طرف انگلی اٹھا کر کہا ” لہ غریق کشتی من الگردابہ“ لفظ گرداب پر انگلی سے بھنور کی شکل بنائی اور بھنور میں ناؤ لے چلنے کا اشارہ کیا ۔ میں نے کہا ۔ خدا کے واسطے میرے اوپر رحم کرو مگر وہ میری سنتے ہی نہ تھے ۔ ” ٹھہرو جی “ کہہء کر میرا ہاتھ انہوں نے جھٹک دیا ۔ ملاح نے نہ معلوم ان سے کیا کہا جس کو یہ قطعی نہ سمجھے ہوں گے مگر بات چیت بھلا کیسے رک سکتی ۔ عربی میں فارسی اور انگریزی تما م الفاظ بولے جاتے خواہ کوئی سمجھے یا نہ سمجھے ان کی بلا سے ۔ نتیجہ یہ نکلا کہ میں چیختا پیٹتارہ گیا ملاح نے تیزی سے کشتی کو لے جا کر گرداب میں ڈال دیا اور کشتی نے چرخ گھومنا شروع کیا جب کشتی گھومی تو اول تو مجھے ڈرلگا ۔ لیکن پھر لطف آیا ۔ ہم دونوں کشتی کا کنارہ پکڑے نیچے پانی کو دیکھنے لگے یہ لطف بہت عارضی تھا اور میرا سر چکرایا میں نے واپس چلنے کو کہا اتنے میں موذی ملاح نے پانی میں پتوار ڈال کر ناؤ کی گردش میں اضافہ کر دیا چوہدری صاحب ہنس رہے تھے ۔ میں نے اس سے کہا کہ ” خدا کے واسطے بس کرو ، میرا سر پھٹا “ ۔ میں یہ کہہ ہی رہا تھا کہ مجھے ایسا معمول ہوا کہ جیسے پانی کی سطح پر الٹا لٹکا ہوا گھوم رہا ہوں ، اب چوہدری صاحب کو بھی چکر آئے وہ دراصل ضبط کر رہے تھے ۔ ورنہ ان کی اور میری حالت یکساں تھی وہ پھر ہنس رہے تھے لیکن میں تو سر پکڑ کر بیٹھ گیا اور زور سے چلایا کہ ” خدا کے واسطے ناؤ روکو “ چوہدری صاحب اس خیال میں تھے کہ جب جی چاہے گا رکوالیں گے چنانچہ اب انہوں نے خود ڈگمگاتے ہوئے ملاح سے کہا ” ایھا الشیخ شدة المن الدقص اخرج من الگرداب“ بانگڑ و ملاح واللہ اعلم سمجھتا بھی ہو گا یا نہیں کہ فارسی میں بھنور کو گرداب کہتے ہیں ۔ اور پھر الشذری اور خود اس کے عربی کپڑوں کی پھڑ پھڑاہٹ اور دریا کا شور اور پھر لٹو کی طرح ناؤ کی گردش سمجھنا تو درکنار ملاح نے سنا بھی نہیں ۔ اس نے سنا اور نہ سمجھا اور نہ سننے یا سمجھنے کی کوشش کی اور اللہ کا نام لے کر دانتوں سے اپنے ہونٹ دبا کر ۔ ” ایاغ “ کہہ کر زور سے پتوار پانی میں ڈال کر ناؤ کو اور بھی گھن چکر کر دیا ۔ میں تو آنکھیں بند کرکے چلا کر سجدے گرا اور ادھر الشذری ” ایھا الشیخ “ کا نعرہ مار کر جو اپنی جگہ سے ہٹے تو میرے سر پر نازل ہوئے ۔ اٹھے اور پھر گرے او رلوٹن کبوتر کی طرح لوٹنے لگے ۔ ایک طرف اپنے گھٹنے توڑ رہے تھے تو دوسری طرف اپنی داڑھی اور ٹھوڑی سے میری بیٹھ ۔ ان کی ٹھوڑی میری پیٹھ میں کس طرح لگ رہی تھی اس کا اندازہ اس سے ہوسکتا ہے کہ میں ایسے وقت میں بھی پچھتا رہا تھا کہ ناحق میں نے کہہ سن کر ان کی ڈاڑھی کم کرائی ۔ میں سجدے میں پڑا ” سبحان ربی الاعلے “ کہے جا رہا تھا ” خدا کے واسطے نکالو “ ادھر الشذری بوکھلا کر چلائے ” شدة المن الرقاصہ ابے ایھا الشیخ خدا کے واسطے اخرج من الگرداب اے مرا “ میں پھر چلایا ” ہائے مرا “ ۔ ادھر اس ناہنجار ملاح نے ایک مرتبہ اور پانی میں پتوار ڈال کر زور سے چکر کی تیزی میں اضافہ کر دیا میری یہ حالت ہو گئی کہ سر پھٹا جا رہا تھا اور یقین ہو گیاکہ سر چکرا کر اب موت واقع ہو رہی ہے چوہدری صاحب نے اب دہائی اور تہائی دینا شروع کی اور میں پڑے پڑے ان کی کوششوں کی داد دے رہا تھا ۔ وہ چلا رہے تھے اے نالائق شیخ … برحمتک کم بخت اشدة من الرقص … ارے احزج … من الگرداب ، اے موذی ناؤ نکال “ چکرا کر وہ میرے اور اوپر پھر گرے ۔ میں نے آنکھ کھول کر دیکھا ساری دنیا گھوم رہی تھی ۔ چوہدری صاحب نے پھر دھاڑ کر کہا ” ایھا الشیخ ابے الو … ابن الالو و الخنزیر … قسم خدا کی واللہ … اے بھئی شیخ ارے اشدة المن الرقص … ارے مرے … ابے روک … روک … اے نکال … یا اللہ … ابے ایھا الشیخ من الموذی اخرج من الماء الگرداب … نالائق بدمعاش … واللہ … بھئی شیخ “ مگر تو بہ کیجئے بھلا ان باتوں سے کہیں ناؤ رکنے والی تھی سرپٹک پٹک کر ہم دونوں بے ہو ش ہو گئے۔ … نہ معلوم کتنی دیر بعد آنکھ کھلی تو اپنے آپ کو دریا کے کنارے بے بس پایا ۔ مارے درد کے سر پھٹا جا رہا تھا ۔ تمام چائے دریا برد ہو چکی تھی ۔ نہ طاقت رفتار تھی ، نہ طاقت گفتار بڑی دیر تک اس پسپائیت کے عالم میں پڑے رہے بڑی کوششوں کے بعد بھائی شذری نہ معلوم کس طرح اٹھ کھڑے ہوئے چاروں شانے چت گرنے اور ادھر وہ نا بکار ملاح ہنس رہا تھا اور اپنی مزدوری کا طالب تھا ، ادھر الشذری مزدوری نہ دیتے تھے اور اپنی گردابی عربی میں اس نقاہت میں بول رہے تھے ۔ جب ایک فارسی داں حضرت کا ادھر سے گذر ہوا تو معاملہ صاف ہوا ۔ ادھر الشذری نے ملاح کی شکایت کی کہ ہم دونوں کو اس نے ناؤ میں چرخ دے کر ادھر مرا کر دیا اور مزدوری مانگتا ہے ۔ اور ادھر ملاح نے کہا کہ ” ایسے لوگ بھی کم دیکھنے میں آئے ہوں گے کہ مارے چکر کے مرے جا رہے تھے مگر بار بار یہی کہتے تھے کہ ناؤ کی شدت کے ساتھ رقص کراؤ ۔ میرا خود سر چکرا گیا ۔ اور دوگنی مزدوری واجب ہے ۔“ ” اے کم بخت چوہدری “ میں نے مری ہوئی آواز میں کہا ” یہ تمہاری عربی میری جان لے گی ۔ یاد رکھو اگر میں مر گیا تو یہ خون تمہاری گردن پر ہوگا “ قصہ مختصر ملاح کو مزدوری دینی پڑی اور ہم گدھوں پر لاد کر گھر پہنچائے گئے۔ بھیجا ہل گیا تھا اور ہلنا جلنا دو بھر تھا رہ رہ کر میں الشذری کو کوستاتھا کہ ملعون تیری تردابی عربی نے میری جان لے لی “ تین چار روز تک دونوں کا حال پتلا رہا معلوم ہوا کہ اکثر لوگ ناؤ کو گرداب میں ڈلوا کر رقص کراتے ہیں یہ سب کچھ ہوا مگر چوہدری صاحب نہ قائل ہوئے ۔ وہ بھی یہ کہے گئے کہ ” سب شرارت ملاح کی تھی اور اس نے جان بوجھ کر ہماری لسی بنا ڈالی“ واللہ اعلم ۔ اسی ہفتے میں جب ہم دونوں کے دماغوں میں توازن قائم ہو گیا تو مدینہ منورہ کے قاضی صاحب کے یہاں پہنچے قاضی صاحب موصوف کو ابن سعود کے حملہ کی وجہ سے وطن چھوڑنا پڑا تو حیدر آباد پہنچے وہاں سرکار نظام سے سو روپیہ کی پنشن مقرر ہو گئی ، کچھ عرصہ تک ہندوستان کی سیاحت کی ، پھر عراق میں سکونت پذیر ہو گئے انہوں نے اچھی طرح سفر کیا تھا اور ہندوستانیوں سے ان کو محبت تھی ۔ ایک فارسی داں عراقی کرم فرمانے ہم دونوں قاضی صاحب سے ملایا ۔ وہ بہت جلد مختصر سا تعارف کراکے چلے گئے اور ہم دونوں رہ گئے ۔ چوہدری صاحب نے فوراً حسب عادت غلط سلط عربی بولنا شروع کر دی ۔ قاضی صاحب ایک لفظ فارسی کا نہ جانتے تھے اور ٹھیٹ عربی میں باتیں کر رہے تھے ۔ا گر کسی جملے کے دو ایک لفظ جو اردو میں رائج ہیں ۔ میں سمجھ لیتا تو اندازے سے جملہ کا تھوڑا بہت مطلب بھی سمجھ لیتا ورنہ قاضی صاحب کی گفتگو سمجھنا دشوار تھی ۔ مگر بھائی الشذری شاید مجھ سے دوگنا سمجھ رہے تھے قاضی صاحب حیدر آبار بمبئی ، لاہور ، دہلی ، آگرہ وغیرہ کی سیر کر چکے تھے ۔ اتنا تو پتہ چلتا تھاکہ ان مقامات کا ذکر رہے ہیں باقی میری سمجھ میں کچھ آتا نہ تھا لیکن بھائی الشذری بیچ میں بار بار بول اٹھتے تھے ۔ بہت ممکن ہے کہ ہو قاضی صاحب کی گفتگو حرف بحرف سمجھ رہے ہوں ۔ میرے بارے میں وہ بہت بیشتر ہی قاضی صاحب سے یہ کہہ کر خاموش ہو چکے تھے کہ ” لا علم لسان العربی“ ۔ یعنی یہ عربی قطعی نہیں جانتے ۔ لہذا اب قاضی صاحب بھائی شذری کی طرف مخاطب تھے اور یہ سمجھتے تھے کہ یہ سب کچھ سمجھ رہا ہے حالانکہ میں یقین سے کہتا ہوں کہ وہ اتنا ہی قاضی صاحب کی گفتگو سے بہرہ اندوز ہو رہے تھے جتنا کہ میں ۔ آگرہ کے لفظ کے ساتھ ایک ہی جملے میں تاج محل کا نام آیا اور پھر تعریفی الفاظ ۔ اس موقع پر الشذری سمجھ رہے تھے کہ تاج محل خوان کی ملکیت ہے ۔ کیونکہ خود آگرہ کے باشندے تھے ۔ اظہار خصوصییت ضروری سمجھا اور قاضی صاحب سے انہوں نے کہا ” انا اہل بلدہ آگرہ “ ۔ یعنی میں بھی شہر آگرہ کا رہنے والا ہوں ۔ قاضی صاحب سمجھ گئے ۔ فوراً ہی انہوں نے کہا ۔ ” مگر تم تو علی گڑھ سے آئے ہو “ ۔ میں بھی اندازاً مطلب سمجھ گیا اور شذری بھی اس پر الشذری بولے ” انا اہل آگرہ مگر طالب علم من الدار العلوم فی علی گڑھ“ قاضی صاحب باوجود ” مگر “ کے سمجھ گئے کیونکہ علی گڑھ یونیورسٹی کا نام سن چکے تھے ، بطور شکایت کے الشذری نے کہنا چاہا کہ آپ آگرہ آئے مگر علی گڑھ نہ آئے لفظ آئے کی عربی تو جانتے نہ تھے یایاد نہ تھی لہذا نازل ہونا استعمال کیا ” ضرت نزول فی آگرہ من البمبئی لا نازل علی گڑھ “ قاضی صاحب سمجھ گئے اور تیزی سے وجہ بیان کرنے لگے جو نہ الشذری سمجھے اور نہ میں مگر الشذری سر ہلا رہے تھے اور بولے ۔ ” ہنا دار العلوم علی گڑھ معروفا کثری المن الھند والدھر “ ۔ یعنی علی گڑھ یونیورسٹی ہندوستان اور دنیا میں مشہورو معروفر ہے ۔ اس کے بعد ہی قاضی صاحب نے پوچھا کہ بمبئی سے علی گڑھ کتنی دور ہے اب الشذری ذرا چکرائے کیونکہ نہ تو عربی گنتی جانتے تھے اور نہ میل کی عربی میری تجویز کہ الف لیلہ کا الف بمبئی ہزار اور فرسخ بجائے میل کام دے جائے گا ۔ انہوں نے ٹھہرو جی “ کہہ کر روک دی اور قاضی صاحب سے بولے ” فاصلہ از علیگڑھ من البمبئی یک لیل و یک نہار “ ایک لیل دیک نہار کلمہ کی انگلی سے بتا کر جوش کے ساتھ انگلی ہلائی ۔ ایسے کہ باجوود کہ قاضی صاحب فارسی نہ جانتے تھے مگر مطلب قطعی سمجھ گئے ایک دن ایک رات کا سفر ہے ۔ میں بھی الشذری کی قابلیت کی داد دینے لگا لیکن قاضی صاحب نے فوراً ہی سرسید کا تیزی سے کچھ ذکر کرکے ایک اورٹیڑھا سوال اٹکا دیا ۔وہ یہ کہ سرسید مرحوم کے کوئی اولداد میں سے ہے بھی کہ نہیں اور ہے تو کیا کرتا ہے مگر الشذری تو عربی زبان کے ماہر ہو چکے تھے ۔ میری تجویزوں کو رد کرتے ہوئے بولے کہ ” ٹھہرو جی مجھے عربی بنانے دو “ ۔ بہت جلد الشذری نے قاضی صاحب کو جواب دیا ” سید راس مسعود بن سید جسٹس محمود بن سرسید “ ۔ اس پر قاضی صاحب نے پوچھا کہ ” سید محمود کیا کرتے ہیں ؟“ تو میں نے الشذری سے کہا کہ کہدو وانا الہ وانا الیہ راجعون مگر الشذری نے میری تجویز رد کر کے کہا رحمتہ اللہ علیہ واقعی مناسب جواب تھا اور قاضی صاحب سمجھ گئے لیکن الشذری نے اور بھی واضح کر دیا اور اپنے جواب کو مکمل کرکے دہرایا ” سید راس مسعود بن سید جسٹس محمود رحمتہ اللہ علیہ بن سرسید علیہ الرحمتہ “اور پھر اس پر بھی بس نہ کی اور کہا ” بحیر تم والتعجب کہ حضرت نزول حید ر آباد ولا تعارف من الراس مسعود صدر محکمہ تعلیمات حیدر آباد “قاضی صاحب سمجھ گئے اور شاید اظہار تاسف کیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔(جاری ہے)
 

مسٹر گرزلی

محفلین
(3)

تھوڑی دیر بعد ہم دونوں نے قاضی صاحب سے اجازت چاہی تو قاضی صاحب نے ہم دونوں سے جو کچھ بھی کہا اس کا مطلب یہ تھا کہ ہم رات کا کھانا ان کے ساتھ ہی کھائیں ۔ واپسی پر چوہدری صاحب نے راستے میں اپنی عربی کا سکہ میرے اوپر بٹھانے کی کوشش کی اور میرا ناک میں دم کر دیا ۔ انہوں نے عربی قواعد زبان کی رو سے میرے تمام تجویز کردہ جوابات غلط بتائے اور کئی لفظوں کے بارے میں سخت بحث رہی وہ کہتے تھے کہ عربی میں اور میں کہتا تھا کہ فارسی تنگ آکر اپنی جان چھڑانے کے لیے میں نے تسلیم کر لیا کہ ” بیشک آپ کو مترجم کی امداد کی قطعی ضرورت نہیں “ شاید وہ اور میں دونوں ناؤوالا قصہ بالکل بھول گئے تھے ۔ بعد مغرب ہم دونوں قاضی صاحب کے یہاں پہنچے بدقسمتی سے قاضی صاحب گھرپر نہ تھے حبشی ملازم جس نے ہمیں صبح دیکھا تھا اور جانتا تھا کہ ہم لوگ دعوت کے سلسلہ میں آئے ہیں ۔ بڑی بدتمیزی سے پیش آیا اور اس نے لے جا کر ہمیں کمرے میں بٹھایا ہم لوگوں کی بدقسمتی ہاں بد قسمتی کہ یہ حبشی چلا گیا ۔ اور تھوڑی دیر میں ایک دوسرا حبشی ملازم آگیا ، یہ اس حبشی ملازم سے زیادہ خطرناک اور زیادہ حبشی تھا ۔ مجھے صرف دو چیزوں سے ڈر لگتا ہے ہندوستان مں ی تو بلڈاگ سے اور عراق میں حبشی ملازم سے واللہ اعلم ہندوستانیوں کودوسرے قسم کے کتے کیوں نہیں ملتے اور عراقیوں کو دوسری قسم کے ملازم ۔ جب کافی دیر ہو گئی اور دعوت کے آثار نظر نہ آئے تو میں نے کہا کہ ” چوہدری صاحب ! یار کہیں غلطی تو نہیں ہوئی اور دعوت کل شب کو تو نہیں ہے ۔ واقعہ بھی ہے کہ دعوت کے گھر میں تو خود بخود کچھ مہمان کو دعوت کے آثار معلوم ہو جاتے ہیں ۔ فرش ، روشنی ، میز کرسی اور دوسری تمام چیزیں جو گھر میں نظر آتی ہیں یہ کہتی ہیں کہ اے مہمان آج تیری دعوت ہے مگر یہاں تو فضا ہی سرد تھی ۔ اور کچھ رنگ و بو کا پتہ نہ تھا ۔ جب میں نے شبہ ظاہر کیا تو چوہدری صاحب بھی گھبرائے اور غور کرنے پر معلوم ہوا کہ دعوت کے سلسلے میں جو قاضی صاحب سے باتیں ہوئی تھیں ان میں لفظ ” رات “ اورکھانا “ تو یاد پڑتا تھا مگر ” آج “ یا کل کا خیال نہیں بہت یاد کیا مگر بیکار نہ تو ” آج “ کی عربی معلوم تھی اور نہ ” کل “ کی اگر قاضی صاحب نے ان الفاظ کا استعمال بھی کیا ہوگا تب بھی یاد نہ رہا ۔ اس غلط فہمی کو رفع کرنے کے لیے الشذری نے اس حبشی کو پکارا ” ابھا الشیخ ہذالیل مجمع الطعام “ یعنی دعوت یا طعام کا مجمع آج ہی رات کو ہے ۔ اس حبشی نے ہم دونوں کو سر سے پیر تک دیکھا ۔ کیا یہ ممکن ہے کہ وہ غور کر رہا تھا کہ ہمارا ظاہر ہماری اصلیت سے مختلف ہے بد قسمتی سے وہ غور سے یہی دیکھ رہا تھا ۔ مگر ہم دونوں کیسے اس تہ کو پہنچے ۔ خوب اچھی طرح ہم دونوں وک بار بار تعجب سے دیکھ کر کچھ جواب دیا ۔ میں نہیں کہہ سکتا کہ وہ چینی زبان بولا یا لاطینی خاک سمجھ میں نہ آیا تو بھائی شذری بولے ” انا لھندی ولا لسان لعربیہ انت قل عجلت “ بقول کسے خرابی ہو اس عربی جاننے والے کی جس کے سامنے بھائی شذری اس طرح عربی کی ٹانگ توڑیں ۔ مطلب اس کا یہ تھا کہ ہم ہندی ہیں لسان عربی نہیں جانتے تم عجلت سے بولتے ہو وہ شاید سمجھ گیا اور اس نے بہت رسانیت سے پوچھا مگر وہ بھی سمجھنا ناممکن تھا لیکن کچھ ایسا شبہ ہوا کہ کھانے کو پوچھتا ہے میں نے چوہدری صاحب سے کہا کہ بھائی خوب اطمینان کر لو محض اندازے سے کام نہ لو مگر وہ نہ مانے اور کہنے لگے سر ہلا ہلاکر ” ہاں ہاں نعم نعم نعم “ اس نے معاملہ سمجھ کر سر ہلا دیا اور اشارہ کیا۔ ہم دونوں کو ایک دوسرے کمرے میں لا کر بٹھایا ۔ اس کمرے میں معمولی فرش تھا اوربہت اجڑا سا کمرہ تھا میں نے چوہدری صاحب سے پوچھا کہ ” آخر ہم یہاں کیوں بیٹھیں گے “ مجھے برا معلوم دیا کہ چوہدری صاحب خوامخواہ اپنی عربی دانی کے سلسلہ میں غلط بیانی سے کام لیتے ہیں میں بگڑ کر کہا کہ تم غلط کہتے ہو اس نے ہر گز یہ نہیں کہا تم خاک نہیں سمجھتے خواہ مخواہ پر رعب جماتے ہو اس پر چوہدری صاحب بھی بگڑ گئے اور کہنے لگے کہ ” جب عربی نہیں جانتے تو خواہ مخواہ مجھ سے کیوں الجھتیے ہو ۔ جھائیں جھائیں کر ہی رہے تھے کہ ایک سینی میں کھانا آگیا ۔ میں نے نرمی سے اب چوہدری صاحب سے کہا کہ بھئی آخر پوچھو تو کہ یہ معاملہ کیا ہے کہ میزبان خود ندارد “ کہنے لگے ” میں دریافت کرتا ہوں “ آپ حبشی سے پوچھنے لگے ۔ لاقاضی صاحب ” یعنی قاضی صاحب نہیں ہیں ” فی نزول بیتکم والشرکتہ لنا طعام“ یعنی یہ کہ اپنے گھر پر کب آئیں گے اور کیا ہمارے ساتھ طعام میں شرکت نہ کریں گے ؟ دراصل الشذری کی عربی بہ نسبت عربوں کے میں زیادہ سمجھتا تھا ۔ واللہ اعلم وہ حبشی کیا سمجھا کچھ نہ کچھ تو ضرور سمجھا جو اس نے ہاتھ کے اشارے سے کہا ” نہیں آئیں گے “ اور کچھ تیزی سے بول کر ہاتھ کے اشارے سے ہم سے جلدی کھانے کو کہا ۔ میں نے الشذری سے کہا ہمیں ہرگز اس طرح نہ کھانا چاہیے کیونکہ یہ کوئی ڈھنگ نہیں کہ میزبان ندارد ہم کھانے بیٹھ جائیں اس پر شذری بگڑ کھڑے ہوئے کہ ” تم عربی سادگی سے واقف نہیں ۔ یہ بھی کوئی ہندوستان ہے کہ لازمی طور پر میزبان نوالہ گننے کے لیے ضرور ہی موجود ہو میں نے پھر الشذری سے کہا کہ ایک مرتبہ حبشی سے کچھ اشاروں ہی سے پوچھو کہ آخر یہ غیر معمولی بات کیوں ہے ایھا الشیخ کرکے حبشی سے پھر جو شذری نے سوال کیا تو وہ بگڑ کھڑا ہوا ۔ اور بدتمیزی سے ہاتھ کو جھٹکے دے کر نہ معلوم کیا بکنے لگا ۔ اور پھر غصے ہو کر اشارہ سے کہا کہ کھانا کھاؤ اب الشذری مجھ سے خفا ہونے لگے ” جو میں کہتا ہوں وہ تم نہیں سنتے اس طرح بھی دعوتیں ہوتی ہیں “ پھر حجاز کی اسی قسم کی ایک آدھ دعوت کا تذکرہ کیا جو خود انہوں نے کی تھی اور جب میں نے کہا کہ کوئی لفنگا آکر تمہارے یہاں کھا گیا ہو تو میرے اوپر بے حد گرم ہوئے اور کھانے کو بسم اللہ کہہ کر آگے ہاتھ بڑھایا ۔خوان پوش جو ہٹا تو میری روح پرواز کر گئی کیونکہ وہاں سوائے آب گوش اور روٹی کے اور کچھ بھی نہ تھا اور یہاں میں گویا بھوک پر دھار رکھ کر آیا تھا یہ آب گوش عجیب کھانا ہے خدا ہر ہندوستانی کو اس سے امن میں رکھے بازاروں میں آپ دیکھ لیجئے کہ بڑی سی دیگ میں گوشت کے ٹکڑے گھلائے جا رہے ہیں ۔ کچھ واجبی سا نمک اور روایتاً کہا جاتا ہے کہ از قسم لونگ وغیرہ بھی پڑتا ہے۔ بس اس جوشاندے کے ساتھ روٹی کھائی جاتی ہے بوٹی ہڈی سے کوئی سروکار نہیں جب دیگ کا پانی کم ہو جاتا ہے تو ڈال دیا جاتا ہے ۔ مگر شاید ایک دفعہ کے علاوہ پھر نمک تو پڑتا نہیں کیونکہ آب گوش کا پھیکا ہونا لازمی ہے ، غرض یہ آب گوش تھا ۔ جس کا لبالب بھرا ہوا بڑا سا پیالہ بازار سے دو پیسے کو آسکتا تھا ۔ میں نے نا امید ہو کر الشذری سے کہا ۔ ” بھئی مجھ سے یہ نہیں چلے گا ۔ کیا معلوم تھا ورنہ گھر سے کھانا کھا کر آتے “ ۔ القصہ ہم نے کھانا شروع کیا۔ مجھ سے دو لقموں سے زائد نہ کھا یا گیا وہ عربوں کی سادگی پر لیکچر دے رہے تھے ۔ اور میں شوربے کی سادگی پر لیکچر دے رہا تھا ۔ جو آب رواں سے بھی زیادہ پتلا تھا ۔ میری دانست میں اس سے وضو قطعاً جائز ہوگا ۔ غرض میں کھانے کے بجائے کھانے سے کھیلنے لگا میں نے طے کر لیا تھا کہ میں گھر جا کر کھاؤں گا مگر الشذری گویاہٹ پہ ہٹ لگا رہے تھے آؤٹ ہونے سے پہلے ہی دو طویل القامت عرب وارد ہوئے ۔ فوراً ہی بھائی الشذری نے ہاتھ اشارے سے ہذا طعام کہہ کر ان کو مدعو کیا ۔ اپنے ہندوستان میں قاعدہ ہے کہ ایسے موقع پر بھوکے بھی ہوں تو کہہ دیتے ہیں کہ ” بسم اللہ کیجئے ‘ خدا زائد دے “ مگر عراق میں بھوک نہ بھی لگ رہی ہو تب بھی آپ کا آدھا کھانا آپ کے کہنے سے پہلے ہی کھا جائیں گے ۔ فوراً یہ دونوں کھانے لگے اور وہ بھی شاید شارٹ ہینڈ میں کیونکہ بس چار لقموں ہی میں میدان صاف کر دیا ۔ اتنے میں حبشی ملازم آیا اور اس نے انہوں نے بلا تکلف کھانے کا کہا بڑی تیزی سے ان دونوں نے باتیں کیں ۔ اور پھر ہم دونوں کی طرف گھور کر اس طرح دیکھا کہ بس کھاہی تو جائیں گ ادھر دوسری طرف اس نالائق حبشی نے آنکھیں گھمانا شروع کیں ۔ میں کچھ گھبرایا اور الشذری بھی چکرائے کہ اتنے میں ایک غریب نے برہم ہو کر الشذری سے کہا ” ہندی مکار اولاد الکلب“ ۔ الشذری تیزی سے خفا ہو کر ہولے ۔ ” انااہل السلام “اس پر ہو پھٹ پڑا ، اور دوسری طرف سے حبشی نے اپنے دانتوں کو چمکا کر گویا مغلظات سنانا شروع کیں بڑی تیزی سے دونوں عرب اور حبشی ہم دونوں کو مغلظات سنا رہے تھے ۔ لیکن بھائی شذری بھی کسی سے کم نہ تھے اور وہ اپنی بے تکی اڑا رہے تھے ۔ انا حبیب القاضی صاحب انا مدعونی طعام ہذا اللیل انت بداخلاق ، انت توہین و تشھھیر انا قلت الفساد بالقاضی صاحب ۔ یعنی ہم قاضی صاحب کے دوست ہیں ہمیں آج رات دعوت میں مدعو کیا گیا ۔ تم بداخلاق ہو ، ہماری توہین و تشہیر کرتے ہو ۔ اس فساد کا تذکرہ ہم قاضی صاحب سے کریں گے ۔ وغیرہ وغیرہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ (جاری ہے)
 

مسٹر گرزلی

محفلین
(4)

یہ اس سلسلے کا آخری مراسلہ ہے۔

میرا خیال تھا کہ اگر کہیں جلدی سے کھانا نہ آتا تو نوبت غل غپ تک پہنچتی ۔ اور عجب نہیں جو ہم اور شذری دونوں وہیں جام شہادت نوش کرتے ۔ عربوں کی بھی طبعیت عجیب ہے ۔ آدمی سے لڑائی ان کی نہیں ہوتی بلکہ بات کی ۔ ادھر کھانا آیااور ادھر خلق مجسم بن گئے ہم دونوں کو ان دونوں نے جبراً راضی کر کے کھلانا شروع کیا ۔ میں نے تو ایک لقمہ لے کر ہاتھ کھینچا مگر بھائی شذری نے اور کھایا ۔ اتنے میں قاضی صاحب آگئے مع تین چار احباب کے ان دونوں عربوں نے دوڑ کر ان سے سلام علیک کی اور فوراً رخصت قاضی صاحب کے ساتھ ہمارے وہ فارسی داں عراقی کرم فرما تھے ۔ جنہوں نے ہمارا قاضی صاحب سے تعارف کرایا تھا ۔ جب سب آکر دوسرے کمرے میں بیٹھے تو بھائی الشذری نے کھانے کے وقت جو بدتمیزیاں ہوئیں ان کی سخت شکایت کی اور بالخصوص حبشی کی وہ سخت متعجب ہوئے کہ ” ہائیں تم کھانا کیسے کھا چکے ؟ کھانا تو اب آئے گا “ اب میں الشذری کی طرف دیکھتا ہوں اور وہ میری طرف ۔ قاضی صاحب حبشی پر آگ بگولا ہو کر گویا برس پڑے ۔ اگر کسی نے غضبناک عرب کو دیکھا ہے تو سمجھ لیجئے کہ اس نے غضبناک شیر دیکھا ہے اور پھر جب عرب کے مہمان کی توہین کی گئی ہو ، مگر حبشی نے جو جواب قاضی صاحب کو دیا اس سے وہ صرف خاموش ہی نہیں ہوگئے بلکہ ان کا غصہ رفو چکر ہو گیا اور شرمندہ ہو کر وہ معافی مانگنے لگے ۔ قصہ مختصران فارسی دان حضرت نے بہت جلد معاملہ صاف کردیا ۔ واقعہ دراصل یوں تھا کہ باہر دوپہر کو قاضی صاحب کو دو سائل ملے ان سے قاضی صاحب نے کھانے کو کہا تھا ۔ کہ اول وقت آکر کھانا کھا جانا ، ادھر اس حبشی سے کہدیا تھا کہ شام کو دو سائل آئیں گے ان کو کھانا کھلا دینا قبل اس کے کہ وہ سائل پہنچیں ہم دونوں جا پہنچے ۔ اور پھر بھائی الشذری کی عربی دانی ! حبشی نے الشذری سے جب پوچھا کہ ’ کیا تم وہی دونوں ہو جو بازار میں قاضی صاحب سے ملے تھے اور کھانے کو کہا تھا “ ۔ اس کا جواب الشذری نے محض اس وجہ سے اثبات میں دیا تھا کہ حبشی کی گفتگو میں اگر وہکوئی لفظ سمجھے تھے تو وہ ” طعام “ کا تھا ۔ جب دونوں سائل آئے اور انہوں نے حبشی سے کھانے کو کہا تو ایک طرف تو حبشی خفا کہ ہم دونوں نے اس کو دھوکا دیا اور دوسری طرف یہ سائل خفا کہ ہم دونوں کو کھانا یہ دونوں دھوکا دے کر کھا گئے ۔ خمیازہ اس غلط فہمی کا زیادہ تر خود بھائی شذری نے بھگتا جو خوب پیٹ بھر کر کھا چکے تھے ، کیونکہ جب دستر خوان لگا اور اس پر بائیس قسم کے انواع و اقسام کے کھانے مثلاً انجیر کی کھیر اور سرید وغیرہ چنے گئے تو میں نے خوب سیر ہو کر کھایا ۔ اور بھائی شذری کو دیکھ رہا تھا ۔ کہ ان کی حالت قابل رحم تھی ۔ … چوہدری صاحب اس حادثہ دعوت کے بعد کچھ دن تو قائل رہے جگہ جگہ میں ان پر فقرے پر چست کرتا ۔ مگر بہت جلد بھول گئے اور پھر وہی عادت کہ سمجھیں نہ سمجھیں مگر عربی بولنے سے باز نہ آئے ۔ ایک روز کاذکر ہے کہ تین عرب دوست ہمارے یہاں آئے ان کو الشذری نے محض عربی بولنے کی نیت سے لگا لیا تھا ۔ میں ان سے بہت تنگ تھا کیونکہ یہ تینوں بالکل اجڈ تھے اور جو کچھ بھی پاتے ڈھونڈ کر کھا جاتے ۔ میتھی کا ساگ اور قیمہ جو ہندوستان کا تحفہ کہئے بہترین پکا ہوا ایک روز کل کا کل کھا گئے اور پھر قدر اس کی یہ کہ اس کو گھاس اور گوشت کہتے غرض میں ان کی بدعتوں سے تنگ تھا ۔ یہ تینوں آئے اور الشذری سے دماغ پچی کرنے لگے بھائی شذری کے سر میں سخت درد تھااور وہ رومال باندھے ہوئے تھے ان نالائقوں نے الشذری سے کچھ کہا ۔ جو کسی طرح ہم دونوں سمجھ گئے وہ کہتے تھے کہ قریب ہی پڑوس میں ایک حکیم رہتا ہے وہاں چلو ابھی فوراً درد سر جاتا رہے گا۔ اندھا کیا چاہے دو آنکھیں شذری راضی ہو گئے ۔ ہم دونوں مع ان تینوں کے وہاں پہنچے ۔ یہ حکیم بھی عجیب احمق صورت اور وضع کا تھا ۔ عطائی معلوم ہوتا ہے ۔ ایک بڑے سے تخت پر بیٹھا تھا ۔ الشذری نے نبض دکھائی اور جس طرح بھی ہو سکا اپنا حال بیان کیا اس نے جو کچھ کہا نہ میں سمجھا اور نہ الشذری مگر بھائی الشذری نے مجھ سے کہا کہ بھائی تم نہیں سمجھے یہ دراصل یہ کہہ رہا ہے کہ ” دوا ذرا تلح ہو گئی ۔ اگر تم منظور کرو تو میں علاج کروں ورنہ نہ کروں ۔ علاج کی تکلیف سر درد کی تکلیف سے بہتر ہے اور پھر ان تینوں عربوں نے کہا کہ دو ا پلانے میں یا علاج کرانے میں ہم تم کو پکڑ لیں گے ۔ میں اس وقت تو بھائی الشذری کی عربی دانی کا قائل ہو گیا ۔ کیونکہ جب دوبارہ دونوں نے کہا تو مجھ کمبخت کی بھی یہی سمجھ میں آیا کہ الشذری ٹھیک سمجھے ہیں ۔ اب بھائی شذری کا ماتھا دیکھنے کے لئے ان کو تخت پر لٹا دیا گیا ۔ وہ تخت پر چت لیٹ گئے اور میں برابر کھڑا تھا ۔ میں نے الشذری سے کہا کہ ” یہ کیا معاملہ ہے ، تم کو لٹایا کیوں ہے دوا تو بیٹھ کر پی جاتی ہے ۔ ذرا پوچھ لو کہیں غلظ فہمی تو نہیں ہوئی ؟ اس پر الشذری تیز ہو کر بولے کہ ” تم سمجھتے ہو نہیں ۔ خدا معلوم ہر بات میں دخل کیوں دیتے ہو ؟ وہ پہلے پیشانی دیکھے گا یا کچھ اور دیکھے گا “ میں چپ ہو رہا ۔ اتنے میں گردن زدنی حکیم نے ایک میلا سا چمڑے کا بیگ نکالا ۔ اس میں سے ایک بورے سینے کا سا لوہے کا سوا نکالا ۔ اس کو سنبھال کر اس نے اس طرح چوہدری صاحب کو سر پکڑ کر آنکھوں کے سامنے نچایا کہ جیسے ان کی آنکھ پھوڑ نا چاہتا ہے ۔ میں کم مگر شذری زیادہ گھبرائے ۔ وہ تیزی سے آنکھ بچا کر اٹھے کہ کہیں نوک آنکھ میں نہ لگ جائے ۔ مگر قبل اس کے کہ وہ اٹھ سکیں وہ تینوں کھرپے جو حکیم کے اشارے کے شاید پیشتر ہی منتظر تھے ایک دم سے حکیم کا اشارہ پاتے ہی بھائی شذری پر ٹوٹ پڑے ۔ میں گھبرایا اور سمجھا کہ ضرور کوئی سازش ہے اور ادھر الشذری نے ایک کو ہ شگاف نعرہ مار کر چھڑانے کی کوشش کی ۔ چشم زدن میں گتھم گتھا ہونے لگی اور تخت گویا اکھاڑہ بن گیا ۔ عربی لبادے اڑا ڑ کر اس بلوے میں ایسے معلوم ہو رہے تھے جیسے کمبل کے نیچے بھیڑیں ارے مجھے بچاؤ … خدا کے واسطے … کمبخت بدذات … دوڑو … قتل … قتل … “ بھائی شذری نے بدحواس ہو کر یہ الفاظ کہے کہ میں بوکھلا گیا ۔ اپنے عزیز دوست کو ان ناہنجاروں سے بچانا میرا فرض تھا ۔ اس دھماچوکڑی میں میں بھی شریک ہو گیا میں بھی دوڑ پڑا اور پہلے ہی حملے میں میں نے حکیم کو اڑنگا لگا کر چت کیا مگر چونکہ یہاں تو جان کا معاملہ تھا ۔ لہذا میں فوراً اٹھ کر پھر حملہ آور ہوا ۔ بھائی شذری بڑے طاقتور تھے اور کسی طرح چار طاقتور عربوں سے قابو میں نہ آئے تھے بھائی شذری پکاررہے تھے اناالقتل … ابے پاجی … نالائقون … میری کہنی ٹوٹی … الو … گدھو …ابن خنزیر … ابن کلب … پاجی … پاجیوں… پواجیع … چھوڑو …“ خوب کشتم کشتا ہو رہی تھی ۔ ادھر مں ی بھی گتھاہواتھا ۔ ایک عرب کمر پکڑ کر اس کو گرانے کی ناکام کوشش کر رہا تھا ۔ کشتی کے پیچ کئی جانتا ہوں مگر وہاں تو عربی کپڑوں میں پتہ ہی نہ چلتا تھا کہ بازو کدھر ہے اور ٹانگ کہاں اور پھر آدمی بھی مسٹنڈے تھے ۔ اسی کوشش میں ہاتھا پائی کرنے میں اس عرب کی کہنی میری آنکھ میں اس زور سے لگی کہ چکرا کر گرا ۔ اب بھلا میں کیا لڑتا۔ چشم زدن میں ان ظالموں نے الشذری کو چت کر دیا اور چھاتی پر چڑھ بیٹھے اور پھر ستم یہ کیا کہ اس کشتم کشتا میں ان موذیوں نے بھائی شذری کو نہ معلوم کس نوکدار چیز پر چت لٹایا تھا کہ ہوبری طرح ان کی پشت میں گڑ رہی تھی اور وہ سخت بے چین تھے ۔ ” ابے ایھا الشیوخ ہذا شئی بزرگ تحت پشت “یعنی میری پیٹھ کے نیچے کوئی بڑی سی چیز ہے ۔ اشد من الموت … ارے ذرا چھوڑو … کروٹ ہی لینے دو … قسم خدا کی میں مرا … ابے خنزیروں … حماروں … ظالموں … وغیرہ وغیرہ ۔میں آنکھ بند کئے ہوئے مشکل سے چکراتا ہوا اٹھا ۔ دوسری آنکھ سے دیکھنے لگا کہ کیا ہو رہا ہے کیا دیکھتا ہوں کہ یہ موذی تو شذری کی جان پر تلے ہوئے ہیں ۔ بری طرح گرفت میں تھے اور ایک عجیب کارروائی ہو رہی تھی وہ یہ کہ ان کی پیشانی اسی سوئے سے بری طرح مرغ مسلم کی طرح گودی جا رہی تھی اب وہ اس ڈر کے مارے جنبش بھی نہ کرتے تھے کہ کہیں ہاتھ چوک جائے تو آنکھ نہ پٹ ہو جائے میں نے دل میں کہا یہی غنیمت ہے اور اب میں سمجھ گیا کہ یہ علاج ہو رہا ہے بہت جلد ان کی پیشنی لہولہان ہو گئی ۔ بڑی تیزی سے خون پونچھ کر ایک کپڑا بھگو کر باندھا گیا اور الشذری چھوڑ دیئے گئے“ یہ کہہ کر اکراہتے ہوئے الشذری اٹھے کیا دیکھتے ہیں کہ لرکی قسم کا ایک چھوٹا سا تالا جس میں اس کی کنجی مع دوسری چابیوں کے گچھے پر شذری کو چت لٹا کر تین عرب ان کی چھاتی پر کودوں دل رہے تھے ۔ غصے میں آکربھائی شذری نے اس نامعقول تالے کو مع کنجیوں کے بھنا کر دور پھینکا اور پھر اردو عربی اور فارسی کو ملا کر نہ معلوم ان تینوں عربوں اور حکیم کو کیا کچھ سنا ڈالا ادھر حکیم کھڑا مسکرا رہا تھا اور اپنی کارروائی پر خوش ہو کر نمک پاشی کر رہا تھا ۔ بہت جلد معاملہ صاف ہو گیا نہ بیچارے حکیم کا خطا تھی اور نہ ان تینوں عربوں کی اگر خطااور غلطی تھی تو خود بھائی شذری کی مترجم کی خدمات انجام دینے کے لئے ایک ہندوستانی آگئے اور معلوم ہوا کہ حکیم بیچارے نے سب کچھ بھائی شذری کو سمجھا دیا تھا کہ کس طرح سوئے سے پیشانی گودی جائے گی اور سخت تکلیف ہو گی درد قطعی جاتا رہے گا ۔ پھر یہ بھی بتا دیا گیا تھا کہ چاروں دوست تم کو پکڑ لیں گے بلکہ حکیم کو شکایت تھی کہ میں نے بجائے علاج میں مدد دینے کے بڑی گڑ بڑ کی کیونکہ میں نے اڑنگا لگا حکیم کو چت گرا دیا تھا ان تمام باتوں کو خوب اچھی طرح حکیم نے سمجھا دیا تھا اورشذری نے رضا مندی ظاہر کی تھی ۔ پھر اب شکایت کیسی ۔ میری آنکھ میں درد ہو رہا تھا ورنہ میں بری طرح الشذری کی وہی خبر لیتا حکیم کی فیس ادا کرنی پڑی ۔ آپ خود اندازہ لگا سکتے ہیں کہ اس چپقلش کے بعد بھلا درد سر کا کیا کام ، پتہ تک نہ رہا ۔ ہاں تخت پر کشتی کرنے کی وجہ سے گھٹنوں میں البتہ سخت چوٹیں آئی تھیں جو پہلے ہی سے ناؤ میں گر کر مضروب تھے مگر یہ چوٹیں ایک طرف اور اس نامراد چھوٹے سے تالے نے جو پیٹھ میں برما چلایا تھا ، اس کی تکلیف ایک طرف بس زخم نہیں ہو ا تھا ۔ ورنہ اس چھوٹے سے تالے کی کنجی گوشت میں پیوست ہو کر رہ گئی تھی اور کہیں اس آپریشن میں تھوڑی دیر اور لگتی ہے تو عجیب نہیں کہ گوشت کاٹ کر وہ اندر گھس جاتی ۔ وہ دن اور آج کا دن شذری کا عربی بولنے کا شوق ایسا رخصت ہوا کہ پھر کبھی عربی نہیں بولے ۔ جتنے دن عراق میں رہے دبے رہے اور اگر کہیں موقع ہوتا تو یہی کہتے کہ بھئی کچھ سمجھے نہیں ، بغیر مترجم کے کام نہ چلے گا ۔
 
Top