مسٹر گرزلی
محفلین
(1)
الشذری
عظیم بیگ چغتائی
چوہدری صاحب سے میری پہلی ملاقات تو جب ہوئی جب میں دوسری جماعت میں داخل ہوا ۔ جس وقت میں درجہ اول میں آیا تو دیکھا کہ چوہدری صاحب مرغا بنے ہوئے ہیں ۔ اس مبارک پرند کی وضع قطع چوہدری صاحب کو مجبوراً تھوڑی دیر کے لیے اختیار کرنر پڑی تھی ۔ وہ میرے پاس آکر بیٹھے اور سبق یاد کرنے کے وجود اور اس کے خطرناک نتائج پر گفتگو رہی کہ ماسٹر صاحب کے ڈنڈے نے یہ عارضی صحبت درہم برہم کر دی ، میں تو گرفتار تھا اس لیے بچ گیا ۔ اور چوہدری صاحب الگ بٹھائے گئے یہ تو گویا پہلی ملاقات تھی اس کے بعد کالج تک ساتھ رہا ۔ بی اے میں چوہدری صاحب عازم بیت اللہ ہوئے ۔ حج کرنے میں سب سے زیادہ خطرہ اس بات کا تھا کہ حاضریاں کم ہو جائیں گی اور امتحان میں شرکت کی اجازت نہ ملے گی ۔ چنانچہ یہی ہوا کہ حج سے جو واپس ہوئے تو اپنا نام کالج کے نوٹس بورڈ پر آویزاں پایا ۔ ان لڑکوں کی فہرست میں جو کالج سے غیر حاضر رہنے کی پاداش میں امتحان سے روکے جانے والے تھے ۔ ” ذرا غور تو کیجئے “ چوہدری صاحب بولے ” یہ ستم نہیں تو اور کیا ہے ۔ اگر کرکٹ کی ٹیم مہینے بھر کے لیے باہر جائے تو سب کو حاضریاں ملیں۔ اگر لڑکے چتوڑ کا قلعہ اور دہلی کے کھنڈر دیکھنے جائیں تو شعبہ تاریخ کے پروفیسر صاحب اس سیر سپاٹے کو حصہ تعلیمی سمجھ کر حاضریاں پوری کروائیں ۔ آخر تکمیل دینیات کے سلسلے میں اگر کوئی حرمین شریف جائے تو اس کو کس بناء پر پوری حاضریاں نہ ملیں ؟ جیسے اور مضامین مثلاً اقتصادیات و تواریخ ہیں ویسے دینیات بھی لازمی مضمون ہے “ ۔ ان کی کوششیں رئیگاں نہ گئیں اور محکمہ دینیات کے پروفیسروں نے چوہدری صاحب کی پوری حاضریاں دلوائیں اور امتحان میں شرکت کی اجازت مل گئی۔ (1) حج سے پہلے وہ چوہدری صاحب تھے اور حج کے بعد ” الحاج الشذری الہندی “ بہت غور و خوض کے بعد تمام عربی قوائد کو ملحوظ رکھتے ہوئے حجاز میں پہنچ کر لفظ ” چوہدری “ معرب ہو کر ” الشذری “ ہو گیا تھا اور یہ ارتقائی نشو ونما چوہدری صاحب کی ذات شریف میں اس قدر حلول کر گئی تھی کہ خالص عرب کا باشندہ تو کوٹ پتلون بھی پہن سکتا ہے مگر ” الشذری “ اس سے مجبور تھے ۔ اور عربی جبہ و قبہ پسند کرنے لگے تھے لیکن باوجود مختصر داڑھی اور عربی لبادہ اور انتہائی کوشش کے وہ کسی طرف سے عرب معلوم نہ ہوتے تھے ۔ ان کی تمام کوششیں اپنے کو عرب بنانے میں بالکل اسی طرح ضائع جاتی تھیں جس طرح بعض دیسی عیسائی کوٹ پتلون پہن کر غلط اردو دیدہ و دانستہ بولتے ہیں اور غلط انگریزی مجبوراً ۔ اور تہ پہ تہ سفید پاؤڈر کی لگاتے ہیں مگر حقیقت نہیں چھپتی اور بعینہ یہ معلوم ہوتا ہے کہ جس کمرہ میں قلعی ہوئی ہے اس میں کسی زمانہ میں ضرور باورچی خانہ تھا ۔ نہ یورپین انٹر میں بیٹھنے سے کام چلتا ہے اور نہ یورپین نرخ پر چائے خریدنے سے ۔ غرض یہی حالت چوہدری صاحب کی تھی کہ عرب بننے کی تمام کوششیں رائیگاں جاتی تھیں ۔ میں نے اور انہوں نے تعلیم ساتھ پائی تھیں ۔ دونوں کی عربی دانی کی قابلیت بھی برابر تھی اگر وہ روانی کے ساتھ قر آن مجید پڑھ سکتے تھے تو اٹک اٹک کر میں بھی پڑھ سکتا تھا ۔ رہ گیا سوال معنی کا تو یہ کبھی طے نہ ہو سکا کہ میں اس میں ان پر فوقیت رکھتا ہوں یاوہ مجھ پر ۔ لیکن حج سے واپس آنے کے بعد ان کو بہت سی چیزوں کی عربی معلوم ہو گئی تھی اور اس کا میرے پاس کوئی علاج نہ تھا ۔ چوہدری صاحب کا اتنا پرانا ساتھ ، پھر اتفاق کی بات کہ ساتھ ہی عراق کا سفر در پیش ہوا ۔ … بغداد کی گلیوں میں دو آدمی … میں اور شذری … مارے مارے پھر رہے ہیں دونوں میں سے واقعہ دراصل یوں ہے کہ ایک بھی عربی نہیں جانتا شہر کی چیخ و پکار کیا ہے ؟یقین مانیے کہ گویا چاروں طرف قل ہو اللہ پڑھی جا رہی ہے ۔ میں اور چوہدری صاحب دونوں عربی نہیں جانتے لیکن پھر بھی مجھ میں اور چوہدری صاحب میں زمین آسمان کا فرق ہے ۔ ” تم احمق ہو “ بھائی شذری نے کہا ’ ارے میاں عربی بولنا اور سمجھنا اس قدر آسان ہے کہ وہ ہر شخص جو ہماری اور تمہاری طرح اردو جانتا ہے اور فارسی میں بھی قدرے دخل رکھتا ہے بڑی آسانی سے عربی بول اور سمجھ سکتا ہے ‘۔ میں نے تنگ آکر کہا ” خدا گواہ ہے ، آج تیسرا دن ہے کہ بغداد آئے ہیں مگر میری سمجھ میں یہاں کا ایک حرف نہیں آتا ۔ طبیعت ہے کہ الٹی ہوتی ہے ۔ خدا کی پناہ تربوز مانگو تو چھوارے دے رہے ہیں اور روٹی مانگو تو پانی یہاں سے جلدی بھاگنا چاہیے ۔ میری عمر تو گذر جائے گی اور یہ عربی سمجھ میں نہ آئے گی ۔“ ادھر تو میرا یہ حال اور ادھر بھائی شذری کا یہ خیال کہ کچھ نہیں صرف معمولی اردو میں ۔ منل ، دل ، ال کم وغیرہ لگاؤ بس عربی ہوگئی اسی بنا پر چوہدری صاحب بقول خود عربی دانی کا قائل ہی نہ ہوتا تھا ۔ اگر سڑک پر دو آدمیوں میں حجت یا لڑائی ہو رہی ہو تو چوہدری صاحب کا فرض ہوتا کہ لڑائی کی وجہ سے مجھے آگاہ کر یں اور یہ ظاہر کریں کہ عربی سمجھتے ہیں ۔ یا پھر کہیں سائن بورڈ پر نظر جائے تو ناممکن کہ اس کی تفسیر میرے سامنے نہ پیش ہو ۔ مجھ کو یہ باتیں ان کی کہاں تک تکلیف نہ دیتیں جبکہ میں خوب اچھی طرح جانتا تھا کہ یہ حضرت کسی طرح بھی مجھ سے زیادہ عربی سمجھنے کے اہل نہیں ۔ … ایک روز کاذکر ہے کہ ہم دونوں مدینہ کے قاضی صاحب سے ملنے جا رہے تھے ۔ راستہ میں چوہدری صاحب میرا ہاتھ پکڑ کر ایک چائے کی دکان پر چڑھ گئے ۔ آٹھ درجن فنجان کا آرڈر دیا گیا ۔ میں تعجب سے چوہدری صاحب کی طرف دیکھا ۔ اول تو مجھ کو اس قسم کی چائے سے کوئی دلچسپی نہیں کہ پھیکی سیٹھی بغیر دودھ کی چائے شیشے کے فنجانوں میں پی رہے ہیں اور پھر یہاں ایک نہ دو بلکہ آٹھ درجن فنجان چائے جو میں کسی طرح بھی نہ پی سکتا تھا ۔ میں نے چوہدری صاحب سے کہا ۔ ” آخر یہ کیا حماقت ہے ‘ ؟ چوہدری صاحب تنک کر بولے ” دام ہم دیں گے تم کیا جانو عربی سمجھتے نہیں نہ یہاں کے نرخ کا پتہ دیکھو آج ہم تم کو دکھاتے ہیں کہ کسی ملک میں جانا اور وہاں کی زبان سمجھنا کتنا مفید ہوتا ہے “ غرض چائے آئی اور خوب پی اور لنڈھائی ۔ پھر بھی بچ رہی ۔ آخر کہاں تک پیتے مگر چوہدری صاحب نے ” زرمی خورم “ کر ڈالا ۔ جب چائے کا بل پیش ہوا تو چوہدری صاحب نے سٹپٹا ئے قریب قریب دو ڈیڑھ پیسہ فی فنجان طلب کر رہا تھا اور چوہدری صاحب ایک درجن فنجان کے دام ایک یا ڈیڑھ پیسہ کے حساب سے دے رہے تھے ۔ کہاں ایک پیسہ فی فنجان اور کہا ایک پسیہ فی درجن جب غلط سلط عربی سے معاملہ نہ سلجھا تو حضرت شذری نے دکاندار کا ہاتھ پکر کر سڑک پر لاکھڑا کیا دکاندار کے کھمبے پر جو نرخ لکھا ہوا تھا ۔ اس کی طرف دکاندار کی توجہ مبذول کرائی کہ جب کھلم کھلا نرخ لکھ رہا ہے تب آخر کیوں دام زیادہ مانگتے ہو ؟ دکاندار نے اس عبارت کو پڑھا کچھ چکرایا ۔ ادھر ادھر دیکھا سارے میں اس سرے سے اس سرے تک تمام دکانوں پر خواہ وہ چائے کی ہوں یا کھجوروں کی اور یا گوشت کی ، بڑے بڑے سیاہ حروف میں یہ عبارت لکھی ہوئی تھی جس کا اردو میں ترجمہ ہوتا تھا ۔ ایک پیسہ میں ایک درجن فنجان چائے ۔ دکاندار نے کہا ’ میں نے یہ نہیں لکھا ‘ کوئی مردود سارے بازار میں یہی لکھتا چلا گیا ۔ اور میں اس کا ذمہ دار نہیں ‘ ۔ مجھے ایک دام سے خیال آیا اور میں نے چوہدری صاحب کو ہندوستان کے اسی قسم کے اشتہار یاد دلائے ۔ ایک پیسہ ایک درجن چائے کی پیالیاں یا پھر گرمیوں میں گرم چائے ٹھنڈک پہنچاتی ہے ۔ یہ مرض عراق میں بھی پھیلا ہوا ہے اس بدعت کی ذمہ دار چائے کی کمپنیاں تھیں نہ کہ کوئی چائے والا۔ میں نے چوہدری صاحب کی عربی دانی کو اس کا ذمہ دارٹھہرایا ۔ چوہدری صاحب کا یہ کہنا کہ ’ آپ کون ہوتے ہیں ۔ دام میرے گئے یا آپ کے مجھ کو خاموش کر دینے کے لیے کافی تھا ۔ چائے پی کر ہم حضرت قاضی صاحب کے یہاں گئے بدقسمتی سے وہ نہ ملے اور اپنا ملا قاتی کارڈ چھوڑ کر دریا کے کنارے پہنچے۔ عراق میں ایک ناؤ ایسی بھی ہوتی ہے جیسے گول پیالہ خوش قسمتی سے ایسی ہی ناؤ ملی میں تو چپ کھڑا رہا اور چوہدری صاحب نے ہندوستانی عربی یا باالفاظ دیگر عراقی اردو میں بات چیت شروع کی خدا معلوم انہوں نے کیا کہا اور ملاح نے کیا سمجھا مگر نتیجہ اس گفت و شنید کا یہ ہوا کہ ہم دونوں ناؤ میں بیٹھ گئے اور دریا کی سیر ہونے لگی اس ناؤ کی تعریف کے چوہدری صاحب نے پل باندھ دیئے کہنے لگے کہ ” اس ناؤ میں خاص بات یہ ہے کہ بھنور یعنی گرداب میں پڑ کر بھی نہیں ڈوبتی “ میں نے تعجب ظاہر کیا تو انہوں نے کہا کہ ” دیکھو ابھی سے گرداب میں لے چلیں گے ، تا کہ تم خود دیکھ لو“ میں نے کہا ” خدا کے واسطے رحم کیجئے مجھ کو ذرہ بھر بھی شک نہیں آپ سچ کہتے ہیں اور مجھ کو تسلیم ہے کہ کم بخت ناؤ حضرت نوح کی کشتی کا مقابلہ کر لے گی “ مگر وہ نہ مانے پر نہ مانے بیچ دریا کے بہاؤ سے ذراہٹ کر بڑے زور و شور سے بھنور پڑ رہا تھا جس کو دیکھنے سے ڈر لگتا تھا ۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ (جاری ہے)
الشذری
عظیم بیگ چغتائی
چوہدری صاحب سے میری پہلی ملاقات تو جب ہوئی جب میں دوسری جماعت میں داخل ہوا ۔ جس وقت میں درجہ اول میں آیا تو دیکھا کہ چوہدری صاحب مرغا بنے ہوئے ہیں ۔ اس مبارک پرند کی وضع قطع چوہدری صاحب کو مجبوراً تھوڑی دیر کے لیے اختیار کرنر پڑی تھی ۔ وہ میرے پاس آکر بیٹھے اور سبق یاد کرنے کے وجود اور اس کے خطرناک نتائج پر گفتگو رہی کہ ماسٹر صاحب کے ڈنڈے نے یہ عارضی صحبت درہم برہم کر دی ، میں تو گرفتار تھا اس لیے بچ گیا ۔ اور چوہدری صاحب الگ بٹھائے گئے یہ تو گویا پہلی ملاقات تھی اس کے بعد کالج تک ساتھ رہا ۔ بی اے میں چوہدری صاحب عازم بیت اللہ ہوئے ۔ حج کرنے میں سب سے زیادہ خطرہ اس بات کا تھا کہ حاضریاں کم ہو جائیں گی اور امتحان میں شرکت کی اجازت نہ ملے گی ۔ چنانچہ یہی ہوا کہ حج سے جو واپس ہوئے تو اپنا نام کالج کے نوٹس بورڈ پر آویزاں پایا ۔ ان لڑکوں کی فہرست میں جو کالج سے غیر حاضر رہنے کی پاداش میں امتحان سے روکے جانے والے تھے ۔ ” ذرا غور تو کیجئے “ چوہدری صاحب بولے ” یہ ستم نہیں تو اور کیا ہے ۔ اگر کرکٹ کی ٹیم مہینے بھر کے لیے باہر جائے تو سب کو حاضریاں ملیں۔ اگر لڑکے چتوڑ کا قلعہ اور دہلی کے کھنڈر دیکھنے جائیں تو شعبہ تاریخ کے پروفیسر صاحب اس سیر سپاٹے کو حصہ تعلیمی سمجھ کر حاضریاں پوری کروائیں ۔ آخر تکمیل دینیات کے سلسلے میں اگر کوئی حرمین شریف جائے تو اس کو کس بناء پر پوری حاضریاں نہ ملیں ؟ جیسے اور مضامین مثلاً اقتصادیات و تواریخ ہیں ویسے دینیات بھی لازمی مضمون ہے “ ۔ ان کی کوششیں رئیگاں نہ گئیں اور محکمہ دینیات کے پروفیسروں نے چوہدری صاحب کی پوری حاضریاں دلوائیں اور امتحان میں شرکت کی اجازت مل گئی۔ (1) حج سے پہلے وہ چوہدری صاحب تھے اور حج کے بعد ” الحاج الشذری الہندی “ بہت غور و خوض کے بعد تمام عربی قوائد کو ملحوظ رکھتے ہوئے حجاز میں پہنچ کر لفظ ” چوہدری “ معرب ہو کر ” الشذری “ ہو گیا تھا اور یہ ارتقائی نشو ونما چوہدری صاحب کی ذات شریف میں اس قدر حلول کر گئی تھی کہ خالص عرب کا باشندہ تو کوٹ پتلون بھی پہن سکتا ہے مگر ” الشذری “ اس سے مجبور تھے ۔ اور عربی جبہ و قبہ پسند کرنے لگے تھے لیکن باوجود مختصر داڑھی اور عربی لبادہ اور انتہائی کوشش کے وہ کسی طرف سے عرب معلوم نہ ہوتے تھے ۔ ان کی تمام کوششیں اپنے کو عرب بنانے میں بالکل اسی طرح ضائع جاتی تھیں جس طرح بعض دیسی عیسائی کوٹ پتلون پہن کر غلط اردو دیدہ و دانستہ بولتے ہیں اور غلط انگریزی مجبوراً ۔ اور تہ پہ تہ سفید پاؤڈر کی لگاتے ہیں مگر حقیقت نہیں چھپتی اور بعینہ یہ معلوم ہوتا ہے کہ جس کمرہ میں قلعی ہوئی ہے اس میں کسی زمانہ میں ضرور باورچی خانہ تھا ۔ نہ یورپین انٹر میں بیٹھنے سے کام چلتا ہے اور نہ یورپین نرخ پر چائے خریدنے سے ۔ غرض یہی حالت چوہدری صاحب کی تھی کہ عرب بننے کی تمام کوششیں رائیگاں جاتی تھیں ۔ میں نے اور انہوں نے تعلیم ساتھ پائی تھیں ۔ دونوں کی عربی دانی کی قابلیت بھی برابر تھی اگر وہ روانی کے ساتھ قر آن مجید پڑھ سکتے تھے تو اٹک اٹک کر میں بھی پڑھ سکتا تھا ۔ رہ گیا سوال معنی کا تو یہ کبھی طے نہ ہو سکا کہ میں اس میں ان پر فوقیت رکھتا ہوں یاوہ مجھ پر ۔ لیکن حج سے واپس آنے کے بعد ان کو بہت سی چیزوں کی عربی معلوم ہو گئی تھی اور اس کا میرے پاس کوئی علاج نہ تھا ۔ چوہدری صاحب کا اتنا پرانا ساتھ ، پھر اتفاق کی بات کہ ساتھ ہی عراق کا سفر در پیش ہوا ۔ … بغداد کی گلیوں میں دو آدمی … میں اور شذری … مارے مارے پھر رہے ہیں دونوں میں سے واقعہ دراصل یوں ہے کہ ایک بھی عربی نہیں جانتا شہر کی چیخ و پکار کیا ہے ؟یقین مانیے کہ گویا چاروں طرف قل ہو اللہ پڑھی جا رہی ہے ۔ میں اور چوہدری صاحب دونوں عربی نہیں جانتے لیکن پھر بھی مجھ میں اور چوہدری صاحب میں زمین آسمان کا فرق ہے ۔ ” تم احمق ہو “ بھائی شذری نے کہا ’ ارے میاں عربی بولنا اور سمجھنا اس قدر آسان ہے کہ وہ ہر شخص جو ہماری اور تمہاری طرح اردو جانتا ہے اور فارسی میں بھی قدرے دخل رکھتا ہے بڑی آسانی سے عربی بول اور سمجھ سکتا ہے ‘۔ میں نے تنگ آکر کہا ” خدا گواہ ہے ، آج تیسرا دن ہے کہ بغداد آئے ہیں مگر میری سمجھ میں یہاں کا ایک حرف نہیں آتا ۔ طبیعت ہے کہ الٹی ہوتی ہے ۔ خدا کی پناہ تربوز مانگو تو چھوارے دے رہے ہیں اور روٹی مانگو تو پانی یہاں سے جلدی بھاگنا چاہیے ۔ میری عمر تو گذر جائے گی اور یہ عربی سمجھ میں نہ آئے گی ۔“ ادھر تو میرا یہ حال اور ادھر بھائی شذری کا یہ خیال کہ کچھ نہیں صرف معمولی اردو میں ۔ منل ، دل ، ال کم وغیرہ لگاؤ بس عربی ہوگئی اسی بنا پر چوہدری صاحب بقول خود عربی دانی کا قائل ہی نہ ہوتا تھا ۔ اگر سڑک پر دو آدمیوں میں حجت یا لڑائی ہو رہی ہو تو چوہدری صاحب کا فرض ہوتا کہ لڑائی کی وجہ سے مجھے آگاہ کر یں اور یہ ظاہر کریں کہ عربی سمجھتے ہیں ۔ یا پھر کہیں سائن بورڈ پر نظر جائے تو ناممکن کہ اس کی تفسیر میرے سامنے نہ پیش ہو ۔ مجھ کو یہ باتیں ان کی کہاں تک تکلیف نہ دیتیں جبکہ میں خوب اچھی طرح جانتا تھا کہ یہ حضرت کسی طرح بھی مجھ سے زیادہ عربی سمجھنے کے اہل نہیں ۔ … ایک روز کاذکر ہے کہ ہم دونوں مدینہ کے قاضی صاحب سے ملنے جا رہے تھے ۔ راستہ میں چوہدری صاحب میرا ہاتھ پکڑ کر ایک چائے کی دکان پر چڑھ گئے ۔ آٹھ درجن فنجان کا آرڈر دیا گیا ۔ میں تعجب سے چوہدری صاحب کی طرف دیکھا ۔ اول تو مجھ کو اس قسم کی چائے سے کوئی دلچسپی نہیں کہ پھیکی سیٹھی بغیر دودھ کی چائے شیشے کے فنجانوں میں پی رہے ہیں اور پھر یہاں ایک نہ دو بلکہ آٹھ درجن فنجان چائے جو میں کسی طرح بھی نہ پی سکتا تھا ۔ میں نے چوہدری صاحب سے کہا ۔ ” آخر یہ کیا حماقت ہے ‘ ؟ چوہدری صاحب تنک کر بولے ” دام ہم دیں گے تم کیا جانو عربی سمجھتے نہیں نہ یہاں کے نرخ کا پتہ دیکھو آج ہم تم کو دکھاتے ہیں کہ کسی ملک میں جانا اور وہاں کی زبان سمجھنا کتنا مفید ہوتا ہے “ غرض چائے آئی اور خوب پی اور لنڈھائی ۔ پھر بھی بچ رہی ۔ آخر کہاں تک پیتے مگر چوہدری صاحب نے ” زرمی خورم “ کر ڈالا ۔ جب چائے کا بل پیش ہوا تو چوہدری صاحب نے سٹپٹا ئے قریب قریب دو ڈیڑھ پیسہ فی فنجان طلب کر رہا تھا اور چوہدری صاحب ایک درجن فنجان کے دام ایک یا ڈیڑھ پیسہ کے حساب سے دے رہے تھے ۔ کہاں ایک پیسہ فی فنجان اور کہا ایک پسیہ فی درجن جب غلط سلط عربی سے معاملہ نہ سلجھا تو حضرت شذری نے دکاندار کا ہاتھ پکر کر سڑک پر لاکھڑا کیا دکاندار کے کھمبے پر جو نرخ لکھا ہوا تھا ۔ اس کی طرف دکاندار کی توجہ مبذول کرائی کہ جب کھلم کھلا نرخ لکھ رہا ہے تب آخر کیوں دام زیادہ مانگتے ہو ؟ دکاندار نے اس عبارت کو پڑھا کچھ چکرایا ۔ ادھر ادھر دیکھا سارے میں اس سرے سے اس سرے تک تمام دکانوں پر خواہ وہ چائے کی ہوں یا کھجوروں کی اور یا گوشت کی ، بڑے بڑے سیاہ حروف میں یہ عبارت لکھی ہوئی تھی جس کا اردو میں ترجمہ ہوتا تھا ۔ ایک پیسہ میں ایک درجن فنجان چائے ۔ دکاندار نے کہا ’ میں نے یہ نہیں لکھا ‘ کوئی مردود سارے بازار میں یہی لکھتا چلا گیا ۔ اور میں اس کا ذمہ دار نہیں ‘ ۔ مجھے ایک دام سے خیال آیا اور میں نے چوہدری صاحب کو ہندوستان کے اسی قسم کے اشتہار یاد دلائے ۔ ایک پیسہ ایک درجن چائے کی پیالیاں یا پھر گرمیوں میں گرم چائے ٹھنڈک پہنچاتی ہے ۔ یہ مرض عراق میں بھی پھیلا ہوا ہے اس بدعت کی ذمہ دار چائے کی کمپنیاں تھیں نہ کہ کوئی چائے والا۔ میں نے چوہدری صاحب کی عربی دانی کو اس کا ذمہ دارٹھہرایا ۔ چوہدری صاحب کا یہ کہنا کہ ’ آپ کون ہوتے ہیں ۔ دام میرے گئے یا آپ کے مجھ کو خاموش کر دینے کے لیے کافی تھا ۔ چائے پی کر ہم حضرت قاضی صاحب کے یہاں گئے بدقسمتی سے وہ نہ ملے اور اپنا ملا قاتی کارڈ چھوڑ کر دریا کے کنارے پہنچے۔ عراق میں ایک ناؤ ایسی بھی ہوتی ہے جیسے گول پیالہ خوش قسمتی سے ایسی ہی ناؤ ملی میں تو چپ کھڑا رہا اور چوہدری صاحب نے ہندوستانی عربی یا باالفاظ دیگر عراقی اردو میں بات چیت شروع کی خدا معلوم انہوں نے کیا کہا اور ملاح نے کیا سمجھا مگر نتیجہ اس گفت و شنید کا یہ ہوا کہ ہم دونوں ناؤ میں بیٹھ گئے اور دریا کی سیر ہونے لگی اس ناؤ کی تعریف کے چوہدری صاحب نے پل باندھ دیئے کہنے لگے کہ ” اس ناؤ میں خاص بات یہ ہے کہ بھنور یعنی گرداب میں پڑ کر بھی نہیں ڈوبتی “ میں نے تعجب ظاہر کیا تو انہوں نے کہا کہ ” دیکھو ابھی سے گرداب میں لے چلیں گے ، تا کہ تم خود دیکھ لو“ میں نے کہا ” خدا کے واسطے رحم کیجئے مجھ کو ذرہ بھر بھی شک نہیں آپ سچ کہتے ہیں اور مجھ کو تسلیم ہے کہ کم بخت ناؤ حضرت نوح کی کشتی کا مقابلہ کر لے گی “ مگر وہ نہ مانے پر نہ مانے بیچ دریا کے بہاؤ سے ذراہٹ کر بڑے زور و شور سے بھنور پڑ رہا تھا جس کو دیکھنے سے ڈر لگتا تھا ۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ (جاری ہے)