x boy
محفلین
…مظفراعجاز…جسارت
لوجی! الطاف بھائی آج 60سال کے ہوگئے۔ بھائی ہم تو مہاجر ہیں اس لیے وہ اصطلاح استعمال کرتے ہوئے ڈرتے ہیں جو مہاجر خوب سمجھتے ہیں اور ہر ساٹھ سال والے کے بارے میں کہتے ہیں۔ بس یوں سمجھیں کہ ساٹھا پاٹھا ہوگیا ہے۔ اب سے 21برس قبل ایک صاحب نے جسارت کے ادارتی صفحے پر مضمون لکھا۔ وہ اُس وقت مہاجر قومی موومنٹ کو متحدہ بنائے جانے پر چراغ پا تھے۔ مضمون میں الطاف بھائی اور ان کی سیاست پر تنقید کی بھرمار تھی۔ آخر میں لکھا تھا کہ اگر ان کی سیاست کا یہی طریقہ رہا تو آئندہ سال الطاف بھائی کی چالیسویں سالگرہ اور ان کی سیاست کا چالیسواں ہوگا۔
آج جب ہم یہ سطور لکھنے بیٹھے ہیں تو ملک بھر میں مہاجر سیاست کا چالیسواں ہوئے 20سال ہوچکے ہیں اور الطاف بھائی خود 17ستمبر کو ساٹھا پاٹھا ہوجائیں گے۔ سٹھیانے کا لفظ ہم اس لیے استعمال نہیں کررہے کہ ان کی سیاست اور اندازِ سیاست تو پہلے ہی ایسا تھا کہ ایسا ہی کہا جانا چاہیے تھا۔ وہ خود بھی جانتے ہیں اور ان سے زیادہ مہاجر جانتے ہیں کہ مہاجر سیاست نے مہاجروں کو شناخت کے سوا کچھ نہیں دیا۔ اور یہ شناخت صرف ایم کیو ایم کو نہیں ملی، بلکہ ہر مہاجر کو ملی… 1997ء میں جب ہم نے ’’ادھوری آزادی کی نصف صدی‘‘ لکھی تو یہ باب بھی شامل تھا کہ ایم کیو ایم کی سیاست نے مہاجر کو شناخت ضرور دی، لیکن یہ ان معنوں میں شناخت نہیں، بلکہ یوں سمجھیں کہ پہچانے گئے۔ 1980ء کے ابتدائی عشرے میں 23 وفاقی سیکریٹریوں میں سے 16یا17مہاجر یا اردو بولنے والے تھے، لیکن 1987ء میں ایم کیو ایم کے ذریعے شناخت یا پہچانے جانے کے صرف 3سال بعد یہ تعداد 3 رہ گئی تھی۔ ان میں بھی ایک وی اے جعفری تھے جو سیاسی وابستگی کی بنا پر بچے ہوئے تھے۔ پھر ملک بھر میں کراچی کے پڑھے لکھے لوگ جو کبھی شاہ صاحب، سید صاحب اور ماسٹر جی کہلاتے تھے، اب مہاجر کہلائے جانے لگے۔ 1968ء سے اسلام آباد میں مقیم اٹامک انرجی کمیشن کے افسر 1987ء سے مہاجر اور مکڑ کہلائے جانے لگے، کیونکہ وہ پاجامہ پہنتے تھے اور پان کھاتے تھے۔ 19سال انہیں کسی نے یہ شناخت نہیں دی… انہیں یہ شناخت دی تو مہاجر سیاست نے دی… اور اب تو پاجامہ، ٹی ٹی، کالا بچہ، کمانڈو، لنگڑا، کانڑا وغیرہ کہلاتے ہیں۔
پاکستان کی حکومتیں اکثر ایم کیو ایم کے خلاف آپریشن کرتی ہیں۔ 1992ء میں بھی ایک آپریشن کیا گیا تھا جس کے نتیجے میں دو چیزیں ہوئیں:ایک تو الطاف حسین ہمیشہ کے لیے ملک سے چلے گئے، دوسرے یہ کہ پہلے مہاجر نام سے ایک گروہ سیاست کررہا تھا، اب دو کرنے لگے۔ پہلا آپریشن تو خاص ایم کیو ایم کے خلاف تھا، لیکن اِس مرتبہ دہشت گروں کے خلاف ہے۔ تبرک کے طور پر اِدھر اُدھر بھی ہاتھ مارے جارہے ہیں لیکن نشانہ اِس مرتبہ بھی متحدہ ہی ہے اور ہمیشہ کی طرح علاج بالمثل کی کوشش کی جارہی ہے۔ جسمانی عارضوں پر تو زہر کا علاج زہر سے کیا جاتا ہے جو تریاق بن جاتا ہے، لیکن معاشروں میں اس طرح بیماری کا علاج کیا جائے تو یہ ناسور بن جاتا ہے۔ جب 1992ء کا آپریشن ہوا تو صرف ’حقیقی‘ بنی تھی، اس نے بھی وہی سب کیا تھا جو ایم کیو ایم یا الطاف گروپ نے کیا۔ نتیجتاً دوسروں کو بھی شہ ملی، اور کراچی کی تاریخ میں پہلی مرتبہ اے این پی اسمبلی کی سیٹ جیت گئی اور وزارتوں میں بھی پہنچ گئی۔ انہوں نے بھی وہی کیا جو پچھلے دو کررہے تھے، یعنی پرچیاں بھیجنا شروع کردیں۔ اس کے بعد تو نہ رکنے والا سلسلہ شروع ہوگیا۔ بھلا کون ہے جو اس بہتی گنگا میں ہاتھ دھونے کا موقع پائے اور محروم رہ جائے! چنانچہ لیاری والوں کا احساسِ محرومی اجاگر ہوا اور انہوں نے امن کمیٹی بنالی۔ پہلے اس کی سرپرستی سندھ کے وزیر داخلہ ذوالفقار مرزا کرتے رہے، اب پتا نہیں کون کررہا ہے۔ لیکن ہوا یہ کہ متحدہ اور مہاجر قومی موومنٹ حقیقی نے مہاجروں کو خوب نچوڑا… بھتے، ہڑتالیں وغیرہ، ساری آفتیں اپنوں ہی پر توڑیں۔ پھر اے این پی کی کیا مجال کہ مہاجروں کے علاقے میں گھسے، چنانچہ انہوں نے پختونوں ہی کو نچوڑا۔ لیاری والے ابتدا میں اپنے علاقوں تک ہی محدود تھے، لیکن ان کی آبادی غریب ہے… کباڑی بازار سے کباڑ کے سوا کیا نکلتا! چنانچہ وہ برنس روڈ اور صدر تک پہنچے۔ پھر تو طارق روڈ پر پیج پاگارہ کا نعرہ بھی نظر آیا… سنی تحریک، یہ تحریک، وہ تحریک سب نے ہی پرچیاں شروع کردیں اور سب نے اپنوں کی ایسی تیسی کی…
الطاف بھائی! جو بھی کچھ ہے آپ کا پھیلایا ہوا ہے، چالیسویں پر نہ سمجھے ہوں تو 60 ویں پر تو سمجھ جائیں۔ کہتے ہیں کہ ساٹھا پاٹھا بڑا سمجھدار ہوجاتا ہے۔ اگر پھر بھی نہ سمجھے تو مہاجر یہ کہتے ہیں کہ: سٹھیا گیا ہے بے چارا… ہم سالگرہ تو نہیں مناتے لیکن پھر بھی لیڈر کو مبارکباد دینے میں کوئی حرج نہیں۔
الطاف بھائی 60ویں سالگرہ مبارک ہو۔
لوجی! الطاف بھائی آج 60سال کے ہوگئے۔ بھائی ہم تو مہاجر ہیں اس لیے وہ اصطلاح استعمال کرتے ہوئے ڈرتے ہیں جو مہاجر خوب سمجھتے ہیں اور ہر ساٹھ سال والے کے بارے میں کہتے ہیں۔ بس یوں سمجھیں کہ ساٹھا پاٹھا ہوگیا ہے۔ اب سے 21برس قبل ایک صاحب نے جسارت کے ادارتی صفحے پر مضمون لکھا۔ وہ اُس وقت مہاجر قومی موومنٹ کو متحدہ بنائے جانے پر چراغ پا تھے۔ مضمون میں الطاف بھائی اور ان کی سیاست پر تنقید کی بھرمار تھی۔ آخر میں لکھا تھا کہ اگر ان کی سیاست کا یہی طریقہ رہا تو آئندہ سال الطاف بھائی کی چالیسویں سالگرہ اور ان کی سیاست کا چالیسواں ہوگا۔
آج جب ہم یہ سطور لکھنے بیٹھے ہیں تو ملک بھر میں مہاجر سیاست کا چالیسواں ہوئے 20سال ہوچکے ہیں اور الطاف بھائی خود 17ستمبر کو ساٹھا پاٹھا ہوجائیں گے۔ سٹھیانے کا لفظ ہم اس لیے استعمال نہیں کررہے کہ ان کی سیاست اور اندازِ سیاست تو پہلے ہی ایسا تھا کہ ایسا ہی کہا جانا چاہیے تھا۔ وہ خود بھی جانتے ہیں اور ان سے زیادہ مہاجر جانتے ہیں کہ مہاجر سیاست نے مہاجروں کو شناخت کے سوا کچھ نہیں دیا۔ اور یہ شناخت صرف ایم کیو ایم کو نہیں ملی، بلکہ ہر مہاجر کو ملی… 1997ء میں جب ہم نے ’’ادھوری آزادی کی نصف صدی‘‘ لکھی تو یہ باب بھی شامل تھا کہ ایم کیو ایم کی سیاست نے مہاجر کو شناخت ضرور دی، لیکن یہ ان معنوں میں شناخت نہیں، بلکہ یوں سمجھیں کہ پہچانے گئے۔ 1980ء کے ابتدائی عشرے میں 23 وفاقی سیکریٹریوں میں سے 16یا17مہاجر یا اردو بولنے والے تھے، لیکن 1987ء میں ایم کیو ایم کے ذریعے شناخت یا پہچانے جانے کے صرف 3سال بعد یہ تعداد 3 رہ گئی تھی۔ ان میں بھی ایک وی اے جعفری تھے جو سیاسی وابستگی کی بنا پر بچے ہوئے تھے۔ پھر ملک بھر میں کراچی کے پڑھے لکھے لوگ جو کبھی شاہ صاحب، سید صاحب اور ماسٹر جی کہلاتے تھے، اب مہاجر کہلائے جانے لگے۔ 1968ء سے اسلام آباد میں مقیم اٹامک انرجی کمیشن کے افسر 1987ء سے مہاجر اور مکڑ کہلائے جانے لگے، کیونکہ وہ پاجامہ پہنتے تھے اور پان کھاتے تھے۔ 19سال انہیں کسی نے یہ شناخت نہیں دی… انہیں یہ شناخت دی تو مہاجر سیاست نے دی… اور اب تو پاجامہ، ٹی ٹی، کالا بچہ، کمانڈو، لنگڑا، کانڑا وغیرہ کہلاتے ہیں۔
پاکستان کی حکومتیں اکثر ایم کیو ایم کے خلاف آپریشن کرتی ہیں۔ 1992ء میں بھی ایک آپریشن کیا گیا تھا جس کے نتیجے میں دو چیزیں ہوئیں:ایک تو الطاف حسین ہمیشہ کے لیے ملک سے چلے گئے، دوسرے یہ کہ پہلے مہاجر نام سے ایک گروہ سیاست کررہا تھا، اب دو کرنے لگے۔ پہلا آپریشن تو خاص ایم کیو ایم کے خلاف تھا، لیکن اِس مرتبہ دہشت گروں کے خلاف ہے۔ تبرک کے طور پر اِدھر اُدھر بھی ہاتھ مارے جارہے ہیں لیکن نشانہ اِس مرتبہ بھی متحدہ ہی ہے اور ہمیشہ کی طرح علاج بالمثل کی کوشش کی جارہی ہے۔ جسمانی عارضوں پر تو زہر کا علاج زہر سے کیا جاتا ہے جو تریاق بن جاتا ہے، لیکن معاشروں میں اس طرح بیماری کا علاج کیا جائے تو یہ ناسور بن جاتا ہے۔ جب 1992ء کا آپریشن ہوا تو صرف ’حقیقی‘ بنی تھی، اس نے بھی وہی سب کیا تھا جو ایم کیو ایم یا الطاف گروپ نے کیا۔ نتیجتاً دوسروں کو بھی شہ ملی، اور کراچی کی تاریخ میں پہلی مرتبہ اے این پی اسمبلی کی سیٹ جیت گئی اور وزارتوں میں بھی پہنچ گئی۔ انہوں نے بھی وہی کیا جو پچھلے دو کررہے تھے، یعنی پرچیاں بھیجنا شروع کردیں۔ اس کے بعد تو نہ رکنے والا سلسلہ شروع ہوگیا۔ بھلا کون ہے جو اس بہتی گنگا میں ہاتھ دھونے کا موقع پائے اور محروم رہ جائے! چنانچہ لیاری والوں کا احساسِ محرومی اجاگر ہوا اور انہوں نے امن کمیٹی بنالی۔ پہلے اس کی سرپرستی سندھ کے وزیر داخلہ ذوالفقار مرزا کرتے رہے، اب پتا نہیں کون کررہا ہے۔ لیکن ہوا یہ کہ متحدہ اور مہاجر قومی موومنٹ حقیقی نے مہاجروں کو خوب نچوڑا… بھتے، ہڑتالیں وغیرہ، ساری آفتیں اپنوں ہی پر توڑیں۔ پھر اے این پی کی کیا مجال کہ مہاجروں کے علاقے میں گھسے، چنانچہ انہوں نے پختونوں ہی کو نچوڑا۔ لیاری والے ابتدا میں اپنے علاقوں تک ہی محدود تھے، لیکن ان کی آبادی غریب ہے… کباڑی بازار سے کباڑ کے سوا کیا نکلتا! چنانچہ وہ برنس روڈ اور صدر تک پہنچے۔ پھر تو طارق روڈ پر پیج پاگارہ کا نعرہ بھی نظر آیا… سنی تحریک، یہ تحریک، وہ تحریک سب نے ہی پرچیاں شروع کردیں اور سب نے اپنوں کی ایسی تیسی کی…
الطاف بھائی! جو بھی کچھ ہے آپ کا پھیلایا ہوا ہے، چالیسویں پر نہ سمجھے ہوں تو 60 ویں پر تو سمجھ جائیں۔ کہتے ہیں کہ ساٹھا پاٹھا بڑا سمجھدار ہوجاتا ہے۔ اگر پھر بھی نہ سمجھے تو مہاجر یہ کہتے ہیں کہ: سٹھیا گیا ہے بے چارا… ہم سالگرہ تو نہیں مناتے لیکن پھر بھی لیڈر کو مبارکباد دینے میں کوئی حرج نہیں۔
الطاف بھائی 60ویں سالگرہ مبارک ہو۔