سید انور محمود
محفلین
تاریخ : 16 مارچ 2016ء
الطاف حسین اورایم کیوایم کا مستقبل
تحریر: سید انور محمود
مئی 2013ء کے عام انتخابات کے بعد متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) ایک بحرانی کیفیت سے دوچار ہوئی، جب کراچی میں پاکستان تحریک انصاف نے 8 لاکھ سے زائد ووٹ حاصل کیے تو ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین نے19 مئی کو کارکنوں کے اجتماع میں رابطہ کمیٹی کو معطل کر دیا، جبکہ کارکنوں کی جانب سے کئی رہنماؤں کے ساتھ بدسلوکی بھی کی گئی تھی۔ تاہم اس واقعے کے بعد ایم کیو ایم کے معروف رہنماؤں نے یا تو پارٹی چھوڑدی یا پھر انہیں ایک طرف کردیا گیا۔ گذشتہ سال 11 مارچ کو ایم کیو ایم کے مرکز نائن زیرو پر رینجرز نے چھاپا مارا اور کافی لوگوں کو گرفتار کیا، گرفتار ہونے والوں میں ایسے لو گ بھی تھے جن کو عدالت سے سزائے موت کی سزا مل چکی تھی۔ ایک مقامی اخبار کے سروے کے مطابق ایم کیو ایم کے مرکز نائن زیرو پر رینجرز کے چھاپے کو 74 فیصد پاکستانیوں نے درست فیصلہ قرار دیا تھا جبکہ 25 فیصد نےاس کو غلط قرار دیا۔ ایم کیو ایم کو اپنے قیام کے بعد کئی مرتبہ اتارچڑھاؤ کا سامنا کرنا پڑا ہے، اس جماعت کے خلاف تین بار آپریشن کیا جا چکا ہے، ریاستی سرپرستی میں اس کی دھڑے بندی کی جا چکی ہے، اس جماعت کے سربراہ جلاوطن ہیں لیکن اس جماعت نے جنرل اسلم بیگ اور جنرل پرویز مشرف کے زمانے میں مکمل اختیارات اور طاقت کا مزہ بھی چکھا ہے۔ فوجی کارروائیوں، مقدمات اور مشکلات کے باوجود اس جماعت کا ووٹ بنک اپنی جگہ برقرار رہا ہے اور یہ جماعت ہمیشہ سندھ کے شہری علاقوں سے جیتتی آئی ہے۔
کراچی میں 2013 سے جاری رینجرز آپریشن کی وجہ سے ایک بار پھر اس جماعت کے مستقبل پر سوالیہ نشان لگ گئے ہیں۔ عام انتخابات کے قریب تین سال بعد 3 مارچ کی صبح سابق میئر کراچی مصطفی کمال اور متحدہ قومی موومنٹ کی رابطہ کمیٹی کے سابق ڈپٹی کنوینر انیس قائم خانی کراچی پہنچے۔ اسی دن شام کو مصطفی کمال نے ایک پریس کا نفرس کی جس میں ان کے ہمراہ انیس قائم خانی بھی موجود تھے، مصطفی کمال نے ایم کیوایم کے قائد الطاف حسین کو ہدف تنقید بناتے ہوئے سنگین الزامات کا نشانہ بنایا، جن میں الطاف حسین کےبھارتی خفیہ ایجنسی 'را' سے تعلقات اور ‘منی لانڈرنگ’ سر فہرست ہیں۔ مصطفی کمال نے مختلف جرائم اور جرائم پیشہ لوگوں کے جرائم کا ذمہ دار بھی الطاف حسین کو قرار دیا۔ اپنی بات کو صرف دس منٹ میں ختم کرنے کا کہہ کر مصطفی کمال 3 گھنٹے میں بھی اپنی بات مکمل نہیں کرپائے اور ابھی تک جاری رکھے ہوئے ہیں۔ وہ ہر پیر اور جمعرات کو ایم کیوایم کو آفٹرشاک کے جھٹکے دے رہے ہیں، رضا ہارون کی ایم کیو ایم سے علیحدگی ان کا ایک تازہ جھٹکا ہے۔ مصطفی کمال کے علاوہ رضا ہارون نے بھی بتایا کہ الطاف حسین ہر وقت نشے کی حالت میں ہوتے ہیں اور یہ ہی وجہ ہے کہ رات کو وہ الزامات لگاتے ہیں اور صبح کو معافی مانگ لیتے ہیں۔
مصطفی کمال اس وقت آزادی سے الطاف حسین کو نشانہ بنا رہے ہیں جبکہ پاکستان میں الطاف حسین پرچند ماہ قبل لاہور ہائیکورٹ کی طرف سے یہ پابندی عائد کی گئی ہے کہ میڈیا نہ تو ان کے بیانات کو نشر کرسکتا ہے اور نہ ہی انہیں شائع کر سکتا ہے، یہاں تک کہ ان کی تصویر یا تصویری جھلکیاں بھی نشر کرنے کی اجازت نہیں ہے۔ یہ پابندی چند ماہ پہلے ان پر لاہور ہائیکورٹ نے عائد کی تھی، جس کی وجہ ان کی کچھ متنازع تقاریر ہیں، جنہیں اسٹیبلشمنٹ کے حلقوں میں پسند نہیں کیا گیا۔ اگرچہ ایم کیو ایم کے قائدالطاف حسین 24 سال قبل پاکستان چھوڑ کر برطانیہ چلے گئے تھے لیکن ایم کیو ایم کی سیاست ان ہی کی مرہون منت ہے۔ ایم کیو ایم روز اول سے الطاف حسین کا دوسرا نام اور شخصیت پرستی کے اعتبار سے یہ پاکستان کی سب سے قابل ذکر جماعت ہے۔ ایم کیو ایم کے عام کارکن الطاف حسین سے ویسی ہی عقیدت رکھتے ہیں جیسے مرید اپنے پیر سے۔ تین بڑے آپریشن بھی اسے باہر سے ختم نہیں کرسکے۔ اب موجودہ حالات میں سوال یہ ہے کہ ایم کیو ایم کے ہمدردوں میں الطاف حسین اورایم کیو ایم کا مستقبل کیا ہوگا۔ اور کیا مصطفی کمال اور ان کے ساتھ شامل ہونے والا ایم کیو ایم کا دھڑا مہاجر ووٹ بنک کو اسی طرح متحد اور یکجا رکھ سکے گا جس طرح الطاف حسین اور موجودہ ایم کیو ایم نے گزشتہ کئی برسوں سے جوڑ رکھا ہے؟
ایک اہم سوال یہ بھی ہے کہ کراچی اور دوسرے شہروں میں آباد مہاجر یا اردو بولنے والوں کو ایم کیو ایم نے گذشتہ 30 سالوں میں کیا دیا؟ جواب میں لوگ کہتے ہیں بوری بند لاشیں اور خوف۔ تو پھرسوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ سندھ کے شہری علاقوں میں موجود مہاجر بار بار ایم کیو ایم کو ہی کیوں منتخب کرتے ہیں۔ بعض 'غیر مہاجر' اس حوالے سے مختلف تعصبات کا شکار ہیں اور اپنے تجزیوں میں مہاجروں کو سمجھ بوجھ سے عاری قرار دیتے ہیں حالاں کہ یہ طبقہ پاکستان کا سب سے زیادہ باشعور طبقہ ہے لیکن بدقسمتی سے ایوب خان سے لے کر آج تک ہرحکمران ان کے حقوق پر ڈاکہ ڈالتا رہا ہے۔ ایم کیو ایم کے قیام سے قبل 1970ء کے انتخابات میں کراچی کے عوام نے کراچی سے جماعت اسلامی، جمعیت علمائے اسلام اور پاکستان پیپلز پارٹی کو نمائندگی دی۔ کراچی کے صوبائی اسمبلی کےحلقہ نمبر 6 سے جو فیڈرل بی ایریا اور نیو کراچی پر مشتمل تھا اورمکمل مہاجروں کی آبادی ہے پاکستان پیپلز پارٹی نےایک سندھی محمد علی گبول کو ٹکٹ دیا اور محمد علی گبول جماعت اسلامی کے مہاجر امیدوار کے مقابلے میں بھاری اکثریت سے کامیاب ہوئے۔ لیکن اقتدار میں آنے کے بعد پیپلز پارٹی نے کراچی کے شہریوں کو تیسرے درجے کا شہری بناکر رکھا۔ بزرگ رہنما معراج محمد خان اس کی ایک مثال ہیں۔
جماعت اسلامی اور جمعیت علمائے اسلام نے کبھی بھی کراچی کی نمائندگی کا حق ادا نہیں کیا اور آج بھی پاکستان کی کسی بھی چھوٹی بڑی سیاسی جماعت کو کراچی کے مسائل سے کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ پاکستان مسلم لیگ (ن) کی مرکزی حکومت اور پاکستان پیپلز پارٹی کی صوبائی حکومت کو کراچی کے عوام اور ان کے مسائل سے کوئی دلچسپی نہیں لیکن کراچی سے ہونے والی آمدنی پر ان کی نظر مستقل رہتی ہے۔ 2013ء کے انتخابات میں 8 لاکھ سے زیادہ ووٹ ملنے کے بعد بھی عمران خان یا ان کی پارٹی کے کسی رہنما نے کراچی میں کام کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کی جس کا نتیجہ حلقہ این اے 246 اور بلدیاتی انتخابات کے نتائج سے لگایا جاسکتا ہے۔ ایم کیو ایم بار بار کیوں جیتتی ہے؟ اس لیے کیوں کہ مہاجر طبقے کی نمائندگی کرنے کے لیے کوئی متبادل سیاسی طاقت موجود نہیں، کیونکہ کراچی اور سندھ کے مہاجروں کے پاس الطاف حسین اور ایم کیو ایم کے سواکوئی دوسرا رہنما اور جماعت موجود نہیں۔ ماضی میں کیو ایم کے رہنماوں پر مبنی ایک دھڑا ایم کیو ایم حقیقی کے نام سے سامنے لایا گیا تھا جو مقبول نہیں ہو سکا، کیا مصطفی کمال اور ان کے ہم نوا بھی ایک اور ایم کیو ایم حقیقی ثابت ہوں گے یا نہیں اس کا جواب ملنا ابھی باقی ہے۔
گذشتہ 30 سال سے یہ ہی دیکھا گیا ہے کہ ایم کیو ایم اپنے خلاف ہونے والے آپریشنوں کے دوران وقتی طور پر دفاعی انداز اختیار کرلیتی ہے لیکن جیسے ہی موقعہ ملتا ہے یہ پھر سے متحرک نظر آتی ہے۔ اس وقت ایم کیو ایم پر پارٹی کی حیثیت سے اس کے سینکڑوں کارکنوں پرٹارگٹ کلنگ، بھتہ خوری اور دوسرے جرائم کے مقدمے چل رہے ہیں جبکہ ایم کیو ایم کے رہنما الطاف حسین کو برطانیہ میں عمران فاروق قتل کیس اور منی لانڈرنگ کے کیسوں کا سامنا ہے، پاکستان میں الطاف حسین اوربھارتی خفیہ ایجنسی 'را' کے ساتھ تعلقات کے الزامات کی تفتیش شروع ہو گئی ہے۔ ان تمام الزامات کے بعد بھی کیا مہاجروں میں الطاف حسین کو اب بھی پہلے جیسی ہی حمایت حاصل ہے یا ان کی حمایت میں کمی ہوئی ہے، اس کے لیے زیادہ انتظار نہیں کرنا پڑئے گا۔ سات اپریل کو کراچی میں قومی اسمبلی کے حلقہ 245 اور سندھ اسمبلی کے حلقہ 115 میں انتخابات ہوں گے، عوام ایم کیو ایم کو کتنی تعداد میں ووٹ دیتے ہیں اس سے پتہ چل جائے گا کہ عوام کوایم کیو ایم پر کتنا اعتماد ہے۔ 2013ء کے انتخابات میں عوام نے ایم کیو ایم کوقومی اسمبلی کے حلقہ 245 میں ایک لاکھ 15 ہزار 810 ووٹ اور سندھ اسمبلی کے حلقہ 115 میں 55 ہزار 804 ووٹ دیے تھے۔ صرف سات اپریل تک انتظار کر لیں پھر آپ کوعوام کی طرف سے اس سوال کا جواب مل جائے گا کہ عوام میں ایم کیوایم کا مستقبل کیا ہوگا۔
کراچی میں 2013 سے جاری رینجرز آپریشن کی وجہ سے ایک بار پھر اس جماعت کے مستقبل پر سوالیہ نشان لگ گئے ہیں۔ عام انتخابات کے قریب تین سال بعد 3 مارچ کی صبح سابق میئر کراچی مصطفی کمال اور متحدہ قومی موومنٹ کی رابطہ کمیٹی کے سابق ڈپٹی کنوینر انیس قائم خانی کراچی پہنچے۔ اسی دن شام کو مصطفی کمال نے ایک پریس کا نفرس کی جس میں ان کے ہمراہ انیس قائم خانی بھی موجود تھے، مصطفی کمال نے ایم کیوایم کے قائد الطاف حسین کو ہدف تنقید بناتے ہوئے سنگین الزامات کا نشانہ بنایا، جن میں الطاف حسین کےبھارتی خفیہ ایجنسی 'را' سے تعلقات اور ‘منی لانڈرنگ’ سر فہرست ہیں۔ مصطفی کمال نے مختلف جرائم اور جرائم پیشہ لوگوں کے جرائم کا ذمہ دار بھی الطاف حسین کو قرار دیا۔ اپنی بات کو صرف دس منٹ میں ختم کرنے کا کہہ کر مصطفی کمال 3 گھنٹے میں بھی اپنی بات مکمل نہیں کرپائے اور ابھی تک جاری رکھے ہوئے ہیں۔ وہ ہر پیر اور جمعرات کو ایم کیوایم کو آفٹرشاک کے جھٹکے دے رہے ہیں، رضا ہارون کی ایم کیو ایم سے علیحدگی ان کا ایک تازہ جھٹکا ہے۔ مصطفی کمال کے علاوہ رضا ہارون نے بھی بتایا کہ الطاف حسین ہر وقت نشے کی حالت میں ہوتے ہیں اور یہ ہی وجہ ہے کہ رات کو وہ الزامات لگاتے ہیں اور صبح کو معافی مانگ لیتے ہیں۔
مصطفی کمال اس وقت آزادی سے الطاف حسین کو نشانہ بنا رہے ہیں جبکہ پاکستان میں الطاف حسین پرچند ماہ قبل لاہور ہائیکورٹ کی طرف سے یہ پابندی عائد کی گئی ہے کہ میڈیا نہ تو ان کے بیانات کو نشر کرسکتا ہے اور نہ ہی انہیں شائع کر سکتا ہے، یہاں تک کہ ان کی تصویر یا تصویری جھلکیاں بھی نشر کرنے کی اجازت نہیں ہے۔ یہ پابندی چند ماہ پہلے ان پر لاہور ہائیکورٹ نے عائد کی تھی، جس کی وجہ ان کی کچھ متنازع تقاریر ہیں، جنہیں اسٹیبلشمنٹ کے حلقوں میں پسند نہیں کیا گیا۔ اگرچہ ایم کیو ایم کے قائدالطاف حسین 24 سال قبل پاکستان چھوڑ کر برطانیہ چلے گئے تھے لیکن ایم کیو ایم کی سیاست ان ہی کی مرہون منت ہے۔ ایم کیو ایم روز اول سے الطاف حسین کا دوسرا نام اور شخصیت پرستی کے اعتبار سے یہ پاکستان کی سب سے قابل ذکر جماعت ہے۔ ایم کیو ایم کے عام کارکن الطاف حسین سے ویسی ہی عقیدت رکھتے ہیں جیسے مرید اپنے پیر سے۔ تین بڑے آپریشن بھی اسے باہر سے ختم نہیں کرسکے۔ اب موجودہ حالات میں سوال یہ ہے کہ ایم کیو ایم کے ہمدردوں میں الطاف حسین اورایم کیو ایم کا مستقبل کیا ہوگا۔ اور کیا مصطفی کمال اور ان کے ساتھ شامل ہونے والا ایم کیو ایم کا دھڑا مہاجر ووٹ بنک کو اسی طرح متحد اور یکجا رکھ سکے گا جس طرح الطاف حسین اور موجودہ ایم کیو ایم نے گزشتہ کئی برسوں سے جوڑ رکھا ہے؟
ایک اہم سوال یہ بھی ہے کہ کراچی اور دوسرے شہروں میں آباد مہاجر یا اردو بولنے والوں کو ایم کیو ایم نے گذشتہ 30 سالوں میں کیا دیا؟ جواب میں لوگ کہتے ہیں بوری بند لاشیں اور خوف۔ تو پھرسوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ سندھ کے شہری علاقوں میں موجود مہاجر بار بار ایم کیو ایم کو ہی کیوں منتخب کرتے ہیں۔ بعض 'غیر مہاجر' اس حوالے سے مختلف تعصبات کا شکار ہیں اور اپنے تجزیوں میں مہاجروں کو سمجھ بوجھ سے عاری قرار دیتے ہیں حالاں کہ یہ طبقہ پاکستان کا سب سے زیادہ باشعور طبقہ ہے لیکن بدقسمتی سے ایوب خان سے لے کر آج تک ہرحکمران ان کے حقوق پر ڈاکہ ڈالتا رہا ہے۔ ایم کیو ایم کے قیام سے قبل 1970ء کے انتخابات میں کراچی کے عوام نے کراچی سے جماعت اسلامی، جمعیت علمائے اسلام اور پاکستان پیپلز پارٹی کو نمائندگی دی۔ کراچی کے صوبائی اسمبلی کےحلقہ نمبر 6 سے جو فیڈرل بی ایریا اور نیو کراچی پر مشتمل تھا اورمکمل مہاجروں کی آبادی ہے پاکستان پیپلز پارٹی نےایک سندھی محمد علی گبول کو ٹکٹ دیا اور محمد علی گبول جماعت اسلامی کے مہاجر امیدوار کے مقابلے میں بھاری اکثریت سے کامیاب ہوئے۔ لیکن اقتدار میں آنے کے بعد پیپلز پارٹی نے کراچی کے شہریوں کو تیسرے درجے کا شہری بناکر رکھا۔ بزرگ رہنما معراج محمد خان اس کی ایک مثال ہیں۔
جماعت اسلامی اور جمعیت علمائے اسلام نے کبھی بھی کراچی کی نمائندگی کا حق ادا نہیں کیا اور آج بھی پاکستان کی کسی بھی چھوٹی بڑی سیاسی جماعت کو کراچی کے مسائل سے کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ پاکستان مسلم لیگ (ن) کی مرکزی حکومت اور پاکستان پیپلز پارٹی کی صوبائی حکومت کو کراچی کے عوام اور ان کے مسائل سے کوئی دلچسپی نہیں لیکن کراچی سے ہونے والی آمدنی پر ان کی نظر مستقل رہتی ہے۔ 2013ء کے انتخابات میں 8 لاکھ سے زیادہ ووٹ ملنے کے بعد بھی عمران خان یا ان کی پارٹی کے کسی رہنما نے کراچی میں کام کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کی جس کا نتیجہ حلقہ این اے 246 اور بلدیاتی انتخابات کے نتائج سے لگایا جاسکتا ہے۔ ایم کیو ایم بار بار کیوں جیتتی ہے؟ اس لیے کیوں کہ مہاجر طبقے کی نمائندگی کرنے کے لیے کوئی متبادل سیاسی طاقت موجود نہیں، کیونکہ کراچی اور سندھ کے مہاجروں کے پاس الطاف حسین اور ایم کیو ایم کے سواکوئی دوسرا رہنما اور جماعت موجود نہیں۔ ماضی میں کیو ایم کے رہنماوں پر مبنی ایک دھڑا ایم کیو ایم حقیقی کے نام سے سامنے لایا گیا تھا جو مقبول نہیں ہو سکا، کیا مصطفی کمال اور ان کے ہم نوا بھی ایک اور ایم کیو ایم حقیقی ثابت ہوں گے یا نہیں اس کا جواب ملنا ابھی باقی ہے۔
گذشتہ 30 سال سے یہ ہی دیکھا گیا ہے کہ ایم کیو ایم اپنے خلاف ہونے والے آپریشنوں کے دوران وقتی طور پر دفاعی انداز اختیار کرلیتی ہے لیکن جیسے ہی موقعہ ملتا ہے یہ پھر سے متحرک نظر آتی ہے۔ اس وقت ایم کیو ایم پر پارٹی کی حیثیت سے اس کے سینکڑوں کارکنوں پرٹارگٹ کلنگ، بھتہ خوری اور دوسرے جرائم کے مقدمے چل رہے ہیں جبکہ ایم کیو ایم کے رہنما الطاف حسین کو برطانیہ میں عمران فاروق قتل کیس اور منی لانڈرنگ کے کیسوں کا سامنا ہے، پاکستان میں الطاف حسین اوربھارتی خفیہ ایجنسی 'را' کے ساتھ تعلقات کے الزامات کی تفتیش شروع ہو گئی ہے۔ ان تمام الزامات کے بعد بھی کیا مہاجروں میں الطاف حسین کو اب بھی پہلے جیسی ہی حمایت حاصل ہے یا ان کی حمایت میں کمی ہوئی ہے، اس کے لیے زیادہ انتظار نہیں کرنا پڑئے گا۔ سات اپریل کو کراچی میں قومی اسمبلی کے حلقہ 245 اور سندھ اسمبلی کے حلقہ 115 میں انتخابات ہوں گے، عوام ایم کیو ایم کو کتنی تعداد میں ووٹ دیتے ہیں اس سے پتہ چل جائے گا کہ عوام کوایم کیو ایم پر کتنا اعتماد ہے۔ 2013ء کے انتخابات میں عوام نے ایم کیو ایم کوقومی اسمبلی کے حلقہ 245 میں ایک لاکھ 15 ہزار 810 ووٹ اور سندھ اسمبلی کے حلقہ 115 میں 55 ہزار 804 ووٹ دیے تھے۔ صرف سات اپریل تک انتظار کر لیں پھر آپ کوعوام کی طرف سے اس سوال کا جواب مل جائے گا کہ عوام میں ایم کیوایم کا مستقبل کیا ہوگا۔