آج سے کئی ہزار قبل جس یونانی نے جمہوریت ایجاد کی تھی، اسکے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ اس نظام کی آڑ میں مستقبل میں ایسے ایسے فنکار لیڈران کا چشمہ لگا کر پوری پوری قوموں پر مسلط ہو جائیں گے کہ انکے سامنے ہلاکو اور چنگیز جیسے جابر حکمران بھی مدر ٹریسا کا منظر پیش کریں گے
جمہوریت ایک سیاسی نظام کا نظریہ ہے جو کہ سب سے پہلے یونان میں ایجاد ہوا۔ بعد ازاں بادشاہت، آمریت، خلافت، سلطانیت جیسے سیاسی نظام دنیا میں آتے رہے اور آج بھی موجود ہیں۔ موجودہ جمہوریت میں بس ایک خامی ہے اور وہ ہے براہ راست جمہوریت کی کمی۔ چونکہ جدید کمیونیکیشن کی سہولت ہر شخص کو میسر نہیں۔ یوں تمام سیاسی فیصلے عوام کی بجائے انکے نام نہاد سیاسی نمائندے کرتے ہیں۔ اس نظام کی سب سے بڑی خامی یہ ہے کہ عوامی نمائندے مخلص ہوتے ہوئے بھی باآسانی بیرونی طاقتوں کے دباؤ میں آکر اپنی ہی رعایا کیخلاف فیصلے کر جاتے ہیں۔ جسکی تازہ مثالیں پاکستان جیسے جمہوری ملک میں نمائندہ جمہوریت کی مکمل ناکامی ہےجمہوریت میں "ایجاد" کرنے والی کوئی بات نہیں۔ جمہورت ہوتی ہے یا جبر ہوتا ہے۔ نیز جیسا جمہور ویسا راہنما برآمد ہوتا ہے۔
جمہوریت ایک سیاسی نظام کا نظریہ ہے جو کہ سب سے پہلے یونان میں ایجاد ہوا۔ بعد ازاں بادشاہت، آمریت، خلافت، سلطانیت جیسے سیاسی نظام دنیا میں آتے رہے اور آج بھی موجود ہیں۔ موجودہ جمہوریت میں بس ایک خامی ہے اور وہ ہے براہ راست جمہوریت کی کمی۔ چونکہ جدید کمیونیکیشن کی سہولت ہر شخص کو میسر نہیں۔ یوں تمام سیاسی فیصلے عوام کی بجائے انکے نام نہاد سیاسی نمائندے کرتے ہیں۔ اس نظام کی سب سے بڑی خامی یہ ہے کہ عوامی نمائندے مخلص ہوتے ہوئے بھی باآسانی بیرونی طاقتوں کے دباؤ میں آکر اپنی ہی رعایا کیخلاف فیصلے کر جاتے ہیں۔ جسکی تازہ مثالیں پاکستان جیسے جمہوری ملک میں نمائندہ جمہوریت کی مکمل ناکامی ہے
http://en.wikipedia.org/wiki/Athenian_democracy
http://en.wikipedia.org/wiki/E-democracy#Electronic_direct_democracy
نیز جہاں تک جبر کی بات ہے تو وہ تو اکثر جمہوری ملکوں میں بھی کم تعداد والے گروپس کیساتھ زیادہ تعداد والے گروپس کرتے ہیں۔ وہ اس طرح کہ زیادہ تعداد والے گروپس باآسانی اکثریت کی بنیاد پر ایسے سیاسی فیصلے کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں جو اس علاقہ کی اقلیت رعایا کیلئے ناقابل قبول یا بالجبر ہوتے ہیں۔
مثال: قادیانی، بہائی، کُردی، اوغر وغیرہ
یہ تبصرہ جہالت بلکہ حماقت کی وہ مثال ہے جو صاحب مراسلہ ہی کا خاصہ ہے۔ جمہوریت مطلب جمہور کا چناؤ۔ یہ محض ملکی سیاسی نہیں بلکہ کسی بھی نظام جو جمہور پر مبنی ہے میں وجود رکھ سکتا ہے۔ جہاں چناؤ جمہور کا نہ ہوگا وہ وہاں جمہور پر جبر کا راج ہوگا۔ کونسا راستہ فطری ہے ، اندازہ لگانا مشکل نہیں۔ بادشاہت سلطانیت وغیرہ آمریت ہی کے نام ہیں جو قدیم یونانی جمہوری نظام سے بھی قبل کچھ قبائل کی شکل کہیں نہ کہیں وجود رکھتے رہے ہیں۔ یونانی جمہوریت سے قبل کا آمرانہ نظام عروج پر دیکھنا ہو تو فراعنہ مصر اور تہذیب بابل کی تاریخ کھنگالیے۔
بقیہ مراسلے پر تبصرہ اور مزید گفتگو جاری رکھنا بیکار ہے۔ جو صاحب ناروے کے باکمال جمہوری نظام کے مشاہدے سے ککھ نہ سیکھ سکے انھیں دو چار مراسلے میں کیا پڑھانا۔
اپنی ناؤن ورب سازش کی گردان جاری رکھیے۔
ہم اس گفتگو کا براہ راست حصہ نہیں بننا چاہتے۔ بس یوں ہی کچھ نظر آ گیا تو احباب کو ایک عدد مشورہ دینے کی غرض سے ٹھہر گئے۔ عثمان بھائی سے عموماً بہت ہی سلجھی ہوئی باتیں سننے کو ملتی ہیں اس لئے ہم ان کی بہت ہی قدر کرتے ہیں۔ لیکن اس تبصرے کا پہلا جملہ غیر ضروری سا لگا۔ اگر اس کا مقصد بات میں زور پیدا کرنا اور قاری کے ذہن کو اپنی بات کے لئے تیار کرنا یا بالفاظ دیگر ہموار کرنا مقصود ہو تو بات اور ہے ورنہ اس سے ان کے موقف کی معنویت پر چنداں فرق نہیں پڑتا۔ ایسی باتیں در اصل ذاتی حملوں کی طرف لے جانے والی پہلی سیڑھی کا کام کرتی ہیں اور کسی بھی فریق کی جانب سے عدم تحمل کی صورت میں خطرناک صورت اختیار کر لیتی ہیں۔ امید ہے کہ احباب اختلافات کو بھی مکمل شائستگی اور باہمی احترام کے ساتھ برتنے کی کوشش کریں گے۔
اس پر خاموش رہنا ہی بہتر ہے،قرآن پاک کی موجودگی میں لہک لہک کر گانے گانا اور قرآن مجید کو اس طرح لہرانا کہاں تک درست ہے اس کا فیصلہ کراچی کی باشعور عوام کے ردعمل سے ہو گا۔
شہری حکومت جس طرح ہتھیائی گئی اور صوبائی و قومی اسمبلی کی سیٹیں جس طرح چھینی جاتی ہیں شمالی کراچی والوں سے بہتر کون جانتا ہے ؟ مصطفٰی کمال والا کام تو نعمت اللہ بھی کر رہے تھے بلکہ زیادہ بہتر طریقے سے اور تہذیب سے کر رہے تھے۔ اس کی مثال کچھ یوں ہے کہ بابا جی پر نہ تو ہسٹیریا کے دورے پڑتے ہیں اور نہ انھوں نے کراچی کے خصوصی علاقوں کو اپنی صلاحیتوں سے نکھارا بلکہ موصوف نے کراچی میں ترقیاتی کاموں کا آغاز سب سے زیادہ بدحال علاقوں میں شروع کیا ۔ خیر ہم تیسری دنیا کے لوگ بے جا سڑکوں اور پلوں کے جالوں اور اس کے نتیجے میں معیشت کی بدحالی کے جالوں سے واقف نہیں اسی لئے سڑکوں اور پلوں کو "This is beautiful Pakistan" "This is Karachi, the largest city of Pakistan" جیسے موضوعات کے ساتھ ان کی تصاویر کو ای میلز میں گھماتے رہتے ہیں۔
یہ تو ایم کیو ایم کا وطیرہ رہا ہے کہ مخالف جتنا بھی اچھا کام کر لے،تسلیم نہیں کرنا،پہلے بھی کہیں پڑھا تھا کہ نعمت اللہ کے نام کی تختیاں چن چن کر اتاری گئیں اور ان کے کیے گئے کام کو اپنے نام سے منسب کرنے کے لیے مصطفیٰ کمال کے نام کی تخیتیاں لگائی گئیں،کراچی کے عوام کا مینڈیٹ آزادانہ انتخاب سے پتا چلے گا،بقول اے این پی ٹھپہ مافیا اتنا ٹھپہ لگاتی ہے کہ بعض علاقوں میں ووٹ لسٹ میں موجود ووٹرز سے بھی زیادہ پڑ جاتے ہیں۔
منافقت کی بھی خوب رہی،دو مہینے پہلے زرداری کو گالیاں دی جا رہی تھی اور آج اس کے حق میں ریلی کی بات کی جا رہی ہے،مجھے بارہ مئی یاد آ گئی جب صدر مشرف اسلام آباد ایم کیو ایم کی کھلی دہشت گردی کو عوامی طاقت کہہ رہے تھے،فرق اتنا ہوا کہ اس وقت یہ عوامی طاقت پی پی پی کے خلاف تھی،آج الطاف حسین مشرف کو بزدل کہہ رہے ہیں اور زرداری کے حق میں ریلی نکال رہے ہیں،کل نواز شریف یا کوئی اور صدر ہو گا تو اسی زردای کو برا کہہ کر اس کے حق میں ریلیاں کی جائیں گی۔شہید بھٹو گروپ اور شیرپاؤ گروہ کے بعد اب پی پی پی (الطاف گروپ)۔ ہاہاہاہاہا
امین بھائی آپ کی باتیں بالکل صحیح ہیں، لیکن ایم کیو ایم نے اپنا امیج خود خراب کیا ہے۔ الطاف حسین کی تقریریں جس میں وہ بوریوں کا سائز پوچھ رہا ہے اور پنجاب کو للکار رہا ہے تو یہ امیج کبھی بھی اچھا نہیں ہو سکتا۔