سویدا
محفلین
سنہ دو ہزار تین میں پاکستان اور برطانیہ کی عدلیہ کے مابین ’باہمی تعاون‘ نامی ایک ایسا معاہدہ طے پایا تھا جس کے تحت بچوں کے اغوا کے معاملے کا حل نکالنے کی کوشش کی گئی تھی۔ اس معاہدے کی ضرورت اس لیے محسوس ہوئی تھی کہ کچھ پاکستانی نژاد برطانوی شہری اپنی دوہری شہریت کا فائدہ اٹھاتے عدالتوں کےدائرہ کار سے بچنے کے لیے دوسرے ملک کا رخ کرتے تھے۔
پاکستان کی سپریم کورٹ نے پاکستانی نژاد برطانوی شہری الطاف حسین کو ہتک عزت کے قانون کے تحت عدالت میں پیش ہونے کا حکم دیا ہے۔
الطاف حسین کو ہتک عزت کا شو کاز نوٹس اس لیے جاری کیا گیا کہ انہوں نے برطانوی سرزمین سے پاکستان کی عدلیہ کے بارے میں کچھ ایسے کلمات ادا کیے جسے پاکستان میں سنا اور پڑھا گیا اور عدالت عظمیٰ نے اسے بادی النظر میں قابل اعتراض سمجھتے ہوئے الطاف حسین کو حکم دیا ہے کہ وہ اصالتاً عدالت کےسامنے پیش ہو کر بتائیں کہ ان کے خلاف ہتک عزت کی کارروائی کیوں نہ کی جائے۔
الطاف حسین کی جماعت ایم کیو ایم نے فیصلہ کیا ہے کہ الطاف حسین عدالت کے سامنے اصالتاً پیش نہیں ہوں گے۔
ایسی صورتحال میں کیا دونوں ممالک کی عدلیہ کے درمیان طے پانے والے معاہدہ الطاف حسین کے معاملے میں بھی استعمال ہو سکتا ہے یا نہیں۔
برطانیہ میں پاکستانی نژاد سینئر وکیل کیو سی صبغت اللہ قادری کا کہنا ہے کہ 2003 میں برطانیہ اور پاکستان کی عدلیہ کے مابین ہونے والا معاہدہ کسی ایسے مقدمے میں کام نہیں آ سکتا جس کا تعلق ازدواجی معاملات سے نہ ہو۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان میں کسی برطانوی شہری پر جرم ثابت ہونے کی صورت میں برطانوی عدالتیں منسٹر آف جسٹس کو کہہ سکتی ہیں کہ وہ برطانوی شخص کو کی دوسری ملک کی عدالت کی تضحیک اور توہین کرنے سے باز رکھے۔
سینئر وکیل صبغت اللہ نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ اظہار رائے کی آزادی کی ایک حد ہے اور جب معاملہ توہین عدالت کا ہو تو ایسی صورت میں برطانوی حکومت اپنے ایسے شہری جس کی پیدائش برطانیہ میں نہ ہوئی ہو، اس کی شہریت کو ختم کر سکتی ہے۔
صبغت اللہ قادری کا کہنا ہے کہ پاکستان اور برطانیہ کے مابین ملزموں کی حوالگی کا معاہدہ نہیں ہے لیکن برطانوی حکومت اپنے کسی ایسے شہری کو حکم دے سکتی ہے کہ وہ عدالت میں پیش ہو کر اپنی اوپر لگے توہینِ عدالت کے الزامات کا سامنا کرے۔
صبغت اللہ قادری کےمطابق اگر عدالت میں پیش نہ ہونے کی بنا پاکستانی عدالت برطانوی شہری کو مجرم قرار دے دیتی ہے تو ایسی صورت میں برطانیہ کسی بھی ’رجسرڈ شہری‘ کی شہریت کو ختم کر سکتی ہے جس نے برطانوی سرزمین سے کسی دوسرے جمہوری ملک کی عدلیہ کو تضیحک کا نشانہ بنایا ہو۔
ان کےخیال میں اگر پاکستان عدالت الطاف حسین کو مجرم قرار دے دیتی ہے تو ایسی صورت میں کوئی بھی شخص برطانوی وزیر داخلہ کو درخواست دے سکتا ہے کہ اس شخص کی وجہ برطانیہ کے مفادات کو نقصان پہنچ رہا ہے لہٰذا اس کی شہریت کو ختم کیا جائے۔
انہوں نے کہا کہ اگر وزیر داخلہ اس سلسلے میں مناسب جواب نہیں دیتے تو عدالت سے الطاف حسین کی شہریت کو ختم کرانے کی درخواست کی جا سکتی ہے۔
صبغت اللہ قادری کے بقول برطانیہ میں عدلیہ کی توہین ایک انتہائی گھناؤنا جرم تصور کیا جاتا ہے۔ انہوں نے کہا برطانیہ میں توہین عدالت قتل جتنا سنگین معاملہ ہے اور برطانوی عدالتیں اس کو انتہائی سنجیدہ لیتی ہیں۔
ایک اور پاکستانی نژاد برطانوی وکیل ڈاکٹر طاہر واسطی کا کہنا ہے کہ الطاف حسین جو پاکستان کے بھی شہری ہیں اور ہر معاملے میں پاکستان کی معاونت کرتے ہیں، انہیں پاکستان کی سب سے اعلیٰ عدالت کی بھی معاونت کرنی چاہیے۔
انہوں نے کہا کہ الطاف حسین جن کی جماعت پاکستان کی بہتری کے لیے وہاں سیاست کرتی ہے، انھیں پاکستان کی عدالتوں کے سامنے پیش ہونے سے کترانا نہیں چاہیے۔
انہوں نے کہا کسی بھی ایسے برطانوی شہری پر جو برطانوی سرزمین پر پیدا نہ ہوا ہو، اس کی شہریت اچھے رویے اور قانون پر عمل کرنے سے مشروط ہوتی ہے۔ ڈاکٹر واسطی نے کہا کہ برطانیہ میں روزانہ ایسے رجسٹرڈ شہریوں کی شہریت ختم ہو جاتی ہے جو کسی مجرمانہ سرگرمی میں ملوث پائے جائیں۔ انہوں نے کہا کہ برطانوی عدالتیں توہین عدالت کے مجرموں سے نرمی برتنے کی قائل نہیں ہیں اور وہ سخت کارروائی کرتی ہیں۔
بشکریہ
http://www.bbc.co.uk/urdu/pakistan/2012/12/121221_altaf_citizenship_contempt_rh.shtml
پاکستان کی سپریم کورٹ نے پاکستانی نژاد برطانوی شہری الطاف حسین کو ہتک عزت کے قانون کے تحت عدالت میں پیش ہونے کا حکم دیا ہے۔
الطاف حسین کو ہتک عزت کا شو کاز نوٹس اس لیے جاری کیا گیا کہ انہوں نے برطانوی سرزمین سے پاکستان کی عدلیہ کے بارے میں کچھ ایسے کلمات ادا کیے جسے پاکستان میں سنا اور پڑھا گیا اور عدالت عظمیٰ نے اسے بادی النظر میں قابل اعتراض سمجھتے ہوئے الطاف حسین کو حکم دیا ہے کہ وہ اصالتاً عدالت کےسامنے پیش ہو کر بتائیں کہ ان کے خلاف ہتک عزت کی کارروائی کیوں نہ کی جائے۔
الطاف حسین کی جماعت ایم کیو ایم نے فیصلہ کیا ہے کہ الطاف حسین عدالت کے سامنے اصالتاً پیش نہیں ہوں گے۔
ایسی صورتحال میں کیا دونوں ممالک کی عدلیہ کے درمیان طے پانے والے معاہدہ الطاف حسین کے معاملے میں بھی استعمال ہو سکتا ہے یا نہیں۔
برطانیہ میں پاکستانی نژاد سینئر وکیل کیو سی صبغت اللہ قادری کا کہنا ہے کہ 2003 میں برطانیہ اور پاکستان کی عدلیہ کے مابین ہونے والا معاہدہ کسی ایسے مقدمے میں کام نہیں آ سکتا جس کا تعلق ازدواجی معاملات سے نہ ہو۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان میں کسی برطانوی شہری پر جرم ثابت ہونے کی صورت میں برطانوی عدالتیں منسٹر آف جسٹس کو کہہ سکتی ہیں کہ وہ برطانوی شخص کو کی دوسری ملک کی عدالت کی تضحیک اور توہین کرنے سے باز رکھے۔
سینئر وکیل صبغت اللہ نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ اظہار رائے کی آزادی کی ایک حد ہے اور جب معاملہ توہین عدالت کا ہو تو ایسی صورت میں برطانوی حکومت اپنے ایسے شہری جس کی پیدائش برطانیہ میں نہ ہوئی ہو، اس کی شہریت کو ختم کر سکتی ہے۔
صبغت اللہ قادری کا کہنا ہے کہ پاکستان اور برطانیہ کے مابین ملزموں کی حوالگی کا معاہدہ نہیں ہے لیکن برطانوی حکومت اپنے کسی ایسے شہری کو حکم دے سکتی ہے کہ وہ عدالت میں پیش ہو کر اپنی اوپر لگے توہینِ عدالت کے الزامات کا سامنا کرے۔
صبغت اللہ قادری کےمطابق اگر عدالت میں پیش نہ ہونے کی بنا پاکستانی عدالت برطانوی شہری کو مجرم قرار دے دیتی ہے تو ایسی صورت میں برطانیہ کسی بھی ’رجسرڈ شہری‘ کی شہریت کو ختم کر سکتی ہے جس نے برطانوی سرزمین سے کسی دوسرے جمہوری ملک کی عدلیہ کو تضیحک کا نشانہ بنایا ہو۔
ان کےخیال میں اگر پاکستان عدالت الطاف حسین کو مجرم قرار دے دیتی ہے تو ایسی صورت میں کوئی بھی شخص برطانوی وزیر داخلہ کو درخواست دے سکتا ہے کہ اس شخص کی وجہ برطانیہ کے مفادات کو نقصان پہنچ رہا ہے لہٰذا اس کی شہریت کو ختم کیا جائے۔
انہوں نے کہا کہ اگر وزیر داخلہ اس سلسلے میں مناسب جواب نہیں دیتے تو عدالت سے الطاف حسین کی شہریت کو ختم کرانے کی درخواست کی جا سکتی ہے۔
صبغت اللہ قادری کے بقول برطانیہ میں عدلیہ کی توہین ایک انتہائی گھناؤنا جرم تصور کیا جاتا ہے۔ انہوں نے کہا برطانیہ میں توہین عدالت قتل جتنا سنگین معاملہ ہے اور برطانوی عدالتیں اس کو انتہائی سنجیدہ لیتی ہیں۔
ایک اور پاکستانی نژاد برطانوی وکیل ڈاکٹر طاہر واسطی کا کہنا ہے کہ الطاف حسین جو پاکستان کے بھی شہری ہیں اور ہر معاملے میں پاکستان کی معاونت کرتے ہیں، انہیں پاکستان کی سب سے اعلیٰ عدالت کی بھی معاونت کرنی چاہیے۔
انہوں نے کہا کہ الطاف حسین جن کی جماعت پاکستان کی بہتری کے لیے وہاں سیاست کرتی ہے، انھیں پاکستان کی عدالتوں کے سامنے پیش ہونے سے کترانا نہیں چاہیے۔
انہوں نے کہا کسی بھی ایسے برطانوی شہری پر جو برطانوی سرزمین پر پیدا نہ ہوا ہو، اس کی شہریت اچھے رویے اور قانون پر عمل کرنے سے مشروط ہوتی ہے۔ ڈاکٹر واسطی نے کہا کہ برطانیہ میں روزانہ ایسے رجسٹرڈ شہریوں کی شہریت ختم ہو جاتی ہے جو کسی مجرمانہ سرگرمی میں ملوث پائے جائیں۔ انہوں نے کہا کہ برطانوی عدالتیں توہین عدالت کے مجرموں سے نرمی برتنے کی قائل نہیں ہیں اور وہ سخت کارروائی کرتی ہیں۔
بشکریہ
http://www.bbc.co.uk/urdu/pakistan/2012/12/121221_altaf_citizenship_contempt_rh.shtml