ڈاکٹر مشاہد رضوی
لائبریرین
فتاویٰ رضویہ جلد 21
السلام علیکم و رحمۃ اللہ وبرکاتہ !آمین بجاہ النبی الکریم صلی اللہ علیہ وسلم
محترم محب اردو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کی جاہ کو وسیلہ بنانا شریعت نے کہاں ناروا قراردیا ہے۔
خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جنگوں میں فقرا و مہاجرین کے وسیلے سے فتح و نصرت کی دعائیں مانگی ہیں۔ مشکوٰۃ ص447 کی حدیث : حضرت امیہ بن خالد رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فقرا مہاجرین کے وسیلے سے فتح و نصرت کی دعا مانگا کرتے تھے۔حضرت ملاعلی قاری نے اس کی شرح میں یوں لکھاہے کہ: ابن الملک فرماتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم اس طرح دعا مانگتے تھے: اے اللہ اپنے فقیر اور مہاجر بندوں کے طفیل ہمیں دشمنوں کے خلاف مدد عطا فرما۔" مرقاۃ المفاتیح ، مکتبہ امدادیہ ، ملتان ج 10 صفحہ 13
عرض ہے کہ توسل مشروع کی تین صورتیں ہیں اگر کوئی شخص اپنے اعمال پر مطمئن نہیں ہے اللہ کے اسماء وصفات یا کسی نیک بزرگ سے دعا کروا سکتا ہے ۔یہاں یہ کہا جاسکتا ہے کہ اعمال صالحہ سے وسیلہ لیاجائے، تو عرض ہے کہ ہمارے اعمال مقبول ہیں یا مردود اس کی ہمیں کیا خبر ۔۔ ہاں !! نبی کونین صلی اللہ علیہ وسلم تو یقینا مقبول ہیں جن کی ذات کاوسیلہ لیا جاتا رہاہے ۔
نظامی صاحب شکریہ کہ آپ نے ایک دینی مسئلہ کے افہام و تفہیم کی غرض سے وقت نکالا ورنہ آج کل کون اتنا وقت پاتا ہے ایسے مسائل کے لیے ۔جامع ترمذی میں ہے کہ ایک نابینا صحابی نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے بینائی کے حصول کے لئے عرض کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسے یہ دعا سکھلائی کہ یوں کہہ : اے اللہ میں تیری بارگاہ میں نبی رحمت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وسیلہ سے متوجہ ہوتا ہوں اور پھر یہ الفاظ سکھائے کہ :
يا محمد انی قد توجهت بک الی ربی فی حاجة هذه فتقضی لی اللهم فشفعه فی
’’اے محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں اپنی اس حاجت میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے واسطے سے اپنے رب کی طرف متوجہ ہوتا ہوں تاکہ یہ حاجت بر آئے۔ اے اللہ اس معاملے میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شفاعت قبول فرما۔‘‘
گویا رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے استعانت طلب کرنے کے ساتھ یا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ندا کرنے کی بھی ہدایت دی گئی۔ امام ترمذی کے علاوہ ابن ماجہ اور دیگر حدیث کی کتب میں اس کا ذکر موجود ہے۔ یہ حدیث خبر واحد نہیں ہے کہ جس پر اعتراض کیا جا سکے۔ اصحاب سنن، صحاح ستہ کے ہر ایک امام حدیث نے اس کو صحیح کہا ہے۔
غیر درست ہے کیونکہ یہ حدیث خبر واحد ہی ہے جیساکہ خود امام ترمذی رحمہ اللہ نے اس کی صراحت کی ہے ۔ لہذا آپ کے اصول کے مطابق اس پر اعتراض وارد ہوتا ہے ۔یہ حدیث خبر واحد نہیں ہے کہ جس پر اعتراض کیا جا سکے۔ اصحاب سنن، صحاح ستہ کے ہر ایک امام حدیث نے اس کو صحیح کہا ہے۔
میرے خیال سے ہم ایک اہم مسئلہ پر گفتگو کررہے ہیں جو چیزیں دلیل بن سکتی ہیں ان کوباحوالہ پیش کرنا چاہیے ۔ مختلف فیہ مسائل میں ہر ایک طرف کئی اقوال نقل کیے جاسکتے ہیں لیکن یہ کوئی مسئلے کا حل نہیں ہے ۔امام نووی کتاب الاذکار میں حدیث الاستغاثہ بیان کرتے ہیں۔ امام بخاری اور دیگر ائمہ حدیث اسے بیان کرتے ہیں کہ جب بھی کوئی حاجت در پیش ہو تو دو رکعت نماز نفل پڑھی جائے اور آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں استغاثہ پیش کیا جائے۔ احادیث کتب میں اس بات کا تذکرہ موجود ہے کہ حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے دور میں اس ارشاد پاک کے پیش نظر ایک نابینا اعرابی نے مذکورہ طریقہ کار کے تحت دعا کی تو اسے فوری بینائی مل گئی۔ علامہ ابن تیمیہ نے بھی اس حدیث کی تائید کی ہے۔ علامہ ابن تیمیہ کے نظریہ کے حامل علامہ شوکانی رحمۃ اللہ علیہ نے تحفۃ الذاکرین میں اس حدیث کا ذکر کیا ہے۔ یہاں تک کہ ہندوستان میں اہل حدیث کے عالم عبدالرحمن مبارک پوری نے اپنی کتاب میں تقریباً ڈیڑھ صفحہ پر مشتمل اس حدیث سے متعلق تفصیل تحریر کی ہے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے حاجت طلب کرنا اور مدد مانگنے کے معاملہ میں ابتدائی دور اسلام یعنی متقدمین سے متاخرین تک کسی میں اختلاف نہیں ہے۔
اس میں کسی بھی مسلمان کی دو رائے نہیں ہیں کہ کسی بھی عمل کے قابل قبول ہونے کے لیے اتباع سنت یعنی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مہر ہونا بنیادی شروط میں سے ہے۔آج بعض لوگ یہ نظریہ پیش کرتے ہیں کہ اعمال صالحہ سے توسل جائز ہے اور ذات نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یا اولیاء وصالحین سے جائز نہیں۔ اس طرح کا نظریہ پیش کر کے وسیلہ کا انکار کرنے والے درحقیقت 1300 برس کے اجماع امت کو رد کر رہے ہیں۔ عمل صالح خود کیا ہیں؟ کوئی بھی عمل حکم مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے عمل صالح بنتا ہے، اگر امر رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نہ ہو تو عمل خود بخود رد ہو جاتا ہے۔ پس عمل بھی حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وسیلہ سے عمل صالح بن رہا ہے۔ اس سے یہ ثابت ہوا کہ عمل حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ارشادات سے ہٹ کر ہو تو وہ خود بدعت ہے۔
اس آیت میں کیا ہے ظلم کرنے والے خود بھی اور اللہ کے نبی کریم صلی اللہ بھی ان کے لیے استغفار کردیتے تو اللہ ان کی توبہ قبول کرلیتا ۔إِذ ظَّلَمُواْ أَنفُسَهُمْ جَآؤُوكَ فَاسْتَغْفَرُواْ اللّهَ وَاسْتَغْفَرَ لَهُمُ الرَّسُولُ لَوَجَدُواْ اللّهَ تَوَّابًا رَّحِيمًا.
(النِّسَآء ، 4 : 64)
’’اگر وہ لوگ جب اپنی جانوں پر ظلم کر بیٹھے تھے آپ کی خدمت میں حاضر ہو جاتے اوراللہ سے معافی مانگتے اور رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) بھی ان کے لیے مغفرت طلب کرتے تو وہ (اس وسیلہ اور شفاعت کی بنا پر) ضرور اللہ کو توبہ قبول فرمانے والا نہایت مہربان پاتے‘‘۔
یہ عمل حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حیات طیبہ میں جاری تھا اور قیامت تک اس آیت کا حکم جاری رہے گا۔
حوالہ ؟ایک مرتبہ اہل مدینہ شدید قحط میں مبتلا ہوئے اور ام المومنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے عرض کیا تو انہوں نے کہا کہ جاؤ اور اس طرح دعا کرو کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی قبر انور اور آسمان کے درمیان میں کوئی پردہ نہ ہو۔ صحابہ رضی اللہ عنہم نے روضہ انور کی چھت میں سوراخ کیا تو ایسی بارش ہوئی کہ مدینہ منورہ سرسبز و شاداب ہو گیا۔ جانور فربہ ہوگئے، یہاں تک کہ ان کے پیٹ پھٹنے لگے۔ مدینہ منورہ کی تاریخ میں اسے پیٹ پھٹنے کا سال قرار دیا گیا۔ اس واقعہ سے ثابت ہوا کہ قبر مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے توسل کرنا ام المومنین کا حکم ہے اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا اس پر اجماع ہے۔