عبد الرحمٰن
محفلین
بادشاہ نے اپنی سلطنت میں ہرسُو ہرکارے بھیج کر فرمان جاری کرا دیا کہ کل سے اس کی رعایا میں موجود کوئی بھی عورت نا تو کسی قسم کا زیور پہنے گی اور نا ہی کسی قسم کا بناؤ سنگھار کرے گی۔اس فرمان پر عمل کیا ہونا تھا جس نے بھی سنا ہنس دیا کہ لگتا ہے بادشاہ کا دماغ چل گیا ہے۔ عورت ہو اور زیور نا پہنے یا بناؤ سنگھار نا کرے، یہ کیسے ہو سکتا ہے۔خود عورتوں کی طرف سے شدید رد عمل آیا،
جو عورتیں پہلے زیورات اور بناؤ سنگھار کیا کرتی تھیں انہوں نے پہلے سے زیادہ اور جو عورتیں پہلے نا بناؤ سنگھار کیا کرتی تھی اور نا ہی زیورات پہنتی تھیں انہوں نے یہ سب کچھ اب سے کرنا شروع کر دیا۔ بات جو شاہی فرمان سے شروع ہوئی تھی اب جگ ہنسائی تک جا پہنچی تھی۔بادشاہ نے اپنے دربار میں سب وزیروں مشیروں سے مشورہ چاہا۔ کوئی کہتا فرمان واپس لے لو تو کوئی کہتا جو عمل نا کرے اس عورت کے خلاف تادیبی کاروائی کرو۔ بات اب بادشاہ کے وقار، اسکی فرمان برداری یا حکم عدولی سے جا رکی تھی۔باہر کی دنیا کو غلط پیغام جا رہا تھا کہ بادشاہ کا اپنی رعایا پر کوئی رعب و دبدبہ نہیں، رعایا اس کا کہنا نہیں مانتی اور بادشاہ ایک کمزور اور بے اثر حکمران ہے۔وزیروں سے مشورے پر بادشاہ کا دل راضی نا ہوا تو اس نے اپنی مملکت میں موجود ایک دانا آدمی کو بلا بھیجا۔ اس دانا حکیم کے آتے ہی بادشاہ نے اسے روہانسا ہو کر بتایا کہ میرا حکم میرے گلے پڑ گیا ہے، واپس لیتا ہوں تو وقار جاتا ہے، طاقت سے نافذ کراتا ہوں تو عوام باغی ہوتی ہے، کیا کروں؟دانا نے کچھ غور و خوض کے بعد بادشاہ سے کہا: بادشاہ سلامت، لوگ تیری ویسے اطاعت نہیں کرنا چاہتے جیسے تو چاہتا ہے، بلکہ وہ تیری اطاعت بھی ویسے ہی کرنا چاہتے ہیں جیسے وہ سوچتے ہیں۔ بادشاہ نے کچھ نا سمجھتے ہوئے پوچھا: تو پھر میں اب کیا کروں، اپنا حکم واپس لے لوں؟دانا نے کہا نہیں، اس کی ضرورت نہیں۔
آپ ایک اور حکم صادر کیجیئے کہ آج سے میری رعایا میں موجود کوئی خوبصورت عورت یا لڑکی نا تو بناؤ سنگھار کرے گی اور نا ہی زیورات پہنا کرے گی۔ کیونکہ خوبصورتی زیورات اور بناؤ سنگھار کی محتاج نہیں ہوتی۔ تاہم وہ ساری لڑکیاں یا عورتیں جو ذرا زیادہ عمر کی ہیں، یا خوبصورت نہیں یا ان کی شکل بری ہے انہیں اس حکم سے استثناء حاصل ہے۔ وہ پورے بناؤ سنگھار اور زیورات پہن کر رہا کریں تاکہ دوسرے لوگوں پر ان کی بری شکل، بڑی اور ڈھلتی عمر کا برا اثر نا پڑے۔ اور ان کی بد صورتی بھی چھپی رہا کرے۔اس بار اس حکم کا خوب اثر ہوا اور چند ہی دنوں میں سب عورتوں نے اپنے زیورات اور بناؤ سنگھار اُتار پھینکے کیونکہ ہر عورت اپنے آپ کو حسین و جمیل اور مناسب عمر کی جانتی تھی اور ہر ایک کی یہی سوچ تھی کہ اس کا حسن و جمال کسی زیور اور بناؤ سنگھار کا محتاج نہیں۔دانا کا بادشاہ سے کہنا تھا کہ اب آپ کی رعایا آپ کی اطاعت کرے گی کیونکہ اب آپ نے اُن کی عقل سے سوچا ہےاور انہیں کے شعور کے مطابق فیصلہ لیا ہے۔مناسب لفظوں کا چناؤ اور ایک درست فقرے کی صحیح ترتیب ہی دلوں کو جیتنے کا فن ہوا کرتا ہے۔
جو عورتیں پہلے زیورات اور بناؤ سنگھار کیا کرتی تھیں انہوں نے پہلے سے زیادہ اور جو عورتیں پہلے نا بناؤ سنگھار کیا کرتی تھی اور نا ہی زیورات پہنتی تھیں انہوں نے یہ سب کچھ اب سے کرنا شروع کر دیا۔ بات جو شاہی فرمان سے شروع ہوئی تھی اب جگ ہنسائی تک جا پہنچی تھی۔بادشاہ نے اپنے دربار میں سب وزیروں مشیروں سے مشورہ چاہا۔ کوئی کہتا فرمان واپس لے لو تو کوئی کہتا جو عمل نا کرے اس عورت کے خلاف تادیبی کاروائی کرو۔ بات اب بادشاہ کے وقار، اسکی فرمان برداری یا حکم عدولی سے جا رکی تھی۔باہر کی دنیا کو غلط پیغام جا رہا تھا کہ بادشاہ کا اپنی رعایا پر کوئی رعب و دبدبہ نہیں، رعایا اس کا کہنا نہیں مانتی اور بادشاہ ایک کمزور اور بے اثر حکمران ہے۔وزیروں سے مشورے پر بادشاہ کا دل راضی نا ہوا تو اس نے اپنی مملکت میں موجود ایک دانا آدمی کو بلا بھیجا۔ اس دانا حکیم کے آتے ہی بادشاہ نے اسے روہانسا ہو کر بتایا کہ میرا حکم میرے گلے پڑ گیا ہے، واپس لیتا ہوں تو وقار جاتا ہے، طاقت سے نافذ کراتا ہوں تو عوام باغی ہوتی ہے، کیا کروں؟دانا نے کچھ غور و خوض کے بعد بادشاہ سے کہا: بادشاہ سلامت، لوگ تیری ویسے اطاعت نہیں کرنا چاہتے جیسے تو چاہتا ہے، بلکہ وہ تیری اطاعت بھی ویسے ہی کرنا چاہتے ہیں جیسے وہ سوچتے ہیں۔ بادشاہ نے کچھ نا سمجھتے ہوئے پوچھا: تو پھر میں اب کیا کروں، اپنا حکم واپس لے لوں؟دانا نے کہا نہیں، اس کی ضرورت نہیں۔
آپ ایک اور حکم صادر کیجیئے کہ آج سے میری رعایا میں موجود کوئی خوبصورت عورت یا لڑکی نا تو بناؤ سنگھار کرے گی اور نا ہی زیورات پہنا کرے گی۔ کیونکہ خوبصورتی زیورات اور بناؤ سنگھار کی محتاج نہیں ہوتی۔ تاہم وہ ساری لڑکیاں یا عورتیں جو ذرا زیادہ عمر کی ہیں، یا خوبصورت نہیں یا ان کی شکل بری ہے انہیں اس حکم سے استثناء حاصل ہے۔ وہ پورے بناؤ سنگھار اور زیورات پہن کر رہا کریں تاکہ دوسرے لوگوں پر ان کی بری شکل، بڑی اور ڈھلتی عمر کا برا اثر نا پڑے۔ اور ان کی بد صورتی بھی چھپی رہا کرے۔اس بار اس حکم کا خوب اثر ہوا اور چند ہی دنوں میں سب عورتوں نے اپنے زیورات اور بناؤ سنگھار اُتار پھینکے کیونکہ ہر عورت اپنے آپ کو حسین و جمیل اور مناسب عمر کی جانتی تھی اور ہر ایک کی یہی سوچ تھی کہ اس کا حسن و جمال کسی زیور اور بناؤ سنگھار کا محتاج نہیں۔دانا کا بادشاہ سے کہنا تھا کہ اب آپ کی رعایا آپ کی اطاعت کرے گی کیونکہ اب آپ نے اُن کی عقل سے سوچا ہےاور انہیں کے شعور کے مطابق فیصلہ لیا ہے۔مناسب لفظوں کا چناؤ اور ایک درست فقرے کی صحیح ترتیب ہی دلوں کو جیتنے کا فن ہوا کرتا ہے۔